وجود

... loading ...

وجود

قائد اعظم کی خوش لباسی و نفاست

جمعرات 19 ستمبر 2024 قائد اعظم کی خوش لباسی و نفاست

ریاض احمدچودھری

قا ئد اعظم محمد علی جناح دنیا کے سب سے زیادہ خوش لباس رہنما تھے۔لارڈ ویول (1943-1947)نے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ جناح کی خوش لباسی اور نفاست کی وجہ سے ہر جگہ ، ہر شخص ان کی عزت کرتا ہے۔ گویامحمد علی جناح بر صغیر پاک و ہند کی تاریخ کے نہایت خوش لباس اور نفیس انسان تھے۔لباس کے حوالے سے ان کی نفاست پسندی اور خوش پوشاکی ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ایک اور وائسرائے ہند لارڈ ریڈنگ کی اہلیہ نے ایک خط میں جناح کے بارے میں اپنی والدہ کو لکھا:”بمبئی کے جواں سال وکیل جناح کو عموماً خوش لباسی اور جامہ زیبی میں لائیڈ جارج تصور کیا جاتا ہے”۔لباس کے بارے میں تو بڑے بڑے خوش لباسوں نے یہ کہا کہ جس سلیقے سے لباس زیب تن کرتے تھے کسی اور کو نہیں دیکھا۔ نہایت صاف شفاف اور بے شکن لباس پہنتے۔ اگر کبھی سوٹ کے بجائے Combination پہنتے تو اس کا بھی انتخاب نہایت احتیاط اور سلیقے سے کرتے تھے۔ غرض، ہر اعتبار و معیار سے قائداعظم انتہائی خوش لباس آدمی تھے۔
لباس کے حوالے سے قائد اعظم کی نفاست پسندی اور خوش پوشاکی ضرب المثل کی حیثیت رکھتی ہے۔ قائداعظم کے والد جناح پونجا چوںکہ تجارت پیشہ تھے اور انگریزوں سے قریبی رابطے میں رہتے تھے، اس لیے وہ نہ صرف انگریزی زبان سے آشنا تھے بلکہ ان کا لباس بھی کوٹ، پتلون اور ٹائی پر مشتمل تھا۔ کراچی کے اس ماحول میں بھی نہ صرف بچپن ہی سے اس لباس سے آشنا تھے، بلکہ اپنے زمانہ طالب علمی میں یہی لباس زیب تن کیا کرتے تھے۔
1892 میں محمد علی جناح انگلستان چلے گئے، جہاں انہیں بزنس ایڈمنسٹریشن کی تربیت حاصل کرنا تھی، لیکن انہوں نے لنکزاِن میں داخلہ لے لیا اور بیرسٹری کی تعلیم حاصل کی۔ لندن میں قیام کے دوران انہیں کوٹ، پتلون اور ٹائی کا مستقل استعمال کرنا پڑا، جس کی بنا پر اس لباس کی تہذیبی اور ثقافتی روایت سے بھی وہ آشنا ہوگئے۔ 1896 میں لندن سے واپس آکر محمد علی جناح نے بمبئی میں سکونت اختیار کی اوربہ طور پیشہ، وکالت کا آغاز کیا۔ بہ حیثیت وکیل محمد علی جناح کا واسطہ بمبئی کی آبادی کے اسی طبقے سے تھا، اس لیے انہیں لندن سے ہندوستان واپس آکر لباس کے انتخاب کے سلسلے میں کسی تردد کا سامنا نہیں کرنا پڑا اور وہ اپنی عدالتی و سماجی ضرورتوں کے پیش نظر کوٹ، پتلون، ٹائی اور فلیٹ ہیٹ ہی استعمال کرتے رہے۔ نتیجتاً 1906میں وہ سیاسی زندگی میں داخل ہوئے تو یہ لباس آہستہ آہستہ ان کی شخصیت سے بڑی حد تک مشروط ہوگیا۔
1934 میں مسلم لیگ کی از سر نو صدارت قبول کرنے کے بعد ایک عرصے تک قائداعظم عموماً اچکن کے ساتھ چوڑی دار پاجامہ ہی استعمال کرتے تھے۔ شاید اس کا ایک سبب یہ بھی ہو کہ کاٹھیاواڑ، خصوصاً جونا گڑھ، میں اس طرز کے پاجامے، اچکن کے ساتھ پہنے جاتے تھے اور یہ لباس ایک اعتبار سے ان کا آبائی لباس تھا۔ اکتوبر1937میں آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس، منعقدہ لکھنو، میں بھی قائداعظم نے اسی لباس میں شرکت کی تھی۔ قائداعظم کے پرائیویٹ سیکریٹری مطلوب الحسن سید کا بیان ہے کہ1937کے بعد مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کے طالب علموں سے بہت زیادہ مانوس ہوگئے تھے اور اکثر علی گڑھ جاتے رہتے تھے۔ ابتدامیں آپ نے علی گڑھ کٹ شیروانی پہنی۔یہ شیروانیاں علی گڑھ ہی کیایک درزی کے پاس سے سِل کر آتی تھیں۔ وہ انگریزی لباس میں ہوتے یا شیروانی میں، ان کی شخصیت ہر لباس میں پروقار اور جاذب نظر ہوتی تھی۔ آپ بیش تر ریشم کا یا سوتی لباس زیب تن کرتے تھے۔ آپ کے لباس کا ستھرا پن دراصل آپ کی باطنی صفائی کا بھی آئینہ دار تھا۔
ایک انگریز صحافی اور ”Indian Summar” نامی کتاب کے مصنف جیمز کیمرون نے قائداعظم کی نفاست پسندی کا ذاتی مشاہدہ اس طرح بیان کیا ہے کہ وہ 1945 میں محمد علی جناح کا انٹرویو کرنے گیا۔ جناح نہایت شان دار سوٹ میں ملبوس تھے۔ سوٹ کی سلائی اور ایک ایک ٹانکے سے نفاست عیاں تھی۔ استری اس انداز سے ہوئی تھی کہ سوٹ کی ہر کریز تلوار کی طرح دھارلیے ہوئے تھے۔ اعلیٰ قسم کے لینن کے سوٹ میں ان کی آہنی شخصیت بڑی متاثرکن لگ رہی تھی۔
قائداعظم محمد علی جناح نے تحریکِ پاکستان کے دوران جناح کیپ اور شیروانی کا استعمال شروع کیا تو آہستہ آہستہ تحریکِ پاکستان کے قائدین نے بھی اس لباس کو اپنالیا۔ قائد اعظم اور مہاتما گاندھی کے درمیان دو قومی نظریے پر جب مکالمہ ہوا تو قائد اعظم نے مسلمانانِ ہند کے علیحدہ تشخص پر جہاں بہت سے دلائل دیے، وہاں انہوں نے مسلمانوں اور ہندوؤں کے علیحدہ علیحدہ لباسوں کا بھی تذکرہ کرکے دو قومی نظریہ کو اجاگر کیا۔ سر سید احمد خان نے علی گڑھ یونیورسٹی کی بنیاد رکھی تو انہوں نے یونیورسٹی کا یونیفارم شیروانی کو منتخب کیا اور اس طرح آل انڈیا مسلم لیگ کا ٹریڈ مارک بھی سیاسی طور پر شیروانی ہو گیا۔ 1930 کی دہائی میں قائد اعظم نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کیا تو اپنی عوامی تقریبات میں شیروانی کو بطور لباس زیب تن کیا۔
جناح کیپ کو قائد کے استعمال سے پہلے ” کارکل ” ٹوپی کے نام سے جانا جاتا تھا یہ ٹوپی بھیڑ کی کھال سے بنائی جاتی ہے 1937 میں ” کارکل ” کیپ کو قائد اعظم نے اپنے لباس کا حصہ بنایا انہوں نے ” کارکل ” ٹوپی اور شیروانی پہن کر جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ قوم کا خیال پیش کیا اس کے بعد یہی ” کارکل ” ٹوپی جناح کیپ کے نام سے موسوم ہوئی اس وقت سے لے کر آج تک جناح کیپ اور شیروانی ہماری قومی پہچان بن گئی۔ جناح کیپ اور شیروانی پاکستان کا قومی لباس ہے جسے پہن کر ہر پاکستانی فخر محسوس کر تا ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مودی حکومت اور مقبوضہ کشمیر پر قبضہ وجود پیر 14 اکتوبر 2024
مودی حکومت اور مقبوضہ کشمیر پر قبضہ

بابا صدیقی کا قتل اوربی جے پی کاکھوکھلا دعویٰ وجود پیر 14 اکتوبر 2024
بابا صدیقی کا قتل اوربی جے پی کاکھوکھلا دعویٰ

اسرائیل:امریکاکاکرائے کاسپاہی وجود پیر 14 اکتوبر 2024
اسرائیل:امریکاکاکرائے کاسپاہی

کشمیر اسمبلی انتخابی نتائج:تاریخ کے پہیہ کی واپسی وجود اتوار 13 اکتوبر 2024
کشمیر اسمبلی انتخابی نتائج:تاریخ کے پہیہ کی واپسی

مقبوضہ کشمیر کی22لاکھ 40 ہزار کنال اراضی ہندوؤں کے حوالے وجود اتوار 13 اکتوبر 2024
مقبوضہ کشمیر کی22لاکھ 40 ہزار کنال اراضی ہندوؤں کے حوالے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق

امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر