وجود

... loading ...

وجود
وجود

کیا اس عدلیہ کا انصاف سے کوئی تعلق ہے ؟

منگل 27 فروری 2024 کیا اس عدلیہ کا انصاف سے کوئی تعلق ہے ؟

ڈاکٹر سلیم خان

1919میں انگریزوں نے یہ کہہ کر برہمنوں کی جج کی حیثیت سے تقرری پر پابندی لگا دی تھی کہ ان کے اندر عدالتی کردار پایا نہیں جاتا یعنی ان کے ڈی این اے میں مساوات اور عدل و انصاف کا مادہ موجود ہی نہیں ہے ۔ اس کے بعد عدلیہ میں ان کا تناسب صد فیصد سے گھٹا کر ڈھائی فیصد تک پہنچا دیا۔آزادی کے بعد جب نیا آئین بنا تو اس طبقہ نے عدالت میں پھر سے غلبہ حاصل کرلیا مگر ڈی این اے کو چھپائے رکھا اور کسی نہ کسی حدتک انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے رہے لیکن اب چند استثناء کو چھوڑ دیں تو بیشتر کے اندرکا چھپا ہوا وحشی بے قابو ہوچکا ہے ۔ اس کا تازہ ترین ثبوت راجستھان ہائی کورٹ کا حالیہ فیصلہ ہے جس میں اس نے سرکاری اسکولوں میں سوریہ نمسکار کے لزوم کے احکام واپس لینے کی جائز درخواست کوتکنیکی بہانوں سے مسترد کردیا۔یہ غیر عقلی فیصلہ آئین کی دفعہ 25 کے تحت ہر شخص کی آزادء مذہب کے اعتراف کی بھی خلاف ورزی ہے ۔ ایسا فیصلہ وہی جج کرسکتا ہے جس میں عدالتی کردار مفقود ہو کیونکہ سرکاری اسکول میں تعلیم جس روپیہ سے ملتی ہے اس میں مسلمانوں کا ٹیکس بھی شامل ہے ۔ اس لیے ان کو تعلیم دینا حکومت کا احسان نہیں ذمہ داری ہے اور اس کے عوض انہیں عقائد کے خلاف اعمال ہر مجبور کرنا بدترین ناانصافی ہے ۔
شرجیل امام کو ضمانت دینے سے انکار بھی عدالت کی ناانصافی کا ایک نمونہ ہے ۔ شرجیل پر یہ بے بنیادالزام ہے کہ دہلی کا فساد ان کی تقریر کے سبب ہوا تھا۔ اس جھوٹ کے سبب وہ چار سال سے جیل میں ہیں ۔ دہلی فساد کا سب سے بڑا مجرم کپل مشرا ہے اس پر ایف آئی آر تک درج نہیں ہوئی ۔ ہریانہ کے مونو مانیسر کی ہدایت پر مسلم نوجوان کو زندہ جلا دیا گیا مگر اس کی ضمانت ہوگئی۔ بٹو بجرنگی نوح فساد کا کھلا مجرم ہے وہ بھی ضمانت پا چکا ہے ۔ ٹی راجہ کو نفرت انگیز تقریر کی وجہ سے بی جے پی نے پہلے نکالا پھر اسمبلی کا رکن بنادیا ۔ اسے کوئی گرفتار تک نہیں کرتا مگر شرجیل امام اور عمر خالد و خالد سیفی جیسے نہ جانے کتنے بے قصور لوگوں کو عدالتیں ضمانت نہیں دیتیں اس لیے کہ بیشتر جج یا تو برہمن ہیں یا اپنے برہمن آقاوں کی خوشنودی کے لیے عدل کے بجائے ناانصافی کرتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عدلیہ بھی بتدریج گودی عدالت میں تبدیل ہوتا جارہا ہے ۔
شرجیل کے خلاف دسمبر 2019 میں اشتعال انگیز تقاریر کرنے کا مقدمہ دائر کیاگیاتھا۔ 28 جنوری کو 2020 کو وہ گرفتارہوئے ۔ جولائی 2022 میں ٹرائل عدالت نے ان کی پہلی درخواست ضمانت مسترد کردی ۔ وہ ابھی تک جیل میں 4 سال گزارچکے جبکہ اس مقدمہ میں انہیں زیادہ سے زیادہ 7 سال کی سزا سنائی جاسکتی ہے ۔ اس لیے وہ ضمانت حاصل کرنے کے اہل ہیں لیکن ایسا اسی صورت میں ممکن ہے جب عدالت سے انصاف ملے ۔ڈاکٹرعمرخالد ستمبر2020 سے جیل میں بند ہیں ۔ ان پر دہلی کے فسادات میں ملوث ہونے کا الزام ہے حالانکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ انہیں سی اے اے ، این آر سی کے خلاف تحریک چلانے کے سبب فسادات کے معاملے میں پھنسایا گیا ۔ سپریم کورٹ میں گزشتہ ٩ ماہ کے دوران ١١ مرتبہ ان کے ضمانت کی درخواست ملتوی ہوئی ہے ۔ کیا یہ عدالتِ عظمیٰ کو زیب دیتا ہے کہ وہ اس طرح ایک بے قصورنوجوان کو ہراساں اور پریشان کرے ۔
جنوری 2024 میں سنجیو بھٹ کی عمر قید سزا کی احمد آباد ہائی کورٹ نے توثیق کردی ۔ یہ بھی عجیب معاملہ ہے کہ 1990 میں ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا اور 2011 تک ٹھنڈے بستے میں پڑا رہا۔ آگے چل کر جب انہوں نے ناناوتی اور مہتا کمیشن کے سامنے 2002 گجرات فساد میں مودی سرکار کے خلاف گواہی دی تو فوراً ان کے خلاف کارروائی کی اجازت دے دی گئی ۔جام نگر کی ضلعی عدالت نے جون 2019 میں انہیں عمرقید کی سزا سنائی اور اب عدالتِ عالیہ نے بھی اس کی توثیق کردی۔ یہ اپنے سیاسی آقاوں کی قدمبوسی نہیں تو کیا ہے ؟ اسی طرح کے فرشی سلام کی مثال راہل گاندھی مقدمہ کے وقت بھی سامنے آئی تھی جہاں ضلعی عدالت کے فیصلے اور ہائی کورٹ کی توثیق کو سپریم کورٹ نے دیوار سے دے مارا تھا۔ یہ سب چونکہ مودی سرکار کے ایماء پر ہورہا ہے اس لیے ایوانِ بالا کے رکن ِ پارلیمان اور سابق وزیر قانون کپل سبل کا حکومت پر عدلیہ کو قبضے میں لینے کا الزام درست ہے ۔
بابری مسجد کی پیروی کرنے والے مشہور وکیل دشینت دوے کہتے ہیں انتظامیہ کی عدلیہ کے کاموں میں بڑے پیمانے پر مداخلت افسوسناک ہے ۔ ججوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ کچھ غیر معمولی جج تو ہیں لیکن بیشتر نہایت مشکوک قسم کے ہیں بلکہ اچھے تو بہت کم ہیں۔ انہوں نے معمولی بنیادوں پر حزب اختلاف کے رہنماوں ، سماجی کارکنان اور کامیڈین تک کو گرفتار کرنے کے بعد انہیں ضمانت سے محروم کرنے پرتشویش کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق جمہوریت، پریس کی آزادی اور اختلاف رائے کے حق پر موجودہ چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ پندو نصیحت تو خوب کرتے ہیں مگر فیصلے کا وقت آتا ہے تو وہ بھی اپنے پیش رو ججوں سے مختلف نہیں نکلتے ۔ اس کی تازہ ترین مثال چنڈی گڑھ میں ٥فروری کو میئر کے انتخاب پر ان کا تبصرہ ہے جس میں انہوں نے اسے جمہوریت کا مذاق اور قتل تک کہہ کر مقدمہ چلانے کی بات کہی لیکن حکم نہیں دیا۔ ہائی کورٹ نے اسے ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔ سوال یہ ہے کہ اگر وہ قتل تھا جن لوگوں کی خوشنودی کی خاطر وہ جرم سرزد ہوا یعنی جنھوں نے سپاری دینے کے بعد اس کا کھلے عام جشن منایا ان کے خلاف جسٹس چندر چوڑ کیوں خاموش رہے ؟ ویسے یہ حقیقت بھی قابلِ ذکر ہے جسٹس لویا والی بینچ میں بھی وہ موجود تھے اور بابری مسجد کا فیصلہ تو انہیں کا لکھا ہوا ہے ۔
2019 میں اقتدار سنبھالنے سے قبل رافیل معاملے میں سپریم کورٹ نے مودی سرکار کو کلین چٹ دے دی تھی ۔ آئین کی دفع 370 کو منسوخ کرکے ایک صوبے کا درجہ گھٹا کر اسے یونین ٹریٹری بنانے پر ابھی حال میں سپریم کورٹ نے مہر ثبت کردی۔ گذشتہ ماہ اسے نوٹ بندی میں بھی کوئی مسئلہ نظر نہیں آیا۔ اڈانی کے خلاف آنے والی ہنڈن برگ کی رپورٹ سپریم کورٹ کے خیال درست نہیں تھی۔ گیانواپی محلے میں واقع جامع مسجد کے معاملے ضلعی عدالت نے حسبِ توقع نا انصافی کی۔ اس کے خلاف الہ باد ہائی کورٹ سے انصاف کی امید نہیں تھی اس لیے مسلم فریق نے عدالتِ عظمیٰ کا رخ کیا۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی نزاکت کو سمجھے بغیر اسے ہائی کورٹ بھیج دیا ۔ اس نے سماعت کے لیے نئی تاریخ تو دے دی مگر پوجا پاٹ پر پابندی لگانے سے انکار کردیا حالانکہ یہ کھلے عام آئین کی خلاف ورزی ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گویا اوپر سے نیچے تک سیٹنگ کا معاملہ ہے یعنی’ یہ اندر کی بات ہے عدلیہ ہمارے ساتھ ہے ‘ والا نعرہ درست ہوگیا۔ایسے میں دشینت دوے کا یہ الزام بالکل درست ہے کہ عدلیہ بہت کمزور ہوچکاہے ۔ آئین عدالت کو جتنی آزادی دیتا ہے وہ اتنا بھی آزاد نہیں ہے ۔ دس سالوں میں سرکار کوئی اہم مقدمہ نہیں ہاری ۔وہ اچھے ججوں کو بولنے کی تلقین کرکے انہوں نے ایمرجنسی کی مثال دیتے ہوئے کہا’ اس وقت سپریم کورٹ سے پوچھا گیا تھا کہ کیا بنیادی حقوق کو سلب کیا جاسکتا ہے تو جسٹس ایچ آر کھنا کے علاوہ سبھی نے ہاں کہا تھا اور ان لوگوں میں موجودہ چیف جسٹس کے والد ماجد وائی وی چندر چوڑ بھی شامل تھے ۔ دشینت دوے کے مطابق اگر بانیانِ قوم نے ہمارے عدلیہ کو دیکھا تو تعجب سے کریں گے ۔ وہ سوچیں گے کیا ہم نے ملک کو اس حالت کے لیے آئین دیا تھا ؟ ویسے موجودہ حکومت کو بانیانِ قوم کی اس حالت پر افسوس نہیں بلکہ خوشی ہوگی کیونکہ یہ پہلے بھی ان کے دشمن تھے ، اب بھی ہیں اور آگے بھی رہیں گے ۔ حبیب جالب کے ان اشعار میں عدلیہ کی اس دگر گوں صورتحال کی بہترین عکاسی تو موجود ہی ہے مگر اس کے ساتھ ان حالات میں ہماری ذمہ داریوں کی جانب بھی رہنمائی کی گئی ہے
اس دیس میں لگتا ہے عدالت نہیں ہوتی
جس دیس میں انسان کی حفاظت نہیں ہوتی
مخلوق خدا جب کسی مشکل میں پھنسی ہو
سجدوں میں پڑے رہنا عبادت نہیں ہوتی
ہر شخص سر پر کفن باندھ کے نکلے
حق کے لیے لڑنا تو بغاوت نہیں ہوتی


متعلقہ خبریں


مضامین
جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

لکن میٹی،چھپن چھپائی وجود اتوار 19 مئی 2024
لکن میٹی،چھپن چھپائی

انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس وجود اتوار 19 مئی 2024
انٹرنیٹ کی تاریخ اورلاہور میںمفت سروس

کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا وجود اتوار 19 مئی 2024
کشمیریوں نے انتخابی ڈرامہ مسترد کر دیا

اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر