وجود

... loading ...

وجود
وجود

آزادی کی نیلم پری

جمعرات 06 جولائی 2023 آزادی کی نیلم پری

کیلنڈر میں پھر 4 جولائی کی تاریخ سامنے ہے !امریکا میں آتش بازی کا دن۔ جب امریکی ”حب الوطنی” کی رسومات کو اپناتے ہیں۔ یہ ہر اُس ملک میں ضروری ہے جہاں ”آزادی” کی نیلم پری حقیقی چھب دکھلانے کے بجائے محض ایک افسانوی رنگ سے بہلاتی ہے۔ کم از کم یہ بات ہماری غلام روحوں کو ایک تسلی دیتی ہے کہ اس دن امریکی بھی ہماری طرح ہی بے وقوف بنتے ہیں۔ امریکی آزادی کی سالگرہ پر وہی وفاقی تعطیل اور تقریباً 155 ملین پاؤنڈ ہاٹ ڈاگز کا استعمال ۔ پھر امریکی ایک سے دوسری ریاست میں فضائی پھیروں کی تفریحات میں مشغول رہتے ہیں۔
امریکا دنیا کا شاید پہلا ملک تھا، جس نے استحصال سے آزادی حاصل نہیں کی تھی، بلکہ استحصال کے لیے آزادی حاصل کی۔ نسل پرستی کی برتری کے ساتھ سفید فام یورپیوں کا ریڈ انڈینز پر ناقابل فراموش ظلم آج کے دن آتش بازیوں میں قدرے فراموش ہو جاتا ہے۔ مگر تاریخ کی آنکھیں کسی آتش بازی سے کہاں چندھیاتی ہیں۔ امریکیوں کو استحصال کی اصل آزادی 3 ستمبر1783ء سے حاصل ہونا شروع ہوئی جب برطانیا نے باضابطہ طور پر اپنی نوآبادیات پر اپنے دعوے ترک کرنا شروع کیے اور پیرس معاہدے پر دستخط کیے۔ اب وہ دستاویزات تاریخ کی امانت میں ہے جس کی پروا کبھی امریکیوں نے نہیں کی۔ پھر بھی یاد کرلینے میں کیا حرج ہے کہ دستاویزات کی ایک دستاویز ”انسانی رائے کے مہذب احترام” سے متعلق بھی تھی۔ بعد میں جسے امریکی انٹیلی جنس کی ہدایتوں کا پابند ہونا تھا۔ یہی نہیں امریکی جاسوسی کو آئین کے تحت ”قانونی ”ہو جانا تھا۔ امریکی ”آزادی” کا ڈھنڈورا بہت پیٹتے ہیں۔ امریکیوں کی جنگی مشینری کی کل حرکت دو الفاظ کے سحرکار استعمال پر انحصار کرتی ہے۔ آزادی اور انصاف۔ مگر ہمارے سامنے ریڈ انڈینز امریکن گرینڈ کونسل کا 1927 کا اعلامیہ ہے۔ جو ان دوالفاظ کے امریکی استعمال کا مطلب سمجھاتا ہے: سفید فام کہتے ہیں کہ آزادی اور انصاف سب کے لیے۔۔ ہمیں یہ آزادی اور انصاف میسر تھا۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اسی (آزادی اور انصاف) کی وجہ سے ہمارا خاتمہ کردیا گیا”۔ امریکا کی تاریخ پڑھتے ہوئے جو راز کسی بھی ملک کے شہری پر آشکار ہوتا ہے، وہ یہ کہ کسی طاقت ور اور جنگی مشینری پر قابض قوت کی زبان سے آزادی اور انصاف کے الفاظ کا استعمال درحقیقت آپ سے آزادی پانا بھی ہوسکتا ہے۔ جس کی تشریح انصاف کہلائے گی۔ پاکستانی بھی اسی حب الوطنی کی خانہ ساز تشریح کے نیچے ان دوالفاظ کا مزہ بار بار چکھتے ہیں۔ ہم بھی دنیا کے اُن بیشتر مضروب اور مجروح ممالک میں سے ہیں جو امریکی سامراج کی جنگی مشینری کے نیچے مختلف مقاصد کے آلۂ کار کے طور پر رہتے ہیں۔
امریکا کے یوم آزادی کا مطلب پورے کرۂ ارض پر امریکی سامراجی لوٹ مار کی کھلم کھلا اجازت ہے ۔ یہ نسل پرستی اور غلامی کے استحصال کا جشنِ منافقت ہے۔ جس میں لاکھوں ریڈ انڈینز کی کل زمین اور جانیں ہڑپنے کی بطور ”حق” شرمناک وضاحت موجود ہے۔ امریکا میں آزادی کا اعلان لکھنے والے کون تھے؟ ان میں اکثر سفید فام سرمایہ دار تھے جو غلاموں کے مالک تھے۔ اس طرح اس اعلان آزادی کا مطلب درحقیقت ایک نئی آباد کار نوآبادیات کی تخلیق تھا،جس میں سرمایہ دارانہ نظام تیار کرنے کی صلاحیت میںاضافہ بھی شامل تھا۔ مگر اسے آزادی ، انصاف اور مساوات کے منافقت بھرے الفاظ اور تجریدی نظریات میں ملفوف کیا گیا ۔ اگر امریکا کے اعلانِ آزادی میں ان الفاظ کو سیاسی تاریخی تناظر میں رکھ کر دیکھا جائے تو کسی چیز کی وضاحت کی ضرورت نہیں رہتی۔ اب ذرا امریکا کی دیو قامت آزادی کی علمبردار شخصیات کے نام بھی لے لیں۔ جارج واشنگٹن اور تھامس جیفرسن ۔ یہی وہ لوگ تھے، جو اپنی کالونیوں میں غلامی کے خاتمے پر فکر مند تھے۔ آزادی کے سرشار کرنے والے پمفلٹ جو اُس زمانے میں لکھے گئے، جنہیں فلسفے کی جماعتوں میں بعدازاں پڑھایا گیا، درحقیقت اُن غلاموں پر منطبق نہ ہوتے تھے، جو سیاہ فام تھے۔ امریکا کے بانیوں کی نظروں میںغلامی اور پھر نسل پرستی کی اپنی تعبیرات تھیں۔امریکا کے بابائے قوم جارج واشنگٹن کے یہ الفاظ تاریخ نے محفوظ کر لیے :انڈینز بھیڑئیے اور خونخوار تھے، جو بجز مکمل طور پر تباہ کردیے جانے کے سفید فاموں سے کسی مراعات کے حقدار نہیں تھے”۔ یہ کافی نہ تھا، کہ جارج واشنگٹن نے ایک موقع پر یہ بھی کہا کہ ”ریڈانڈینز میں انسانی صورت کے علاوہ کچھ اور انسانی نہیں ہے”۔
امریکی اپنی تاریخ کے بہاؤ میں جب آزادی کا تذکرہ کرتے ہیں تو اسی ملک کے سماجی مصلح، مدبر اور لکھاری فریڈرک ڈگلس کا سوال حافظے کی لوح پر اُبھرتا ہے۔” ایک امریکی غلام کے لیے آپ کا 4 جولائی کیا ہے”؟ ”میں جواب دیتا ہوں” ۔ ڈگلس خود ہی گونجتا ہے: یہ سال کے تمام دنوں سے کہیں زیادہ ایک ایسا دن ہے جو ظلم اور اس سنگین ناانصافی کو ظاہر کرتا ہے، جس کا وہ مسلسل شکار ہے۔ اس کے نزدیک تمہارا جشن شرمناک ہے۔ تمہاری نمائشی آزادی ایک ناپاک چھوٹ ہے۔ تمہاری قومی عظمت ، باطل سوجن ہے۔ تمہاری خوشی بے دل اور کھوکھلی ہے۔ تمہاری جانب سے ظالموں کی مذمت بجائے خود بے حیائی ہے۔تمہارے آزادی اور مساوات کے نعرے بھونڈے مذاق ہیں۔ تمہاری سنجیدہ اور مذہبی شوکت کے ساتھ دعائیں اور بھجن ، خطبے اور شکر گزاری ، اس غلام کے لیے محض بمباری، فریب دہی ، دھوکا دہی،بے حیائی اور منافقت ہیں۔ یہ اُن جرائم کو چھپانے کے لیے ایک مہین پردہ ہے جو وحشی قوم کو رسوا کرے گا۔ روئے زمین پر اس وقت امریکی لوگوں سے زیادہ افسوس ناک اور خونی طرزِ عمل کسی اور کا نہیں”۔
فریڈرک ڈگلس نے یہ الفاظ 5جولائی 1852 ء کو ایک تقریر میں ادا کیے۔ اب اس پرڈیڑھ سو برس بیتتے ہیں، امریکا کی حقیقت تبدیل نہیں ہوئی۔ دراصل امریکا کے چکا چوند کرنے والے ذرائع ابلاغ سامراجی مقاصد پر استوار کارپوریٹائزیشن کے شکار ہیں۔ پھر دنیا میں اُن کی تعلیم کی ایک تقدیس پیدا کی گئی ہے۔ مگر ہزاروں تحقیقی مقالات کے ذریعے آشکار ہو چکا ہے کہ ان دونوں شکلوں سے کس طرح غلط معلومات کی ایک جنگ امریکا نے دنیا بھر میں مسلط کر رکھی ہے۔ ولیم بیلم کا شکریہ جو ہمیں امریکا کے اس بد نما چہرے کو دکھاتے ہیں۔ دنیا کا ضمیر بن جانے والے نوم چومسکی کی یہ تحسین کا موقع ہے جو ہمیں امریکا کی اس خوف ناک آزادی کے حقیقتوں سے اپنی کتابوں کے ذریعے آگاہ کرتے ہیں۔ درحقیقت امریکا میں اب بھی آزادی ، مساوات اور انصاف کے نام پر جاری سامراجی عزائم و مقاصد اور سفید فام نسلی برتری کا جنون اُسی طرح موجود ہے جو ڈیڑھ سو برس قبل فریڈرک ڈگلس کی تقریر کے وقت موجود تھا۔سیاہ فام امریکی (جو درحقیقت وہاں زمین کے اصلی بیٹے ہیں) اور مقامی لوگ امریکا میں” غلامی” کی ایک نئی حالت میں رہتے ہیں۔جسے نو سامراجیت کی مانند نو غلامی کہا جا سکتا ہے۔ مقامی قومیں تحفظات پر جبری رہائش میں نسل کشی کے خاتمے کے تحت بقا کے مسئلے سے دوچار ہیں۔سیاہ فام امریکی عوام پولیس ریاستی دہشت گردی، اجتماعی قید، معاشی اور سماجی موت کی نوآبادیاتی حقیقتوں کے ساتھ روز جی اور مر رہے ہیں۔ غیر دستاویزی تارکین وطن کی محنت کا زبردست استحصال کیا جاتا ہے ۔یہ ملک بدری کے مسئلے سے بھی دوچار ہیں۔ مگر ذرائع ابلاغ میں جس کا بالکل ذکر نہیں ہوتا۔ اگر امریکی سامراج کے اندرونی منظر نامے کو سمجھنا ہو تویہ اینگلو امریکن آبادکار نوآبادیات کا سب سے خطرناک اوراوپری مرحلہ ہے ۔دنیا کے باضمیر اور باشعور حلقوں کے لیے اب اس میں کوئی ابہام نہیں رہا کہ امریکی آباد کار ریاست اپنی اصل میں ایک سامراجی ریاست ہے جو پوری دنیا کے اربوں لوگوں کے استحصال اور مصائب کو یقینی بناتی ہے ۔ امریکا کے پوری دنیا میں تقریباً ایک ہزارفوجی اڈے ہیں ۔ وہ ہر سال کھلی اور خفیہ فوجی کارروائیوں میں ٹریلین ڈالرز خرچ کرتا ہے ۔ کارپوریٹ میڈیا کی توجہ عراق اور افغانستان کے بعد اب یوکرین اور روس پر ہے۔ امریکا کی ہر جارحیت اور جارحیت کی ہر قسم میں یہ کارپوریٹ میڈیا ہمیں باور کراتا ہے کہ یہ دہشت گرد باغیوں سے ریاست کو محفوظ بنانے کا موقع ہے۔ جبکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سامراجی عزائم کی آئینہ دار ریاستوں سے شہریوں کو کیسے محفوظ رکھا جائے جو حب الوطنی کے نعروں ، نغموں کے ساتھ جعلی روایتوں اور کارپوریٹ میڈیا کے ذریعے جعلی حقیقتوں کا ایک الگ ہی ماحول پیدا کر چکے ہیں۔ آئیے استحصال کے لیے آزادی پانے والے دنیا کے واحد ملک کے یوم آزادی کے دھوکے میں شریک ہوجاتے ہیں۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر