وجود

... loading ...

وجود
وجود

غزہ پر پچیس ہزار ٹن اسرائیلی بارود کی بارش

اتوار 12 نومبر 2023 غزہ پر پچیس ہزار ٹن اسرائیلی بارود کی بارش

ریاض احمدچودھری

یورو میڈ ہیومن رائٹس کی جاری اسرائیلی جارحیت پر رپورٹ میں بتایا گیا کہ سات اکتوبر سے اب تک غزہ کی پٹی پر اسرائیل پچیس ہزار ٹن سے زیادہ بارود برسا چکا ہے، جو دو ایٹم بموں کے برابر ہے۔ جس سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔رپورٹ میں کہا ہے کہ حملوں میں چار ہزار سے زائد بچے اور دوہزار سے زائد خواتین شہید ہوچکے ہیں، اسرائیل غزہ میں ہر گھنٹے بیالیس بم برسا رہا ہے، جس سے بارہ عمارتیں ملیہ میٹ ،پندرہ شہید اور پینتیس فلسطینی زخمی ہو رہے ہیں۔اس سے قبل فلسطینی محصور شہر غزہ پر گرائے گئے بموں کی دھماکا خیز قوت ہیروشیما ایٹم بم سے زیادہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے، غزہ کے حکام کا کہنا تھا کہ غزہ پر بموں کی ہیروشیما سے بڑی قیامت ڈھائی گی ہے، دوسری عالمی جنگ کے دوران ہیروشیما کی تباہی سے بھی زیادہ غزہ میں تباہی مچی۔غزہ حکام نے بتایا تھا کہ اسرائیلی فوج نے 7 اکتوبر سے غزہ کی پٹی پر 18 ہزار ٹن بم گرائے ہیں، جو دوسری جنگ عظیم میں جاپان کے ہیروشیما پر گرائے گئے ایٹم بم کی دھماکا خیز قوت سے 1.5 گنا زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ اور دنیا کی 28 تنظیمیں مل کر بھی اسرائیل کے آگے بے بس اسرائیلی جارحیت کو رکوانے میں ناکام ہو گئی ہیں۔ اسرائیلی فورسز کے غزہ پر فضائی حملے جاری ہیں اور غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کے دوران مزید 316 فلسطینی شہری شہید،درجنو ں زخمی ہو گئے۔ 7 اکتوبر سے اب تک شہید ہونیوالے افراد کی تعداد 10 ہزار 812 ہوگئی ہے۔مجموعی طور پر غزہ میں ابتک 2918 خواتین اور 4412 بچے شہید ہو چکے ہیں۔اس عرصے میں اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں 26 ہزار 905 فلسطینی زخمی ہوئے۔
اسرائیل کی بدترین جارحیت کی حمایت میں الحادی قوتوں کا گٹھ جوڑ اور مسلمان دشمنی کھل کر سامنے آچکی ہے جبکہ ان کا دوغلا پن بھی مسلم دنیا کے سامنے آچکا ہے۔اگر مسلم ممالک اب بھی متحد نہ ہوئے تو وہ الحادی قوتوں کی بربریت کا نشانہ بن کر فلسطین کی طرح ایک ایک کرکے اپنا وجود کھو بیٹھیں گے۔ امریکہ اور دوسرے طاقتور ملکوں کی من مانیوں نے اقوام متحدہ کو ایک غیرفعال ادارہ بنا دیا ہے’ یہ طاقتور ملک نہ صرف عالمی قوانین کی دھجیاں بکھیر رہے ہیں بلکہ تاریخ کے بدترین جارح اور ناجائز ریاست کا کھل کر ساتھ دے رہے ہیں جبکہ اقوام متحدہ ایک بے بس اور لاچار ادارہ بن کر انکی لونڈی کا کردار ادا کررہا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جنگی جرائم کا مرتکب ہونے پر اقوام متحدہ اسرائیل کیخلاف سخت کارروائی عمل میں لاتا اور اسکی پشت پناہی کرنیوالوں کو اسکی حمایت سے روکتا مگر اسکی حالت یہ ہے کہ سیکرٹری جنرل سمیت اسکے نمائندگان اسرائیل کی ننگی جارحیت اور فلسطین میں بدترین انسانی المیے پر تشویش کا اظہار تو کررہے ہیں مگر بااختیار ہونے کے باوجود اسکے جنونی ہاتھ روکنے میں بے بس نظر آتے ہیں۔ اگر فلسطین اور اسرائیل کی جنگ طول اختیار کرگئی تویہ جنگ پورے کرہ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کے ترجمان نے بتایا اسرائیلی فوج کی جانب سے طبی عملے کو ہدف بنانے کا سلسلہ تیز کر دیا گیا ہے، مزید 2 ہسپتال بند ہوچکے ہیں جس کے بعد مجموعی تعداد 18 ہوگئی ہے، جبکہ غزہ کے 9 لاکھ رہائشی ادویات، پناہ گاہ یا تحفظ کے بغیر زندہ رہنے پر مجبور ہیں۔ادھر عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او) نے غزہ میں بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی جارحیت کی وجہ سے فلسطینیوں میں بیماریاں پھیلنے کا سنگین خطرہ ہے، صحت کا نظام تباہ ہوگیا ہے، پناہ کیلئے نہ کوئی چھت ہے اور نہ ہی فلسطینیوں کیلئے صاف پانی تک رسائی ممکن ہے جس وجہ سے مختلف انفیکشن پھیلنے کا خطرہ ہے جس میں پیٹ کی خرابی جیسے مسائل شامل ہیں۔ اکتوبر کے وسط سے ڈائیریا کے 33ہزار551 سے زیادہ کیسزرپورٹ ہوئے ہیں، یہ کیسز زیادہ تر 5 سال سے کم عمر کے بچوں میں دیکھے گئے ہیں۔
اقوام متحدہ نے کہا ہے غزہ میں صحت، نکاسی آب، صاف پانی اور خوراک جیسی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں اور مکمل نظام منہدم ہونے کے قریب ہے۔ ظالم اسرائیلی فوج نے گزشتہ 24 گھنٹوں میں سکولوں، ہسپتالوں کے اطراف بمباری کی جبکہ جبالیا، نصیرات اور شاطئی کیمپوں میں رہائشی عمارتوں کو بھی نشانہ بنایا۔ حملوں سے عبادتگاہیں اور مساجد بھی محفوظ نہ رہ سکیں۔بمباری سے غزہ کے ہسپتال اور معالج سینٹرز تقریباً غیر فعال اور منہدم ہو چکے ہیں، جس کے باعث غزہ کے سنگین بیماریوں میں مبتلا ساڑھے 3 لاکھ مریض علاج کے بغیر تڑپنے پر مجبور ہیں۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے غزہ پٹی میں اموات کی تعداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ حماس کیخلاف اسرائیلی فورسز کی کارر و ا ئیوں میں کہیں واضح غلطی ہے۔
اسرائیل نے شمالی غزہ سے فلسطینیوں کو انخلا کی اجازت دینے کیلئے روزانہ چار گھنٹے جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے۔ وقفے کے دوران ان علاقوں میں کوئی فوجی کارروائی نہیں ہوگی۔ اسرائیل کم از کم تین گھنٹے پہلے وقفے کا اعلان کریگا۔جان کربی نے کہا ہم سمجھتے ہیں یہ وقفے صحیح سمت میں ایک قدم ہے جس سے شہریوں کو فعال لڑائی سے دور محفوظ علاقوں تک پہنچنے کا موقع ملے گا۔ یہ وقفے انسانی امداد کو ان علاقوں میں منتقل کرنے کی اجازت دیں گے جہاں ان پر عملدرآمد کیا گیا ہے اور وہاں موجود فلسطینیوں کو باہر نکلنے کا موقع ملے گا۔اسرائیلی فورسز غزہ میں زمینی لڑائی کے علاوہ فضا ئی حملے بھی کر رہی ہیں جس کے نتیجے میں شہر سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ کے دفتر رابطہ برائے انسانی امور کا کہنا ہے گزشتہ روز 50,000 افراد نے غزہ کی پٹی کے جنوبی حصے کی طرف نقل مکانی کی۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر