وجود

... loading ...

وجود
وجود

علامہ اقبال کی شاعری کے عالمگیر اثرات

اتوار 21 اپریل 2024 علامہ اقبال کی شاعری کے عالمگیر اثرات

ریاض احمدچودھری

بلاشبہ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال برصغیر کے بہت بڑے شاعر، مفکرہیں۔ انہوں نے اپنے عظیم خیالات سے صرف علاقے کو نہیں بلکہ پوری دنیا کو متاثر کیا ہے۔ علامہ نے اردو ، فارسی اور انگریزی میں طبع آزمائی کی اور ہر زبان کو اپنے بلند خیالات و افکار کی بدولت اعلیٰ و ارفع کر دیا۔ انہوں نے شاعری کیلئے اردو اور فارسی کا انتخاب کیا لیکن مقالات اور خطبات کیلئے انگریزی کا سہارا لیا۔
ہمارے دوست ، مربی محترم ڈاکٹر وحید الزمان طارق کو کلام اقبال سے گہرا لگاؤ ہے جس پر وہ عبور بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے علامہ اقبال کو صحیح انداز میں سمجھنے کے لئے فارسی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کررکھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ شاعر مشرق، حکیم الامت، حضرت علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کی شاعری ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔ اس مشعل کو بجھنے نہ دیا جائے بلکہ علامہ اقبال کے افکار و نظریات کو مزید بہتر انداز میں نسل نو تک پہنچایا جائے جس پر ہمارا پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا بہت موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ علامہ محمد اقبال کی شاعری کا زیادہ تر حصہ فارسی پر مبنی ہے۔ جسے ہر کسی کے لئے پڑھنا اور سمجھنا آسان نہیں ہے۔ لہٰذا ہمارا میڈیا اگر علامہ اقبال کے فارسی و اردو اشعار اردو کے ساتھ دنیا شروع کردیں تو یہ ادب کی بڑی خدمت ہوگی اور علامہ اقبال کی پراثر شاعری سے عام لوگوں کو بھی مستفید ہونے کا موقع ملے گا۔
اگرچہ علامہ اقبال نے پہلے اردو زبان میں مہارت پیدا کی لیکن ابتدائی جماعتوں سے ہی انہوں نے فارسی کی تعلیم بھی حاصل کی۔ ان کی فارسی اور عربی کی تعلیم ابتداء سے اعلی درجہ تک ان کے قابل استاد سید میر حسن صاحب کی مرہون منت ہے۔ مولوی سید میر حسن صاحب مشن سکول میں پڑھاتے تھے جس کی وجہ سے انگریزوں کی طرز فکر اور جدید تعلیمی اصولوں سے بھی بخوبی واقف تھے۔ اردو یا فارسی دونوں زبانوں میں شاعری میں اقبال نے اپنے نئے راستے نکالے۔ ہندوستان کا اقبال داں طبقہ آج بھی اقبال کو محض اردو کا بڑا شاعر مانتا ہے لیکن ان کی فارسی شاعری سے بے بہرہ ہے جبکہ علامہ اقبال کی دو تہائی شاعری فارسی زبان میں ہے اور صرف ایک تہائی اردو میں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اقبال کے تصورات پہلے فارسی میں پیش کئے گئے لیکن ایک زمانہ تک ان کی اردو شاعری میں ان کا کوئی ذکر ہی نہیں ملتا، جبکہ اقبال نے تصور خودی کو اپنی عظیم الشان مثنویوں اسرار خودی اور رموز بے خودی میں پیش کیا جو علی الترتیب 1915ء اور 1916ء میں شائع ہوئیں۔
ماہر اقبالیات بریگیڈیئر ریٹائرڈ وحید الزمان طارق کہتے ہیں کہ حضرت اقبال کبھی ایران نہیں گئے لیکن ان کی زیادہ شاعری فارسی زبان میں ہے۔حضرت اقبال کی فارسی شاعری اور جو اہمیت وہ ایران کو دیتے تھے، اس کی وجہ سے ایرانی قوم ان کو بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ ایران میں حضرت اقبال کو اقبال لاھوری کے نام سے جانا جاتا ہے اور لاہور کو بھی ایرانی انہی کے توسط سے پہچانتے ہیں۔ایران کا کوئی ایک بھی ایسا بڑا شہر نہیں ہے جہاں علامہ اقبال سے منسوب کسی چوک یا کالونی کا نام نہ ہو کیونکہ علامہ اقبال نے کل بارہ ہزاراشعارکہے ہیں جن میں سے سات ہزارفارسی میں ہیں۔ ایران کے سپریم لیڈر حضرت آیت اللہ خامنہ ای خود کو حضرت اقبال کا مرید مانتے ہیں اور ان سے عشق کا یہ عالم ہے کہ حضرت اقبال کے دو ہزار سے زائد اشعار ان کو زبانی یاد ہیں۔ سید علی خامنہ ای نقلاب ایران سے پہلے حضرت اقبال پر کتاب لکھ چکے تھے۔ اسی طرح شہید مطہری جیسی دانشور شخصیت بھی حضرت اقبال سے بہت متاثر تھی۔
نقلاب ایران کے اہم راہنما ڈاکٹر علی شریعتی جنہوں نے ایرانی انقلاب میں اہم کردار ادا کیا علامہ کے افکار سے بے حد متاثر تھے کیونکہ وہ یورپ سے تعلیم حاصل کر کے آئے تو انہوں نے محسوس کیا کہ ایرانی قوم کو بھی کم و بیش انہی حالات کا سامنا تھا جن کا سامنا علامہ اقبال اور پاکستانی قوم نے کیا۔ ایرانی مغربی یلغار کے سامنے اپنا تشخص کھو چکے تھے۔ ڈاکٹر علی شریعتی کا احیاء فکر دینی کا تصور اور خودی کا تصور فکر اقبال سے ہی ماخوذ ہیں۔ انہوں نے اپنے ادارے حسینیہ ارشاد میں علامہ اقبال کانفرنس کا اہتمام کیا جس میں سب سے اہم مقالہ ان کا اپنا تھا۔ علامہ اقبال پر ان کی دو تصانیف ماوا اقبال اور اقبال معمار تجدید بنائی تفکر اسلامی منظر عام پر آچکی ہیں۔ علامہ اقبال نے اپنے فارسی مجموعہ کلام میں انقلاب ایران کی پیش گوئی بھی کی ہے۔
می رسد مردے کہ زنجیر غلامان بشکند
دیدہ ام ازدوزن دیوار زندان شما
یعنی میں نے زندان کے سلاخوں کے پیچھے سے دیکھ رہاہوں کہ ایک مرد آرہا ہے جو تمہیں غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرائے گا۔ایرانی اس شعر کو حضرت اقبال کی حضرت امام خمینی کی آمد اور انقلاب اسلامی ایران کی پیشگوئی کہتے ہیں۔ اس لئے بھی ایرانی قوم حضرت اقبال کو بہت احترام اور قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔محترم وحید الزمان طارق نے بتایا کہ جب علامہ اقبال کی عزت و شہرت عروج پر تھی اور جب برصغیر کے گوشہ و کنار میں اور دنیا کی مشہور یونیورسٹیوں میں انہیں ایک عظیم مفکر، فلسفی، دانشور، انسان شناس اور ماہر عمرانیات کے طور پر یاد کیا جاتا تھا، ایران میں ایک ایسی سیاست نافذ تھی کہ ایران آنے کی دعوت نہ دی گئی اور ان کے ایران آنے کے امکانات فراہم نہ کئے گئے۔ سالہا سال تک ان کی کتابیں ایران میں شائع نہ ہوئیں۔ یہ وہ زمانہ تھا، جب اس ملک میں ایرانی اور مسلمان کے تشخص کو نابود کرنے کیلئے غیر ملکی ادب و ثقافت کا تباہ کن سیلاب رواں تھا۔ اقبال کا کوئی شعر اور کوئی تصنیف مجالس و محافل میں عوام کے سامنے نہ لائی گئی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

چور چور کے شور میں۔۔۔ وجود پیر 06 مئی 2024
چور چور کے شور میں۔۔۔

غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا وجود پیر 06 مئی 2024
غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا

بھارت دہشت گردوں کا سرپرست وجود پیر 06 مئی 2024
بھارت دہشت گردوں کا سرپرست

اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر