وجود

... loading ...

وجود

فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل سے انکار

جمعه 15 ستمبر 2023 فوجی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل سے انکار

ریاض احمدچودھری

1953ء میںقادیانیوں کے خلاف جب تحریک شروع ہوئی تو مولاناسیدابو الاعلی مودودی ، امیر جماعت اسلامی پاکستان نے قادیانیت کے بارے میں ایک کتابچہ ‘قادیانی مسئلہ’ تحریر کیا۔جس کی پاداش میں مولاناسیدابو الاعلی مودودی کو فوجی عدالت نے موت کی سزا سنائی اور انہیں ایک ہفتے کے اندر اس حکم کے خلاف اپیل کرنے کی مہلت دی گئی۔ مولانا مودودی نے یہ کہتے ہوئے اپیل دائر کرنے سے انکار کر دیا کہ جس مسلمان کو قادیانیت کے خلاف جہاد کرنے سے شہادت نصیب ہو رہی ہوتو وہ اس شہادت کے خلاف اپیل کیسے کر سکتا ہے۔ مولانا مودودینے فرمایا کہ اگر اللہ نے انہیں زندگی دی ہے تو دنیا کی کوئی عدالت یا کوئی انسان اسے چھین نہیں سکتا۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کے دیرینہ ساتھی میاں طفیل محمد، سابق امیر جماعت اسلامی مولانا مودودی کی گرفتاری کا احوال بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” ہم دیوانی گھر وارڈ کے صحن میں مولانا مودودی صاحب کی اقتدا میں مغرب کی نماز پڑھ رہے تھے کہ دیوانی گھر وارڈ کا باہر کا دروازہ کھٹ سے کھلا اور چودہ، پندرہ فوجی، جیل افسر اور وارڈر احاطے میں داخل ہوئے۔ ہم نے باقی نماز مکمل کر لی تو ان میں سے بڑے فوجی افسر نے جو مارشل لا کورٹ کا صدر تھا’ اس نے پوچھا: ”مولانا مودودی صاحب کون ہیں؟” مولانا نے عرض کیا: ”میں ابوالاعلیٰ مودودی ہوں”، تو اس نے کہا: ”آپ کو قادیانی مسئلہ کتاب تصنیف کرنے پر موت کی سزا دی جاتی ہے۔ اس کے خلاف کوئی اپیل نہیں ہو سکتی ہے۔ آپ گورنر جنرل سے رحم کی اپیل کر سکتے ہیں”۔ مولانا نے بلاتوقف فرمایا: ”مجھے کسی سے کوئی رحم کی اپیل نہیں کرنی ہے۔ زندگی اور موت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر وہاں پر میری موت کا فیصلہ ہو چکا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی اور اگر وہاں سے میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی”۔ اس کے بعد اسی افسر نے کہا:” آپ نے مارشل لا کے بارے میں روزنامہ تسنیم میں جو بیان دیا ہے اس پر آپ کو سات سال قید بامشقت کی سزا دی جاتی ہے”۔
کوئی آدھ گھنٹے کے بعد ہیڈ وارڈن اور ان کے ساتھ کچھ دوسرے وارڈر آئے اور انھوں نے کہا: ”مولانا مودودی صاحب تیار ہو جائیں’ وہ پھانسی گھر جائیں گے”۔ اس پر مولانا مودودی صاحب نے اطمینان سے اپنا کھلا پاجامہ تنگ پاجامے سے بدلا’ جو وہ گھر سے باہر جاتے وقت پہنا کرتے تھے۔ سر پر اپنی سیاہ قراقلی ٹوپی پہنی اور چپلی اتار کر سیاہ گر گابی جوتا پہنا اور اپنا قرآن مجید لے کر اور ہم سب سے گلے مل کر نہایت اطمینان سے پھانسی گھر روانہ ہو گئے۔مولانا مودودی صاحب کو پھا نسی کی سزا کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں احتجاج شروع ہو گیا۔مولانا مودودی کے انتہائی قریبی ساتھی محترم رضوان علی ندوی کہتے ہیں کہ جب مولانا کو سزائے موت سنائی گئی تو میں اس وقت مکہ مکرمہ میں تھا۔ شاہ سعود نے اس پر بھرپور احتجاج کیا اور پاکستانی حکومت کو سزا ختم کرنے بارے لکھا ۔ مصر کی اسلامی جماعت اخوان المسلمون کے رہنما علامہ حسن الہضیبی، کابل سے علامہ نور المشائخ المجددی، فلسطین کے مفتی اعظم الحاج محمد الحسینی کے علاوہ الجزائر اور انڈونیشیا کے علما نے حکومت پاکستان سے رابطہ کرکے سید مودودی کی سزائے موت کے خاتمے کا مطالبہ کیا ۔انڈونیشیا کی اسلامی پارٹی کے وزیر اعظم ڈاکٹر ناصر صاحب نے حکومت پاکستان سے کہا کہ: ”پاکستان کو مودودی صاحب کی ضرورت نہیں تو دنیا بھر کے مسلمانوں کو ان کی ضرورت ہے۔ پاکستان ان کو انڈونیشیا بھجوا دے”۔ سعودی عرب نے اس سزا کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ بہت سے دوسرے ممالک کے مسلمانوں نے بھی، اور پاکستان میں تو ہرجگہ سے احتجاج ہوا۔ اس احتجاج کا نتیجہ یہ ہوا کہ تیسرے ہی روز حکومت پاکستان نے اعلان کر دیا کہ مولانا مودودی اور مولانا عبد الستار خاں نیازی کی سزاے موت عمر قید میں تبدیل کر دی گئی ہے۔ چنانچہ مولانا مودودی کو پھانسی گھر سے جیل کے بی کلاس وارڈ میں منتقل کر دیا گیا۔ممتاز صحافی و ادیب الطاف حسن قریشی لکھتے ہیں کہ سید ابو الاعلیٰ مودودی کی یہ عمر قید عملاً14 سال قید با مشقت کی تھی۔ اگر چہ یہ مارشل لا کورٹ کے تحت دی گئی تھی اور مارشل لا ختم ہو جانے کے بعد اسے ختم ہو جانا چاہیے تھا’لیکن مارشل لا کے تحت سارے احکام اور سزاؤں کو انڈمنٹی ایکٹ کے تحت بر قرار رکھا گیاتھا ‘اس لیے یہ سزائیں مارشل لا اٹھ جانے کے باوجود بھی قائم اور جاری تھیں۔
جماعت اسلامی نے مولانا مودودی کی سزا کو کالعدم کرانے کے سلسلے میں لا ہور ہائی کورٹ میں میاں منظور قادر ایڈوو کیٹ کے ذریعے سے رٹ دائر کردی اور ہائی کورٹ نے رٹ منظور کرتے ہوئے سید ابو الاعلیٰ مودودی کو رہا کرنے کا حکم دے دیا’ چنانچہ مولانا 28 مئی 1955 کو ڈسٹرکٹ جیل ملتان سے رہا ہوکر گھرآ گئے۔یہ اکتوبر1963ء کی بات ہے جب جماعت اسلامی کا سالانہ اجتماع لاہور میں منعقد ہونے والا تھا۔ اس اجتماع کوناکام کرنے کے لیے صدر پاکستان ایوب خان ایڑی چوٹی کا زور لگارہے تھے۔ حکومت نے لاوؤڈ اسپیکر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ جماعت کے انتظامیہ نے مکبرین کا انتظام کرلیا۔ حکومت کے اشارے پر غنڈوں کوبھیجا گیا۔ جنہوں نے اجتماع گا ہ کے قناتوں کی رسیوں کوکاٹ ڈالا اوربہت اودھم مچایا۔ مولانا مودودی کھڑے ہوکر اس اجتماع میں تقریر کررہے تھے۔ مولانا سے درخواست کی گئی کہ وہ بیٹھ جائیں تومولانا نے تاریخی الفاظ کہے :” چودھری صاحب! اگر میں بیٹھ گیا تو پھر کون کھڑا ہوگا۔”جماعت کا ایک نوجوان اللہ بخش جوسیکورٹی پر متعین تھا، گولی لگ کر شہید ہوگیا۔ جماعت کے ذمہ داران اوراللہ بخش شہید کے گھروالوں نے اس جانکا ہ حادثہ پر صبر کا دامن تھام لیا۔ ایسے تھے وہ جیالے لوگ اور ایسے تھے مولانا مودودی جماعت اسلامی کے درخشاں ستارے۔
7ستمبر1974 ء کو قومی اسمبلی نے مسلم اور غیر مسلم کی تعریف کے لئے آئین میں ترمیم کر کے مسئلہ قادیانیت پاکستان میں ہمیشہ کے لئے حل کر دیا۔مسلم اور غیر مسلم کی تحریر بھی مولانا مرحوم کی تحریر سے ہی اخذ کی گئی اس طرح اللہ تعالیٰ نے مولانا مودودی کو بڑا منفرد مقام عطا کیا۔یہ ان کی بالغ نظری،ہنودویہود کی سازشوں اور عالمی استعماری ہتھکنڈوں پر گہری نظر کا ہی نتیجہ تھا۔ مولانا مودوی قوم کو بار بار متنبہ کرتے رہے کہ اسلامیان پاکستان کو اس غفلت اور غلط فہمی میں مبتلا نہیں ہو جانا چاہیے کہ اب ہماری ذمہ داری ختم ہو گئی ہے اور قادیانی مسئلہ پورے کا پورا حل ہو گیا ہے۔ یہ پہلا قدم ہے جو صحیح سمت میں اٹھایا گیا ابھی قادیانیت اور اس کی پشت پر جاری سازشوں کے سد باب کے لئے بہت سے ضروری اقدامات کرنا ابھی باقی ہیں جن کے بغیر یہ قضیہ کسی نہ کسی شکل میں پھر سراٹھائے گا،اور زیادہ پیچیدگیوں کا باعث بنے گا اور اسلامیان پاکستان کی عقیدت ومحبت اور طویل قربانیوں کو بے ثمر کرنے کا ذریعہ بنے گا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
آقاۖکی حیات مبارکہ کے آخری لمحات وجود جمعه 29 ستمبر 2023
آقاۖکی حیات مبارکہ کے آخری لمحات

نبی کریمۖ پر درود و سلام کی فضیلت وجود جمعه 29 ستمبر 2023
نبی کریمۖ پر درود و سلام کی فضیلت

کینیڈا بھارت تعلقات سرد مہری کا شکار وجود جمعرات 28 ستمبر 2023
کینیڈا بھارت تعلقات سرد مہری کا شکار

سعودیہ اور اسرائیل دوستانہ روش پر وجود جمعرات 28 ستمبر 2023
سعودیہ اور اسرائیل دوستانہ روش پر

وکیل اور وکالت وجود بدھ 27 ستمبر 2023
وکیل اور وکالت

اشتہار

تجزیے
متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!! وجود هفته 23 ستمبر 2023
متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!!

نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟ وجود بدھ 20 ستمبر 2023
نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟

نیپرا کا عوام کش کردار وجود جمعه 15 ستمبر 2023
نیپرا کا عوام کش کردار

اشتہار

دین و تاریخ
حضور سرور کونین،تاجدار مدینہ،خاتم النبیین حضرت محمدﷺکی سیرت طیبہ وجود جمعه 29 ستمبر 2023
حضور سرور کونین،تاجدار مدینہ،خاتم النبیین حضرت محمدﷺکی سیرت طیبہ

سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش وجود هفته 23 ستمبر 2023
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش

جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے وجود جمعه 15 ستمبر 2023
جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے
تہذیبی جنگ
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے

مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی وجود جمعرات 03 اگست 2023
مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی

کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے
بھارت
بھارت میں ہم جنس پرست لڑکیوں نے شادی کر لی وجود جمعرات 28 ستمبر 2023
بھارت میں ہم جنس پرست لڑکیوں نے شادی کر لی

سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم وجود منگل 19 ستمبر 2023
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم

آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا

بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا وجود بدھ 06 ستمبر 2023
بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا
افغانستان
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا

افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی وجود پیر 14 اگست 2023
افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی

بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام وجود منگل 08 اگست 2023
بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام
شخصیات
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے وجود جمعه 22 ستمبر 2023
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے

معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال
ادبیات
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر

فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے وجود پیر 11 ستمبر 2023
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال