وجود

... loading ...

وجود

پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، چیف جسٹس فائز اور درخواست گزار کے وکیل میں تلخ جملوں کا تبالہ

پیر 09 اکتوبر 2023 پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ، چیف جسٹس فائز اور درخواست گزار کے وکیل میں تلخ جملوں کا تبالہ

سپریم کورٹ آف پاکستان میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی کے درمیان تلخ جملوں کا تبالہ ہوا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے کی۔ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی فل کورٹ میں شامل ہیں۔ دورانِ سماعت صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد زبیری نے دلائل دیے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ان سے استفسار کیا کہ آئین تو پہلے ہی سپریم کورٹ کو پابند کرتا ہے کہ آئین و قانون کے مطابق رولز بنائے۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے عابد زبیری سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میرے سوال کا جواب دیدیں کہ سبجیکٹ ٹولاء کو نکال دیں تو رولز بنانے کے اختیار پر کیا فرق پڑے گا، وقت کم ہے جواب جلدی دیں۔ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آئین سے آئین و قانون کے مطابق رولز بنانے کے الفاظ ہٹا دیے جائیں تو بھی فرق نہیں پڑے گا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ بس ٹھیک ہے جواب آ گیا اگلے نکتے پر جائیں۔ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ اگر آرٹیکل 191 میں کہا جاتا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ سے متعلق قانون سازی کر سکتی ہے تو ٹھیک تھا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایک اور سوال ہے کہ کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کے اختیار سے تجاوز کر کے قانون بنا سکتی ہے؟ دیکھنا ہو گا آئین کسی بھی ادارے کو آئینی حدود کا پابند کہاں بناتا ہے، آئین سپریم کورٹ کو آئین و قانون کے مطابق رولز بنانے کے لیے بااختیار بناتا ہے بات ختم۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مسٹر زبیری! میں آپ سے دلائل سننا چاہتا ہوں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار دیا گیا جو اس نے استعمال کیا، کیا اس کے بعد قانون سازی سے سپریم کورٹ کے رولز کو بدلا جا سکتا ہے۔ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ جب سپریم کورٹ نے رولز بنا لیے تو قانون کے ذریعے نہیں بدلا جا سکتا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آج کو سماعت مکمل کرنی ہے، میں وکلاء کو سننا چاہتا ہوں، جج صاحبان اپنے فیصلے میں جو لکھنا چاہتے ہیں لکھیں۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین و قانون کے مطابق رولز بنانے کے لیے پابند کرنے کا مطلب ہے موجودہ قانون کے مطابق رولز بنیں گے۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ کیس سن رہے ہیں اور ہمارے ادارے میں کیسز کا بوجھ بڑھ رہا ہے، کیس کو ختم کرنا ہے، اپنے دلائل 11 بجے تک ختم کریں، ہم میں سے جس کو جو رائے دینی ہے فیصلے میں لکھ دیں گے، آپ نے تحریری دلائل جمع کرائے تھے؟ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ ابھی اپنا تحریری جواب جمع کرایا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالت نے پہلے سے تحریری دلائل جمع کرانے کا حکم دیا تھا، اتنے سارے کاغذات ابھی پکڑا دئیے، کون سے ملک میں ایسے ہوتا ہے کہ کیس کی سماعت میں تحریری جواب جمع کراؤ؟ ہر بات میں امریکی اور دوسری عدالتوں کا حوالہ دیتے ہیں یہاں بھی بتائیں۔ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس پاکستان نے وکیل عابد زبیری سے کہا کہ کم از کم امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے کا تو حوالہ دیں، ہمارا لیول اتنا نہ گرائیں کہ نیو جرسی کی عدالت کے فیصلے کو بطور مثال پیش کر رہے ہیں، یہ تو فیصلہ بھی نہیں ہے۔ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نیوجرسی کی عدالت میں کہا گیا ہے کہ قانون سازی اور رولز بنانے میں فرق ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے وکیل عابد زبیری سے کہا کہ آرٹیکل 175 ٹو کو آرٹیکل 191 کے ساتھ ملا کر پڑھیں، آرٹیکل 175 ٹو میں کسی بھی عدالت کے مقدمات سننے کا اختیار بتایا گیا ہے۔ وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے رولز سے متعلق آرٹیکل 142 اے اور اینٹری 55 کو ملا کر پڑھنا ہو گا، سپریم کورٹ کے رولز بنانے کے اختیار سے متعلق آئینی شق کو تنہا نہیں پڑھا جا سکتا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فل کورٹ یہ مقدمہ سن رہی ہے تاکہ وکلاء سے کچھ سمجھ اور سیکھ سکیں، آئینی شقوں پر دلائل دیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئینی شقوں کو ملا کر پڑھنا ہوتا ہے، آئین کے کچھ آرٹیکل اختیارات اور کچھ ان اختیارات کی حدود واضح کرتے ہیں۔ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ یہ تو معزز سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی ہے۔ جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ معزز سپریم کورٹ نہیں ہوتی، معزز ججز ہوتے ہیں، اصطلاحات ٹھیک استعمال کریں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم یہاں آئین اور قانون سازوں کی نیت دیکھ رہے ہیں، اگر آئین سازوں کی نیت دیکھنی ہے تو آرٹیکل 175 دیکھیں، اگر آئین سازوں کو مکمل اختیار سپریم کورٹ کو دینا ہوتا تو واضح لکھ دیتے، کوئی بھی ضابطہ قانون یا آئین سے متصادم ہو گا تو خودہی کالعدم ہو جائے گا۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میں سوال واضح کر دیتا ہوں، جوڈیشل کمیشن، سپریم جوڈیشل کونسل کے رولز سے متعلق آئین میں لکھا ہے آئینی باڈیز خود قانون بنائیں گی، جب سپریم کورٹ کے ضابطوں سے متعلق آرٹیکل 191 میں لکھا ہے کہ قانون سے بھی بن سکتے ہیں، سوال یہ ہے آئین سازوں نے خود آئین کے ساتھ قانون کا آپشن دیا۔جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ کے رولز پر پارلیمنٹ نے پابندی لگائی لیکن ہائی کورٹ اور شریعت عدالت کے ضابطوں پر کیوں نہیں لگائی؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ہائی کورٹس اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر بنانے کے لیے خود بااختیار ہیں۔وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آج بھی سپریم کورٹ اپنے رولز خود بنا لے تو کوئی اعتراض نہیں اٹھا سکتا، آئین کہتا ہے سپریم جوڈیشل کونسل اپنے قوانین خود بنائے گی جن کی وقعت آئینی ضوابط کے برابر ہو گی۔جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا وفاقی شریعت عدالت اپنے رولز بنانے کے اختیار میں سپریم کورٹ سے بھی اونچی سطح پر ہے؟ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ اگر اپنے رولز خود بنائے تو وہ تمام رولز سے اونچی سطح پر ہوں گے، اب آئین میں درج سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار پر دلائل دوں گا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے وکیل عابد زبیری سے استفسار کیا کہ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو رولز بنانے کا اختیار دیتا ہے، دائرہ اختیار بتاتا ہے؟وکیل عابد زبیری نے جواب دیا کہ آرٹیکل 191 سپریم کورٹ کو رولز بنانے کی پاور دیتا ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ پاکستان میں 184 تین کا استعمال کیسے ہوا؟ کیا ہیومن رائٹس سیل کا تذکرہ آئین یا سپریم کورٹ رولز میں ہے؟ آرٹیکل 184 تین سے متعلق ماضی کیا رہا؟ یا تو کہہ دیتے کہ 184 تین میں ہیومن رائٹس سیل بن سکتا تھا، اس بات پر تو آپ آنکھیں بند کر کے بیٹھ گئے ہیں، اس سے پہلے کہ دنیا مجھ پر انگلی اٹھائے میں خود اپنے اوپر انگلی اٹھا رہا ہوں، آپ یہ تو کہہ دیں کہ سپریم کورٹ کے ایک چیف جسٹس نے غلطی کی تو پارلیمنٹ اسے درست کر سکتی ہے یا نہیں؟ نیو جرسی نہ جائیں، پاکستان کی ہی مثال دے دیں، سپریم کورٹ غلطی کر دے تو کیا پارلیمنٹ اسے درست کر سکتی ہے؟چیف جسٹس نے عابد زبیری سے سوال کیا کہ آپ پی ٹی آئی کی نمائندگی نہیں کر رہے؟ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ نہیں میں سپریم کورٹ بار کی نمائندگی کر رہا ہوں، آپ کی رائے سن چکا ہوں، ابھی آرٹیکل 184 تین پر آ رہا تھا، میں آپ سے متفق ہوں کہ آرٹیکل 184 تین کا غلط استعمال ہوتا رہا ہے۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ پارلیمنٹ کے پاس ویسے بھی اختیار ہے کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھا یا کم کر سکتی ہے، کیا پارلیمنٹ بنیادی حقوق سے متعلق قانون سازی نہیں کر سکتی؟جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اس کیس میں اچھے برے یا صحیح غلط کا سوال نہیں، اختیار کا سوال ہے، یہ بتائیں قانون جتنا بھی اچھا ہو، سپریم کورٹ کے رولز بنانے کا اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے یا نہیں۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ انصاف تک رسائی کے حق کی سپریم کورٹ خلاف ورزی کر رہی ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت نہیں کر سکتی؟ آپ اس کیس کے قابلِ سماعت ہونے پر دلیل نہیں دے سکے، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر سے زیادہ بڑا مسئلہ جبری گمشدگیوں کا ہے، اگر چیف جسٹس یہ کیس پہلے مقرر کر رہے ہیں اور جبری گمشدگیوں سے متعلق نہیں تو پارلیمنٹ قانون سازی نہیں کر سکتی؟ چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ ماضی میں آرٹیکل 184 تین کا استعمال صحیح ہوا یا غلط؟ میرے سوال کا جواب دیں بطور سپریم کورٹ بار آپ کی کیا رائے ہے؟ اگر مگر نہیں، سیدھا جواب دیں۔وکیل عابد زبیری نے کہا کہ آرٹیکل 184 تین کا غلط استعمال ہوا اور اس کے خلاف اپیل ہونی چاہیے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کے مطابق آرٹیکل 184 تین کا دائرہ اختیار نہ پارلیمنٹ بڑھا سکتی ہے نہ ہی سپریم کورٹ، پھر ہم یہ کیس کیوں سن رہے ہیں؟ سپریم کورٹ مقدمات میں آرٹیکل 184 تین کا دائرہ بڑھائے تو ٹھیک اور پارلیمنٹ بڑھائے تو غلط، اگر انکم ٹیکس آرڈیننس یا فیملی رائٹس میں ترمیم ہو تو کیا براہِ راست سپریم کورٹ میں درخواست آ سکتی ہے؟وکیل عابد زبیری نے کہا کہ بالکل آ سکتی ہے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کا جواب نوٹ کر رہا ہوں کہ بنیادی حقوق کے علاوہ بھی قانون سازی براہِ راست سپریم کورٹ میں چیلنج ہو سکتی ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ کے لیے دروازہ کھول دیں کہ سپریم کورٹ کے ہر معاملے میں مداخلت کرے گی، ایک بار دروازہ کھل گیا تو اس کا کوئی سرا نہیں ہو گا، قانون سازی اچھی یا بری بھی ہو سکتی ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ قانون سازی درست ہے تو ٹھیک ورنہ کالعدم قرار دے دیں، آئین اس طرح سے نہیں چل سکتا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ماضی کو دیکھیں، ایک شخص آتا ہے اور پارلیمنٹ کو ربر اسٹیمپ بنا دیتا ہے، امریکا میں یہ سب نہیں ہوتا، ہمارا ماضی بہت بوسیدہ ہے، سپریم کورٹ بار خود تو درخواست لے کر نہیں آئی۔ وکیل عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ بار نے جو درخواستیں کیں وہ تو مقرر نہیں ہو رہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر آپ اس کیس کو ختم کریں تو باقی مقرر ہوں، کل کی باتیں نہ کریں آج کی صورتِ حال بتائیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ ایکٹ میں آئین کی کون سی شق کا حوالہ دیا گیا ہے؟ ایسے تو سادہ اکثریت سے قانون سازی کا دروازہ کھولا جا رہا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین میں سادہ اکثریت سے بالواسطہ ترمیم کر کے دروازہ کھولا جا رہا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آرٹیکل 184 تین کا اختیار آئین میں رہ کر استعمال کیا گیا ہوتا تو ایسی قانون سازی نہ ہوتی، آپ مدعی ہیں نہ مدعا علیہ تو پھر اس ایکٹ کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟جسٹس مظاہر نقوی نے سوال کیا کہ آرٹیکل 184 تین میں اپیل سے اصل دائرہ اختیار کے کیس کی دوبارہ سماعت کا حق کیسے دے دیا گیا؟چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پارلیمنٹ کو تو کہتے ہیں نمبر گیم پورا ہونا چاہیے لیکن فردِ واحد آئینی ترمیم کرے تو وہ ٹھیک ہے، پارلیمنٹ کچھ اچھا کرنا چاہتی ہے تو اسے کچلنا کیوں چاہتے ہیں؟جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھانے سے متعلق دلائل دیں۔ چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم بھی مانتے ہیں کہ صوبائی اسمبلیوں کو ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں ہے، بس اب دلائل ختم کریں، یہ تاثر مت دیں کہ آپ یہ کیس ختم کرنا نہیں چاہتے۔ جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ اگر کسی نے 188 کے تحت نظرِ ثانی ایک بار دائر کر دی تو وہ اپیل نہیں کر سکتا، ایکٹ کے تحت نظرِ ثانی کے خلاف تو اپیل کا حق نہیں دیا گیا۔چیف جسٹس نے عابد زبیری سے کہا کہ بوجھ سپریم کورٹ پر پڑے گا تو گھبراہٹ آپ کو کیوں ہو رہی ہے؟ آپ کے دلائل مکمل ہو گئے، اگلے فریق کو 20 منٹ سنیں گے۔


متعلقہ خبریں


اسٹیبلشمنٹ سے بات نہیں ہوگی، آزادی یا موت ، غلامی قبول نہیں ،عمران خان وجود - بدھ 05 نومبر 2025

بانی پی ٹی آئی نے محمود خان اچکزئی اور علامہ راجا ناصر کو حکومت، اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کا اختیار دے دیا،فارم 47 کی حکومت سے کیا مذاکرات ہوسکتے ہیں، ان کے ساتھ بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں جب بھی اسٹیبلشمنٹ سے بات کی یہ پی ٹی آئی پر اور زیادہ ظلم کرتے ہیں اور سارا کنٹرول فرد واح...

اسٹیبلشمنٹ سے بات نہیں ہوگی، آزادی یا موت ، غلامی قبول نہیں ،عمران خان

آئینی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیاں متوقع،27ویں آئینی ترمیم کا منصوبہ تیار،اگلے ہفتے منظوری کا امکان وجود - بدھ 05 نومبر 2025

آئینی ترمیم پہلیسینیٹ میں پیش کی جائے گی، دونوں ایوانوں سے منظور کروائے جانے کا امکان ہے،تمام سیاسی جماعتوں کے اراکین اور مرکزی قیادت کی نمائندگی ہوگی حکومت نے آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے فریم ورک تیار کرلیا، ترمیم کا مجوزہ ڈرافٹ پارلیمانی کمیٹی میں پیش کیا جائیگا، منظوری کے ب...

آئینی ڈھانچے میں بڑی تبدیلیاں متوقع،27ویں آئینی ترمیم کا منصوبہ تیار،اگلے ہفتے منظوری کا امکان

سپریم کورٹ کی کینٹین میں گیس سلنڈر کا دھماکا،12افراد زخمی وجود - بدھ 05 نومبر 2025

تین زخمی پمز اور 9 پولی کلینک اسپتال منتقل ،2کی حالت تشویشناک،آئی جی اسلام آباد کینٹین میں کئی روز سے گیس لیک ہو رہی تھی اور مرمت کے دوران دھماکا ہوا، میڈیا سے گفتگو سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کے بیسمنٹ میں ایک دھماکا ہوا ہے، جس کے نتیجے میں 12فراد زخمی ہوگئے۔ دھماکا س...

سپریم کورٹ کی کینٹین میں گیس سلنڈر کا دھماکا،12افراد زخمی

عمران خان کی رہائی کیلئے جنگ جاری رکھیں گے، علیمہ خان وجود - بدھ 05 نومبر 2025

ابھی تک تو کورٹس کے اندر کھڑے ہیں، کل ہم آکر کہیں پر بھی بیٹھ جائیں گے،ہمشیرہ بانی یہ نہیں ہو سکتا آپ سوچیں ہم ڈر جائیں گے ، جیلوں میں ڈالنا ہے ڈال دو،میڈیا سے گفتگو بانی پی ٹی آئی کی بہن علیمہ خان نے کہا ہے کہ ہم بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے جنگ جاری رکھیں گے۔علیمہ خان ...

عمران خان کی رہائی کیلئے جنگ جاری رکھیں گے، علیمہ خان

امریکا غزہ میں عالمی فوج کی تعیناتی کیلئے سرگرم (اقوام متحدہ سے منظوری مانگ لی) وجود - بدھ 05 نومبر 2025

فورس غزہ بورڈ آف پیس کے مشورے سے تشکیل دی جائے گی، صدارت ٹرمپ کریں گے امریکا نے یو این ایس سی کے رکن ممالک کو ڈرافٹ قرارداد ارسال کردیا،امریکی ویب سائٹ امریکا نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے درخواست کی ہے کہ غزہ میں ایک بین الاقوامی سیکیورٹی فورس (ISF) قائم کرنے کی منظوری دی...

امریکا غزہ میں عالمی فوج کی تعیناتی کیلئے سرگرم (اقوام متحدہ سے منظوری مانگ لی)

فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی،آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر وجود - منگل 04 نومبر 2025

دہشتگردوں سے کبھی بات نہیں ہوگی،طالبان سے مذاکرات کی بات کرنے والے افغانستان چلے جائیں تو بہتر ہے، غزہ فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کریں گے، جنرل احمد شریف چوہدری افغانستان میں ڈرون حملے پاکستان سے نہیں ہوتے نہ امریکا سے ایسا کوئی معاہدہ ہے،،بھارت کو زمین، سمندر اور فض...

فوج سیاست میں نہیں الجھناچاہتی،آئین میں ترمیم حکومت اور پارلیمنٹ کا کام ہے،ڈی جی آئی ایس پی آر

کراچی،فتنۃ الخوارج کے انتہائی مطلوب 3 خوارجی گرفتار وجود - منگل 04 نومبر 2025

رینجرزکاخفیہ معلومات پر منگھوپیرروڈ کنواری کالونی میں آپریشن،اسلحہ اور دیگر سامان برآمد گرفتاردہشت گرد خوارجی امیرشمس القیوم عرف زاویل عرف زعفران کے قریبی ساتھی ہیں (رپورٹ: افتخار چوہدری)سندھ رینجرز کی کارروائی میں فتنۃ الخوارج کے انتہائی مطلوب تین ملزمان کو گرفتار کرلیا گی...

کراچی،فتنۃ الخوارج کے انتہائی مطلوب 3 خوارجی گرفتار

علیمہ خان کے 7 ویں مرتبہ وارنٹ گرفتاری جاری وجود - منگل 04 نومبر 2025

بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ اور ان کے وکلا آج بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے نمل یونیورسٹی کے ٹرسٹی اکاؤنٹس منجمد نہ کرنے 5 بینکوں کو شوکاز نوٹس جاری کردیا انسداد دہشت گردی عدالت نے بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان کے 7 ویں مرتبہ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیٔے۔راولپن...

علیمہ خان کے 7 ویں مرتبہ وارنٹ گرفتاری جاری

سرحد پار دہشت گردی ، فیصلہ کن اقدامات جاری رکھیںگے، وزیر دفاع وجود - پیر 03 نومبر 2025

افغان ترجمان کی جانب سے بدنیتی پر مبنی اور گمراہ کن تبصروں سے حقائق نہیں بدلیں گے، پاکستانی قوم، سیاسی اور عسکری قیادت مکمل ہم آہنگی کے ساتھ قومی سلامتی کے امور پر متحد ہیں،خواجہ آصف عوام افغان طالبان کی سرپرستی میں جاری بھارتی پراکسیوں کی دہشت گردی سے بخوبی واقف ہیں،طالبان کی...

سرحد پار دہشت گردی ، فیصلہ کن اقدامات جاری رکھیںگے، وزیر دفاع

سی ٹی ڈی تھانے میں دھماکا، اہلکار جاں بحق ،2 زخمی وجود - پیر 03 نومبر 2025

مال خانے میں شارٹ سرکٹ سے دھماکا ، اطراف کا علاقہ سیل کر دیا گیا دھماکے سے عمارت کے ایک حصے کو نقصان پہنچا، واقعہ کی تحقیقات جاری پشاور میں یونیورسٹی روڈ پر محکمہ انسداد دہشتگردی (سی ٹی ڈی) کے تھانے میں دھماکے کے نتیجے میں ایک اہلکار شہید اور 2 زخمی ہوگئے۔کیپیٹل سٹی پولیس آف...

سی ٹی ڈی تھانے میں دھماکا، اہلکار جاں بحق ،2 زخمی

کراچی ،ای چالان کے بعد اہلکار تبادلے کرانے لگ گئے وجود - پیر 03 نومبر 2025

کام نہ کرنیوالے اہلکار ٹریفک پولیس سے ضلعی پولیس میں تبادلے کرا رہے ہیں، ڈی آئی جی ٹریفک ہمیں انھیں روکنے میں دلچسپی نہیں،اب فورس میں وہی رہے گا جو ایمان داری سے کام کریگا،گفتگو ڈی آئی جی ٹریفک نے انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں ای چالان سسٹم کے آغاز کے بعد سے ٹریفک اہلکار تباد...

کراچی ،ای چالان کے بعد اہلکار تبادلے کرانے لگ گئے

عمران خان کو مشترکہ لائحہ عمل کے تحت رہا کروائیں گے، سہیل آفریدی وجود - پیر 03 نومبر 2025

کارکنان کا یہ جذبہ بانی پی ٹی آئی سے والہانہ محبت کا عکاس ہے،وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پی ٹی آئی سندھ کے کارکنان و دیگر کی ملاقات ، وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے پر مبارکباد وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کا کہنا ہے کہ مشترکہ لائحہ عمل کے تحت بانی پاکستان تحریک انصاف (...

عمران خان کو مشترکہ لائحہ عمل کے تحت رہا کروائیں گے، سہیل آفریدی

مضامین
بھارتی جوہری مواد سے تابکاری جاری وجود بدھ 05 نومبر 2025
بھارتی جوہری مواد سے تابکاری جاری

سوڈان کاالمیہ وجود بدھ 05 نومبر 2025
سوڈان کاالمیہ

دکھ روتے ہیں! وجود بدھ 05 نومبر 2025
دکھ روتے ہیں!

پاکستان کا پہلا ہائپر ا سپیکٹرل سیٹلائٹ وجود منگل 04 نومبر 2025
پاکستان کا پہلا ہائپر ا سپیکٹرل سیٹلائٹ

پاکستان کے خلاف بھارتی کارروائی بے نقاب وجود منگل 04 نومبر 2025
پاکستان کے خلاف بھارتی کارروائی بے نقاب

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر