وجود

... loading ...

وجود
وجود

ازخود نوٹس کا اختیار چھوڑنے کے لیے تیار ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

پیر 18 ستمبر 2023 ازخود نوٹس کا اختیار چھوڑنے کے لیے تیار ہوں، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے گزشتہ روز تشکیل کردہ فل کورٹ بینچ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023‘ کے خلاف دائر 9 درخواستوں پر سماعت کر رہا ہے، ملکی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست نشر کی جا رہی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ہے۔ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ معذرت چاہتا ہوں کہ سماعت شروع ہونے میں تاخیر ہوئی، تاخیرکی یہ وجہ تھی کہ اس سماعت کو لائیو دکھایا جا سکے۔ انہوں نے ریمارکس دیے کہ ہم فل کورٹ میٹنگ میں تھے، ہم نے پائلٹ پروجیکٹ کے طور پر کارروائی براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اس کیس میں 9 درخواست گزار تھے، نام بتائیں کس کس نے دلائل دینے ہیں۔ درخواست گزار کی جانب سے وکیل خواجہ طارق رحیم نے چیف جسٹس کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا، انہوں نے کہا کہ یہ میرے لیے قابل فخر ہے کہ فل کورٹ کے سامنے پیش ہو رہا ہوں، امید ہے بار اور بنیچ مل کر کام کریں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پاکستان بار کونسل کی فل کورٹ بننے کی درخواست منظور کرتے ہوئے ہم نے فل کورٹ بنا دیا ہے۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ ہم میں سے کچھ لوگوں نے کیس پہلے سنا کچھ نے نہیں سنا، سوال تھا کیا انہوں نے پہلے کیس سنا وہ بینچ کا حصہ ہوں گے یا نہیں، پھر سوال تھا کے کیا سینیئر ججز ہی بینچ کا حصہ ہوں گے، ہمیں مناسب یہی لگا کہ فل کورٹ بنائی جائے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کون سی درخواست میں وکیل ہیں؟ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اس قانون میں اپیل کا حق دیا گیا، اس پر آپ کیا دلائل دیں گے؟ خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ مجھے اتنا علم ہے کہ مجھے اپیل کا حق نہیں، جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ اس میں پھر دیگر رولز ہیں، اُس کا کیا ہوگا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ کو سننا چاہتے ہیں لیکن درخواست پرفوکس رکھیں، ہمارا مقصد یہ نہیں کہ آپ ماضی پربات نہ کریں لیکن آپ فوکس رہیں، ’پارلیمنٹ اومنی پوٹینٹ ہے‘ کا لفظ قانون میں کہیں نہیں لکھا، آپ فوکس رکھیں۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ میں بھی فل کورٹ کی حمایت کرتا ہوں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماضی کو بھول جائیں، آج کی بات کریں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرقانون کے مطابق 184/3 میں اپیل کا حق دیا گیا، فل کورٹ اگرقانون درست قرار دے تو اپیل کون سنے گا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مناسب ہوگا پہلے قانون پڑھ لیں پھر سوالات کے جواب دیں، خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پہلے جسٹس عائشہ ملک کے سوال کا جواب دینا چاہوں گا۔ چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ آپ چیلنج کیا گیا قانون پڑھنا چاہتے ہیں یا نہیں؟ جسٹس عائشہ اے ملک نے خواجہ طارق رحیم سے استفسار کیا کہ اگر فل کورٹ اگر یہ کیس سنے گی تو اسی ایکٹ کی سیکشن 5 کا کیا ہو گا، کیا سیکشن 5 میں جو اپیل کا حق دیا گیا ہے اس پر عمل نہیں کیا جائے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ جیسے دلائل دینا چاہتے ہیں ویسے دیں، اپنی مرضی سے دلائل دیں اور بنیچ ممبر نے جو سوال کیا اس کا بھی جواب دیں، اپنی درخواست پر فوکس کریں ہزاروں کیس نمٹانے ہیں۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ سپریم کورٹ نے فل کورٹ کے ذریعے اپنے رولز بنا رکھے تھے، پارلمینٹ نے سپریم کورٹ کے رولز میں مداخلت کی۔ جسٹس اطہر من اللہ نے خواجہ طارق رحیم سے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب جو کچھ ماضی میں ہوتا رہا آپ اس کی حمایت کرتے ہیں؟ بتائیں پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں؟  چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب اپنے کسی معاون کو کہیں کہ سوالات نوٹ کریں، اپ کو فوری طور پر جواب دینے کی ضرورت نہیں، اپنے دلائل کے آخر میں سب سوالات کے جواب دے دیں، آپ بتائیں کہ پورا قانون ہی غلط تھا یا چند شقیں؟ خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ نے 3 ججز کی کمیٹی بنا کر عوامی مقدمات کے فیصلے کی قانون سازی کی  جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آئین کا آرٹیکل 191 کہا کہتا ہے؟ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ آرٹیکل 70 سے شروع کر کے تمام متعلقہ آئینی شقیں سامنے رکھوں گا، آئین پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں یہ قانون بنانا پارلیمان کا دائرہ کار نہیں تھا یا اختیار نہیں تھا، آئین اور قانون دونوں کا الگ کیا گیا اس پر آپ کی کیا تشریح ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب آپ جو باتیں کر رہے ہیں اس پر الگ درخواست لے آئیں، ابھی اپنی موجودہ درخواست پر فوکس کریں۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ بینچ کی تشکیل سے متلعق کمیٹی بنانے کا قانون کیا جوڈیشل پاور دے رہا ہے یا انتظامی پاور؟ کیا ہارلیمان انتظامی اختیارات سے متعلق قانون بناسکتی یے؟ کیا پارلیمان نئے انتظامی اختیارات دیکر سپریم کورٹ کی جوڈیشل پاور کو پس پشت ڈال سکتی ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب کیا اپ کو قبول ہے کہ ایک بندہ بینچ بنائے، پارلیمان نے اسی چیز کو ایڈریس کرنے کی کوشش کی ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے مؤکل کی کوئی ذاتی دلچسبی تھی یا عوامی مفاد میں درخواست لائے ہیں، خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ یہ درخواست عوامی مفاد میں لائی گئی ہے، پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار آئین سے مشروط ہے، رولز بنانے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر کا اختیار سپریم کورٹ کو دیا گیا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آئین کے ساتھ قانون کا بھی کہا گیا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی کے ذریعے چیف جسٹس کے اختیارات کو غیر موثر کیا جا سکتا ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا قانون سازی سے چیف جسٹس کی پاورز کو ختم کیا گیا یا پھر سپریم کورٹ کی؟ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ آئینی مقدمات میں کم سے کم 5 ججز کے بینچ کی شق بھی قانون سازی میں شامل کی گئی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے خواجہ طارق رحیم کو ہدایت دی کہ جس شق پر آپ کو اعتراض ہے آپ کہیں کہ مجھے اس پر اعتراض ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا اپ اس پر مطمئن ہیں کہ بینچ کی تشکیل کا اکیلا اختیار چیف جسٹس کا ہو، آپ اس پر مطمئن نہیں کہ چیف جسٹس 2 سینئیر ججز کی مشاورت سے فیصلہ کریں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب میں آپ کی زندگی آسان بنانا چاہتا ہوں، آپ نہیں چاہتے، آپ سے کہا ہے آپ صرف سوال نوٹ کریں۔ جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ کیا اس قانون سے چیف جسٹس کو بےاخیتار سا نہیں کردیا گیا؟ خواجہ طارق رحیم کے جواب دینے ہر چیف جسٹس نے پھر ٹوک دیا، انہوں نے ریمارکس دیے کہ آپ پھر جواب دینے لگ گئے ہیں، میں نے صرف کہا کہ ابھی صرف نوٹ کریں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا صرف قانون بنانے سے سپریم کورٹ کا اختیار متاثر ہوا یا چیف جسٹس کا؟ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ خواجہ صاحب میں یہی سمجھا کہ آپ مطمئن ہی پرانے ماڈل سے ہیں، آپ مطمئن ہیں کہ چیف جسٹس اکیلے ہی روسٹرم کے ماسٹر ہوں؟ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ خواجہ صاحب کیا اس طرح کے اختیارات پر سادہ قانون کی بجائے آئینی ترامیم نہیں ہونی چاہیے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ ایکٹ کا سیکشن فور 1956 کے آئین میں تھا لیکن بعد میں نکال دیا گیا، کیا اس قانون سازی کے لیے آئینی ترمیم درکار نہیں تھی؟ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ میرا بھی ایک سوال اپنی فہرست میں شامل کر لیں، اگر 17 جج بیٹھ کر یہی قانون بنا دیں تو ٹھیک ہے پارلیمنٹ نے بنایا تو غلط ہے؟ آپ کا پورا کیس یہی ہے نا؟ یہی ساری بحث آپ کر رہے ہیں؟ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ عدلیہ کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں سے ہے، عدالت اپنے رولز خود بنا سکتی ہے، کیا پارلیمنٹ اپنا قانون سازی کا اختیار استعمال کرتے ہوئے عدلیہ میں مداخلت کر سکتی ہے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ مسلسل سوالات سے ہم آپ کی زندگی مشکل اور ناممکن بنا رہے ہیں، ہمارے 100 سوالات میں اصل مدعا تو گم ہو جائے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ آرٹیکل 199 کے اندر اپیل کا حق دیا گیا تھا تو کیا وہ غلط تھا؟ ایک فوجی آمر کے دور میں سپریم کورٹ رولز بنے وہ ٹھیک تھے؟ اگر یہ قانون سازی غلط ہے تو وہ بھی غلط تھا۔ جسٹس سردار طارق مسعود نے خواجہ طارق رحیم کو ہدایت دی کہ آپ سوالات نوٹ کر لیں، جواب دینے کی ضرورت نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ سیکشن 5 کو آئین سمجھتے ہیں یا غیر آئینی؟ خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ ایک اچھی چیز اگر غیر آئینی طریقے سے دی گئی تو وہ غلط ہے۔ چیف جسٹس نے دوبارہ استفسار کیا کہ سیکشن 5 آئینی ہے یا غیر آئینی، خواجہ طارق رحیم نے جواب دیا کہ یہ غیر آئینی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا آپ پارلیمنٹ کا دائرہ اختیار محدود کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیا کیا نہیں کر سکتی؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پارلمینٹ قانون سازی سے سپریم کورٹ کے رولز میں ترامیم کر سکتی ہے؟چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ رولز کو چھوڑیں آئین کی بات کریں کیا آپ چیف جسٹس کو کسی کے سامنے جوابدہ نہیں بنانا چاہتے؟ ہم اس قانون سے بھی پہلے اوپر والے کو جواب دہ ہیں، مجھے بطور چیف جسٹس آپ زیادہ مضبوط کرنا چاہتے ہیں، میں تو پھر آپ کی درخواست 10 سال نہ لگاؤں تو آپ کیا کریں گے، آپ کا آئین سپریم کورٹ سے نہیں اللہ کے نام سے شروع ہوتا ہے۔ چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ ریکوڈک کیس میں ملک کو 615 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، ایسے اختیارات آپ مجھے دینا بھی چاہیں نہیں لوں گا، آپ ابھی جواب نہیں دینا چاہتے تو ہم اگلے وکیل کو سن لیتے ہیں۔ خواجہ طارق رحیم کے دلائل مکمل ہونے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ چاہیں تو ہمیں عدالتی سوالات کے تحریری جوابات جمع کروا سکتے ہیں۔ وکیل خواجہ طارق رحیم کے بعد دوسرے درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ قانون دنیا کا بدترین قانون بھی ہو سکتا ہے مگر آرٹیکل 184/3 کے تحت دیکھیں گے، آرٹیکل 184/3 تو عوامی مفاد کی بات کرتا ہے آپ بتائیں اس آرٹیکل کے تحت یہ درخواست کیسے بنتی ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ نے صرف یہ کہا کہ چیف جسٹس کا اختیار 2 سینیئر ججز کے ساتھ بانٹ دیا، اس بات سے کون سا بنیادی حق متاثر ہوا؟ پارلمینٹ کا یہ اقدام تو عدلیہ کی آزادی کو مضبوط بنائے گا، باہر سے تو کوئی نہیں آیا، چیف جسٹس نے تو 2 سینیئر ججز سے ہی مشاورت کرنی ہے۔ جسٹس منصور شاہ نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس کے اختیار کو چھیڑنے سے عدلیہ کی آزادی خطرے میں پڑنے والی کوئی بات نہیں، آئین اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ایک قانون پریکٹس اینڈ پروسجیر کے لیے ہو سکتا ہے۔ وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ یہ قانون پارلیمنٹ سے نہیں ہو سکتا فل کورٹ کر سکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ قانون پارلمینٹ سے ہی آتا ہے اور کہاں سے آنا ہے، ہم سوئے رہیں، ارجنٹ کیس بھی مقرر ہی نہ کریں تو وہ ٹھیک ہے؟ عوام پارلمینٹ کے ذریعے ہمیں کہیں کہ وہ کیس 14 دن میں مقرر کریں تو کیا وہ غلط ہو گا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کروں گا، اس ملک میں کئی بار مارشل لا لگا، میں فیصلوں کا نہیں آئین کا تابع ہوں، سپریم کورٹ میں 57 ہزار کیسز التوا کا شکار ہیں، پارلیمنٹ اگر بہتری لانا چاہ رہی ہے تو اسے سمجھ کیوں نہیں رہے؟ اگر یہ برا قانون ہے تو آئین کے مطابق جواب دیں۔ اس پر امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ مجھے سانس لینے کی مہلت دیں، سب سوالات کے جوابات دوں گا۔ اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ امتیاز صدیقی صاحب آپ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ماضی میں جو ہوا اصلاحات ضروری تھی؟ جسٹس منصور شاہ نے استفسار کیا کہ امتیاز صدیقی صاحب ہم جو بولے جا رہے ہیں آپ وہ سوالات لکھ کہاں رہے ہیں؟ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ قانون بہت اچھا ہے مگر پارلمینٹ یہ نہیں بنا سکتی؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ جی میں یہی کہہ رہا ہوں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا کسی فرد واحد کو لامحدود ناقابل احتساب اختیار دیا جاسکتا ہے؟ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ہمیں صرف یہ بتادیں کون سا بنیادی حق متاثر ہوا ہے؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ آئینی اختیارات میں مداخلت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے معاشرے میں ہر مرتبہ مارشل لاء لگانے والے آمر کو 98.6 فیصد ووٹ ملتے ہیں، ہم قانون کو جانچنے کیلئے ریفرنڈم نہیں کروا سکتے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہے؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ میری دلیل ہے قانون اچھاہے لیکن طریقہ کار غلط اپنایا گیا، عدلیہ کو خود اختیارات کو ریگولیٹ کرنا چاہیے تھا۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ پارلیمنٹ کون ہوتا ہے کہ کمیٹی تین رکنی ہی ہوگی، 5 رکنی کمیٹی کیوں نہیں کرسکتی، کیا پارلیمنٹ فیملی کیسز سننے کیلئے 7 رکنی بنچ تشکیل دینے کا قانون بناسکتی ہے؟ امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ کے رولز کی ہی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ججز کی جانب سے دیے گئے فیصلے بھی قانون ہی ہوتے ہیں، ججز کے فیصلوں سے بنائے گئے قوانین کے خلاف پارلیمان قانون سازی کیسے کر سکتی ہے، کیا پارلیمان عدالتی فیصلوں کو قانون سازی کے ذریعے بے اثر بھی کر سکتی ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ 3 ججز کا بینچ بنانا عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے تو 17 ججز کا اختیار ایک جج کو دینا کیسے درست ہے؟ دوران سماعت جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیے کہ ساتھی ججز سے گزارش ہے کہ پہلے وکیل صاحب کو دلائل دینے دیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ معاملہ عدلیہ کی انتظامیہ امور میں پارلیمان کے قانون سازی کے اختیار کا ہے، امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ پارلیمنٹ، ایگزیکٹو اور سپریم کورٹ کے رولز الگ الگ ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ ایگزیکٹو کے رولز جب چیلنج ہوں گے تو دیکھیں گے، آپ سپریم کورٹ رولز بتائیں۔ چیف جسٹس کے بار بار ٹوکنے پر وکیل امتیاز صدیقی غصے میں آ کر بولے کہ آپ مجھے کہتے ہیں دلائل دیں، میں دلائل دیتا ہوں تو اپ ٹوک دیتے ہیں، میں آدھے گھنٹے سے آپ کو سن رہا ہوں، صبر کے ساتھ میرے دلائل بھی سنیں، آپ اگر میری تضحیک کریں گے تو میں دلائل نہیں دوں گا۔ دریں اثنا عدالت نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت میں دوپہر 3 بجے تک وقفہ کر دیا۔ وقفے کے بعد اٹارنی جنرل پاکستان منصور عثمان اعوان نے درخواست قابل سماعت ہونے پر دلائل شروع کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ درخواستیں کوئی عوامی مفاد کا معاملہ اُٹھا رہی ہیں، میرے فاضل دوستوں نے پارلیمنٹ کے اختیار قانون سازی پر بات کی، قانون ایک عہدے کے اختیار سے متعلق ہے، قانون سے ادارے میں جمہوری شفافیت آئے گی۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 1973 کے آئین میں عدلیہ کی آزادی کا ذکر ہوا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں قابل سماعت نہیں، اٹارنی جنرل نے ایکٹ 1935، 1956 اور 1962 کے آئین کا حوالہ دیا، انہوں نے کہا کہ 1962 کا آئین سپریم کورٹ رولز کو صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط کرتا ہے، 1973 کے آئین میں عدلیہ کو اس کو اس لیے آزاد بنایا گیا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اس ادارے میں شفافیت لایا، یہ قانون خود عوام کے اہم مسائل حل کرنے کے لیے ہے، قانون کےزریعے سارے اختیارات اس عدالت کے اندر ہی رکھے گے ہیں، یہ درست ہے کہ عدلیہ کی آزادی ہر شہری سے متعلقہ ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ 1973ء کے آئین میں بھی قانون سازوں کو درمیان میں سے ہٹایا نہیں گیا، میں آرٹیکل 191 کی طرف جاؤں گا میں بتاؤں گا کہ ایکٹ آف پارلمینٹ قانون کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایکٹ آف پارلمینٹ اور قانون ایک ہیں یا نہیں اس کی اہمیت کیا ہے، آپ نے دلائل درخواست کے قابل سماعت نہ ہونے پر شروع کئے تھے وہ مکمل کریں، آپ نے درخواست گزار کے وکیل کے نکات پر بات شروع کر دی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ایک قانون اس وقت تک قابل عمل ہے جب تک وہ غلط ثابت نہ کر دیا جائے، یہ ثابت کرنے کی ذمہ داری اس پر ہے جو قانون کو چیلنج کرے، ہمارے پاس اس معاملے پر ہائی کورٹ سے کم اختیارات ہیں، پاکستان میں کئی چیزیں خلاف آئین ہو رہی ہیں مگر وہ 184/3 میں نہیں آتی۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو 184/3 پڑھنے کی ہدایات دیتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ اس قانون کو شاید کالعدم کر سکتی ہے، ہم اپیل کے فورم پر اسے سن سکتے ہیں، ہمیں 184/3 اور بنیادی حقوق دونوں کو دیکھنا ہے۔ جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ درخواست گز ار یہاں انصاف تک رسائی کے حق کا معاملہ اُٹھا رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ انصاف تک رسائی یقیناََ سب کا حق ہے، جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ کیا درخواست بنیادی حقوق یقینی بنانے کی بات کر رہی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہاں یہ کیس ہے ہی نہیں کہ یہ قانون کس کے بنیادی حق کے نفاذ میں رکاوٹ ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ کیس کو فل کورٹ کے سننے سے اپیل کا حق متاثر ہو گا، چیف جسٹس نے کہا کہ اپیل کے بارے میں نے بریک میں بھی سوچا ہے، اپیل کے لیے کسی کے حقوق کا متاثر ہونا ضروری ہے، آرٹیکل 10 اے شخصیات سے متعلق بات کرتا ہے سپریم کورٹ سے متعلق نہیں۔ جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ درخواست گزار یہاں انصاف تک رسائی کے حق کا معاملہ اُٹھا رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ انصاف تک رسائی یقیناََ سب کا حق ہے، فل کورٹ کے سامنے معاملہ ہے اس لیے مدعا سامنے رکھا ہے، جسٹس یحیٰی آفریدی نے کہا کہ کیا درخواست بنیادی حقوق یقینی بنانے کی بات کر رہی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہاں یہ کیس ہے ہی نہیں کہ یہ قانون کس کے بنیادی حق کے نفاذ میں رکاوٹ ہے، جسٹس اعجاز الا احسن نے کہا کہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ عوامی اہمیت کا کیس ہے، یہ عوامی اہمیت کا کیس ہے، دوسری جانب بھی یہی مدعا ہے، قانون سپریم کورٹ کی پاور سے متعلق ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بنیادی حقوق کے معاملے کیا پہلے ہائی کورٹ نہیں جانا چاہیےتھے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ پہلے بھی ایک مقدمہ میں کہا کہ ہائی کورٹس سپریم کورٹ سے متعلق کیس دیکھ سکتی ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین سپریم کورٹ کے احکامات کے خلاف اپیل کا حق نہیں دیتا تو کیا سادہ قانون سازی سے دیا جا سکتا ہے، جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ اس قانون کا دیباچہ اور شق 3 پڑھیں، ایک قانون بات ہی سپریم کورٹ کے اختیارات کی کر رہا ہے تو ہائی کورٹ میں کیسے دیکھا جا سکتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 75/3 میں لفظ قانون اور ایکٹ دونوں استعمال ہوئے ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ اگر یہ دونوں ایک ہی ہیں تو آئین سازوں نے کسی جگہ ایکٹ آف پارلیمنٹ اور کسی جگہ قانون کیوں لکھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ آرڈیننس صدر جاری کرتا ہے مگر وہ ایکٹ آف پارلیمنٹ نہیں ہوتا اور اٹارنی جنرل سے کہا کہ آپ سوال نوٹ کریں جو آبزرویشن دی جا رہی ہیں خود کو الگ کرتا ہوں، جو آبزرویشن دی جا رہی ہیں وہ بیانات ہیں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میری سمجھ کے مطابق یہ بیانات نہیں ہیں، ایکٹ آف پارلیمنٹ کو قانون سے الگ نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ یہ بتائیں کہ رولز کس نے بنائے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ رولز 1980 میں سپریم کورٹ نے بنائے تھے، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ سپریم کورٹ کیا ہے، سپریم کورٹ چیف جسٹس اور تمام ججوں پر مشتمل ہوتی ہے، کیا وہ گھر میں بیٹھ کر بھی سپریم کورٹ ہوں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم ایکڈیمک بحث میں کیوں پڑے ہوئے ہیں، سول مقدمات میں 60 دن کے اندر نظر ثانی دائر ہوتی ہے میں کہہ سکتا ہوں یہ آئین کے خلاف ہے، اگر میں بینچ بنانے سے انکار کر دوں چھٹی پر چلا جاؤں تو مجھے کون روک سکتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ فل کورٹ اجلاس 2019 سے اب تک نہیں ہوا، زیر التوا مقدمات 40 سے 60 ہزار ہو گئے ہیں، ہم نے اگر یہ سب کام نہیں کرنے تو سرکار سے پیسہ کیوں لے رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ رولز کو آئین کے مطابق ہونا چاہیے، ایکٹ کی دفعہ دو سپریم کورٹ کے طریقہ کار میں مزید شفافیت کے لیے بنایا گیا، اس کے تحت چیف جسٹس کے اختیارات تقسیم کیے گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کی دلیل پر کہا کہ یہ کہیں کہ چیف جسٹس کا بوجھ بانٹا گیا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ بالکل آپ نے بہترین طریقے سے بتا دیا، جب زیادہ دماغ ایک ساتھ بیٹھ کر کام کریں گے تو کام زیادہ شفافیت سے ہو گا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ کیا دوبارہ پارلیمنٹ کو لگا کر 3 کے بجائے 17 جج بیٹھ کر بینچوں کی تشکیل کا فیصلہ کریں تو وہ بدل دیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ضروری نہیں بار بار پارلیمنٹ پر سوال اٹھایا جائے، اگر سپریم کورٹ میں اتنے مقدمے زیر التوا نہ ہوتے تو شاید پارلیمنٹ یہ نہ کرتا۔چیف جسٹس نے کہا کہ امریکی مثالیں دیتے ہیں تو امریکی سپریم کورٹ کی دیں، امریکی صدر کو سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ بس 20 منٹ ہیں، جب تک کوئی قانون خلاف آئین نہ ہو تواس کی حمایت کرنی چاہیے، اگر زیر التوا کیسز اتنے زیادہ نہ ہوتے اور کچھ فیصلے نہ آئے ہوتے تو شاید پارلیمنٹ یہ قانون نہ لاتی۔واضح رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے گزشتہ روز عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد ’پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ‘ کے خلاف دائر درخواستوں کی آج ہونے والی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کے تمام 15 ججز پر مشتمل فل کورٹ بینچ تشکیل دے دیا تھا۔


متعلقہ خبریں


جدہ سے سیالکوٹ آنے والی قومی ایئر لائن میں دوران پرواز آگ بھڑک اٹھی وجود - بدھ 27 ستمبر 2023

جدہ سے سیالکوٹ آنیوالی قومی ایئر لائن میں دوران پرواز شارٹ سرکٹ کے باعث آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق جدہ سے سیالکوٹ آنے والی قومی ایئرلائن (پی آئی اے) کی پرواز پی کے 786 میں اچانک آگ بھڑک اٹھی، عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ دوران پرواز جہاز کے واش روم سے دھواں نکلنا...

جدہ سے سیالکوٹ آنے والی قومی ایئر لائن میں دوران پرواز آگ بھڑک اٹھی

سائیکل بنانے والے معروف برانڈز کی3 قدیم پاکستانی فیکٹریاں بند وجود - بدھ 27 ستمبر 2023

موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں اضافے کے بعد سائیکلوں کے نرخ بھی آسمان سے باتیں کرنے لگے ہیں کیونکہ خراب معاشی صورتحال کے باعث مقامی طور پر سائیکل بنانے والے معروف برانڈز کی تین بڑی اور قدیم فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں جس کے باعث اب زیادہ انحصار در آمدی سائیکلوں پر ہے، گزشتہ 15 ماہ کے دو...

سائیکل بنانے والے معروف برانڈز کی3 قدیم پاکستانی فیکٹریاں بند

آڈیو لیک: بشری بی بی کا کیس ثاقب نثار کے بیٹے کے ساتھ یکجا وجود - بدھ 27 ستمبر 2023

اسلام آباد ہائیکورٹ نے بشری بی بی کا آڈیو لیک کیس سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کے ساتھ یکجا کر دیا۔ بشری بی بی کی آڈیو لیکس طلبی نوٹس کے خلاف درخواست پر سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کی عدالت میں ہوئی۔ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل اسلام آبا...

آڈیو لیک: بشری بی بی کا کیس ثاقب نثار کے بیٹے کے ساتھ یکجا

کندھ کوٹ: راکٹ کا گولہ پھٹنے سے دھماکا، بچوں اور خاتون سمیت 8 افراد جاں بحق وجود - بدھ 27 ستمبر 2023

کندھ کوٹ میں راکٹ کا گولہ پھٹنے سے بچوں اور خاتون سمیت 8 افراد جاں بحق اور  4 سے زائد زخمی ہو گئے۔ پولیس کے مطابق کندھ کوٹ شہر میں کچے کے علاقے میں راکٹ کا گولہ پھٹنے سے دھماکا ہوگیا، دھماکے سے بچوں اور خاتون سمیت 8 افراد جاں بحق ہوئے ہیں جن کی لاشوں کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے...

کندھ کوٹ: راکٹ کا گولہ پھٹنے سے دھماکا، بچوں اور خاتون سمیت 8 افراد جاں بحق

سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث داعش کے 4 سہولتکاربڈھ بیڑسے گرفتار وجود - بدھ 27 ستمبر 2023

سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ سمیت 10 وارداتوں میں ملوث کالعدم داعش کے 4 سہولتکاربڈھ بیڑسے گرفتارکرلیے گئے ہیں، ترجمان سی ٹی ڈی کے مطابق گرفتار چاروں سہولت کاروں کو سیفن چوک بڈھ بیڑ سے گرفتار کیا گیا جن کا تعلق افغانستان سے ہے۔

سکھوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث داعش کے 4 سہولتکاربڈھ بیڑسے گرفتار

سائفر کیس:عمران خان کی درخواستِ ضمانت پر سماعت اوپن کورٹ میں ہوگی، اسلام آباد ہائی کورٹ وجود - منگل 26 ستمبر 2023

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواستِ ضمانت پر آئندہ سماعت اوپن کورٹ میں ہوگی۔ پراسیکیوشن کی درخواست پر اِن کیمرہ سماعت کی درخواست پر تحریری حکم نامہ جاری کردیا گیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے 2 صفحات پر مشتمل تحریری حکم نامہ جار...

سائفر کیس:عمران خان کی درخواستِ ضمانت پر سماعت اوپن کورٹ میں ہوگی، اسلام آباد ہائی کورٹ

ہردیپ سنگھ قتل، بھارت سے تعلقات میں چیلنجنگ مسئلہ ہوسکتا ہے، کینیڈا وجود - منگل 26 ستمبر 2023

کینیڈا کے وزیر دفاع بل بلیئر نے کہا ہے کہ سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے معاملے پر نئی دہلی کے ساتھ ہمارے تعلقات میں چیلنجنگ مسئلہ ہوسکتا ہے۔ اوٹاوا میں مقامی چینل سے گفتگو کے دوران بل بلیئر کا کہنا تھا کہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قانون اور اپنے شہریوں ک...

ہردیپ سنگھ قتل، بھارت سے تعلقات میں چیلنجنگ مسئلہ ہوسکتا ہے، کینیڈا

صنم جاوید سمیت پی ٹی آئی کی 4 خواتین رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار وجود - منگل 26 ستمبر 2023

لاہور پولیس نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی رہنما صنم جاوید سمیت 4 خواتین کو جیل سے رہا ہوتے ہی دوبارہ گرفتار کر لیا۔ پولیس کے مطابق صنم جاوید سمیت پی ٹی آئی کی چاروں خواتین رہنماؤں کو جناح ہاؤس پرحملے کے دوسرے مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ صنم جاوید کے ساتھ دوبارہ گرفتار ہو...

صنم جاوید سمیت پی ٹی آئی کی 4 خواتین رہائی کے بعد دوبارہ گرفتار

لاہور ہائیکورٹ کا شیخ رشید کو فوری بازیاب کرا کے رہا کرنے کا حکم وجود - منگل 26 ستمبر 2023

لاہور ہائیکورٹ راولپنڈی بنچ نے شیخ رشید احمد کو فوری طور پر بازیاب کرا کے رہا کرنے کا حکم دے دیا،عدالت نے پولیس کو آخری مہلت دیتے ہوئے کہا کہ شیخ رشید احمد کو 2 اکتوبر تک برآمد نہ کیا تو سخت کارروائی ہوگی ۔لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ میں عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی باز...

لاہور ہائیکورٹ کا شیخ رشید کو فوری بازیاب کرا کے رہا کرنے کا حکم

انتخابی عمل میں کسی خاص گروپ کی مخالفت یا حمایت نہیں کی جائیگی، انوار الحق کاکڑ وجود - منگل 26 ستمبر 2023

نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ انتخابی عمل میں انتظامی سطح پر کسی خاص گروپ کی مخالفت یا حمایت نہیں کی جائے گی، یقین دلاتا ہوں کہ انتخابات صاف، شفاف او رآزادانہ ہوں گے، کسی کو بھی اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے نہیں دیں گے، ہم بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک سے سود ...

انتخابی عمل میں کسی خاص گروپ کی مخالفت یا حمایت نہیں کی جائیگی، انوار الحق کاکڑ

سائفر کیس: عمران خان اور شاہ محمود کے جوڈیشل ریمانڈ میں 10 اکتوبر تک توسیع وجود - منگل 26 ستمبر 2023

آفیشل سیکرٹ ایکٹ خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے جوڈیشل ریمانڈ میں 10 اکتوبر تک توسیع کردی۔ اسپیشل سیکریٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف اٹک جیل میں سائفر کیس کی سماعت کی جس سلسلے میں چیئرمین پ...

سائفر کیس: عمران خان اور شاہ محمود کے جوڈیشل ریمانڈ میں 10 اکتوبر تک توسیع

عمران خان کا اڈیالہ جیل منتقل ہونے سے انکار وجود - منگل 26 ستمبر 2023

چیئرمین پی ٹی آئی نے اپنے وکلاء کو اٹک سے اڈیالہ جیل راولپنڈی میں منتقل ہونے سے منع کردیا۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کیس کی سماعت کے دوران بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ میں اٹک جیل میں ایڈجسٹ ہو گیا ہوں اوراڈیالہ جیل منتقل نہیں ہونا چاہتا، اپنے وکلا سے کہوں گا میری منتقلی کی درخواست و...

عمران خان کا اڈیالہ جیل منتقل ہونے سے انکار

مضامین
وکیل اور وکالت وجود بدھ 27 ستمبر 2023
وکیل اور وکالت

لوٹ مچ گئی ہے کیا؟ وجود بدھ 27 ستمبر 2023
لوٹ مچ گئی ہے کیا؟

حکمرانوں کی کرپشن سے مہنگائی میں اضافہ ہوا وجود بدھ 27 ستمبر 2023
حکمرانوں کی کرپشن سے مہنگائی میں اضافہ ہوا

عید میلادالنبیۖ وجود منگل 26 ستمبر 2023
عید میلادالنبیۖ

اورنگ زیب عالمگیر ایک بہادر مسلمان مغل حکمران وجود منگل 26 ستمبر 2023
اورنگ زیب عالمگیر ایک بہادر مسلمان مغل حکمران

اشتہار

تجزیے
متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!! وجود هفته 23 ستمبر 2023
متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!!

نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟ وجود بدھ 20 ستمبر 2023
نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟

نیپرا کا عوام کش کردار وجود جمعه 15 ستمبر 2023
نیپرا کا عوام کش کردار

اشتہار

دین و تاریخ
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش وجود هفته 23 ستمبر 2023
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش

جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے وجود جمعه 15 ستمبر 2023
جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے

مادیت کا فتنہ اور اس کاعلاج وجود جمعه 08 ستمبر 2023
مادیت کا فتنہ اور اس کاعلاج
تہذیبی جنگ
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے

مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی وجود جمعرات 03 اگست 2023
مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی

کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے
بھارت
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم وجود منگل 19 ستمبر 2023
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم

آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا

بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا وجود بدھ 06 ستمبر 2023
بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا

چندریان تھری کی کامیابی پر بھارتی نجومی کا پاگل پن، چاند کو ہندو سلطنت قرار دینے کا مطالبہ وجود پیر 28 اگست 2023
چندریان تھری کی کامیابی پر بھارتی نجومی کا پاگل پن، چاند کو ہندو سلطنت قرار دینے کا مطالبہ
افغانستان
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا

افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی وجود پیر 14 اگست 2023
افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی

بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام وجود منگل 08 اگست 2023
بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام
شخصیات
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے وجود جمعه 22 ستمبر 2023
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے

معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال
ادبیات
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر

فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے وجود پیر 11 ستمبر 2023
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال