وجود

... loading ...

وجود
وجود

تشکیل سے پہلے نئی حکومت کا خاتمہ

بدھ 21 فروری 2024 تشکیل سے پہلے نئی حکومت کا خاتمہ

رفیق پٹیل

سیاسی نیم مردہ اور عوام میں غیر مقبول حکومت کی جس طرح تشکیل کی کوشش کی جارہی ہے اس کی مماثلت ا فغانستا ن کے اشرف غنی کی طرز کی حکومت ہوگی، ایسی کوئی بھی مسلط کردہ حکومت اپنے قیام سے پہلے ہی الیکشن چور کا تمغہ سجا کر آئے گی جس طرح اشرف غنی اپنی حکومت کے اختتام پر ڈالروں کی بوریوں سے بھرے ہوئے جہاز کے ہمراہ افغانستان سے فرار ہوگئے تھے ۔یہاں بھی ایسی ہی بھگڈ ر مچے گی بلکہ یہ حکومت اس سے بھی بد ترہوگی ۔ افغانستان میں اربوں ڈالر کی بارش کے باوجود تجربہ ناکام ہواتھا ۔پاکستان کے معاشی حالات کی خرابی کی نسبت سے اس کی مثال کچھ یوں ہوگی جیسے ایک سیا سی لاش تخت پر رکھ دی گئی ہو اور اس کی بد بو معاشرے میں ہر طرف پھیل رہی ہو۔
موجودہ انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن نے یہ اعلان کردیا تھا کہ ان کی ا وپر بات ہوگئی ہے ا ور اقتد ا ر انہی کے حوالے کیا جائے گا ۔یہ تا ثر عام کردیا گیاکہ نوازشریف کو وزیر اعظم بنایا جا رہا ہے جس ا ند ا ز سے اکتوبر 2023 میں ایک بادشاہ کی طرح نواز شریف کی لند ن سے واپسی ہوئی ۔تیز رفتاری سے ان کے مقد ما ت ختم ہوئے ۔اس سے بھی یہ تاثر عام ہوگیا کہ نواز شریف ہی ملک کے وزیر ا عظم ہونگے جس طرح کا پروٹوکول انہیں دیا گیا تھا اور جس طرح سرکاری مشینری ان کے لیے جلسے جلوس کا ا ہتمام کررہی تھی، اس سے یہی محسوس ہورہا تھا کہ وہی ملک کے وزیر اعظم بن جا ئیں گے۔ مسلم لیگ نے ”ملک کو نواز دو” کا نعرہ لگایا۔ انتخابات سے دو روز پہلے تمام اخبارات میں پورے صفحہ اول پر یہ اشتہارات لگائے گئے کہ ” نواز شریف پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ” یعنی دوسرے الفاظ میں ہر جگہ لوگوں کو یقین دلانے کی کوشش کی گئی کہ ا نتخابات کے نتائج مسلم لیگ ن کے حق مین طے کرلیے گئے ہیں ۔اس طرح پی ٹی آئی کے لوگوں میں ما یوسی پھیلا نے کی کوشش کی گٰئی کہ ان کے ووٹوں سے کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔ تاکہ وہ انتخابات میں ووٹ دینے کے لیے باہر نہ آئیں۔ مسلم لیگ ن کو اطمینان تھا کہ وہ پی ٹی آئی کو انتخابی عمل سے باہر کرچکی تھی۔ عمران خان کو 31سال شاہ محمود قریشی کو 10سال بشریٰ بی بی کو 7سال کی سزادی جا چکی تھی۔ پی ٹی آئی کے پاس کوئی انتخابی نشان بھی نہیں تھا۔ بے شمار کارکن جیلوں میں بند تھے حتیٰ کہ کوئی پی ٹی آئی کا جھنڈا بھی اٹھا کر نکلتا تھا ،ا سے بھی گرفتا ر کرلیا جاتاتھا۔ پی ٹی آئی خیبر پختون خواہ کے سوا کہیں بھی انتخابی مہم نہ چلاسکی تھی۔ خیبر پختون خواہ میں بھی کئی مقامات پر رکاوٹوں کا سامنا ہوا۔ پولیس سے تصادم بھی ہوا لیکن ہر جگہ عوام کی بڑی تعداد کے باہر آنے کی وجہ سے انتظامیہ نے پیچھے ہٹنے کو ترجیح دی۔ تاکہ کوئی بڑا تصادم نہ ہو ۔پی ٹی آئی کا انتخابی نشان چھین لیے جانے کے بعد پی ٹی آئی عملی طور پر تحلیل ہوگئی تھی جس کے بعد پی ٹی آئی نے ان آزاد امیدواروں کی حمایت کا فیصلہ کیا جو اس کے اپنے کارکن تھے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کے بے شمار امید واروں سے کاغذ ا ت نامزدگی چھین لیے گئے۔ انتہائی مشکلات اور رکاوٹوں سے کاغذ ات جمع ہوئے ۔اس کے بعد ریٹرننگ افسران نے انہیں مسترد کردیا۔ مسترد ہو نے والے امید واروں نے عد ا لت سے رجوع کرکے منظوری حاصل کی۔ ٹیلی ویژن پر تحریک انصاف پرپابندی لگادی گئی۔ جس کے بعدپی ٹی آئی نے اپنی ڈیجیٹل آن لائن مہم کا سہارا لیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے ووٹروں سے رابطہ کیا۔
یہ وہ حالات تھے جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو یقین تھا کہ پی ٹی آئی اپنے ووٹروں کو گھروں سے نہیں نکا ل سکے گی۔ ان کے پاس ٹرانسپورٹ کا انتظام نہیں ہے۔ پولنگ ایجنٹ نہیں ہیں ۔وہ کیمپ نہیں لگا سکتے۔ پولنگ کے روز ا نٹرنیٹ کی سروس بند کردی گئی تاکہ پی ٹی آئی کے ووٹرز کو ان کے پولنگ اسٹیشن کے با رے میں علم نہ ہوسکے۔ بے شمار ایسے گھرانے تھے جہاں ایک گھر کے چار افراد کے لیے علیحدہ علیحدہ اور دوردراز علاقوں میں پولنگ ا سٹیشن تھے۔ اس ساری صورتحال کے پیش نظر مسلم لیگ ن کو پوری امید تھی کہ مسلم لیگ ن کو ایک سو تیس کے قریب نشستیں مل جائیں گی اور پی ٹی آئی کے آزاد امیدوار تیس سے پینتیس نشستیں حاصل کریں گے لیکن پولنگ مکمل ہونے کے بعد جب نتائج آنا شروع ہوئے تو ہر جگہ سے پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار جیت رہے تھے جس نے سب کو حیران کرد یا ۔لیکن رات دس بجے کے بعد انتخابی نتائج کی ترسیل روک دی گئی جب کہ الیکشن کمیشن نے اعلان کیا تھا کہ رات دو بجے تک ہر صورت انتخابی نتائج مکمل کرلیے جائیں گے لیکں انتخابی نتائج میں اڑتالیس گھنٹوں کی تا خیر ہوگئی۔ دو سرے دن سے انتخابی نتائج کے رجحان میں تبدیلی کا دنیا بھر نے نوٹس لیا اور پی ٹی آئی سمیت کئی جماعتوں نے نتائج میں بڑے پیمانے پر ہیراپھیری کا الزام عائد کیا ابتدائی نتائج کو سننے کے بعد نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد مسلم لیگ ن کے صدر دفتر سے نکل کر اپنی رہائش گاہ جاتی عمرہ چلے گئے یعنی ا بتد ا میںان کا یہ قدم اعتراف شکست کے مترادف تھا۔
بعد ازاں ہونے والی تبدیلیوں کے بعد وہ دوبارہ مسلم لیگ ن کے دفتر آئے اور وہاں سے خطاب کے دوران نوازشریف نے دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دینے کا فیصلہ کیا جس کے بعد وزیر اعظم کے لیے شہباز شریف کا نام سامنے آیا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نواز شریف کی حکومت تشکیل پانے سے پہلے ہی ختم ہوگئی ۔اب ایک مرتبہ پھر یہ کوشش کی جارہی ہے کہ نواز شریف کو ہی وزیر اعظم بنادیا جائے۔ اگر وہ یا کوئی بھی وزیر اعظم بن بھی جاتے ہیں تو ان کو خود اندرونی طور پر اطمینان نہ ہوگا ۔وہ مردہ دلی سے بادل نخواستہ حکمران بن کر سامنے آئیں گے۔ انتخابات کے حقیقی نتائج ان کا پیچھا کرتے رہیں گے اور ان کے حواس پرطاری رہیں گے۔ اندرون ملک اور بیرون ملک ان کی کوئی پزیرائی نہ ہوگی ان کے ارد گرد کے لوگ بھی پیٹھ پیچھے انہیںجو کہیں گے شاید انہیں اس کا بھی اندازہ ہوگا ۔ اس طرح کا جعلی انتظام ملک کوکسی صورت مستحکم نہیں کر سکے گا اور دشمن اس کا بھر پور فائدہ اٹھائے گا۔ جھوٹ پر تعمیر کردہ عمارت اتنی کھوکھلی ہوگی کہ وہ مکمل ہونے سے پہلے گر چکی ہوگی ۔اس منہدم ڈھانچے کو عمارت کا نام دے کر بعض عناصر ا پنی ذات کی تسکین کر سکتے ہیںلیکن وہ ملک میں بہتری نہیں لاسکتے ۔یہ تمام عمل معاشرے میں جاری اخلاقی زوال میں مزید اضافہ کرے گا۔ پی ٹی آئی کی رہنما شاندانہ گلزار نے کہا ہے کہ” ملک کے تمام پریزائیڈنگ افسران اور ریٹرننگ افسران میڈیا کے سامنے حلف اٹھائیںاور اعلان کریں کہ ہمارے دیے گئے فارم 45 غلط ہیں اور ان کے آرو کے فارم 47 صحیح ہیں تو ہم شکست تسلیم کرلیں گے دیگر صورت پریزا ئیڈ نگ افسران کے دستخط شدہ فارم کے مطابق نتائج کا اعلان کیا جائے ”۔پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس عدم استحکام کی صورت سے باہر آئے اور ملک میں انتخابی عمل،عدلیہ اور دیگر اداروں کی ساکھ کی بحالی ہو، عوام کو کچلنے کاعمل ریاست پاکستان کو مزید کمزور کردے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر