وجود

... loading ...

وجود
وجود

وائرل زدہ معاشرہ

جمعرات 18 اپریل 2024 وائرل زدہ معاشرہ

زریں اختر

جدید ٹیکنالوجی کا پھیلائو اور ہر ہاتھ میںاس کا ہونا، اس کے استعمال کی جو جو صورتیں سامنے آرہی ہیںعقل دنگ اور دل دھک سے رہ جاتے ہیں۔ اسے یو ں سمجھا جائے کہ یہ بہرحال حقائق ہی ہیں جو ہم تک پہنچتے ہیں ،تو کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ حقائق کی یہ صورت ہی نہ ہوتی ؟حقائق جو وائرل ہوجاتے ہیںخواہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کی کسی چار دیوار ی میں پیش آنے والا واقعہ ہو یا چلتی ریل گاڑی کا ، وڈیو وائرل ؛ حقائق سامنے آئے اور مشینری بھی حرکت میں آئی ،حقائق انتہائی شرم ناک اور مشینری انتہائی سست۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ کراچی کی ایک بلندو بالا عمارت میں آتش زدگی کا واقعہ ہوا تھا ،وہاں ایک نوجوان جوملازمت کے لیے انٹرویو دینے گیاتھا وہ خود کو آگ سے بچانے کے لیے بلند عمارت کی کھڑکی سے لٹک گیا ،لوگو ں نے موبائل سے تصویریں بنانا شروع کردیں، نوجوان کے ہاتھ کب تک اس کے پورے جسم کا بوجھ سہارتے بالآخر وہ زمین پر آرہا اور مرگیا،لوگوں کے موبائل بھی تب ہی اس نوجوان سے ہٹے ، آخر وقت تک ساتھ دیا۔ اس واقعے پر ایک تحریر پڑھی تھی(مصنف کا نام یاد ہوتا تو حوالہ ضرور دیتی) جس میں لکھا تھا کہ جتنی دیر تک لوگ تصویریں لینے میں لگے رہے ، یااس منظر کو ایک تماشا سمجھ کر دیکھتے رہے کہ اب کیا ہوتاہے،جیسے یہ بھی کوئی فلمی منظرہو ؟ کسی کویہ نہیں سوجھی کہ سوچے کہ اس انسان کی جان کیسے بچائی جاسکتی ہے؟کیا ہمیں اس کے لیے بہت زیادہ تربیت یافتہ ہونے کی ضرورت ہے ؟یا ابھی تربیت احساس کی کرنی ہے؟
ریل گاڑی میں جو واقعہ پیش آیا ، لوگوں نے وڈیو بنانا شروع کردی اور وہ وائرل ہوگئی ۔ سوا ل یہ ہے کہ کسی میں اتنی جرات نہیں تھی کہ مارنے والا کا ہاتھ پکڑتا اور پٹنے والے کو بچاتا، یہ لوگ فوراََ ہجوم میںہی کیوں بدل جاتے ہیں؟جو محض یاتو تماشا دیکھتاہے یا اس بھی زیادہ ہولناک شکل اختیار کرلیتاہے(مشال خان اور سری لنکن کا واقعہ ) ۔ یہ ہجوم پتھرمارنا جانتاہے ہاتھ روکنا نہیں جانتا۔ یہ ٹیکنالوجی ایسے لوگوں کے ہاتھو ں میں آگئی ہے جو پس ماندہ ہیں معاشی ،تعلیمی اور اخلاقی اعتبارات سے۔جب تک آگ ہمارے گھر وں تک نہیں پہنچتی تب تک ہم ہاتھ تانپتے ہیں یا روٹیاں سینکتے ہیں، جب تک ڈنڈا ہمارے سر پر نہ پڑے تب تک ہم دوسرے کے سر کے گومڑے گنتے ہیں اور اس کی جسامت و حجم ناپتے ہیں ، جب تک ہمارے گھر کی عورت کو کوئی نہ چھیڑے تب تک ہماری عزت غیرت کے عجیب و غریب جذبات لمبی تان کر سوئے پڑے رہتے ہیںاور ہمیں موبائل سے وڈیو بنانے سے فرصت نہیں ملتی۔
وہ نکتہ جس پرایک قیادت، ایک جماعت ، ایک بڑی تعداد اکھٹی ہوگئی تھی اس سے پہلے کہ وہ جم غفیر قوم بنتا؛ وہ نکتہ نقطہ بن کر خلا میںتحلیل ہوگیا ۔ اب ایک ہجوم کو سدھانا ہے۔ وہ تجربہ دہرایا نہیں جاسکتا،کیو ں کہ نہ کوئی غاصب ہے اور نہ کوئی غیر مذہب ۔ کسی کو لگے کہ میری سوچ کہیں دور جاپڑی ہے لیکن بیماری کی جڑ تک اگر نہیں پہنچے تو بیماری جڑ سے اکھاڑ کیسے سکیں گے؟ یہ بات ہوسکتاہے کہ تصوراتی لگے لیکن اب اتنی جدید مشینری بھی آسکتی ہے جو عمارت کی ٹیڑھی بنیاد کو سیدھا کردے ، تو جو نظریاتی بنیاد غلط تھی اسے بھی سیدھا کیا جاسکتاہے ، اگلی منزلوںاور نسلوں کے لیے یہ کام کیا جاسکتاہے ۔ ماضی کی غلطیوںکے اعتراف کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگااور ویسے بھی وہ غلطیاں ہمارے آباء کی ہیں ہم نے تھوڑی کی ہیں ہم تو اگلی نسلوں کی فلاح کے لیے ان غلطیوں کا سدھار چاہتے ہیں۔ کیا ہوگا اگر ہم قائد ِ اعظم کی سیاسی غلطیوں کی نشان دہی کردیں گے ، بیسیویں صدی کی سیاسی شخصیت ہی تھے ،کیا ہوگا اگر ہم لوگوں کو یہ بتائیں کہ حکیم الامت شاعرِ مشرق علامہ اقبال عطیہ فیضی کی ذہانت کے محبت کی حد تک گرویدہ تھے ، کیا ہوگا اگر ہم لوگوں کو یہ بتائیں کہ مولانا شبلی نعمانی جو سیرت النبی ۖ کے مصنف تھے انہیں بھی عطیہ فیضی بھا گئی تھیں ؟ یہ جرات ‘خلافت و ملوکیت’ جیسی کتاب لکھ کر مولانا مودودی کرسکتے تھے تو آج وڈیو وائرل کے عہد میں یہ کیوں کر ممکن نہیں؟ اچھا چلیں! لوگوں کے لیے پرچھائیاں ہی بھلی لیکن جہا ںلوگوں کے ہاتھوں میں موبائل دے دیا ہے وہاں غار کے دہانے تک پہنچنے کا رستہ نہ بھی دکھائیں، اسکول تو بنائیں ، جو اسکول ہیں اس میں استاد تو ہو ؛ نہ اسکول نہ استاد نہ شاگرد ۔۔۔بس موبائل اور وڈیو وائرل ، خواہ چلتی ریل ہو یا چاردیوار ی ۔
٭٭٭٭٭
نہ دہشت گر د کا کوئی مذہب اور زبان اور نہ مظلوم مقتول کا کوئی مذہب اور زبان ۔ کوئی بھی مذہب ہو اور کوئی بھی زبا ن ہو ہماری آواز مظلوم کے ساتھ ہے او ر ہم ظالم کے خلاف ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر سمجھ لیں کہ ہم بھی ایندھن ہی بنیں گے اور یہ آگ کبھی بجھائی نہیں جاسکے گی ۔ وہ مزدور تھے ،وہ مزدور پنجابی ہوں ،سندھی ہوں، پٹھان ہوں ، پشتون ہوںیا اردو بولنے والے ہوں؛ وہ مزدور سنی ہوں یا شیعہ ہوں ، وہ مزدور مسلمان ہوں یا عیسائی اور ہندو ہوں ۔ مزدور مزدور ہی ہے ۔ دہشت گرد اگر زبان پوچھ کر مارتا ہے تو کیا انصاف بھی زبان پوچھ کر ہو گا؟
ہم کراچی میں شیعہ سنی ، مہاجر پٹھان اور ریاستی دہشت گردی کے سائے میں بڑے ہوئے ہیں۔ پھر لوگوں کی سمجھ میں آگیاکہ یہ ان کے درمیان فساد کوئی تیسری قوت ہی کراتی ہے ۔ پھر وہ تیسری قوت کے ہاتھوں ذہنی یرغمال نہیں بنے ۔
کوئی سوال کرے ناپنجاب حکومت سے کہ کیوں مزدوروں پر ان کی زمین تنگ ہوئی کہ وہ معاش کی تلاش میں وہاں سے نکلے ، کیوں ان کے لیے ان کی جائے پیدائش پر معاشی مواقع موجود نہیں ، صنعت کار گھرانہ ہے ، کارو بار ہی بڑھالے تو لوگوں کو روزگار مل جائے اور ان کی سیاسی ساکھ کی بھی مرہم پٹی ہوگی۔ ہم عوام سے کہیں گے کہ آم کھائو پیڑ نہ گنو۔


متعلقہ خبریں


مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر