وجود

... loading ...

وجود

علامہ اقبال اور حافظ شیرازی

پیر 10 جولائی 2023 علامہ اقبال اور حافظ شیرازی

ڈاکٹرغلام قادر لون
۔۔۔۔۔۔۔۔

علامہ اقبال کی فارسی مثنوی ۵۱۹۱ ء میں شائع ہوئی۔ اس میں افلاطونؔ اور حافظ شیرازیؔ پر علامہ نے تنقید کی تھی۔ انہوں نے حافظؔ پر ۵۳ اشعار میں تنقید کرتے ہوئے مسلمانوں کو حافظ کے کلام سے بچنے کی تلقین کی تھی۔
ہوشیار از حافظ صہبا گسار
جامش اززہر اجل سرمایہ دار
رہن ساتی خرقہ پریزاو
مئی علاج ہول رستا خیز او
نیست غیر ازبادہ دربازار او
ازدوجام آشفتہ شددستار او
آن فقیہہ ملت می خوارگاں
آں امام اُمت بیچارگاں
حافظؔ پر تنقید دیکھ کر ادبی حلقوں میں بحث چھڑگئی۔ اہل تصوف علامہ سے بدظن ہوگئے۔ اخباروں میں ان کے خلاف مضامین لکھئے گئے۔ بعض حضرات نے ان کی مثنوی کا منظوم جواب دیا۔ جہلم کے ایک ٹھیکہ دار میاں ملک محمد قادری نے اپنے منظوم جواب میں حافظؔ کا دفاع کرتے ہوئے کہا:
حافظ ماشمس دینِ مصطفی ﷺ
مظہر انوار و اسرارِ خدا
صاحب حالِ است و مردقال نے
درپے دنیائے دوں پامال نے
آن لسان الغیب جانی معرفت
برتراز ادراک ماداروصفت
محکمہ انہار پنجاب کے ڈپٹی کلکٹر پیر زادہ مظفر احمد فضلی نے‘اسرار خودی ’کے جواب میں“راز بیخودی”کے عنوان سے مثنوی لکھی جس میں انہوں نے علامہ اقبالؔ پر تنقید کی اور حافظ کا دفاع کیا
ہرچہ گفتی از خودی حاشاغلط
سربسراز لفظ تامعنیٰ غلط
درحریم حق خودی رانیست بار
درحرم مزدور دیواں راجہ کار
اے کہ حافظ راشماتت میکنی
زند میکش را ملامت بی کنی
اے بعلم خوبش مخمورعمل
توچہ دانی سرمستان ازل
رسالوں اور اخبارات میں بھی علامہ کے خلاف مضامین شائع ہوئے۔ حافظ پر تنقید سے حسن نظامی اور اکبر الہ آبادی بھی ناراض ہوئے۔ موخرالذکر نے مولانا عبدالماجد دریا بادی کے نام اپنے خطوط میں اپنی ناراضگی کا اظہار کیا۔’اسرار خودی‘کے شائع ہونے کے دو سال بعد انہوں نے مولانا دریا بادی کو ایک خط محررہ یکم ستمبر ۷۱۹۱ کو تحریر کیا:اقبال صاحب کو آج کل تصوف پر حملے کا بڑاشوق ہے۔ کہتے ہیں عجمی فلاسفی نے عالم کو خدا قرار دے رکھا ہے اور یہ بات غلط ہے۔ خلاف اسلام ہے“۔
’رموز بیخودی ’شائع ہوئی تو علامہ اقبالؔ نے اکبر الہ آبادیؔ کو اس کا نسخہ بھیجا مگر وہ اس قدر ناراض تھے کہ انہوں نے اسے دیکھنا بھی گوارا نہ کیا۔ ۱۱ جون ۸۱۹۱ ء کو انہوں نے مولانا دربابادی کو لکھا:اقبال نے جب سے حافظ شیرازی کو اعلانیہ بُرا کہا ہے میری نظر میں کھٹک رہے ہیں۔ انکی مثنوی اسرار خودی آپ نے دیکھی ہوگی۔ اب رموز بیخودی شائع ہوئی ہے۔ میں نے نہیں دیکھی۔ دل نہیں چاہا‘۔تاہم بعد میں اکبر الہ آبادی ہی نے علامہ اقبال اور حسن نظامی میں صلح کروادی۔
حافظ پر تنقید سے اہل تصوف بھی علامہ سے ناراض ہوئے۔ انہوں نے اس تنقید کو تصوف دشمنی پر محمول کیا۔ چنانچہ ۵۱ جنوری ۶۱۹۱ ء کو علامہ اقبال نے ”وکیل“ میں ’اسرار خودی اور تصوف‘کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے تحریر کیا:شاعرانہ اعتبار سے میں حافظؔ کو نہایت بلند پایہ سمجھتا ہوں لیکن ملی اعتبار سے کسی شاعر کی قدر و قیمت کا اندازہ کرنے کے لیے کوئی معیار ہونا چاہیے۔ میرے نزدیک معیار یہ ہے کہ اگر کسی شاعر کے اشعار اغراض زندگی میں ممد ہیں تو وہ شاعر اچھا ہے۔ اگر اس کے اشعار زندگی کے منافی ہیں یا زندگی کی قوت کو پست یا کمزور کرنے کا میلان رکھتے ہوں تو وہ شاعر خصوصاً قومی اعتبار سے مضرت رساں ہے۔ جو حالت خواجہ حافظ اپنے پڑھنے والوں کے دل میں پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ حالت افراد قوم کے لیے جو اس زمان و مکان کی دنیا میں رہتے ہیں نہایت ہی خطر ناک ہے“۔
علامہ اقبال نے مہاراجہ کشن پرشاد کو ۳۱ اپریل ۶۱۹۱ ء کے ایک خط میں حافظ کے بارے میں یہی بات دہرائی اور فن کے متعلق اپنا نظریہ واضح کیا:خواجہ حافظ کی شاعری کا میں معترف ہوں۔ میرا عقیدہ ہے کہ ویسا شاعر ایشیا میں آج تک پیدانہ ہوا اور غالباً پیدا بھی نہ ہوگا لیکن جس کیفیت کو وہ پڑھنے والے کے دل پرپیدا کرنا چاہتے ہیں وہ کیفیت قوائے حیات کو کمزور اور ناتواں کرنے والی ہے۔ یہ ایک نہایت اور دلچسپ بحث ہے جو اس مختصر خط میں سمانہیں سکتی۔ میں نے مسلمانوں اور ہندؤں کی گزشتہ دماغی تاریخ اور موجودہ حالت پر بہت غور کیا ہے، جس سے مجھے یقین ہوگیا کہ ان دونوں قوموں کے اطباء کو اپنے مریض کا اصلی مرض اب تک معلوم نہیں ہوسکا ہے۔ میرا عقیدہ ہے کہ ان کا اصلی مرض قوائے حیات کی ناتوانی اور ضعف ہے اور یہ ضعف زیادہ تر ایک خاص قسم کے لڑیچر کا نتیجہ ہے،جو ایشیا کی بعض قوموں کی بدنصیبی سے ان میں پیدا ہوگیا۔ جس نکتہ خیال سے یہ قومیں زندگی پر نگاہ ڈالتی ہیں وہ نکتہ خیال صدیوں سے مضعف مگر حسین و جمیل ادبیات سے مستحکم ہوچکا ہے اور اب حالات حاضرہ اس امر کے مقتضی ہیں کہ اس نکتہ خیال میں اصلاح کی جائے“۔
علامہ اقبال کی حمایت میں مولانا اسلم جیراجپوری نے بھی ایک مضمون لکھا؛ جس میں انہوں نے کہا کہ خواجہ حافظ ؔکے بارے میں اس طرح کی رائیں پہلے بھی ظاہر کی جاچکی ہیں۔ چنانچہ مشہور ہے کہ اور نگ زیب عالمگیر نے منادی کرادی تھی کہ دیوان حافظ کوئی نہ پڑھے کیوں کہ لوگ اس کے ظاہری معنیٰ سمجھ کر گمراہ ہوجاتے ہیں۔
منشی محمد الدین فوق نے جب علامہ اقبال سے پوچھا تھا کہ آپ نے حافظ پر کیوں اعتراض کیا ہے۔ تو علامہ اقبال نے اس وقت اس کا واضح جواب نہ دیا بعد میں جب فوق نے انہیں اپنی تازہ تصنیف ”و جدانی نشتر“بھیجی تو علامہ اقبال کو معلوم ہوا کہ ان کے سوال کا جواب انہیں کی تصنیف کے صفہ ۴۹ پر موجود ہے۔ علامہ نے اس کا ذکر اپنے مضمون میں کیا اور یہ واقعہ بیان کیا:اورنگ زیب عالمگیر نے جو بڑا متشرع بادشاہ تھا،ایک مرتبہ حکم دیا کہ اتنی معیاد کے اندر جتنی طوائفیں ہیں نکاح کرلیں ورنہ میں کشتی میں بھرکر سب کو دریا برد کردوں گا، سیکڑوں نکاح ہوگئے مگر پھر بھی ایک بڑی تعداد رہ گئی۔ چنانچہ ان کے ڈبونے کیلے کشتیاں تیار ہوئیں۔ صرف ایک دن باقی رہ گیا۔ یہ زمانہ حضرت شیخ کلیم اللہ جہاں آبادی کا تھا۔ ایک حسین نوجوان طوائف روزہ مرہ آپ کے سلام کو آیا کرتی تھی۔ جب آپ درود وظائف سے فارغ ہوتے وہ طوائف سامنے آکر دست بستہ کھڑی ہوجاتی۔ جب آپ نظر اٹھاتے وہ سلام کرکے چلی جاتی۔ آج جب وہ آئی تو بعد سلام عرض رساں ہوئی کہ آج خادمہ کا آخری سلام بھی قبول ہو۔ آپ نے حقیقت حال دریافت فرمائی۔ جب تمام کیفیت بیان کردی تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ حافظ شیرازی کا یہ شعر
درکوئے نیکنامی مارا گزرنہ دادمذ
گر تو غے پسندی تغیر کن قضارا
تم سب یاد کر لو اور کل جب تمہیں دریا کی طرف لے چلیں تو بآواز بلند اس شعر کو پڑھتے جاؤ۔ ان سب طوائفوں نے اس کو یاد کرلیا۔ جب روانہ ہوئیں تو یاس کی حالت میں نہایت خوش الحانی سے بڑے درد انگیز لہجے میں اس شعر کو پڑھنا شروع کیا۔جس جس نے یہ شعر سنا دل تھام کر رہ گیا۔ جب بادشاہ کے کان میں آواز پہنچی تو بے قرار ہوگیا۔ ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی حکم دیا کہ سب کو چھوڑو“۔
فوق کی تصنیف سے یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد علامہ نے اپنے مضمون میں لکھا ہے:
”مسئلہ تقدیر کی ایک ایسی غلط مگر دلآویز تعبیرسے حافظؔ کی شاعرانہ جادوگری نے ایک متشرع اور نیک نیت بادشاہ کو جو آئین حقہ شرعیہ اسلامیہ کی حکومت قائم کرنے اور زانیات کا خاتمہ کرکے اسلامی سوسائٹی کے دامن کو اس بدنما داغ سے پاک کرنے میں کوشاں تھا،قلبی اعتبار سے اس قدر ناتواں کردیا کہ اسے قوانین اسلامیہ کی تعمیل کرانے کی ہمت نہ رہی“۔
امر واقع یہی ہے کہ حافظ کی جاودبیانی سے آہن بھی موم بن جاتا ہے۔ ان کے کلام کے سحر سے بچنا بے حد دشوار ہے۔ اورنگ زیب عالمگیرؒ ہی کو لیجیے۔ انہوں نے عام لوگوں کو’دیوان حافظ‘ کے پڑھنے سے منع کیا تھا مگر ’دیوان حافظ‘ ان کے سرہانے ہوتا تھا اور وہ اس کا مطالعہ ہی نہیں اس سے فال بھی نکالا کرتے تھے۔ خود علامہ اقبال ؔجس زمانے میں حافظؔ پر تنقید کررہے تھے۔ انہوں نے مہاراجہ کشن پرشاد کو ایک غزل ۸۲ دسمبر ۴۱۹۱ ء کو ”تزک عثمانیہ“ میں شائع کرنے کے لیے بھیجی۔ ایک ماہ بعد مولانا گرامی کو لکھا کہ میں نے یہ اشعار مہاراجہ سرکشن پرشاہ کو بھیجے تھے۔ غزل بالکل حافظ کے رنگ میں ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خود علامہ اس وقت بھی بلبل شیراز کی خوش کلامی سے مسحور تھے۔ حافظ پر تنقید کرنے کی وجہ سے بہت سے حلقے علامہ اقبال سے بدظن ہوگئے تھے۔ اس لیے ’اسرار خود ی‘ کے دوسرے ایڈیشن میں انہوں نے وہ اشعار حذف کردیے۔ انہوں نے مولانا اسلم جیراجپوری کے نام ایک خط میں تحریر کیا:حافظ پر تنقید کرنے سے میرا مقصد محض ایک لٹریری اصول کی تشریح و توضیح تھا۔ خواجہ کی پرائیویٹ شخصیت یا ان کے معتقدات سے سروکار نہ تھا لیکن عوام اس باریک امتیاز کو نہ سمجھ سکے اور نتیجہ یہ ہوا کہ اس پر بڑی لے دے ہوئی اگر لٹریری اصول یہ ہو کہ حسن حسن ہے خواہ اس کے نتائج مفید ہوں خواہ مضر تو خواجہ دنیا کے بہترین شعراء میں سے ہیں۔بہر حال میں نے وہ اشعار حذف کردیے اور ان کی جگہ اس لڑیری اصول کی تشریح کرنے کی کوشش کی ہے جس کو میں صحیح سمجھتا ہوں“۔
’اسرار خودی‘کے دوسرے ایڈیشن میں حافظ پر تنقید ی اشعار حذف کرنے کے بعد علامہ نے درحقیقت ”شعرو اصلاح ادیبات اسلامیہ“ کے عنوان کے تحت شاعری اور ادیبات اسلامیہ کی اصلاح کے بارے میں اپنا نکتہ نظر پیش کیا ہے۔ انہوں نے چار بندوں پر مشتمل مبحث کے پہلے بندمیں شعر کی حقیقت بیان کی ہے اور اچھے اور اصلی شاعر کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ حقیقی شاعر قوم کے کارواں کو منزل کی طرف گامزن کریتا ہے۔ قوم کو متحرک اور فعال بنا دیتا ہے اور اس کا پیغام پوری دنیا کے لیے صدائے عام ہوتا ہے یعنی اس کا پیغام عالمگیر ہوتا ہے:اہل عالم را صلابر خوان کند۔ آتش خودراچو بادارزاں کند
دوسرے بند میں علامہ نے اس قوم کی بدنصیبی کارونا رویا ہے جس کے شعرا ء قوم کو زندگی کے حقائق سے فرار کی تلقین کرتے ہیں اور اپنی مردہ شاعری سے قوم کو افیون کھلا کر سست اور کاہل بنا دیتے ہیں۔ انہوں نے اس بند میں ایسے شعراء کی خامیاں بیان کرکے کہا ہے کہ یہ شعرء اپنی شاعری کے فسوں سے قوم کا بیڑا غرق کردیتے ہیں اس لیے مسلمانوں کو ان کے کلام سے حذر کرنا چاہیے
ازخم ومنادجامش الحذر
ازمے آئینہ فاش الحذر
تیسرے بند میں علامہ نے بتایا کہ جعلی شعراء کی شاعری سے مسلمان اس قدر تن آسان اور مقصدِ حیات سے غافل ہوگئے ہیں کہ وہ ان کے لیے ’رسوائی‘ اور ننگ کا باعث بن گئے ہیں۔ حرم میں پیدا ہوکر تنجانے میں مر گیا ہے۔ یعنی اس کے عشق کی آگ بجھ کر خاکستر ہوچکی ہے۔
وائے ہر عشقے کہ ناراوفسرد
درحرم زائید و در تنجانہ مرد
چوتھے بند میں علامہ نے شعراء کو تلقین کی ہے کہ اپنی شاعری کو زندگی کی کسوٹی پر پرکھو، کیوں کہ یہ روشن فکرو عمل کی طرف رہ نمائی کر تی ہے۔ ادب میں بھی فکرِ صالح درکار ہے، اس لیے عجمی شاعری کی جگہ عربی شاعری کی طرف واپس جاؤ تاکہ زندگی کے مصائب کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکو۔
تاشوی درحورد پیکار حیات
جسم و جانت سوز از تا ر حیات
علامہ اقبال کا یہی وہ پیغام ہے جو ہمیں ان کی ہرتصنیف میں نظر آتا ہے۔ اردو میں انہوں نے ان اشعار میں بھی اپنا نظریہ پیش کیا ہے۔
تاثیر غلامی سے خودی جس کی ہوئی نرم
اچھی نہیں اس قوم کے حق میں عجمی لے
۔
ہے شعر عجم گرچہ طرب ناک و دل آویز
اس شعر سے ہوتی نہیں شمشیر خودی تیز
افسردہ اگر اس کی نوا سے ہو گلستاں
بہتر ہے کہ خاموش رہے مرغ ِسحر خیز
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
آقاۖکی حیات مبارکہ کے آخری لمحات وجود جمعه 29 ستمبر 2023
آقاۖکی حیات مبارکہ کے آخری لمحات

نبی کریمۖ پر درود و سلام کی فضیلت وجود جمعه 29 ستمبر 2023
نبی کریمۖ پر درود و سلام کی فضیلت

کینیڈا بھارت تعلقات سرد مہری کا شکار وجود جمعرات 28 ستمبر 2023
کینیڈا بھارت تعلقات سرد مہری کا شکار

سعودیہ اور اسرائیل دوستانہ روش پر وجود جمعرات 28 ستمبر 2023
سعودیہ اور اسرائیل دوستانہ روش پر

وکیل اور وکالت وجود بدھ 27 ستمبر 2023
وکیل اور وکالت

اشتہار

تجزیے
متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!! وجود هفته 23 ستمبر 2023
متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!!

نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟ وجود بدھ 20 ستمبر 2023
نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟

نیپرا کا عوام کش کردار وجود جمعه 15 ستمبر 2023
نیپرا کا عوام کش کردار

اشتہار

دین و تاریخ
حضور سرور کونین،تاجدار مدینہ،خاتم النبیین حضرت محمدﷺکی سیرت طیبہ وجود جمعه 29 ستمبر 2023
حضور سرور کونین،تاجدار مدینہ،خاتم النبیین حضرت محمدﷺکی سیرت طیبہ

سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش وجود هفته 23 ستمبر 2023
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش

جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے وجود جمعه 15 ستمبر 2023
جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے
تہذیبی جنگ
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے

مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی وجود جمعرات 03 اگست 2023
مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی

کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے
بھارت
بھارت میں ہم جنس پرست لڑکیوں نے شادی کر لی وجود جمعرات 28 ستمبر 2023
بھارت میں ہم جنس پرست لڑکیوں نے شادی کر لی

سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم وجود منگل 19 ستمبر 2023
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم

آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا

بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا وجود بدھ 06 ستمبر 2023
بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا
افغانستان
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا

افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی وجود پیر 14 اگست 2023
افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی

بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام وجود منگل 08 اگست 2023
بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام
شخصیات
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے وجود جمعه 22 ستمبر 2023
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے

معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال
ادبیات
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر

فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے وجود پیر 11 ستمبر 2023
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال