... loading ...
ماجرا/ محمد طاہر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ اقبال نے کہا تھا کہ دنیا کو اُس کی آنکھوں نے عریاں دیکھا ہے۔ پھر فرمایا:
حفظ اسرار کا فطرت کو ہے سودا ایسا
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
شیکسپیئر بھلائے ، بھولا نہ جا سکے گا۔ کیا عجیب نکتہ واشگا ف کیا۔”دو افراد کے مابین تعلق کو ایک محفوظ پناہ گاہ ہونا چاہئے ،جنگ کا میدان نہیں۔کیوں کہ دنیا بہت مشکل جگہ ہے”۔ افراد کے باہمی تعلق سے زیادہ اہمیت اس نکتے کی فرد اور ریاست سے تعلق کے مابین اُبھرتی ہے۔ مگر یہ سمجھے گا کون؟ طاقت ،دماغ سے نہیں ہاتھوں سے سوچتی ہے۔ اُس کی محبت کا لمس بھی احساس سے نہیں ڈنڈے سے اُبھرتا ہے۔ پاکستان کا موجودہ منظر نامہ اس اعتبار سے ماضی کے بدترین ادوار سے بھی زیادہ ابتر ، کہتر اور بدتر ہو چکا ہے۔ چنانچہ ڈولی (چیئر لفٹ) پر عوامی ردِعمل اِن ہی تہہ داریوں سے اُبھرا ہے۔ فرد اور ریاست کے مابین تعلق اب ایک محفوظ پناہ گاہ نہی رہا بلکہ یہ جنگ کا میدان بنتا جا رہا ہے۔
یہ وہ تناظر ہے جس میں ہمیں ڈولی (چیئر لفٹ) حادثے سے پیدا ہونے والے عوامی ردِ عمل کا جائزہ لینا چاہئے۔ چیئر لفٹ کا معاملہ کیا تھا۔خیبر پختونخوا کے علاقے بٹگرام میں طلباء سمیت 8 افراد ڈولی میں پھنس گئے جنہیں بچانے (ریسکیو) کے لیے پاک فوج سمیت مقامی لوگوں نے مدد کی۔پہلے ہی مرحلے میں پاک فوج کے بچاؤ مشن اور مقامی لوگوںکی مدد کو ایک نہیں سمجھا گیا۔ اور یہ دونوں طرف سے ہوا۔ میڈیا نے جو سرکس لگایا ، اس سے عوام نے اپنے اپنے تعصبات کے ساتھ پاک فوج کے مشن اور مقامی لوگوں کی فعالیت کو الگ الگ زاویوں سے دیکھنا شروع کیا۔ اسی مرحلے پر ہمیں سوچنا چاہئے کہ یہ بچاؤ مشن ایک کیوں نہیں سمجھا گیا؟اس کے پیچھے موجود عوامی رجحانات کا ایک سنجیدہ تجزیہ کرنا چاہئے۔ اگر ڈولی میں پھنسے افراد کو بچانے کے لیے فوجی کمانڈوز کامیاب ہو رہے تھے، تو اسے ملک کے ایک بڑے طبقے میں اپنی کامیابی کیوں نہیں سمجھا جا رہا تھا۔ سوال دوسرا بھی ہے اور اس سے بھی بڑا۔ اگر مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ڈولی میں پھنسے افراد کو بچانے میں کامیاب ہو رہے تھے تو اس پر ملک کے کچھ دوسرے طبقے خوش کیوں نہیں ہوئے۔ یہ پاک فوج زندہ باد اور عوام زندہ باد کے مختلف نعروں میں موقف کی لڑائی کیوں بن گئی؟ یہ دونوں نعرے ایک دوسرے کے ہم معنی کیوں نہیں رہے؟ یہ متضاد الفکر کیوں ہو گئے؟ یہ سوال لرزا دینے والے ہیں؟ سماجی رابطوں کے ابلاغی ذرائع پر یہ ایک معرکہ بن کر ظاہر ہوا۔ جس میںہم ملک میں پنپنے والے رویوں کو پہچان سکتے ہیں۔ مقامی لوگوں کی مدد سے ہونے والے بچاؤ مشن کو اس طرح بیان کیا گیا کہ جس سے فوج کے ذم کا مخفی یا جلی تاثر اُبھرے، یہ ایک رویہ ہے۔دوسری طرف فوج کے بچاؤ آپریشن کو اس طرح پیش کیا گیا کہ اس سے عام لوگوں کے امدادی کاموں کو دھیما یا مخفی رکھا جا سکے، یہ دوسرا رویہ ہے۔ یہ دونوں رویے زہر ِ قاتل ہیں۔ کیونکہ ان دونوں رویوں میں قومی شعور نہیں گروہی تعصب کے دہکتے الاؤ ہیں۔
ردعمل کے اس متوازی بہاؤ کا ایک نئے مسئلے سے بھی تعلق ہے۔ آج کل ہر معاملے کا تناظر عمران خان کے ساتھ مخصوص رویے سے بنایا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ طاقت ور حلقوں کا ہمیشہ سے رہا ہے۔ اس میں الزامات کی نوعیت ہمیشہ یکساں رہتی ہے بس ہدف یا شخصیات بدلتی رہتی ہیں۔ان دنوں عمران خان تاریخ کے اسی گرداب کے شکار ہیں۔ ڈولی میں پھنسے لوگوں کو بچانے کے مشن پر جو ردِ عمل اُبھرے اس میں ایک بڑی لہر عمران خان کے ساتھ جاری حالیہ تنازع کی پیداوار بھی ہے۔ عمران خان کے حامی ”عوام زندہ باد” کے ساتھ فوجی کمانڈوز اور ہیلی کاپٹر کے ذریعے بچانے کے عمل پر طرح طرح کے سوالات اُٹھا رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ اس میں کچھ سوال جائز بھی ہوں مگر ان کا رویہ دراصل فوجی مشن کی تذلیل کا تھا، مقامی لوگوں کی تحسین میں بھی ان کا ہدف یہی تھا۔ مقامی لوگوں کی تحسین بالکل جائز ہے، ان کا بچاؤمشن شاندار لفظوں میں بیان کیے جانے کے قابل ہیں اور اُنہیں قومی سطح پر زبردست پزیرائی کے ساتھ انعام واکرام سے بھی نوازنا چاہئے مگر یہ سب کچھ فوجی مشن کے خلاف ردِ عمل پیدا کرنے کی نیت سے نہیں بلکہ حقیقی طور پر ہونا چاہئے۔اس کے متوازی دوسرا معاملہ ”فوج زندہ باد” کے نعرے کا تھا۔ اس کے پرچم بردار زیادہ تر وہ تھے، جو فوج کے بچاؤ مشن کی تحسین کرنا نہیں چاہ رہے تھے، بلکہ وہ اس میں عمران خان کی مذمت کی گنجائش پیدا کررہے تھے۔ ایسی حمایت کی کوئی قدر ووقعت نہیں۔ مستعار ذہن و قلم اسی طرح بروئے کار آتے ہیں۔ یہ دوسری طرف کا مصنوعی پن تھا۔ دراصل ان تمام مسائل کی جڑ اوران رویوں کا اصل سبب یہ ہے کہ ہم کوئی قومی مزاج ہی نہیں رکھتے۔ ہمارے ہاں مشترکات تیزی سے کم ہوتے جارہے ہیں۔ باہمی لڑائیوں میں پاکستان بھی چھوٹا پڑ رہا ہے۔ قومی اداروں پر عوام میں کم ہوتا اعتما داب مدلل ہوتا جارہا ہے۔ اور اسے ملک دشمنی کے ہم معنی بنانے کی حکمت عملی اپنا اثر کھوتی جارہی ہے۔ یہ ایک دل دہلا دینے والا منظرنامہ ہے۔
ڈولی میں اُس روز آٹھ افراد نہیں لٹکے ہوئے تھے، ہمارا قومی مستقبل بھی ان پیچیدہ رویوں کے ساتھ جھول رہا تھا۔ لوگ تو ریسکیو کر لیے گئے، مگر ہمارے یہ متحارب رویے قومی زندگی کے لیے اس سے بھی بڑا خطرہ ہے، اسے بھی ریسکیو کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ رویوں کی یہ ڈولی ابھی بھی لٹکی ہوئی ہے۔ فرد اور ریاست کے مابین تعلق محفوظ پناہ گاہ سے نکل کر میدان جنگ میں داخل ہو چکا ہے۔ پورے ملک سے آوازیں ہیں کہ طاقت ور حلقوں کا دباؤ ہے کہ بڑھتا جارہا ہے۔ لوگ آزاد فضا میں سانس لیتے ہوئے مشکلات محسوس کر رہے ہیں۔ مہنگائی سے حکومت کی بے نیازی سفاکانہ طرزِعمل کا روپ دھار چکی ہے۔ ریاست کے تمام ادارے عوام میں اعتماد کھوتے جارہے ہیں۔ اب پورا ملک خود کو قانون کے جبر تلے محسوس کررہا ہے۔ پاکستان کے تمام اعلیٰ دماغ ملک چھوڑ رہے ہیں۔ سات لاکھ لوگ شہباز شریف کے سولہ ماہ کی حکومت میں ملک چھوڑ چکے ہیں۔ پاکستان کے نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اس صورت ِ حال پر سفاکانہ بے حسی کے ساتھ اپنے پالا نہاروں کے موقف کی عکاسی کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”تو کیا ہوا ”؟ اگر یہ بھی کچھ نہیں ہے تو پھر کچھ بھی کچھ نہیں ہے۔ یہ حد ہے اور حد عبور ہو چکی ہے۔ اس کیفیت میں ادارے عوام سے احترام طلب کر رہے ہیں۔ ڈولی پر اڑتے ہیلی کاپٹر پر تالیاں پٹوانا چاہتے ہیں۔یہ سب کیسے ہوگا؟ ۔علامہ اقبال نے جسے فطرت کا راز داں لکھا تھا ، شیکسپیئر نے نکتہ واشگاف کیا:دو افراد کے مابین تعلق کو ایک محفوظ پناہ گاہ ہونا چاہئے ، جنگ کا میدان نہیں۔کیوں کہ دنیا بہت مشکل جگہ ہے”۔ ریاست نہیں سمجھ رہی، یہ دنیا صرف ایک فرد کے لیے نہیں ریاست کے لیے بھی اتنی ہی مشکل جگہ ہوتی ہے۔
٭٭٭