وجود

... loading ...

وجود
وجود

نفرت کی سیاست کے تباہ کن نتائج

پیر 04 ستمبر 2023 نفرت کی سیاست کے تباہ کن نتائج

معصوم مرادآبادی

ہندوؤں اور مسلمانوں درمیان نفرت کا زہرپھیلاکر سیاسی روٹیاں سینکنے والوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اس عمل کا انھیں بہت فائدہ پہنچ رہا ہے، لیکن درحقیقت نفرت کی یہ سیاست بہت بھاری پڑرہی ہے اورملک کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑرہا ہے ۔ ایک ایسے زمانے میں جب پوری دنیا میں مفاہمت اور مذاکرات کا دور جاری ہے ، ہمارے ملک میں سرگرم فرقہ پرست اور فسطائی طاقتیں ٹکراؤ اور تصادم کو ہی راہ نجات سمجھتی ہیں اور وہ مسلسل ایسی حرکتیں کررہی ہیں، جن سے ملک میں خوف وہراس پھیل رہا ہے ۔گزشتہ ہفتہ اترپردیش کے مظفرنگر کے ایک اسکول میں ایک کمسن مسلم طالب علم کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ دراصل اسی منافرانہ سیاست کا نتیجہ تھا۔اس واقعہ سے عالمی سطح پر ملک کی جو بدنامی ہوئی ہے ، اس کی مثال حالیہ عرصے میں نہیں ملتی۔اس واقعہ نے چندریان 3کی حصولیابی کو بھی پھینکا کردیا۔
گزشتہ بدھ کو ہندوستان کے خلائی سائنسدانوں نے ایک ایسی تاریخ رقم کی جس سے ہر ہندستانی کا سرفخر سے بلند ہوگیا۔خلائی تحقیق کے مرکزی ادارے اسرو نے چندریان 3 کو چاند کے اس حصے پر اتارنے میں کامیابی حاصل کی، جہاں ابھی تک کسی بھی ملک کے قدم نہیں پہنچے تھے ۔ اس طرح امریکہ، چین اور روس کے بعد ہندوستان چوتھا ملک بن گیاہے جو چاند کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوا۔ حقیقتاً یہ اتنی بڑی حصولیابی تھی کہ پوری دنیا میں دھوم مچ گئی اور دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ نے ہندوستانی خلائی سائنسدانوں کو خراج تحسین پیش کیا۔ کئی غیرملکی سربراہوں نے اس حصولیابی کے لیے ہندوستان کو مبارکباد دی، لیکن اس واقعہ کو ابھی دودن بھی نہیں گزرے تھے کہ ہندوستان سے متعلق ایک اور خبر عالمی ذرائع ابلاغ کا حصہ بنی جس نے ہندوستان کو شرمندگی اور ندامت سے دوچارکیا۔ یہ خبر تھی ضلع مظفر نگر کے ایک اسکول کی، جہاں ایک متعصب خاتون ٹیچرنے ایک مسلمان بچے کو ہندو بچوں سے پٹواکر اور مسلمانوں کے خلاف توہین آمیز جملے ادا کرکے ہندوستان کو پوری دنیا میں شرمسار کردیا۔ یہ معاملہ مظفر نگر کے دوردراز گاؤں کا ضرور تھا لیکن اس نے ملکی اور عالمی پیمانے پر جو شہرت حاصل کی، وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ ایک کمسن بچے کے ساتھ اس کے مذہب کی بنیاد پر ناروا سلوک ہی نہیں کیا گیا بلکہ اس کے مذہب والوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ظاہر ہے اس عمر میں بچوں کو نہ تو اپنے مذہب کے بارے میں زیادہ معلومات ہوتی ہیں اور نہ ہی وہ تعصب اور تنگ نظری کے بارے میں جانتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں جس وسیع پیمانے پر سماج میں نفرت گھولی گئی ہے اور جس طرح مسلمانوں کو حرف غلط کی طرح مٹانے کی کوششیں کی گئی ہیں، اس کے اثرات بہت دور تک مرتب ہوئے ہیں اور اب مسلمان کہیں بھی خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے ۔ضلع مظفر نگر کے نیہا پبلک اسکول میں جو کچھ ہوا وہ اچانک نہیں تھا، بلکہ اس کی آبیاری برسوں سے کی جارہی ہے ۔ سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہے کہ حکومت کی وہ مشنری جس کا کام بلا تفریق مذہب وعقیدہ سب کے ساتھ انصاف کرنا ہے ، کھلے عام جانبدارانہ طرزعمل اختیار کررہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کمسن بچے کو اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کا نشانہ بنانے والی ٹیچر ترپتا تیاگی کے خلاف تو ایسی معمولی دفعات کے تحت مقدمہ قایم کیا گیا ہے جس میں اس کی فوری ضمانت بھی ہوگئی،جبکہ اس واقعہ کی ویڈیو کو عالمی ذرائع ابلاغ تک پہنچانے والے فیکٹ چیکر محمد زبیر کے خلاف زیادہ سنگین دفعات کے تحت مقدمہ قایم کرلیا گیا ہے ۔زبیر پر الزام ہے کہ اس نے بچے کی شناخت ظاہر کرکے بچوں کے تحفظ سے متعلق قانون کی سنگین خلاف ورزی کی ہے ۔جس وقت یہ واقعہ منظرعام پر آیا تھا تو اسی وقت چاروں طرف سے یہ مطالبات کئے جانے لگے تھے کہ خاطی ٹیچر کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کی جانی چاہئے ، لیکن اس خاتون ٹیچر کے عمل کی مذمت کرنے کے باوجود حکمراں طبقہ کے لوگ اس کے دفاع میں آگئے کیونکہ معاملہ ایک مسلمان بچے کا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل میں یہ خاتون ٹیچر حکمراں جماعت کی کوئی اہم لیڈر بن جائے اور اسے الیکشن کے میدان میں بھی اتاردیا جائے ۔ دراصل اس ملک میں نفرت کا کاروبار اسی لیے پھل پھول رہا ہے کہ اس قسم کے زہریلی ذہنیت والے عناصر کو ایک فاسد سیاسی سوچ تحفظ فراہم کر رہی ہے ، جبکہ اس کے برعکس اگرکہیں کسی مسلمان سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے تو اسے سخت ترین سزا دی جاتی ہے ۔ اس کا ایک ثبوت مدھیہ پردیش کے دموہ علاقہ کا واقعہ ہے ۔ وہاں ایک مسلم اسکول پر محض اس لیے بلڈوزر چلا کراسے نیست ونابود کردیا گیا کیونکہ بعض شرپسندوں نے دعویٰ کیا تھا کہ اس اسکول میں غیرمسلم بچیوں کو حجاب پہننے پر مجبور کیا جارہا ہے ۔ حالانکہ اس اسکول میں 70 فیصد مسلم اور30 فیصد غیر مسلم بچیاں زیرتعلیم تھیں۔ واضح رہے کہ حجاب اسکول یونیفارم کا حصہ تھا اور غیرمسلم بچیوں پر اس معاملے میں کوئی جبر نہیں تھا۔ اس اسکول میں 1200 طالبات زیرتعلیم تھیں، لیکن کسی تحقیق کے بغیر اسکول پر بلڈوزر چلاکر اسے منہدم کردیا گیا، لیکن مظفر نگر کے نیہا پبلک اسکول کے معاملے میں انتظامیہ کا رویہ بہت محتاط ہے اور اس کی منظوری ختم کرنے پر ابھی تک غور ہی کیا جارہا ہے ۔
وزیراعظم نریندر مودی کی سنئے تو ایسا محسوس ہوگا کہ ملک میں ہرطرف ترقی اور خوشحالی کا دور دورہ ہے ۔ ملک میں کہیں بھی کوئی شورش اور بے چینی نہیں ہے ۔ انھوں نے چندریان 3کی کامیابی پر جو بیانات دئیے ہیں، ان سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے ۔ یہاں تک کہ انھوں نے چاند کے اس مقام کا نام بھی ‘شیوشکتی استھل’ رکھ دیا ہے جہاں چندریان3 کی لینڈنگ ہوئی ہے ۔ اسی سے تحریک پاکر آل انڈیا ہندو مہا سبھا کے صدر سوامی چکر پانی نے چاند کو ‘ہندو راشٹر’ قرار دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ پارلیمنٹ میں قرار داد پاس کرکے چاند کو ہندو سناتن راشٹر قرار دیا جائے ۔اتنا ہی نہیں انھوں نے یہ بھی کہا کہ چندریان3 کی لینڈنگ کے مقام ‘شیوشکتی استھل’ کو ہندو راشٹر کی راجدھانی کے طورپر تیار کیا جائے تاکہ ‘جہادی ذہنیت کا حامل’ کوئی دہشت گردوہاں نہیں پہنچ سکے ۔یہ اور اس قسم کے مضحکہ خیز بیانات ہندوستان کی جگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں۔ افسوس کہ اس قسم کے عناصر پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت ملک میں نفرت کی تیز ہوائیں چل رہی ہیں۔مسلمان اس کا خاص نشانہ ہیں۔ جس روز چندریان 3کی لینڈنگ ہوئی اس دن مشرقی دہلی کے ایک سرکاری اسکول میں بھی مظفر نگر جیسا واقعہ ہوا۔ یہاں ایک متعصب ٹیچر نے نویں کلاس کے مسلم طالب علموں کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان قائم کرکے قابل اعتراض باتیں کہیں۔ مذکورہ ٹیچر کے خلاف چار مسلم طلباء نے ایف آئی آر درج کرائی ہے ۔حالانکہ چندریان 3 کی کامیابی کا جشن مسلمانوں نے بھی برادران وطن کے ساتھ جوش خروش کے ساتھ منایا۔ یہاں تک کہ لینڈنگ کے دن کئی مسجدوں میں خصوصی دعاؤں کا بھی اہتمام کیا گیا، مگر جن لوگوں کی ذہنیت خراب ہے ،وہ اسی قسم کے اعتراضات درج کراتے رہیں گے ۔
قابل غور بات یہ ہے کہ ایک طرف تو ہمارے وزیراعظم ہندوستان کو ‘وشوگرو’ بنانے کی تگ ودو میں مصروف ہیں۔ وہ آئے دن یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہندوستان جلد ہی دنیا کی بڑی معیشت بن جائے گا۔لیکن زمینی صورتحال سے انھوں نے مکمل چشم پوشی اختیار کررکھی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ چندریان 3 کی کامیاب لینڈنگ سے ہندوستان کو جو سربلندی نصیب ہوئی تھی ، اسے مظفر نگر کے واقعہ نے بہت چوٹ پہنچائی ہے ۔ ہندوستان کی حصولیابیوں اورترقیات کو پلیتہ کون لگا رہا ہے ، یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے ۔فرقہ پرست اور فسطائی عناصر کو اگر یونہی چھوٹ حاصل رہی تو ملک کو اور برے دن دیکھنے پڑیں گے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
کچہری نامہ (٤) وجود پیر 20 مئی 2024
کچہری نامہ (٤)

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے ! وجود پیر 20 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے !

عصرحاضرکادہشت گرد وجود پیر 20 مئی 2024
عصرحاضرکادہشت گرد

چائے والا کروڑوں مالیت کے اثاثوں کا مالک وجود پیر 20 مئی 2024
چائے والا کروڑوں مالیت کے اثاثوں کا مالک

جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر