وجود

... loading ...

وجود
وجود

یہ کیا ہورہا ہے ؟

جمعرات 27 جولائی 2023 یہ کیا ہورہا ہے ؟

حمیداللہ بھٹی

قرض لیتے وقت حکومت نے عالمی مالیاتی اِدارے کی جو شرائط تسلیم کیں اُن میں سے ایک بجلی کے نرخوں میں اضافہ اور گردشی قرضہ کم کرنا ہے جسے مدِ نظر رکھتے ہوئے کابینہ کی منظوری سے بجلی کی قیمت میں سات روپے پچاس پیسے فی یونٹ اضافہ کردیاگیاہے۔ اِس ایک فیصلے سے بجلی صارفین پر تین ہزار چار سوپچانوے ارب کااضافی بوجھ پڑے گا۔ یہ فیصلہ عام آدمی کو تو متاثر کرے گا ہی ،صنعت وزراعت بھی اِس کے تباہ کُن اثرات سے محفوظ نہیں رہے گی، کیونکہ لاگت میں بے تحاشا اضافہ ہو جائے گا جس سے مہنگائی کاجنم لینے والا طوفان غریب کی کمر توڑکررکھ دے گا۔
حکومت کے حالیہ فیصلوں سے ملک کی معاشی حالت بہتر ہوگی یا نہیں اِس بارے میں وثوق سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ البتہ عام آدمی کی زندگی اجیرن ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ حکومت کے حالیہ فیصلوں کو عوام دشمن کہہ سکتے ہیں کچھ عرصے سے ہر حکومت کی اولیں کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح عوام کی جیب سے پیسے نکلوائے جائیں۔ بجلی کے بلوں میں ٹی وی،ریڈیو ٹیکس ایسی ہی کوششوں کا حصہ ہے حالانکہ مساجد کے بلوں میں ٹی وی فیس شامل کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا ۔کیونکہ وہاںایسی خرافات کا کوئی امکان ہی نہیں۔ اب توریڈیو فیس بھی عائد ہوگئی ہے جب پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ریڈیوکاکوئی حصہ نہیں اورسامعین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے پھر بھی حکومت بحالی چاہتی ہے تو ہونا یہ چاہیے کہ ریڈیو سامعین سے ہی فیس وصول کی جائے مگر بجلی کے بلوں کا حصہ بنا کر طاقت کے بل بوتے پر یہ وصولی بدمعاشی ہے۔ ممکن ہے اِس بارچودہ اگست کو لوگ دل دل پاکستان گانے کی بجائے بل بل پاکستان کی دُہائیاں دیں۔ ملک میںایسی اصلاحات کی ضرورت ہے جس سے اِداروں کا خسارہ ختم ہو ہر اِدارے کی بحالی کے لیے عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانا حل نہیں۔عوام کویہ بھی خدشہ ہے کہ تقسیمِ ہند کے وقت مسلمانوں کو پاکستان لانے کے لیے استعمال ہونے والی ٹرین کے اخراجات بھی کہیں موجودہ حکومت ہی نہ وصول کرنا شروع کردے ۔
اگر حکومت معاشی بحالی میں سنجیدہ ہے تو اُسے غیر ضروری اخراجات پر قابوپانا ہوگا مگر ایسا کچھ نہیں ہورہا۔ اِس وقت جب دیوالیہ ہونے کے خطرات کا سامنا ہے ملکی تاریخ کی بھاری بھرکم پچاسی رُکنی کابینہ موجود ہے جن میں سے اکثرکا عوامی مسائل حل کرنے میں کوئی کردار نہیں۔ بلکہ زیادہ تر مراعات وصول کرنے یا پھر غیر ملکی دوروں میں مصروف رہتے ہیں۔ گاڑیاں ،پیٹرول،علاج معالجے اور مفت رہائش فراہم کرنے پر اربوں روپیہ صرف کیا جارہا ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ برس سے تو خصوصی طیارہ استعمال کرنے کا رجحان جنم لے چکا ہے۔ عوامی حلقوں کا مطالبہ ہے کہ معاشی بحالی کے لیے عوام کا خون نچوڑنے کے بجائے اشرافیہ کی مراعات کم کی جائیں مگر حکومت شاید سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے ایسا کرنے سے قاصر ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے پروگرام یو این ڈی پی ،این ایچ آر کے مطابق ملک کی جی ڈی پی کا چھ فیصد اشرافیہ کو دی جانے والی مراعات پرخرچ ہوجاتا ہے۔ یہ رقم ساڑھے سترہ ارب ڈالر بنتی ہے ۔کیسی ستم ظریفی ہے کہ کاروباری،جاگیر دار اورملک کاامیر ترین ایک فیصد طبقہ سب سے زیادہ مراعات یافتہ ہے۔ پاکستان کے امیرترین لوگوں کا بیس فیصد ملک کی تقریباََ نصف آمدن کامالک ہے پھربھی اِنھیں ہر حکومت ٹیکس میں چھوٹ دیتی ہے اور عوام کو آسان اور کمزور ہدف جان کر مختلف قسم کے ٹیکس لگائے جاتے ہیں ایسی ہی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ ملک کی نصف آبادی غربت کا شکار ہے۔ ہم دشمن کے بچوں کو پڑھانے کی باتیں کرتے پھر تے ہیں اورہمارا دشمن چاند پر پہنچ چکا ہے جبکہ ہم آج بھی آئی ایم ایف سے قرض ملنے پر خوشیاں منا رہے ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ طرزِ عمل پرغور کیاجائے اور غلطیاں دور کرنے کا طریقہ کار بناکر صدقِ دل سے عمل بھی کریں۔جس قومی اسمبلی میں قوانین پاس کرنے کے لیے بارہ آدمی حاضر ہوں اور مزے کی بات یہ کہ کوئی بھی کورم کی نشاندہی نہ کرے بلکہ بل پاس ہوجائے اور غیر حاضر ممبران مراعات وصول کرلیں ،اُس حکومت کو عوامی اور فلاحی نہیں کہہ سکتے۔
چند ماہ قبل وفاقی حکومت نے اخراجات کے لیے مطلوبہ رقوم نہ ہونے کا جواز پیش کرتے ہوئے پنجاب میں انتخابات کرانے سے انکار کر دیا تھا لیکن اب پنجاب کی نگران حکومت نے بیوروکریسی کو سوادوارب روپے کی نئی اور مہنگی گاڑیاں خرید کردینے کا پروگرام بنایاہے اورکابینہ سے منظوری لیکرگاڑیوں کی خرید بھی شروع کردی ہے ۔وفاقی حکومت کے اعلان کے مطابق یہی پنجاب حکومت صوبائی سرکاری ملازمین کی تنخواہ اور پینشن میں اضافہ کرنے سے یہ کہہ کر انکاری تھی کہ صوبے کے پاس وسائل نہیں جس پر سرکاری ملازمین نے دھرنا دے کراپنے مطالبات منوائے ۔اب جبکہ بیورو کریسی کی طرف سے نئی گاڑیوں کا کوئی مطالبہ بھی نہیں کیا گیا پنجاب حکومت نے فیاضی کامظاہرہ کرتے ہوئے نوازشات کی حد کردی ہے۔ یہ منصوبہ کسی طور عوامی مفاد میں نہیںبلکہ عام انتخابات سے قبل انتظامیہ کوخوش کرنا اورانتخابی عمل کے دوران ہمدردیاں حاصل کرنے کے سلسلے کی کڑی لگتاہے ۔ ایک طرف تو ہمارا ملک آئی ایم ایف سے ملنے والے قرضوںپر زندہ ہے لیکن حکومتی شاہ خرچیاں دیکھ کر معاشی بدحالی کی باتیں جھوٹ معلوم ہوتی ہیں۔ ایسے حالات میںجب ٹیکس عائد کرنے میں ملک کو ناکامی کا سامنا ہے، غیر ضروری اور مراعات پر ہونے والے اخراجات کا جی ڈی پی کا پچیس فیصد ہوجا ناخطرے کا الارم ہے۔ سوچنے والی بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس عوام کو ریلیف دینے کے لیے کچھ نہیں ۔مگرقرض لیکر ضائع کردینا سمجھ سے بالاتر ہے ۔عوامی سوال یہ ہے کہ بجلی کے نرخ بڑھانا اگر آئی ایم ایف کی شرائط کا حصہ ہے تو کیا اربوں کی نئی گاڑیاں خریدنا عالمی مالیاتی اِدارے کی ہدایات کاحصہ ہے؟
ملک میں ہو کیا رہا ہے عوام دیکھ دیکھ کر حیران و پریشان ہیں۔اسی حیرانی وپریشانی کی وجہ سے جوبچے گھروں میں جھنڈیاں لگاکر چودہ اگست مناتے تھے، وہ اب جوان ہوکر ملک چھوڑنے اور دیارِ غیر میں روزگارتلاش کرنے پر مجبور ہیں۔ مگرخراب ترین صورتحال کا سیاسی اشرافیہ کوادراک ہی نہیں ۔وہ آج بھی کہہ رہے ہیں کہ چوتھی بار اقتدار ملا تو ملک کی تقدیر سنوار دیں گے۔ شایدپہلے اُن سے بھول ہو گئی تھی اور وہ ملک کی بجائے غلطی سے اپنے بچوں کی تقدیر سنوارنے میں لگے رہے۔ بیرونِ ملک رہنے والے ووٹ کے حقدرار نہیں تو یہ پوچھنا تو بنتاہے کہ بیرونِ ملک جائیدادیں بنانے والے یہاں الیکشن لڑنے کے کیونکر اہل ہیں؟علاوہ ازیں ملک میں سب سے زیادہ شوگرملز مالکان کا تعلق استحکام پارٹی سے ہے جس کا دعویٰ ہے کہ اقتدارمیں آکرتین سو یونٹ بجلی فری اور مہنگائی کم کردیں گے، حالانکہ یہ چاہیں تو اب بھی چینی کی قیمت آدھی کرنے پر قادرہیں جو عوام کے لیے کسی بڑے ریلیف سے کم نہیں ہو گامگر لگتاہے یہاں سب اقتدار میں آکر ہی کچھ کرنا چاہتے ہیں اگر اقتدار نہیں تو یہ بھی صرف وعدے ہی کریں گے۔
٭٭٭
؎


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر