وجود

... loading ...

وجود
وجود

علامہ اقبال اور قائد کی فلسطین کے حق میں آواز !!

اتوار 15 اکتوبر 2023 علامہ اقبال اور قائد کی فلسطین کے حق میں آواز !!

ریاض احمدچودھری

بانیانِ پاکستان حضرت علامہ محمد اقبال اور حضرت قائداعظم محمدعلی جناح نے فلسطین کی آزادی کے حق میں ہمیشہ بلند آہنگ کے ساتھ آواز اٹھائی۔ پاکستان کی ہر حکومت نے بھی اپنے قائدین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر فورم پر القدس کی آزادی کا نعرہ بلند کیا۔ لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ہی القدس پر اسرائیلی افواج کی متشددانہ کارروائیوں میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔ اسرائیل کی ناجائز حکومت کو امریکہ’ برطانیہ اور دیگر اسلام دشمن طاقتوں کی حمایت حاصل ہے۔ چنانچہ اسرائیل جب کبھی بھی فلسطینیوں کیخلاف وحشیانہ کارروائی کرتا ہے’ عالمی برادری خصوصاً امریکہ’ برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کی اسے سپورٹ حاصل ہوتی ہے۔ وہ ان باطل قوتوں کی تھپکی سے جب جی چاہتا ہے مظلوم فلسطینیوں کو اپنے ظلم و جبر کا نشانہ بناتا ہے۔اسرائیل پر حماس کے حملوں کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے ایک بار پھر فلسطین پر اسرائیلی جارحیت اور بمباری کو اسرائیل کا حق اور فرض قرار دیا اور اسرائیل کو اپنے ساتھ کا یقین دلاتے ہوئے کہا کہ حملوں کا جواب دینا اسرائیل کا حق اور فرض ہے۔ امریکا یقینی بنائے گا کہ اسرائیل اپنا دفاع کرسکے۔
دشمنان اسلام جب بھی مسلمانو ںپر کوئی حملہ کرتے ہیں تو بدقسمتی سے مسلم ممالک کے حکمران لفظی مزاحمت سے بڑھ کر کچھ نہیں کر پاتے۔ اسرائیل حماس جنگ میں بھی ابھی تک مسلم ممالک کے سربراہان محض بیانات جاری کرنے تک محدود رہے ہیں۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ اسرائیل حرمین شریفین پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔حرمین شریفین کو اصل خطرہ اسرائیل سے ہے جس کیساتھ عرب بادشاہتیں تعلقات قائم کر رہی ہیں۔ اگر مسلم حکمرانوں نے اسرائیل کے خلاف مزاحمت نہ کی تو وہ دن دور نہیں جب خدانخواستہ مکہ بھی ان کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ بقول طیب اردگان کے، کہ اگر ہم نے یروشلم کو کھو دیا تو ہم مدینہ کا تحفظ کرنے کے قابل بھی نہیں رہیں گے اور اگر ہم نے مدینہ کو کھو دیا تو ہم مکہ اور کعبہ کو بھی کھو دیں گے۔ حرمین شریفین کو اصل خطرہ اسرائیل سے ہے اور یہ بات مسلم حکمرانوں کو سمجھنا ہو گی۔دوسری طرف اسرائیل کی فلسطین میں جارجیت کا سلسلہ جاری ہے اوراسرائیلی افواج بلا امتیاز رہائشی عمارتوں’ خواتین اور بچوں کو بھی نشانہ بنا رہی ہیں۔ فلسطین کی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے علاقوں پر ممنوعہ فاسفورس بم استعمال کیے جا رہے ہیں۔ممنوعہ وائٹ فاسفورس سے زمین پر وسیع علاقے میں آگ بھڑک اٹھتی ہے، انسانی جسم کے پٹھوں اور ہڈیوں تک کو جلادیتا ہے۔ حماس کے حملوں کے بعد غزہ پر اسرائیلی بمباری تیز ہوگئی ہے اور ہزاروں ٹن بارود محصور غزہ پر گرایا گیا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے بجلی، پانی اور ایندھن بھی بند کردیا گیا ہے جس کے بعد سے غزہ میں انسانی بحران سر اٹھا رہا ہے۔اسرائیل کی جانب سے غزہ پر بمباری کے نتیجے میں ایک ہزار سے زائد افراد شہید اور سیکڑوں زخمی ہوگئے جبکہ شہدا میں بڑی تعداد میں بچے بھی شامل ہیں۔اسرائیل نے رہائشی عمارتوں، مساجد، دکانوں، فیکٹریوں اور ایمبولینسوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔
مذہبی و سیاسی جماعتوں نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے ملک گیر مظاہروں اور قومی کانفرنس کے انعقاد کا اعلان کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ گوں مگوں کی صورت حال سے نکل کر ارضِ مقدس کی آزادی کے لیے قائدانہ کردار ادا کرے۔ مسئلہ فلسطین کا دوریاستی حل قائداعظم محمد علی جناح اورپاکستان کی ریاستی پالیسی سے مطابقت نہیں رکھتا۔ اسرائیل ایک ناجائراور قابض ریاست ہے اور اسے کسی صورت تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔ عرب ممالک امریکا کی جانب دیکھنے کی بجائے واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرتے تو فلسطین اور مسجد اقصیٰ یہودیوں کے تسلط سے آزاد ہوجاتی۔ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو موجودہ موقع جو حماس نے قربانی دے کر انھیں فراہم کیا ہے ضائع نہیں کرنا چاہیے، وہ کھل کر فلسطینیوں کی حمایت میں آگے آئیں اور اس موقف کو اختیار کریں جو پوری امت کا ہے۔ حماس نے اسرائیلی دفاعی حصار کو توڑ کر رکھ دیا اور اس کارروائی کے دوران کسی قسم کی انسانی حقوق کی خلاف ورزی بھی نہیں ہوئی، بچوں پر ہاتھ اٹھایا گیا، نہ خواتین سے زیادتی ہوئی۔ سالہاسال سے ظلم سہنے اور دنیا کی خاموشی دیکھنے کے بعد فلسطینیوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جدوجہد کریں، اقوام متحدہ کے چارٹر میں ہر مظلوم قوم کو یہ حق دیا گیا ہے۔ غزہ ایک چھوٹی سی پٹی ہے۔ فلسطینیوں نے غلامی مسترد کر دی اور کم تعداد کے باوجود طویل عرصے سے مزاحمت جاری رکھی ہوئی ہے۔ امریکا ٹینکوں سے چڑھائی کرنے والے اسرائیل کا ساتھ دیتا رہا۔ اس وقت غزہ کے مسلمان امت مسلمہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ ہمارا خیال تھا کہ فوری طور پر او آئی سی کا اجلاس ہوگا لیکن افسوس ہے کہ او آئی سی کا اجلاس نہیں ہوا۔ ہمیں غیرت، بہادری اور جرات کے ساتھ فلسطینیوں کا ساتھ دینا چاہیے۔ عرب ممالک نے امریکا کی طرف دیکھنے کی بجائے فلسطینیوں کا ساتھ دیا تو فلسطین آزاد ہوسکتا ہے۔
اقوام متحدہ سمیت عالمی قوتوں نے اسرائیل اور حماس سے تحمل سے کام لینے کی درخواست کرتے ہوئے کہا ہے کہ خطے میں امن کے قیام کے لیے دونوں کو مل کر بیٹھنا ہوگا۔اقوام متحدہ نے غزہ کی مکمل ناکہ بندی، بجلی، پانی اور خوراک کی ترسیل بند کرنے کے عمل کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے شہریوں کی بقا کو خطرہ ہے۔ اسرائیل کا غزہ کی پٹی کا مکمل محاصرہ جس سے شہری زندگی کی بقا کے لیے ضروری اشیا سے محروم ہوجائیں، عالمی قانون کے تحت ممنوع ہے۔ لوگوں کے وقار اور جانوں کا احترام کیا جانا چاہیے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے کہا کہ تقریباً ایک لاکھ 37 ہزار فراد اقوام متحدہ کی فلسطینیوں کو ضروری خدمات فراہم کرنے والی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے کے پاس پناہ لے رہے ہیں۔ اس پوری صورتحال میں مسلم ممالک اور اقوامِ متحدہ کٹھ پتلیوں کا کردار ادا کررہے ہیں جبکہ امریکا سمیت کئی مغربی ممالک آگے بڑھ کر غاصب اسرائیلیوں کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں۔ ان حالات میں اگر مظلوم فلسطینی اپنے دفاع کے لیے غاصب اسرائیلی سکیورٹی فورسز کے خلاف مزاحمت بھی نہ کریں تو اور کیا کریں۔ اگر اقوامِ متحدہ واقعی اس مسئلے کو مستقل بنیادوں پر حل کرانے میں سنجیدگی رکھتا ہے تو اسے بین الاقوامی طور پر مسلمہ دو ریاستی فارمولے پر عمل درآمد یقینی بنانا ہوگا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر