... loading ...
سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات چلانے کے خلاف کیس میں ریمارکس دیے ہیں کہ سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر فوجی عدالتوں میں ملزمان کا ٹرائل شروع نہیں کیا جائے، حکم کی خلاف ورزی پر ذمہ داروں کو طلب کریں گے، عدلیہ کی آزادی کو سپریم کورٹ بنیادی حقوق قرار دے چکی ہے، ہم ٹرائل کورٹ پر سب کچھ نہیں چھوڑ سکتے، 2015 میں اکیسویں ترمیم کے ذریعے آئین پاکستان کو ایک طرف کردیا گیا مگر اب ایسا نہیں ہے،چاہتے ہیں زیر حراست افراد کو بنیادی حقوق ملنے چاہئیں، انہیں اپنے اہلِخانہ سے ملاقات کی اجازت ہونی چاہیے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 6 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔دوران سماعت اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے عدالت کو وفاق کے مؤقف سے آگاہ کیا۔اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے مجھے اپیل کا حق ملنے کی بابت حکومت سے پوچھنے کی ہدایت دی تھی۔انہوں نے گزشتہ سماعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میں نے 9 مئی کے پیچھے منظم منصوبے کی بات کی تھی اور ہنگامہ آرائی کی تصاویر بھی عدالت میں پیش کی تھیں۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ کس کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہوگا کس کا نہیں اس کا انتخاب کیسے کیا گیا؟اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم بہت محتاط ہیں کہ کس کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلنا ہے، 102 افراد کے خلاف فوجی عدالت میں مقدمہ چلانے کے لیے بہت احتیاط برتی گئی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہاکہ عدالت میں دکھائے گئے وڈیو کلپس سے ظاہر ہے کہ 9 مئی کی ہنگامہ آرائی میں بہت سے افراد شامل تھے، بڑی تعداد ہونے کے باوجود احتیاط کے ساتھ 102 افراد کو کورٹ مارشل کیلئے منتخب کیا گیا۔انہوںنے کہاکہ 9 مئی جیسا واقعہ ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا اور ایسے واقعات کی مستقبل میں اجازت نہیں دی جاسکتی۔انہوں نے کہا کہ میانوالی ایئربیس پر جب حملہ کیا گیا اس وقت وہاں جنگی طیارے کھڑے تھے، ایسا آرڈیننس فیکٹری یا کسی اور جگہ بھی ہو سکتا تھا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ مجھ سے شفاف ٹرائل کی بات کی گئی تھی، ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کیس فیصلے میں ایک فرق ہے، جب عام شہری سول جرم کرے تو مقدمہ عام عدالتوں میں چلتا ہے، اکیسویں ترمیم کے بعد صوتحال تبدیل ہوئی۔اٹارنی جنرل نے آرمی ایکٹ 2015 کا سیکشن 2(1) بی عدالت میں پڑھ کر سنایا اور کہا کہ اس کے تحت ہونے والے جرائم کے ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوں گے۔جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ آرمی ایکٹ 2015 میں زیادہ زور دہشت گرد گروپس پر دیا گیا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایکٹ میں افراد کا تذکرہ بھی موجود ہے، اکیسویں آئینی ترمیم سے قبل بھی آرمی ایکٹ کے سویلین پر اطلاق کا ذکر موجود تھا۔سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل نے دریافت کیا کہ آئین میں شہریوں کو بنیادی حقوق حاصل ہیں اور ایک قانون (آرمی ایکٹ) میں مخصوص پابندیوں کے ذریعے شہریوں کے بنیادی حقوق کیسے ختم کیے جاسکتے ہیں ؟جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا آرمی ایکٹ بنیادی انسانی حقوق کے دائرے سے خارج ہے جس کے جواب میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی، آرمی ایکٹ پر بنیادی انسانی حقوق کا اطلاق نہیں ہوتا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کے دلائل سے تو معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی حقوق ختم ہوگئے ہیں، کیا پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرسکتی ہے؟اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی بالکل پارلیمنٹ آرمی ایکٹ میں ترمیم کرسکتی ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ کبھی نہیں ہوسکتا کہ بنیادی انسانی حقوق کبھی آرہے ہیں کبھی جارہے ہیں، قانون بنیادی حقوق کے تناظر میں ہونا چاہیے، آپ کے دلیل یہ ہے کہ ریاست کی مرضی ہے بنیادی حقوق دے یا نہ دے۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اکیسویں ترمیم میں عدلیہ کی آزادی کے تحفظ کی بات کی گئی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بنیادی حقوق کو صرف قانون سازی سے ختم کیا جاسکتا ہے اس بارے میں سوچیں، پاکستان کے نظام عدل میں عدلیہ کی آزادی کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ عدلیہ کی آزادی کو سپریم کورٹ بنیادی حقوق قرار دے چکی ہے، ہم ٹرائل کورٹ پر سب کچھ نہیں چھوڑ سکتے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سال 2015 میں اکیسویں ترمیم کے ذریعے آئین پاکستان کو ایک طرف کردیا گیا مگر اب ایسا نہیں ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ بریگیڈیئر ایف بی علی کیس ریٹائرڈ فوجی افسران سے متعلق تھا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملٹری کورٹس می ٹرائل کا طریقہ کار بتاؤں گا پھر عدالتی سوال پر آؤں گا، جس کمانڈنگ آفیسر کی زیر نگرانی جگہ پر جو کچھ ہوتا ہے اس کی رپورٹ دی جاتی ہے اور اسے جی ایچ کیو ارسال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد آرمی ایکٹ رولز کے تحت ایک انکوائری شروع کی جاتی ہے اگلے مرحلے میں ملزم کی کسٹڈی لی جاتی ہے۔دوران سماعت تیز بارش سے عدالتی کارروائی میں خلل بھی آیا۔اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملزم کی کسٹڈی لینے کے بعد شواہد کی سمری تیار کر کے چارچ کیا جاتا ہے، الزمات بتا کر شہادتیں ریکارڈ کی جاتی ہیں تاہم اگر کمانڈنگ افسر شواہد سے مطمئن نہ ہو تو چارج ختم کردیتا ہیاٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزم کو بھی چوائس دی جاتی ہے کہ وہ اپنا بیان ریکارڈ کرواسکتا ہے، ملٹری ری کورٹس میں ٹرائل کے دوران ملزم کسی لیگل ایڈوائزر سے مشاورت کرسکتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملزمان کو اپنے دفاع کے لیے فوجی عدالتوں میں بہت کم وقت دیا جاتا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل میں بھی فیصلہ کثرت رائے سے ہوتا ہے اور سزائے موت کی صورت میں فیصلہ دو تہائی اکثریت سے ہونا لازمی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں یہ معاملہ اس کیس سے متعلق نہیں ہے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ بادی النظر میں گرفتار 102 ملزمان میں کسی کو سزائے موت یا 14 سال سزا نہیں دی جائے گی۔عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کا مطلب ہے کہ سیکشن 3 اے کا کوئی کیس نہیں ہے، کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا کوئی کیس نکل سکتا ہے؟جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا بیان آج تک کی اسٹیج کا ہے۔انہوں نے نے سپریم کورٹ کو یقین دہانی کرائی کہ 9 مئی کے واقعات پر ملٹری کورٹس کے ٹرائل کے فیصلوں میں تفصیلی وجوہات کا ذکر ہوگا۔انہوں نے آگاہ کیا کہ پاک فوج 9 مئی کے واقعات پر ابھی صرف تحقیقات کررہی، تاحال فوجی عدالتوں میں کسی ملزم کا ٹرائل شروع نہیں ہوا۔انہوں نے بتایا کہ ٹراٹل سے پہلے حلف بھی لیا جاتا ہے، یہ حلف کورٹ میں تمام اراکین ایڈوکیٹ اور شارٹ ہینڈ والا بھی لیتا ہے، ملزم کو سزا سیکشن 105 اور رولز 142 کے تحت سنائی جاتی ہے۔اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ملزم کو سزا سنانے کے بعد کنفرمیشن کا مرحلہ اتا ہے، جس سے پہلے جائرہ لیا جاتا ہے کہ ٹرائل قانون کے مطابق ہوا یا نہیں۔انہوںنے کہاکہ ملزمان کو وکیل کرنے کی اجازت دی جائے گی، ملزمان پرائیوٹ وکیل خدمات بھی حاصل کرسکتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل کے خلاف اپیل کے لیے سیکشن 133 موجود ہے، 3 ماہ سے زیادہ کی سزا پر 42 روز کے اندر کورٹ آف اپیل میں اپیل کی جاسکتی ہے۔انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ حکومت نے فوجی عدالتوں میں ملزمان کا اوپن ٹرائل کرنے کا فیصلہ کیا ہے، ملزمان کے وکیل اور اہلِ خانہ مکمل ٹرائل دیکھ سکتے ہیں تاہم حکومت نے اس بات پر غور کرنے کے لیے عدالت سے مہلت مانگ لی کہ ملزمان کو اپیل کا حق ملے گا یا نہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس معاملے پر بہت محتاط ہو کر غور کی ضرورت ہے۔اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کلبھوشن یادیو کیس کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ ہمیں ایسے چلنا ہو گا کہ ملکی پوزیشن متاثر نہ ہو، کچھ چیزوں کا میں ذکر نہیں کر رہا بہت کچھ ذہن میں رکھنا ہوگا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کسی ریٹائرڈ جج کو 102 افراد سے ملاقات کے لیے فوکل پرسن مقرر کر سکتے ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس حوالے سے میں آپ کو چیمبر میں بتاؤں گا۔چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ہم چاہتے ہیں زیر حراست افراد کو بنیادی حقوق ملنے چاہئیں، انہیں اپنے اہلِخانہ سے ملاقات کی اجازت ہونی چاہیے۔سماعت کے دوران وکیل لطیف کھوسہ نے کہاکہ اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ ضیا الحق کے دور میں ہوتا رہا ہے’جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ موجودہ دور کا موازنہ اپ ضیا الحق کے دور سے نہیں کر سکتے، یہ ضیا الحق کا دور نہیں ہے نہ ہی ملک میں مارشل لا لگا ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر مارشل لا جیسی صورتحال پیدا بھی ہوئی تو ہم مداخلت کریں گے۔انہوں نے ہدایت کی سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر فوجی عدالتوں میں ملزمان کا ٹرائل شروع نہیں کیا جائے، اگر یقین دہانیوں کی خلاف ورزی کی گئی تو متعلقہ افراد کو طلب کریں گے۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے 9 مئی کے مقدمات کے لیے خصوصی عدالتوں کیخلاف درخواست کے خلاف حکم امتناع جاری کرنے کی استدعا مسترد کردی۔چیف جسٹس نے ملٹری کورٹس کا ٹرائل شروع کرنے سے پہلے سپریم کورٹ کو اگاہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو مخاطب کیا اور کہا نوٹ کررہے ہیں کہ کوئی ٹرائل نہیں شروع کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ملٹری ایکٹ کے تحت پروسیکیوشن ہی کیس کا فیصلہ کرے گی اور اپیل سنیں گے لیکن اس کیس میں جوبھی ہوگا وہ قانون سازی کے ذریعے ہی ممکن ہے گرفتار افراد کو ذہنی یا جسمانی مشکلات کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔انہوں نے متنبہ کیا کہ سپریم کورٹ کو آگاہ کیے بغیر ملزمان کا ٹرائل شروع نہیں ہوگا، حکومت چلی بھی گئی تو حکم کی خلاف ورزی پر متعلقہ ذمہ دار کو طلب کر کے جواب لیں گے۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ملزمان کو اپیل کا حق دینے کے لیے آرڈیننس لارہے ہیں جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آرڈیننس نہ لایا گیا تو دیکھیں گے۔ بعدازاں کیس کی مزید سماعت غیر معینہ مدت تک کے لیے ملتوی کردی گئی، چیف جسٹس نے کہا کہ ججز سے مشاورت کے بعد اٹارنی جنرل کی ایک ماہ کی درخواست پر آرڈر میں تاریخ دی جائے گی۔
پیچیدہ مسائل بھی بامعنی اور تعمیری مذاکرات کے ذریعے پرامن طور پر حل کیے جا سکتے ہیں،یو این سیکریٹری کا مقبوضہ کشمیر واقعے کے بعد پاکستان، بھارت کے درمیان کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار دونوں ممالک کے درمیان تناؤ کم کرنے اور بات چیت کے دوبارہ آغاز کے لیے کسی بھی ایسی ک...
پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاقائی حریفوں کی بیرونی معاونت سے کیا گیا تھا۔اقوام متحدہ میں دہشت ...
دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گناہ پاکستانی شہری شہید ہوئے اور درجنوں کو یرغمال بنایا گیا ۔ یہ حملہ اس کے علاق...
تنازع زدہ علاقوں کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے یکساں نقطہ نظر اپنایا جائے دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو جوابدہ ٹھہرایا جائے ،قونصلر جواد اجمل پاکستان نے کہا ہے کہ اس کے پاس جعفر ایکسپریس مسافر ٹرین پر حملے کے بارے میں قابل اعتماد شواہد موجود ہیں جس میں کم از کم 30 بے گنا...
زراعت، صنعت، برآمدات اور دیگر شعبوں میں آئی ٹی اور اے آئی سے استفادہ کیا جا رہا ہے 11 ممالک کے آئی ٹی ماہرین کے وفود کو پاکستان آنے پر خوش آمدید کہتے ہیں، شہباز شریف وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ کہ ٹیکنالوجی کے شعبے میں تیزی سے تبدیلی آئی ہے ، دو دہائیوں کی نسبت آ...
8 رکنی کونسل کے ارکان میں چاروں صوبائی وزرائے اعلیٰ، وفاقی وزرا اسحٰق ڈار، خواجہ آصف اور امیر مقام شامل ، کونسل کے اجلاس میں 25 افراد نے خصوصی دعوت پر شرکت کی حکومت نے اتفاق رائے سے نہروں کا منصوبہ واپس لے لیا اور اسے ختم کرنے کا اعلان کیا، نہروں کی تعمیر کے مسئلے پر...
دونوں ممالک کی سرحدوں پر فوج کھڑی ہے ، خطرہ موجود ہے ، ایسی صورتحال پیدا ہو تو ہم اس کے لیے بھی سو فیصد تیار ہیں، ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو بھرپور جواب دیں گے ، تینوں مسلح افواج ملک کے دفاع کے لیے تیار کھڑی ہیں پہلگام واقعے پر تحقیقات کی پیشکش پر بھارت کا کوئی جواب نہ...
مودی نے سیاسی حکمت عملی یہ بنائی کہ کیسے مسلمانوں کا قتل عام کرنا ہے، عرفان صدیقی بھارت کی لالچی آنکھیں اب جہلم اور چناب کے پانی پر لگی ہوئی ہیں، سینیٹر علی ظفر سینیٹ اجلاس میں اراکین نے کہاہے کہ دنیا بھر میں کہیں بھی دہشت گردی ہو اس کی مذمت کرتے ہیں، پہلگام واقعہ بھارت کی سو...
پاکستان کی خودمختاری و سلامتی کے تحفظ کی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتے ہیں پاکستان کے جائز سکیورٹی خدشات کو سمجھتے ہیں ،پہلگام واقعے کی تحقیقات پر زور چین نے پہلگام واقعے کے معاملے پر پاکستان کی بھرپور حمایت کا اعلان کر دیا۔چین کے وزیر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے ...
مل کر مسئلے کا ذمہ دارانہ حل تلاش کیا جائے،مختلف سطح پر سنجیدہ بات چیت جاری ہے امریکہ نہیں سمجھتا اس میں پاکستان ملوث ہے، سعودیہ و ایران ثالثی پیشکش کرچکے ہیں مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں حالیہ واقعے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کے درمیان امریکا کا ...
بھارت کے پاکستان پر بے بنیاد الزامات کے وقت ، کارروائی سے واضح ہے یہ کس کے اشارے پر کام کر رہے ہیں، دہشت گردی کے خلاف مہم میں کسی ایک کارروائی میں یہ سب سے زیادہ ہلاکتوں کا ریکارڈ ہے دہشت گرد اپنے غیر ملکی آقاؤںکے اشارے پر پاکستان میں بڑی دہشت گرد کارروائیاں کرنے کے ...
ٹنڈو یوسف قبرستان میں لاوارث میتوں کی تدفین سے روک دیا، ایدھی ترجمان کا احتجاج قبرستان کے گورکن بھی تشدد کرنے والوں میںشامل، ڈپٹی کمشنر حیدرآباد سے مداخلت کی اپیل حیدرآباد کے ٹنڈویوسف قبرستان میں لاوارث میتوں کی تدفین کرنے والے ایدھی رضاکاروں پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا، ج...