وجود

... loading ...

وجود
وجود

جمہوریت کے خون سے لتھڑا ایوان

بدھ 28 فروری 2024 جمہوریت کے خون سے لتھڑا ایوان

رفیق پٹیل

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ موجودہ دنیا تیزرفتاری سے تبدیل ہونے والی دنیا ہے جدید مواصلات کے نظام ،ٹیکنالوجی ،اور برق رفتای سے اطلاعات کی فراہمی نے دنیا کو گلوبل ولیج یعنی ایک ایسے گائوں میں تبدیل کردیا ہے جس میں کسی بھی واقعے کی معلومات پلک جھپکتے ہی ہر جگہ پہنچ جاتی ہے ۔ 8 فروی کی شام کو انٹرنیٹ کی بندش اور رات گیارہ بجے کے بعد سے انتخابی نتائج کے جاری رہنے وا لے اعلانات کو اچانک روک دینے سے نے دنیا بھر میں ہلچل مچ گئی اور ہر طرف دھاند لی دھاند لی کا شور شروع ہوگیا ۔دنیا بھر کے نمائندوں نے اس کا نوٹس لے کر اپنے اپنے میڈیا کے اداروں اور حکومتوں کو اس کی رپورٹ فوری طور پر پہنچادی جس کی وجہ سے دنیا بھر میں میڈیا میں دھاندلی کی خبروں کا سلسلہ شروع ہوا جو ،اب تک جاری ہے۔ امریکا ، مغربی ممالک اور اقوام متحدہ نے بھی دھاندلی پر تشویش ظاہر کردی۔ دھاندلی مزید فارم 45کے ذریعے بے نقاب ہوئی۔ یہ فارم تما م ہارنے والی جماعتوں کے پاس تھے جس میں متعلقہ پریزائیڈنگ افسر کے دستخط اور انگوٹھے کے نشانات تھے جبکہ جن نشستوں پر دھاندلی کا دعویٰ کیا جارہا ہے، وہاں جیتنے والے امیدوار اپنا فارم 45ظاہر نہ کرسکے نہ ہی الیکشن کمیشن نے مقررہ مدّت گزرجانے کے باوجود فارم 45الیکشن کمیشن کی ویب سائٹس پر لوڈ کیے، جبکہ قانونی طور پر یہ کا م14دن کی مدّت تک ہر صورت مکمّل کیا جاناتھا۔
حیرت اس بات پر ہے کہ اس بات کا کسی کو کیوں احساس نہیں تھا کہ دور حاضر میں اس طرح کے اقدامات کا کتنا نقصان ہوگا؟ ملک کی کتنی بدنامی ہوگی پاکستان کی اپنی ساکھ کس قدر مجروح ہوگی ؟ پاکستان کے اعلیٰ عہدیداروں کو کس نگاہ سے دیکھا جائے گا؟ اس طرح کی تحقیقاتی خبروں اور رپورٹس کی وجہ سے بے ایمانی اور فراڈ کا داغ ہم کیسے دھو پائیں گے ؟ہمارا جو وفد بھی باہر جائے گا اسے کن نظروں سے دیکھا جا ئے گا ؟اگر حقیقی نتائج کا اعلان ہوبھی جاتا تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑتی ۔نوازشریف اعلان کرتے کے ہم نے شکست تسلیم کرلی ہے تو ان کی قدرو منزلت میں کس قدر اضافہ ہوتا۔ انہیں غور کرنا چاہیے کہ اپنی بیٹی کو جس طرح سے اقتداردلوایا ہے وہ اس کے مستقبل کے لیے فائدہ مند ہے یا نقصان دہ ہے۔ اسی طرح اگر بلاول یہ اعلان کرتے کہ جمہوریت کے خون میں لتھرے ہوئے ایوان میں وہ نہیں بیٹھیں گے۔ فیصلہ انصاف سے ہونا چاہیے ۔چاہے اس سے کسی کی بھی نشستیں کم ہوجائیں تو خود بلاول اپنی ساکھ کو مزید بلند درجے پر لے جاکر ملک میں اپنے بہتر مستقبل کی بنیاد رکھ سکتے تھے۔ لیکن شہباز شریف کی حمایت کرکے انہوں نے جس تاریک راستے کے سفر کا انتخاب کیا ہے، اس میں روشنی کی دور دور تک امید نہیں ہے۔ انتخابی مہم میں انہوں نے جو موقّف اختیار کیا تھا اس سے پیچھے ہٹ کرکس طرح اپنی ساکھ بحال کریں گے جتنا وہ اس کی وضاحت کریں گے، اتنی ہی ان کے لیے مشکلات ہوں گی حقیقی نتا ئج کے اعلان سے پی ٹی آئی کو فوراً دوسرے روز حکومت نہیں ملتی۔ اس دوران بہت کچھ طے ہوسکتاتھا لیکن پاکستان کے اداروں کی اس طرح رسوائی نہ ہوتی کچھ جلوس نکلتے اور سب اپنے معاملات طے کرنے میں لگ جاتے لیکن اب مزید ہیرا پھیری کرنے سے جو طوفان جنم لے گا ہمارے خطّے کے حالات کی وجہ سے شاید اسے دنیا کی بڑی طاقتیں بھی نہ روک سکیں گی۔ وقتی طور پر قابو پابھی لیا گیاتو دوسری صورت میں اندر ہی اندر یہ طوفان بڑھ کر مزید پھیل جائے گا اس کاواحد حل آئین ،جمہوریت اورانصاف کا راستہ ہے اسی سے ہر خطرے کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے حالیہ انتخابات ایک ایسامقابلہ تھا جس میں ایک طرف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اور ایم کیوایم کو تمام سہولتیں اور سرکاری سرپرستی حاصل تھی جبکہ مد مقابل پاکستان تحریک انصاف کو عملی طور پر انتخابی عمل سے باہر کردیا گیا تھا۔ یعنی اس کے پاس اس کا انتخابی نشان بھی نہ تھا جس کا فیصلہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے کیاتھا۔ اس مقابلے میں ایک پہلوان یعنی تحریک انصاف کے ہاتھ پیر باندھ دیے گئے تھے۔ دوسری جانب دوسرے پہلوانوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کو ہر قسم کی آزادی تھی ریفری بھی ان کے ساتھ تھامقابلے میں پہلے ہی وار میں ہاتھ پائوںبند ھے ہوئے پہلوان نے مدمقابل پر برتری حاصل کرلی اور ایک پہلوان اکھاڑے میں گرگیا۔ سب حیران تھے یہ کیا ہوا ریفری نے مقابلہ روک کر گرے ہوئے پہلوان کومشکل سے کھڑا کیا اور دونوں پہلوانوں کو آپس میں ایک کرکے ہاتھ پیربندھے ہوئے پہلوان کے مقابلے میں کامیاب قرار دے کر ٹرافی دینے کااعلان کیا۔ اب اس کی تقریب کی تیاری کی جارہی ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ 8 فروری کو ہونے والے اس تماشے کوساری دنیا دیکھ رہی تھی۔ ہر جگہ سے شور برپا ہورہاہے کہ دھاندلی ہوئی، بے ا یمانی ہوئی ہے، مغربی دنیا اس قسم کے انتخابات کو الیکشن فراڈ کا نام دیتی ہے۔ اب کہا جا رہا ہے کہ اس قصے کو بھلا دیا جائے اور آگے بڑھا جائے جیسا کہ ماضی میں ہوتا چلا آرہا تھا۔ ایسا اس لیے ممکن نہیں ہے کہ ہم ایک بد لی ہوئی دنیا میں رہ رہے ہیںجہاں ا نفارمیشن ٹیکنالوجی کے بغیرگزارا نہیں ہے ۔
کوئی ملک بھی تنہائی میں ترقی نہیں کر سکتا ہے ملکوں کا ایک دوسرے پر دارومدار بڑھ چکاہے۔ آج پاکستان سے جانے والا سامان یورپ اورامریکا کی منڈ یوں میں فروخت ہوتا ہے، جس کی وجہ سے ملک میں ڈا لر آتے ہیں، جب ان ملکوں میں یہ اطلاع جاتی ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ بند ہوگیا ہے تو اس کے منفی ا ثرات مرتّب ہوتے ہیں۔ پاکستان میں کئی روز سے ٹوئٹربند ہے۔ ممتاز صحافی عمران ریاض جو کچھ ہی عرصہ قبل چار ماہ تک غائب کیے جانے کے بعد منظر عام پر آئے تھے اور وہ بات کرنے میں شدید دشواری محسوس کرتے تھے اب وہ ٹھیک ہونے کے بعد دوبارہ اپنا کام کرنے لگے تو انہیں گرفتارکرلیا گیا ۔اسی طرح ا یک اور صحافی ا سد طور بھی گرفتا رہوگئے۔ اس سے صحافیوں میں بھی بے چینی پیدا ہوگئی۔ بین الاقوامی سطح پر مزید منفی اثرات پیدا ہونگے۔ حال ہی میںانتخابی دھاندلی کے خلاف ایک ملک گیر کنونشن کا اہتمام کیا گیا جس میں شامل مختلف جماعتوں نے مطالبہ کیا کہ جس کا جو حق ہے وہ اسے دیا جائے۔بصورتِ دیگر ملک میں افراتفری کی کیفیت ہوگی۔ امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ سویت یونین کے پاس بہت طاقتور فوج تھی لیکن عوام اس کے ساتھ نہ تھے۔ اس لیے ملک قائم نہ رہ سکا۔ اس وقت ضروری ہے کہ ملک کو جمہوریت کی پٹری سے نہ اترنے دیا جائے۔ منصفانہ نتائج کا اعلان کیا جائے۔ انصاف کے بغیر ملکوں کا چلنا مشکل ہوجاتا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے پختون خواہ ملّی عوامی پارٹی کے ساتھ بھی رابطہ کرلیا ہے۔ اسی طرح وہ ملک بھر کے چھوٹے بڑے تما م سیاسی گروپوں سے رابطہ کر کے انہیں دھاندلی کے خلاف تحریک کے لیے آمادہ کررہی ہے ۔سندھ میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس اور دیگر جماعتیں پہلے ہی ایک اتحاد تشکیل دے کر تحریک چلانے کا اعلان کر چکی ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ سلسلہ مزید پھیل سکتا ہے۔ یہ دھاندلی پاکستان کی اچھی شناخت کے لیے نقصان کا باعث بن رہی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

لکن میٹی،چھپن چھپائی وجود اتوار 19 مئی 2024
لکن میٹی،چھپن چھپائی

انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس وجود اتوار 19 مئی 2024
انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس

کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا وجود اتوار 19 مئی 2024
کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا

اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر