وجود

... loading ...

وجود
وجود

سندھ میں سیاسی برتری کی فیصلہ کُن جنگ کا آغاز

پیر 11 دسمبر 2023 سندھ میں سیاسی برتری کی فیصلہ کُن جنگ کا آغاز

راؤ محمد شاہد اقبال

بدقسمتی سے پاکستان بننے کے کچھ سالوں کے بعد ہی سندھ کی سیاست میںتعصب کی غلاظت اور عوام دشمن بدعنوانی کے آمیزش شامل ہونے لگی تھی ۔ پاکستان مخالف قوتیں روپے پیسے اور طاقت کے بل بوتے پر ایسے ذہنوں کی تلاش میں لگ گئی جوچند عارضی مفادات کے عوض سندھ میں اثرو نفوذ حاصل کر کے ملکی مفادات کا سودا کرسکیں جس کے لیے پاکستان مخالف قوتوں نے سندھ بھر سے ایسے لوگوں کو تلاش کرکے نہ صرف سندھ کی سیاست کا اہم ترین مہرہ بنایا بلکہ انہیں اقتدار کی کرسی تک پہنچانے کی بھرپور کوشش بھی کی،ان میں جوش و جوشیلے سیاسی لیڈر بھی تھے اور خاموش پس پردہ نوکر شاہی طبقہ کے کچھ لوگ بھی، سندھ کی سیاسی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ غیر ملکی قوتوں کو اس مد میں کافی حد تک کامیابیاں بھی حاصل ہوئیں اور خود غرضی، اقربہ پروری، لسانیت، تعصب کی بنا پر صوبہ سندھ میں ایسی سیاسی فضا بالآخر قائم ہو ہی گئی کہ جس سے سندھ کی بڑھتی ہوئی ترقی اور خوشحالی کو زنگ لگ گیا، حکومتی اداروں کی تباہی کا نہ ختم ہونے ایک سلسلہ شروع ہوگیا، لوٹ مار،کرپشن، بدعنوانی اور نا اہلیت کو روز افزوں فروغ ملنے لگا حتیٰ کہ غیر ملکی آقاؤں کے اشارے پر ناچنے والے سیاسی مہرے اپنے اپنے تعصب میں اس قدر اندھے ہوگئے کہ سندھ میں کسی ایک بھی محکمے کو اس قابل نہ چھوڑا کہ وہ کوئی ڈھنگ کا کام کرنے کے قابل رہ سکے۔
سندھ میں سرکاری اداروں کی ابتری اور اُن کا زوال اس انتہا تک جاپہنچا کہ آخر ایک دن سپریم کورٹ آف پاکستان کو بھی سندھ کے تمام اداروں کی موت کا باقاعدہ اعلان کرنا پڑا مگر یہ اعلان بھی نقار خانے میں طوطی کی آواز ثابت ہوا اور پھر نوبت یہاں تک آگئی کہ سندھ میں پانی کی فراہمی کے لیے بھی اعلیٰ عدلیہ کو ایک واٹر کمیشن تشکیل دینا پڑا تاکہ کسی طرح سندھ کی عوام کو کم ازکم صاف پانی تو پہنچایا جا سکے۔نیز عدالت کے حکم پر سیاست کے لبادہ میں لپٹے میں دہشت گردوں اور قبضہ مافیا کے خلاف ایک گرینڈ آپریشن شروع کیا گیا اوریہ ہمارے ریاستی اداروں کی بروقت مداخلت ہی تھی جس نے صوبہ سندھ میں لسانی تعصب اور قوم پرستی پر مبنی سیاست کو پس منظر میں دھکیل دیا اور اس کے ساتھ ہی ملک دشمن قوتوں کا وہ انقلابی رومانس بھی رخصت ہوگیا جو گزشتہ ایک عرصے سے سندھ کی قومی سیاست کو تعصب کے نشتر سے زخم زخم کررہا تھا ۔ آج سندھ میں تعصب اور قوم پرستی کا کھیل کھیلنے والے خود گمبھیر اور پریشان کن مسائل سے دوچار ہیں اور اپنی بقاء کی آخری جنگ لڑنے کی ناکام کوشش کررہے ہیں اور اس ناکام جنگ کے اثرات سندھ کی سیاست میں بھی بدرجہ اتم ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں۔اِس وقت سندھ کی کم وبیش تمام قوم پرست جماعتیںاپنی باقی ماندہ سیاسی طاقت بچانے کے لیے کسی محفوظ سیاسی پناہ کی تلاش میں نظرآتی ہیں تو دوسری جانب اُن کے مقابلہ میں سندھ کی بڑی سیاسی جماعتوں ایم کیوایم پاکستان اور پاکستان پیپلزپارٹی کے درمیان صوبے میں سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کے لیے ایک غیر اعلانیہ سیاسی ورکنگ ریلیشن شپ قائم ہوچکی ہے۔
8 فروری کو انتخابات کا اعلان ہونے کے بعد پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سندھ کی بڑی اور مضبوط سیاسی شخصیات کو کسی دوسری سیاسی جماعت کی چھتری تلے جانے سے روکنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کررہے ہیں اور یہ اسی کوشش کا نتیجہ ہی ہے کہ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن، مسلم لیگ ق ، مسلم لیگ فنکشنل اور ایم کیوایم پاکستان کی بھی کئی وکٹیں گرادی ہیں۔خاص طور پرپیپلز پارٹی سندھ کے دیہی علاقوں میں مسلم لیگ فنکشنل کی مضبوط پوزیشن کو کافی حد تک سیاسی زک پہنچانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔نیز آصف علی زرداری سندھ شہری علاقوں میں بھی پیپلزپارٹی کو مضبوط کرکے مزید نشستیں حاصل کرنے کی منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہیں۔ خصوصاً کراچی، حیدرآباد ،میرپورخاص ، سکھر اور نواب شاہ میں متحدہ قومی موومنٹ کو درپیش مشکلات اور دھڑے بندیوں سے پیپلزپارٹی بھرپور سیاسی فائدہ اُٹھارہی ہے۔مگر فی الحال یہ کہنا مشکل ہے کہ پیپلزپارٹی اپنی مذکورہ سیاسی کامیابیوں کے بل بوتے پر انتخابات میں غیر معمولی نتائج حاصل کر سکے گی یا نہیں ؟دراصل بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جہاں اپنے دورِ حکومت میں پیپلزپارٹی نے سیاسی طور پر اپنے آپ کو کافی مضبوط کیاہے ،وہیں کئی انتظامی معاملات میں اُسے ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑاہے ۔ مثال کے طور پر سندھ بشمول کراچی کا کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہونا اور صوبہ سندھ میں اَمن و اَمان کی صورت حال کا انتہائی دگرگوں ہونا ،سندھ حکومت کی ایسی انتظامی کمزوریاں ہیں، جن کا خمیازہ پیپلزپارٹی کو اگلے انتخابات میں بھگتنا پڑ سکتاہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ بلاول بھٹو زرداری، آصفہ اور بختاور بھی کبھی عرصے سے اپنے آپ کو سیاست کے میدان میں فعال رکھے ہوئے ہیں۔بے نظیر بھٹو کی دونوں صاحبزادیوں کی رائے کو پیپلزپارٹی میں بڑی اہمیت حاصل ہے جبکہ بلاول بھٹو ابھی تک یہ ثابت نہیں کر سکے کہ وہ بحیثیت چیئرمین کسی بھی اختیار کو استعمال کرنے اور فیصلہ سازی کی قوت رکھتے ہیں یا نہیں اور یہ ہی وہ بات ہے جس کی وجہ سے بلاول بھٹو کا متحرک ہونا بھی پاکستان پیپلزپارٹی کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا پارہا۔ حالانکہ گزشتہ دنوں بلاول بھٹو کی جانب سے جاری ہونے والی ایک بیان سے ایسا محسوس ہوا تھا کہ پیپلزپارٹی کی زمام مکمل طور پر انہوں نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے ۔مگر اگلے ہی روز آصف علی زرداری نے یہ بیان دے کر کہ ”بلاول ابھی ناتجربہ کار ہے اور پارٹی میں سارے فیصلے میں ہی کرتاہوں ”۔ بلاول کو واپس پچھلی نشست پر بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔ جبکہ دوسری جانب ایم کیوایم پاکستان بھی پوری طرح سے متحرک ہوچکی ہے اور مسلم لیگ ن کے ساتھ انتخابی اتحاد بنانے کے بعد اَب وہ سندھ کی دیگر سیاسی جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ دراصل پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم دونوں ہی8 فروری کے انتخابات میں ایک بار پھر عوام سے بڑی امید لگائے بیٹھی ہیںکہ وہ ان پر اعتماد کا اظہار کے بارِ دگر انہیں اقتدار کی راہ داریوں تک پہنچا دے۔ سیاسی فضا بتا رہی ہے کہ بہت جلد سندھ کا سیاسی منظر نامہ مکمل طور تبدیل ہونے والا ہے ،دیکھنا یہ ہوگاکہ 8 فروری کو ہونے والی فیصلہ کن ”سیاسی جنگ ”میں کون جیتتا ہے کون ہارتا ہے۔۔۔۔!!
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کچہری نامہ (٤) وجود پیر 20 مئی 2024
کچہری نامہ (٤)

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے ! وجود پیر 20 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے !

عصرحاضرکادہشت گرد وجود پیر 20 مئی 2024
عصرحاضرکادہشت گرد

چائے والا کروڑوں مالیت کے اثاثوں کا مالک وجود پیر 20 مئی 2024
چائے والا کروڑوں مالیت کے اثاثوں کا مالک

جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر