وجود

... loading ...

وجود

سلیم صافی ایک ''غیر جانبدار''کالم نگاریا۔۔

اتوار 17 ستمبر 2023 سلیم صافی ایک ''غیر جانبدار''کالم نگاریا۔۔

عماد بزدار

حالیہ رجیم چینج نے صفیں واضح کر دیں کہ کونسا لکھنے والا کس طرف کھڑا ہے لیکن اس سے پہلے عام آدمی کے لیے لکھنے والوں کی باریک وارداتیں نظروں سے اوجھل رہتی تھیں کیونکہ سارے لکھنے والے ”غیر جانبدار”اور ”حق سچ”کے علمبردار ہوا کرتے تھے۔ سلیم صافی صاحب کا شمار ان کالم نگاروں میں ہوتا ہے جو ہمیشہ ”غیر جانبدار”رہے۔
آیئے ان کے لکھے گئے کالم ”جماعت اسلامی کی سیاسی ناکامی”جو کہ 03اکتوبر 2017ء کو جنگ اخبار میں چھپاہے ، میں ان کی غیر جانبداری پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ عنوان یاد رہے کہ سلیم صافی صاحب اپنے اس کالم میں جماعت اسلامی کی سیاسی ناکامیاں بتا رہے ہیں۔ نمبرنگ میری ہے مواد صافی صاحب کے کالم پر مشتمل ہے۔
ناکامی نمبر ایک:گزشتہ پانچ سالوں میں سراج الحق نے نتھیاگلی کے وزیراعلیٰ ہائوس میں ایک دن بھی نہیں گزارا لیکن عمران خان صاحب نے اسے جتنا استعمال کیا، اتنا شاید گزشتہ بیس سالوں میں بھی استعمال نہیں ہوا۔
ناکامی نمبر دو:عوامل اور بھی بہت سارے ہیں لیکن ماضی قریب میں جماعت اسلامی کو سب سے زیادہ نقصان تحریک انصاف نے پہنچایا ہے ۔ یہ جماعت اپنی ساخت میں اور مقصد کے لحا ظ سے جماعت اسلامی سے کوسوں دور ہے لیکن چونکہ اس کی نوک پلک امپائروں نے درست کی، اس لئے اس کی قیادت کو زیادہ تر جماعت اسلامی کے نعرے تھمادیے گئے ۔ اس نے جماعت اسلامی کے کرپشن کے خلاف نعرے کو بھی اپنا لیا۔
ناکامی نمبرتین:چونکہ عمران خان ایک سیلیبرٹی تھے اور ان کے ساتھ وابستگی کی صورت میں انہیں جماعت اسلامی کی طرح پابندیوں کا بھی سامنا نہیں کرنا پڑ رہا تھا۔
ناکامی نمبر چار:جماعت اسلامی کی صفوں میں کئی سال تک اس بات پر بحث ہوتی رہی کہ تصویر حلال ہے یا حرام ہے جبکہ موسیقی کے بارے میں اب بھی یہ بحث جاری ہے جبکہ تحریک انصاف میں ہر طرح کے حدودو قیود سے آزاد رہ کر بھی انسان انقلاب کا نعرہ لگاسکتا ہے ۔ اس لئے اس نے میدان میں آتے ہی نوجوان نسل میں انقلابی سوچ رکھنے والے جماعت اسلامی کے ووٹروں اور سپورٹروں کو اپنی طرف کھینچ لیا
ناکامی نمبر پانچ:تاہم جماعت اسلامی کی قیادت نے اپنی عوامی سیاست کے تابوت میں آخری کیل خیبرپختونخوا میں چند وزارتوں کی خاطر پی ٹی آئی سے اتحاد کرکے خود ہی ٹھونک دی۔
ناکامی نمبرچھ:ہر کوئی جانتا ہے کہ سپریم کورٹ میں پہلے سراج الحق گئے اور جب لاک ڈائون ناکام ہوا تو امپائروں نے خان صاحب کو سراج الحق کی اقتدا میں سپریم کورٹ بھجوادیا لیکن کریڈٹ سارا عمران خان لے گیا۔
. ناکامی نمبر سات:دوسری طرف خیبرپختونخوا میں بھی اگر کریڈٹ ہوتو وہ پی ٹی آئی لے جارہی ہے جبکہ ڈس کریڈٹ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ شیئر کررہی ہے ۔ مثلاًبلدیاتی اداروں کے قانون کا کریڈٹ ملکی سطح پر تحریک انصاف نے لیا حالانکہ یہ وزارت جماعت اسلامی کے پاس ہے۔ اسی طرح پشاور کی سڑکوںکا کسی حد تک حلیہ درست کرنے کا کریڈٹ بھی جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے بلدیات کے وزیر
عنایت اللہ کو جاتا ہے لیکن اس کا کریڈٹ ملک بھر میں الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے ذریعے تحریک انصاف لے گئی”۔
ذرا سوچیں نتھیا گلی کے وزیر اعلیٰ ہاؤس میں کتنا وقت عمران اور کتنا سراج الحق نے گزارا اس بات کا جماعت کی سیاسی ناکامی سے کیا تعلق ہے لیکن چونکہ صافی صاحب تحریک انصافی کے بانی کے ”گرفتار محبت” ہیں اس لئے جو موضوع اٹھاتے ہیں انہیں” تیری تصویراں” ہی نظر آتی ہے۔ایسے کسی موقع کے لیے شاعر نے کہا تھا
اتنی کاوش بھی نہ کرمیری اسیری کے لیے
تو کہیں میرا گرفتار نہ سمجھاجائے
مرضی کے واقعات لکھ کر کیسے انہیں ایک مخصوص رنگ دیا جاتا ہے کس طرح اپنے ممدوح کو کلین چٹ اور ناپسندیدہ شخص کو شیطان ثابت کیا جاتا ہے اس کی چھوٹی سی مثال کے لیے صافی صاحب کا کالم ”الطاف حسین اور اﷲ کی چوائسز”جوجنگ میں 04جولائی 2020ء چھپا ہے ، پڑھ کر دیکھیں ۔
کالم میں دو کرداروں کا تذکرہ ہے ۔ مصطفیٰ کمال ، فروغ نسیم ۔ ہم اگر تفصیلات میں نہ جائیں تو دونوں ایک وقت میں الطاف بھائی کے دست و بازو تھے بلکہ صافی صاحب خود اپنے اسی کالم میں لکھتے ہیں کہ ایک وقت میں مصطفی کمال نمبر ٹو تھا لیکن صافی کاکالم پڑھ کر مصطفی کمال سے ہمدردی و محبت اور فروغ نسیم سے نفرت ہوتی ہے ۔۔ ۔ کیوں؟ کیونکہ فروغ نسیم عمران کا ساتھی بنا ۔
مصطفی کمال کے بارے میں فراخ دلی سے لکھتے ہیں ۔
”مصطفی کمال کے طرزِ سیاست سے میں نے کبھی اپنے آپ کو متفق نہیں پایا لیکن اس کے باوجود
وہ سگے بھائیوں کی طرح عزیز ہیں اور رہیں گے ۔ کچھ بھی کر لیں، میرے دل میں ان کی قدر کم
اس لیے نہیں ہو سکتی کیونکہ میں ان کے بڑے احسان کے بوجھ تلے دبا ہوں”۔
مصطفی کمال صافی صاحب کو اس لیے سگے بھائیوں کی طرح عزیز ہیں کہ بقول صافی صاحب ایک وقت میں اس نے صافی صاحب کے سامنے کچھ خبریں بریک کیں،ورنہ وہ بھی ایک وقت میں الطاف بھائی کا نمبر ٹو تھا اگر برائی کا معیار الطاف بھائی کا ساتھی ہونا ہے تو مصطفی کمال کو زیادہ برا ہونا چاہیے تھا لیکن نہیں زیادہ برا فروغ نسیم کو”ثابت”کیا جائے گا۔ کیسے ؟ذرا فروغ نسیم کا تذکرہ پڑھیں ۔
”آج جب میں دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ مصطفی کمال نے تو بالکل اولیاء اللہ جیسی کمال کی بات کی تھی۔
چند سالوں میں اللہ نے ہمیں دکھا دیا کہ وہ شخص جس کے بغیر کوئی چوائس نہیں تھی، اس پوزیشن میں آگیا
کہ مہاجروں کی قیادت کیلئے ہر کوئی چوائس ہو سکتا ہے لیکن وہ نہیں۔ ان سے گالیاں کھا کر بھی ہر کیس میں
ان کی وکالت کرنے والے فروغ نسیم آج عمران خان کے وکیل بن گئے ہیں”۔
دیکھا آپ نے عمران خان کتنے بُرے ہیں فروغ نسیم ایک وقت میں الطاف بھائی کا وکیل تھا وہ آج عمران کا بھی وکیل ہے اور مصطفی کمال اتنے اچھے ہیں گو کہ وہ ایک وقت میں الطاف بھائی کے نمبر ٹو تھے لیکن وہ اچھے ہیں کیونکہ اس نے ایک وقت میں میرے سامنے یعنی سلیم صافی کے سامنے کچھ خبریں بریک کی تھیں۔
اپنے کالم ”جہانگیر ترین اور تین واقعات” میں پی ٹی آئی اور عمران پر اپنی تنقید کی سب سے بڑی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”پی ٹی آئی سے میرا زیادہ اختلاف جہانگیر ترین اور اُن جیسے لوگوں کو پارٹی میں لانے اور پھر
جہانگیر ترین ہی کو طاقتور ترین بنانے پر ہوا”۔
اور جہانگیر ترین پر صافی صاحب کو غصہ کیوں تھا ؟
”جہانگیر ترین پر میرے غصے اور زیادہ تنقید کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہوں نے اپنی پارٹی میں موجود
ہمارے بہت سارے دوستوں سے ناک رگڑوا دی”۔
جب ترین کے عمران خان کے ساتھ فاصلے پیدا ہوئے تو صافی صاحب لکھتے ہیں کہ
”جہانگیر ترین ڈٹ کر عمران خان کے ساتھ تھے اور اگر ان کا پیسہ، ذہن اور محنت بروئے کار
نہ آتے تو خان صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیںہو سکتا تھا۔ وہ ہمیشہ
یہ کوشش کرتے رہے کہ میری اور خان صاحب کی دوستی کرادیں”۔
”گزشتہ روز جہانگیر ترین سے فون پر بات ہوئی۔ میں نے ازراہِ مذاق ان سے کہا کہ آپ
تو میری صلح کرارہے تھے لیکن خود عمران خان کی حکومت میں ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔ وہ
ہنس دیے اورچپ رہے کیونکہ اب بھی کچھ لوگوں کا پردہ رکھنا چاہتے ہیں”۔
پی ٹی آئی پر صافی صاحب کے کالم کے مطابق تنقید اس لیے شروع کی کیونکہ ترین جیسے لوگ عمران نے اپنی پارٹی میں لیے ۔ اور ترین پر غصہ صافی صاحب کو اس لئے تھا کیونکہ اس نے صافی صاحب کے کچھ دوستوں کی ناک رگڑوا دی۔ لیکن اسی ایک کالم میں جب ترین کے عمران خان سے فاصلے پیدا ہوتے ہیں تو صافی صاحب ترین کے لئے اچانک نرم گوشہ پیدا کرتے ہیں حالانکہ اپنے کالم کے شروع میں پی ٹی آئی پر تنقید کی زیادہ وجہ ترین جیسے لوگوں کی شمولیت بتاتے ہیں اور ترین کے پارٹی سے نکلنے اور عمران سے فاصلے پیدا ہونے پر بجائے صافی صاحب خوش ہوتے ،الٹا ترین کے لیے اپنے قارئین کے دل میں نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ چوں چوں کا مربہ کالم پڑھ کر سوچیں کہ یہ رانگ نمبر دانشور بن کر ہمارے ملک کے سب سے بڑے اخبار میں کالم لکھتے اور سب سے بڑے ٹی وی چینل پر ٹاک شو کرکے قوم کی فکری رہنمائی بھی کرتے ہیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
جل تھل گجرات اور تصاویرکا بازار وجود هفته 27 جولائی 2024
جل تھل گجرات اور تصاویرکا بازار

1977ء کے انتخابا ت میں بھٹو صاحب کی مشکوک کامیابی وجود هفته 27 جولائی 2024
1977ء کے انتخابا ت میں بھٹو صاحب کی مشکوک کامیابی

میڈیا اور آئیڈیالوجی کا چہرہ وجود هفته 27 جولائی 2024
میڈیا اور آئیڈیالوجی کا چہرہ

تنازع قبرص: ایک صبح سفیر عصمت کورک اولو کے ساتھ وجود هفته 27 جولائی 2024
تنازع قبرص: ایک صبح سفیر عصمت کورک اولو کے ساتھ

آؤ جھوٹ بولیں۔۔ وجود جمعه 26 جولائی 2024
آؤ جھوٹ بولیں۔۔

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر