وجود

... loading ...

وجود
وجود

الیکشن کے بعد

منگل 13 فروری 2024 الیکشن کے بعد

رفیق پٹیل

پاکستان کے موجودہ انتخابات کے بارے میںعالمی ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں سے ظاہر ہورہا ہے کہ دھاندلی کے ذریعے متروک ،مسترد شدہ ، نیم مردہ سیاسی قوتوں کو ملک پر انتہائی ڈھٹائی اور بے ہودہ انداز سے ملک پر مسلط کرنے سے پوری دنیا چیخ اٹھی ہے ۔اس کا چرچا دنیا بھر کے ٹی وی خبرناموں ، تجزیوں اوراخبارات کی رپوٹس میں جاری ہے۔ پاکستان میںبیشتر مقامات پر احتجا ج ہورہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے انتخابات کو محض ایک ڈھونگ بنا دیا گیا تو دنیا ہمیں کس نظر سے دیکھے گی؟ کیا ہمارا نظام انصاف بھی ڈھونگ بن جائے گا؟ کیا میڈیا کی بچی کھچی آزادیا ں ختم کردی جائیں گی؟ انسانی حقوق کا زوال جاری رہے گا؟ اجتماع کی آزادی ختم کردی جائے گی؟ قانون کی کوئی پاسداری نہ ہوگی؟ پاکستان اس راہ پر چلتا رہا تو ہم ایک زوال پزیر معاشرے پر گامزن رہیں گے ۔
عالمی سطح پر صرف وہ ممالک عزت اور مقام حاصل کرتے ہیں جو اپنے شہریوں کا احترام کرتے ہیں۔ حیرت ہے کہ ملک کے کرتا دھرتا اس کی اہمیت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے ۔حکومت کے تمام ادارے بدنام ہورہے ہیں ۔اس وقت دنیا میںصرف ایک بات کی پزیرائی ہوئی کہ جو کردارپاکستان کے عوام نے تمام تر دبائو کے باوجود انتخابی عمل میں حصہ لے کر اداکیا ۔حالا نکہ حالات ایسے پیدا کیے گئے تھے کہ وہ اس عمل سے دور رہیں اور ان کی شرکت کم سے کم ہو۔ پاکستان کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 2024کے الیکشن میں عوام نے عموماً او ر پاکستان تحریک انصاف نے خصوصاً جس انداز سے شرکت کی اس نے دنیا بھر کو حیرت زدہ کردیا ۔پاکستان کے عوام اور پی ٹی آئی کے کارکنوں کی ہمت اور عوام کے اس طرح سے متحرک ہونے پر ہر جگہ ان کی تعریف ہورہی ہے بلکہ ان کو دادو تحسین سے نوازا جارہا ہے ۔ان کی واہ واہ ہر جگہ ہورہی ہے۔ ان انتخابات کے عمل سے پی ٹی آئی کو باہر کرنے کے لیے سرکاری سطح پر ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا۔ 9اپریل 2022کو پاکستان میں عمران خا ن کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک ہر گزرتے دن میں پی ٹی آئی اور اس کے کارکن حکومت اور ریاست کے جبر کا شکار ہیں اور انہیں ہر طرح سے سیاسی عمل سے باہر کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔ پہلے مرحلے میں انہوںعمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد 25 مئی 2022کی ریلی اور اس کی تیاریوں کے دوران گرفتاریوں اور تشدد کے واقعات کا سامنا کیا جس میں کئی کارکن جاں بحق اور زخمی ہوگئے ۔ریلی والے رو ز لاٹھی چارج اسی موقع پر زائدالمیعاد زہریلی آنسو گیس کا استعمال بعد ازاں عمران خان کے قافلے پر نومبر 2022 میں فائرنگ سے قاتلانہ حملے میں عمران خان کو زخمی کرنا ایک بڑا سانحہ تھا۔ اس کے بعد 9مئی2023 کو عمران خان کی رینجرز کے اہلکاروں کے ذریعے گرفتاری کے رد عمل میں ہونے والے ہنگاموں کے بعد پی ٹی آئی کو کچلنے کے لیے شد ت سے آپریشن شروع کیا گیا ۔تقریبا ً دس ہزار کارکن گرفتار ہوئے جس میں خواتین بھی شامل تھیں۔ پاکستان تحریک انصاف پر غیر اعلانیہ پابندی لگا دی گئی اس کے اہم رہنمائوںپر مقدمات قائم کرکے پی ٹی آئی چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ جہانگیر ترین کی سربراہی میں استحکام پاکستان پارٹی کے نام سے ایک سیاسی جماعت بنوائی گئی جبکہ ایک اور سیاسی جماعت پی ٹی آئی پارلیمینٹرین کے نام سے پرویزخٹک کی سربراہی میں بنائی گئی۔ اس کی اول دوئم اور سوئم درجے کی قیادت کو گرفتا ر کرلیا گیا۔ کچھ وکلاء میدان میں رہ گئے۔ بے شمار کارکن زیر زمین چلے گئے۔ کئی حامیوں کے گھر توڑ دیے۔ تحریک انصاف نے اپنے اندرونی پارٹی انتخابات کا جو نتیجہ الیکشن آفس میں جمع کرایا تھا، اس پر اعتراض لگاکر اس کے فیصلے کو روک لیاگیا ۔جب تحریک انصاف نے عدالت سے رجوع کیا تو 71 روز بعد عین انتخابات سے پہلے تحریک انصاف کو اس کے پرانے آئین کے مطابق دوبارہ انتخابات کرانے کو کہا گیا۔ ایسے موقع پر جب پارٹی کے بے شمار رہنما روپوش تھے پی ٹی آئی کا جھنڈا لے کر چلنے والوں کو گرفتا ر کیا جاتاتھا ۔پی ٹی آئی کو اسلام آباد کے تمام ہوٹلوں اور دیگر ایسے مقامات جہاں پی ٹی آئی نے انتخابات کا انعقاد کرنا چاہاتھا ۔ ان مقامات کی انتظامیہ نے سرکاری دبائو کی وجہ سے اجازت نہیںدی جس کے بعد پشاور میں بھی انہیں بہتر مقام میسّر نہیں آیا۔ مجبور اً پی ٹی آئی نے اپنے انتخابات پشاور کے ایک قریبی مقام پر انتخابات کا انعقاد کرکے نتائج کا سرٹیفکٹ الیکشن کمیشن میں جمع کرادیا ۔اس کے باوجود چند لوگوں کے اعتراض کی وجہ سے پی ٹی آئی کے اندرونی انتخابات مستر دکرکے پا رٹی کا نشان بلّا چھین لیا گیا ۔اس طرح تحریک انصاف کو تحلیل کردیا گیا اور اسے اس طرح تقسیم کردیا گیا کہ اس کے امیدواروں کو علیحدہ علیحدہ نشانات پر انتخابات میں حصہ لینے پر مجبور کیا گیا۔ اس طرح پارٹی انتخابی عمل سے باہر ہوگئی۔ اس کے باوجود پارٹی آزاد امیدواروں کے ذریعے انتخابی عمل میں آگئی اور حیرت انگیز کامیابی حاصل کرنے کے قریب پہنچ گئی۔ رات دس بجے تک وہ ملک بھر کے تمام علاقوں سوائے اندرون سندھ کے ہر جگہ سے کامیابی حاصل کر رہی تھی لیکن اچانک انتخابی نتائج روک دیے گئے۔ اس کے بعد دو روز تک انتخابات کے نتائج کی رفتار انتہائی سست روی کا شکار ہوگئی۔ تحریک انصاف نے اعلان کیا کہ وہ 180 قومی اسمبلی اور تقریباً اتنی ہی نشستیں پنجاب اسمبلی میں جیت چکے ہیں لیکن ان کا مینڈیٹ چوری کرلیا گیا اور انہیں اس کی نصف نشستوں تک محدود کردیا گیا۔
تحریک انصاف نے خیبر پختون خواہ میں اپنے ووٹوں کی موثر طریقے سے حفاظت کی ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انتظامیہ دبائو کے باوجود کافی حدتک غیر جانبدار رہی لیکن بعض نشستوں پر اس کے باوجود دھاندلی کو نہ روکا جاسکا۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں کا کہنا یہ ہے کہ ان کے پاس پریزائیڈنگ افسران کے دستخط شدہ فارم 45موجود ہیں جو ان نشستوں پر تحریک انصاف کے حامی کامیاب امیدواروں کاٹھوس ثبوت ہے۔ تحریک انصاف کا مطالبہ ہے کہ یہ تما م نشستیں انہیں واپس کی جائیں۔اس وقت پورے ملک میں دھاندلی کا شور ہے۔ جماعت اسلامی ،جی ڈی اے،جے یو آئی ،بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں سمیت ہر سیاسی جماعت ان انتخابات کو دھاندلی زدہ انتخابات قرار دے رہی ہیں۔ کئی جگہ پر امن احتجاج کے لیے جمع ہونے والوں پر پولیس نے پرتشدّد کارروائیاں کی ہیں۔ لوگوں کو گرفتا ر کیا گیا ہے۔ میڈیا کے نمائندوں کو اس کی رپورٹ تیار کرنے اور نشر کرنے پر پابند ی عائد کر دی ہے۔ ٹیلی ویژن چینل کو ہدایات جاری کی گئی ہیں وہ اسے رپورٹ نہ کریں۔ اب پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو آمادہ کیا جارہا ہے کہ وہ مل کر حکومت بنائیں ۔وہ حکومت جسے عوام کی امنگوں کے خلاف مسلط کیا جا ئے گا،ملک کو مزید عدم استحکام سے دوچار کرے گی حالانکہ منصفانہ انتخابات کی صورت میں مسلم لیگ کا تقریباً صفایا ہوسکتا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کی نشستیں کم ہوسکتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ انتخابات کے بعد جو طوفان اٹھ کھڑا ہو اہے وہ ٹل نہیں سکے گا۔ اس کا حل صرف منصفانہ نتائج کا اعلان ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر