وجود

... loading ...

وجود

شریف خاندان کی 15سالہ مزید حکمرانی ؟

منگل 05 دسمبر 2023 شریف خاندان کی 15سالہ مزید حکمرانی ؟

رفیق پٹیل

ُ ورلڈ بینک نے جو تصویر پیش کی ہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ پاکستان ایک ایسے جال میں پھنس گیا ہے جو ملک کو سیاسی عدم استحکام اور معاشی زوال کی جانب مسلسل تیزرفتاری کی طرف ڈھکیل رہاہے، یہ ایک ایسا بحران ہے جو ملک کے دفاع کو بھی خطرے سے دوچار کرسکتا ہے۔ دنیا بھر میں جمہوریت ، آزاد عدلیہ، آزادی صحافت اور قانون کی حکمرانی ،تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے ذریعے مختلف قوموں خصوصی طور پر مغربی ممالک نے ترقی کی ہے ۔ حالانکہ وہاں حکومت کی مخالفت میں لاکھوں افراد مظاہرے بھی کرتے ہیں، بعض صورتوں میں وہاں تشدد ، جلائو گھیراؤکے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں لیکن جمہوری اداروں کے تسلسل ،انسانی حقوق کے احترام، آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کی وجہ سے وہ معاشرے عدم استحکام کاشکار نہیں ہوتے۔ عمومی طور پر ان معاشروں میں اخلاقیات کا معیار بہتر ہے۔ جھوٹ فریب دھوکادہی بہت کم ہے۔ میرٹ پر مشتمل اور بدعنوانی سے پاک پولیس کی وجہ سے جرائم بھی کم ہیں دیگر غیر جمہوری ممالک میں بھی قانون کی بالادستی استحکام کا باعث ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں ہم جمہوریت کے نظام کو نافذکرنے کا محض دعویٰ تو کرتے ہیں عملی طور پراسے تسلیم نہیں کرتے ۔ اس وقت پاکستان کی نگراں حکومت اور دیگر اہم ادارے زوروشور کے ساتھ کسی نہ کسی طرح نواز شریف کو ایک مرتبہ پھر باقائدہ وزارت عظمٰی کے عہدے پر فائز کرنے کے درپے ہیں جبکہ موجودہ نگران حکومتیں ا پنی آئینی مدّت پوری کرچکی ہیں۔ نگراں حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو اس کے باوجودنواز شریف کو لندن سے جس شاہانہ انداز سے پاکستان لایا گیا وہ ایک بادشاہ کی واپسی ہی محسوس ہوتی تھی۔ قانونی طور پر نوازشریف مجرم تھے لیکن عملی طور پر وہ وزیر اعظم کی حیثیت رکھتے تھے ۔واپسی کے بعد عدالتوں نے انتہائی تیزرفتاری سے ان کے مقدمات ختم کردیے۔ ان کی جماعت کے اہم رہنما اعلانیہ اقرار کر رہے تھے کہ ان کی اوپر بات ہوچکی ہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو تن تنہا واضح اکثریت حاصل ہوگی ۔بعض رہنما دو تہائی اکثریت کابھی دعویٰ کر رہے ہیں ،اوپر جو بات ہوئی اس کی وضاحت وہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یعنی کوئی پس پردہ سمجھوتہ ہے جو مسلم لیگ ن کو کامیابی سے دوچار کرے گا۔نواز شریف ایک مرتبہ برسراقتدار آنے کے بعد وہ اپنی آئندہ نسلوں کے اقتدار کی راہ ہموار کریں گے۔ اگر سب کچھ ان کے قابو میں آگیا تو ان کے خاندان کی حکمرانی پندرہ سال سے بھی آگے جاسکتی ہے۔ تحریک انصاف اسے لندن سمجھوتے کا نام دیتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو عوامی رائے کو کوئی اہمیت حاصل نہ ہوگی ۔
اب تک ملک بھر میں جو سروے کیے گئے ،ان کے نتائج کے مطابق عوام کی بھاری اکثریت مسلم لیگ ن کی مخالف ہے اور اس مخالفت میں ہر گزرتے دن اضافہ ہورہا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کے سربراہ اور ان کے ہزاروں ساتھیوں کی گرفتاری اور ان کی سیاسی سرگرمیوں میں رکاوٹ کے باوجود تحریک انصاف کی حمایت میں ہر آنے والے دن اضافہ ہورہاہے۔ ایک وجہ ہمدردی کی وہ لہر بھی ہے جو اس جما عت کے چیئرمین عمران خان کو جیل میں بند رکھنے اور انہیں عام عدالتوں سے دور رکھ کر ان کے مقدمات جیل ہی میں چلانے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ ملک بھر کے نوجوانوں میں تحریک انصاف مزید تیزی سے مقبول ہورہی ہے لیکن حکومت کی انتظامی مشینری اسے کچل دینا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف پر پابندیوں سے ان کی انتخابی مہم چلانے اور ووٹرز کو باہر نکالنے کی صلاحیت کمزورہے۔ اس طرح تحریک انصاف کے ہاتھ پائوں باندھ کر نوازشریف کو مسند پر بٹھادینے سے ملک میںمسلم لیگ ن کی مخالفت اور بڑھ جائے گی۔ اس مخالفت کے باوجود وہ ایک غیر اعلانیہ مارشل لاء ایڈمنسٹر یٹر کے طرز حکمرانی کو اپناکر اپنے خاندان کی حکمرانی کو 15سے 25سال تک کی طوالت دے سکتے ہیں۔ وزیر اعظم بننے کے بعد ان کا اگلا ہدف مریم نواز کو وزیر اعظم بنانا ہوگا یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف کی گزشتہ حکومت میں پیپلز پارٹی کی عوامی رابطہ مہم میں رکاوٹ پیدا کرکے پیپلز پارٹی کو پنجاب میں قدم جمانے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف ، ان کے بھائی شہباز شریف ،ان کی بھانجی مریم نواز ،ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز اورنواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار اور شریف خاندان کے دیگر افراد پنجاب میں کسی دوسری سیاسی قوت کو موقع نہیں دینا چاہتے ۔جب پیپلز پارٹی نے پنجاب کا رخ کیا تھا تو مسلم لیگ ن نے تنبیہ کی تھی کہ وہ سندھ میں اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کردیں گے، اس طرح پیپلز پارٹی کو پیغام دیا گیا کہ وہ پنجاب میں اپنے قدم جمانے کی کوشش نہ کریں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے حالیہ خطاب میں بھی اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ مسلم لیگ ن کو اقتدار دینے کی کوشش ہورہی ہے ۔وہ مسلم لیگ کو مہنگائی لیگ کا نام دیتے ہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک کی مختلف جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ ن اس بات کی خواہاں ہے کہ تھریک انصاف کو بلّے کا نشان نہ ملے اس بات کا امکان بڑھ گیا ہے کہ الیکشن کمیشن تحریک انصاف کو بلّے کے نشان سے محروم کردے گا ۔ایسی صورت میں تحریک انصاف کے امیدوار مختلف نشانو ں پر آزاد امید وار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیں گے، یعنی آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف بحیثیت سیاسی جماعت موجود نہ ہوگی جو آزاد امیدوار جیت کر آئیں گے ،ان پر دبائو ڈال کر ایک فارورڈ بلاک بنایا جائے گا جو نواز شریف کی حمایت کرے گا۔ یہ ایک ایسی دھاندلی ہوگی جو تاریخ میں ایک سیاہ باب کی صورت میں یاد رکھی جائے گی عدم استحکام عروج پر پہنچ جائے گا اور پاکستان نہ صرف جمہوریت سے دور ہوگا۔ بلکہ عوام میں آنے والی حکومت سے مزید نفرت پیدا ہوگی۔ پاکستان پہلے ہی انتہاپسندی ،معاشی بحران، لاقانونیت، بڑھتی ہوئی آبادی کے دبائو،آلودگی،موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات، دشمن پڑوسی کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ،ناخواندگی اورغربت کے مسائل سے دوچار ہے۔ اس موقع پر عوامی حمایت سے محروم حکومت کا قیام خوفناک تباہی کا باعث بن سکتا ہے ۔عوام پہلے ہی مہنگائی، بیروزگاری،نا انصافی اور لاقانونیت کی وجہ سے غصے میں ہیں۔ اسے ایک بھیانک آتش فشاں بننے سے روکنا ہوگا۔ پاکستان کے منتظمین کو اس صورت حال کا حل تلاش کرنے کی بھرپور کوشش کر کے ایک مثبت راہ تلاش کرنی ہوگی۔
جمہوری روایات کو تباہ کرکے ،لاقانونیت،انسانی حقوق کی پامالی ،میڈیا پر پابندیوں کے ذریعے ہم مزید سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے دوچار ہونگے۔ معاشرے اس طرح آگے نہیں بڑھ سکتے۔ پہلے ہی ہم اخلاقیات کا جنازہ نکال چکے ہیں ،عوام پر اعتبار کرکے دیکھیں کس طرح وہ پرامن طور پر اس بحران سے ملک کو نکالتے ہیں۔انہیں آزادی سے اپنے نمائندے منتخب کرنے دیں ۔ آزاد غیر جانبدار عدلیہ ، آزاد میڈیااور انسانی حقوق سے ہی ایک صحت مند اور مستحکم معاشرہ جنم لے سکتا ہے۔ دنیا میں ترقی کرنے والے ممالک سے ہی سیکھ لیں کہ وہ اپنے شہریوں کی آزادیوں کا کس طرح خیال کرتے ہیں؟ کیسے انصاف کے نظام کو مستحکم رکھ کر مزید ترقی کر رہے ہیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جل تھل گجرات اور تصاویرکا بازار وجود هفته 27 جولائی 2024
جل تھل گجرات اور تصاویرکا بازار

1977ء کے انتخابا ت میں بھٹو صاحب کی مشکوک کامیابی وجود هفته 27 جولائی 2024
1977ء کے انتخابا ت میں بھٹو صاحب کی مشکوک کامیابی

میڈیا اور آئیڈیالوجی کا چہرہ وجود هفته 27 جولائی 2024
میڈیا اور آئیڈیالوجی کا چہرہ

تنازع قبرص: ایک صبح سفیر عصمت کورک اولو کے ساتھ وجود هفته 27 جولائی 2024
تنازع قبرص: ایک صبح سفیر عصمت کورک اولو کے ساتھ

آؤ جھوٹ بولیں۔۔ وجود جمعه 26 جولائی 2024
آؤ جھوٹ بولیں۔۔

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر