وجود

... loading ...

وجود
وجود

صرف مسجدوں کا ہی سروے کیوں؟

بدھ 02 اگست 2023 صرف مسجدوں کا ہی سروے کیوں؟

معصوم مرادآبادی

بنارس کی گیان واپی مسجد کا سائنسی سروے کرائے جانے سے متعلق خبروں کے درمیان یوپی کے سینئر سیاست داں سوامی پرساد موریہ نے یہ سوال اٹھایا ہے کہاگر سروے ہورہا ہے تو صرف گیان واپی کا ہی کیوں، ملک کے تمام ہندو مندروں کی بھی جانچ ہونی چاہئے ۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ ملک میں بیشتر ہندومندر بودھ مٹھوں (خانقاہوں)کو توڑ کر بنائے گئے ہیں۔موریہ نے بدری ناتھ دھام کے حوالے سے بھی ایسا ہی دعویٰ کیا۔اے بی پی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہآٹھویں صدی تک بدری ناتھ دھام بھی بودھ مت کی ایک خانقاہ تھی،آدی شنکر اچاریہ نے اسے مندر بنادیا۔ ایسی صورت میں اگر گڑے مردے اکھاڑے جائیں گے تو پھر بات صرف مسجدوں تک ہی محدود نہیں رہے گی، بہت دور تک جائے گی۔ سبھی جانتے ہیں کہ بنارس کی تاریخی گیان واپی مسجد کے سروے کا معاملہ فی الحال الہ آباد ہائی کورٹ میں زیرسماعت ہے ۔ایک مقامی عدالت نے یہ پتہ لگانے کے لیے کہ مسجد کے نیچے کسی مندر کے باقیات تو نہیں ہیں، محکمہ آثار قدیمہ کو سائنسی سروے کرنے کا حکم دیا تھا۔ سروے شروع بھی کردیا گیا تھا، لیکن اس دوران مسجد انتظامیہ کمیٹی کی ایک عرضی پر سپریم کورٹ نے حکم امتناعی جاری کردیا اور اس معاملے کی سماعت الہ آباد ہائی کورٹ سے کرنے کو کہا۔ مسجد انتظامیہ کمیٹی کا کہنا ہے کہ محکمہ آثار قدیمہ کے سروے سے مسجد کی بنیادوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، لہٰذا اس کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے ۔ہائی کورٹ نے اس معاملہ پر اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے ۔
فرقہ پرستوں اور فسطائی طاقتوں نے آج کل ملک کی ہر تاریخی مسجد کے خلاف مہم چھیڑ رکھی ہے ۔ مسجدوں کونقصان پہنچانے کے نت نئے طریقے ایجاد کئے جارہے ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے وہ حکومت جس کی بنیادی ذمہ داری ملک میں امن وقانون قایم کرنا ہے ،فرقہ پرستوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے ۔گزشتہ ہفتہ کئی ایسی پریشان کن خبریں آئیں، جن سے مسجدوں کے خلاف جاری منظم مہم کا اندازہ ہوا۔ایودھیا میں اٹھارہویں صدی کی ایک مسجد پر انہدام کی تلوارلٹک رہی ہے ۔ اس کے ایک مینار کو شہید کیا جاچکا ہے اور باقی حصہ بھی سڑک چوڑا کرنے کے لیے منہدم کیا جانا ہے ۔ یہ کارروائیاترپردیش کا پی ڈبلیو ڈی محکمہ انجام دے رہا ہے ۔ دہلی میں کناٹ پیلس میں واقع دو مسجدوں کوریلوے نے اپنی زمین پر’ناجائز تعمیرات’ قراردے کر خالی کرنے کے لیے دوہفتہ کا نوٹس دیا ہے ، جس پر فی الحال عدالت نے روک لگادی ہے ۔ قطب مینار کے قریب واقع ایک تاریخی مسجد میں نمازپرپابندی عائد کرنے کا معاملہ بھی عدالت پہنچ گیا ہے ۔ گزشتہ کچھ عرصے سے ہرروزاخبارات میں اس قسم کی خبریں نظر آرہی ہیں کہ فلاں مسجد اور فلاں مزار کو ناجائز تعمیرات کے زمرے میں شامل کرکے منہدم کرنے کے احکامات دئے گئے ہیں یا انھیں شہید کردیا گیا ہے ۔اسی طرح صدیوں پرانی تاریخی مسجدوں کے نیچے مندرتلاش کرنے کاکام بلاروک ٹوک جاری ہے ۔ بنارس کی گیان واپی مسجد ہی نہیں، متھرا کی شاہی عید گاہ اور بدایوں کی تاریخی جامع مسجد کے خلاف بھی قانونی چارہ جوئی ہورہی ہے ۔ خبریں مسلسل آرہی ہیں۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ جب ملک میں عبادت گاہوں کے تحفظ کا قانون مجریہ 1991موجود ہے تو پھر ان تمام ریشہ دوانیوں کا کیا جوازہے ۔ آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اس قانون کو سنگھ پریوار کے لوگوں نے پہلے ہی سپریم کورٹ میں چیلنج کررکھا ہے ۔ اس معاملے میں سپریم کورٹ نے مرکز کا موقف جاننے کی کوشش کی ہے ، جس پر وہ ٹال مٹول کی پالیسی پر گامزن ہے ۔ پچھلی سماعت کے دوران اس بات کے اشارے ملے تھے کہ مرکز اس قانون کے خلاف رائے دے سکتا ہے ۔سبھی جانتے ہیں کہ مذکورہ قانون نرسمہا راؤ سرکار میں اس لیے بنایا گیا تھا کہ مستقبل میں ایودھیا جیسے سنگین اور خطرناک تنازعات پیدا نہ ہوں۔ ایودھیا تنازعہ کو اس قانون کے دائرے سے اس لیے باہر رکھا گیا تھا کہ یہ اس وقت عدالت میں زیرسماعت تھا۔ ایودھیا تنازعہ کی وجہ سے ملک کو جن خطرناک حالات سے دوچار ہونا پڑا ہے ، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔اس قسم کے تنازعات ملک کی یکجہتی اور امن وامان کے لیے سنگین چیلنج کا درجہ رکھتے ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس تنازعہ سے بی جے پی اور سنگھ پریوار نے جو سیاسی طاقت حاصل کی ہے ، وہ اپنی نظیر آپ ہے ۔ لہٰذا جب بھی اسے اپنی سیاسی پوزیشن کمزور ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ، وہ ایسے کسی نئے تنازعہ کو ابھارنے لگتی ہے ۔سب سے زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ مقامی عدالتیں اس معاملہ میں عبادت گاہ تحفظ قانون کو بھی خاطر میں نہیں لاتیں۔ آپ نے دیکھا کہ کس طرح بنارس کی گیان واپی مسجد کی حوض کے فوارے کو شیولنگ قراردے کر وہاں آخری درجہ کی شرانگیزی کی گئی۔ مقامی عدالت کے جج نے اس معاملے میں جو کردار ادا کیا وہ سب کے سامنے ہے ۔سلسلہ واقعات اس بات کے گواہ ہیں کہ سب کچھ ایک منصوبے کے تحت ہوا اور پوری مشنری اس میں شامل رہی۔ اب یہاں محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعہ اس کا سروے کرانے کا حکم بھی مقامی عدالت نے ہی جاری کیا، جس پر سپریم کورٹ نے عبوری روک لگائی۔اسی قسم کی حرکتیں متھرا کی شاہی عیدگاہ کے خلاف بھی کی جارہی ہیں اور اسے بھی متنازعہ بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ ماضی میں اس معاملے میں انتظامیہ کمیٹی اور مندر کمیٹی کے درمیان جومفاہمت ہوچکی ہے اسے بھی عدالت میں چیلنج کردیا گیا ہے ۔
مسجدوں کو متنازع اور غیرقانونی تعمیرات قرار دینے کے لیے کس حد تک دھاندلی برتی جارہی ہے ، اس کا اندازہ راجدھانی دہلی کی دو مسجدوں کو محکمہ ریلوے کی طرف سے جاری نوٹسوں سے ہوتا ہے ۔ ان میں کہا گیا ہے کہ یہ مسجدیں چونکہ ریلوے کی زمین پر تعمیر کی گئی ہیں، اس لیے مسجد انتظامیہ انھیں دوہفتہ کے اندر خود منہدم کردے ۔اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ریلوے ان پر کارروائی کرے گا۔ناردرن ریلوے کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ مسجدوں کی تعمیرنئی دہلی۔غازی آباد کے درمیان واقع روٹ پر کئی گئی ہے اور یہ ریلوے سیفٹی کے لیے سخت نقصان دہ ہے ، اس لیے ان دونوں کا یہاں سے ہٹانا ضروری ہے ۔نوٹس کی زبان ملاحظہ فرمائیں:ریلوے کی زمین پر ناجائز قبضہ کیا گیا ہے ۔آپ کو حکم دیا جاتا ہے کہ رضاکارانہ طورپر اسے منہدم کردیں۔اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ریلوے قانونی کارروائی کرے گا۔ جب اس سلسلہ میں
چھان بین کی گئی تو معلوم ہوا کہ ریلوے کا دعویٰ ہی غلط ہے ۔یہ دونوں مسجدیں وقف بورڈ میں رجسٹرڈ ہیں اور خود ریلوے نے وقف کی زمین پر قبضہ کررکھا ہے اور اس سلسلہ میں عدالتی چارہ جوئی جاری ہے ۔
دہلی کے مشہورزمانہ کناٹ پیلس میں واقع مسجد بنگالی مارکیٹ اور تلک برج کے قریب واقع مسجد تکیہ ببر شاہ کا پورا ریکارڈ دہلی وقف بورڈ کے پاس موجود ہے ۔یہ دونوں مسجدیں دہلی کی ان 123 وقف جائیدادوں میں شامل ہیں جن کا معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہے ۔ دراصل حکومت قیمتی علاقوں میں واقع جن 123جائیدادوں کو ہڑپنا چاہتی ہے ، ان میں کئی مسجدیں اور قیمتی پلاٹ شامل ہیں جن پر زمین مافیا بھی عرصے سے نگاہ لگائے بیٹھا ہے ۔ دراصل مذکورہ دونوں مسجدیں ان 42 مذہبی مقامات میں شامل ہیں جو برٹش دور میں ایک معاہدے کے تحت مسلمانوں کو واگزار کی گئی تھیں۔اس معاہدے پر دہلی کی جامع مسجد کے اس وقت کے امام، سنی مجلس اوقاف کے چیئرمین نوابزادہ لیاقت علی خاں اور برٹش دور کے کمشنر کے دستخط موجود ہیں۔ معاہدے کی اصل کاپی دہلی وقف بورڈ کے ریکارڈ میں محفوظ ہے ۔اس سلسلہ میں دہلی وقف بورڈ کا کہنا ہے کہ’مسجد تکیہ ببر شاہ نے ریلوے کو اپنا پل چوڑا کرنے کے لیے 94گز اراضی دی تھی، جس کے تمام کاغذات محفوظ ہیں۔اس کے علاوہ وہ پلان بھی موجود ہے جس کے تحت 94 گززمین دے کر90 گززمین واپس لی گئی تھی۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ2001میں شمالی ریلوے نے بنگالی مارکیٹ میں واقع مسجد کی انتظامیہ کمیٹی کو ایک تحریری درخواست دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ اگر آپ ہمیں تھوڑی سی جگہ دے دیں توہمارا 3500 کروڑ روپے کا منصوبہ ناکام ہونے سے بچ جائے گا۔ یہ زمین دراصل ریلوے لائن سیدھا کرنے کی غرض سے مانگی گئی تھی۔مسجد کمیٹی نے ریلوے کی درخواست پرمفاد عامہ کے تحت غور کرتے ہوئے اس کو یہ جگہ دے دی، لیکن اب ریلوے پوری طرح دھاندلی پر اترآیا ہے ۔مسجد تقریباً چار سوسال پرانی ہے جبکہ ریلوے لائن بہت بعد میں بچھائی گئی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس زمین پر پٹری بچھائی گئی ہے وہ مسجد کی ملکیت ہے ۔ریلوے اس حقیقت کو جھٹلاکر مسجدوں کی زمین کو ہی ہڑپنا چاہ رہا ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ ملک میں بے شمار ریلوے ٹریک اور اسٹیشن ایسے ہیں جہاں ریلوے کی زمین پر ناجائز مندر تعمیر کرلیے گئے ہیں، لیکن موجودہ دور میں انتظامیہ کی نظر میں صرف مسجدیں اور مزار ہی کھٹک رہے جن کا وجود مٹانے کی شرانگیز مہم چلائی جارہی ہے ۔ اس سلسلہ میں سوامی پرساد موریہ کا بیان خدالگتی کے ذیل میں آتا ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر