وجود

... loading ...

وجود
وجود

کامیابی کے بعد امتحان

جمعرات 01 جون 2023 کامیابی کے بعد امتحان

حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکیس برس سے مسلسل اقتدار میں رہنے والے 69 سالہ طیب اردگان آخرکار باون فیصدووٹ لیکر تیسری بار ترکیہ کے صدر منتخب ہو گئے ہیں ۔پارلیمان کی چھ سو نشستوں پر پہلے ہی حکومتی ا تحاد کو اکثریت حاصل ہوچکی ہے جبکہ مدمقابل چھ جماعتی اپوزیشن اتحاد کے متفقہ امیدوار کمال کلی چی داراوغلوجو ایک چوہترسالہ ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں۔48 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پررہے۔ اِس میں شائبہ نہیں کہ حالیہ الیکشن نو منتخب صدر کی سیاسی زندگی کا مشکل ترین تھاکیونکہ اسلام پسندوں کی حمایت کے باوجود چودہ مئی کو پچاس فیصد ووٹ نہ لے سکے۔ مگر 28مئی کو دوسرے مرحلے کے دوران آخرکارجیت گئے اور جیت چاہے چند ووٹوں سے ہی کیوں نہ ہو جیت بہرحال جیت ہوتی ہے۔ اُن کی جیت سے مغربی میڈیا اور امریکہ میں مایوسی کی فضا ہے۔ عام قیاس یہ ہے کہ آئندہ پانچ برس بھی ترکیہ کے خارجہ تعلقات میں تبدیلی کی بجائے اپنی پسند کے مطابق ہی رکھیں گے ۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ملکی مسائل حل کرنے کے امتحان میں بھی کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ کامیابی سے سرشار نومنتخب صدر عالمی رہنمائوں سے مبارکبادی پیغامات وصول کرنے جبکہ اُن کے حامی سڑکوں پر فتح کا جشن منانے میں مصروف ہیں مگر ذہن نشین رکھنے والی بات یہ ہے کہ بے شمار ایسے مسائل ہیں جو فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ وگرنہ خوشی کادورانیہ کم ہو سکتا ہے۔
موجودہ صدرکو جولائی 2016میں فوجی بغاوت کے ذریعے ہٹانے کی کوشش کی گئی مگر انھوں نے دارالحکومت سے باہر ہونے کے باوجود نصف شب کے قریب ایک مختصر خطاب کے ذریعے عوام سے گھروں سے نکلنے کی اپیل کی۔ اِس اپیل پر لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے اور فوجی ٹینکوں کے آگے لیٹ کر فوجی بغاوت کو ناکام بنادیاجس کے بعد نہ صرف ملک سے فوجی بغاوتوں کا سلسلہ ختم ہوچکاہے بلکہ بغاتوں کو عدلیہ کی طرف سے جواز فراہم کرنے کا امکان بھی ختم ہو گیاہے ۔رواں ماہ چودہ مئی کوہونے والے صدارتی انتخابات میں بطور امیدوار نو منتخب صدر 49.5ووٹ لیکر اول رہے جبکہ حزبِ اختلاف کے چھ جماعتی اتحاد کے امیدوار کلی چی داراغلو 44.8ووٹ لیکردوسرے نمبر پر آئے تیسری پوزیشن پر رہنے والے امیدوار سینان اغان کل ڈالے گئے ووٹوں کا محض 5.2 فیصدحاصل کر سکے ۔ترکیہ کی تاریخ کایہ پہلا صدارتی انتخاب ہے جس میں پہلے مرحلے کے دوران کوشش کے باوجود کوئی امیدوار کامیابی حاصل نہ کر سکا ۔دوسرے مرحلے کی فتح کو آسان بنانے میں چودہ مئی کو تیسرے نمبر پر آنے والے امیدوار کا کلیدی کردار ہے۔ اگر یہ اپوزیشن اتحاد کے امیدوار کی حمایت کرتے تو طیب اردگان شایدہی جیت پاتے ۔مگر اپوزیشن کی طرف جانے کی بجائے حکومتی امیدوار کا ساتھ دینے سے انتخابی پانسہ ہی پلٹ گیااور طیب اردگان کی تیسری بار صدربننے کی راہ ہموارہوگئی۔ بیس برسوں کے دوران وہ کوئی انتخاب نہیں ہارے اور مسلسل جیت رہے ہیں۔ انھیں یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ چودہ مئی 2003 سے لیکراگست 2014تک وزیرِ اعظم کے منصب پر بھی فائز رہے۔ اگست2014 میں پہلی بارملک کے بارہویںصدرکی حیثیت سے حلف اُٹھایا۔ استنبول بلدیہ کے سربراہ کے طورپر بہترین انتظامی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے اور فلاحی کاموں سے ملنے والی شہرت نے اُنھیں ملکی سطح کا رہنما بنادیا۔ اُن کے دوراقتدار میں تعلیم ،سائنس وٹیکنالوجی ،معیشت ،صحت جیسے میدانوں سمیت ہرشعبہ زندگی میں ترکیہ نے ایسی بے مثال ترقی کی کل کا مرد بیمار ترکیہ آج کا مردآہن بن گیاہے۔ ترکیہ دنیا کی تیزی سے اُبھرتی ایسی معیشت ہے جو جی ڈی پی کے حوالے سے دنیا کی سترہویں سب سے بڑی معیشت ہے ۔اِس ملک کا ارب پتیوں کے حوالے سے دنیا میں چوتھا نمبر ہے ۔ یہ ملک ہر سال آنے والے تین کروڑ سیاحوں سے 22 ارب ڈالرکی خطیررقم کماتا ہے۔ تعمیراتی صنعت چین کے بعد دوسرے نمبر پر شمار ہوتی ہے۔ اِس ملک کی 33 ایسی کمپنیاں ہیں جو دنیا بھر کی سب سے بڑی کمپنیوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ یہ ترقی اردوان کی پالیسیوں کی مرہونِ منت ہے ۔9جولائی 2019 کو صدارتی نظام کے نفاذکے بعد پہلے صدر کے طورپرحلف اُٹھاکر اختیارات سنبھالے ویسے عملی طورپر2014سے اب تک اسی عہدے پر موجودہیں ۔وہ اِس وقت مسلم دنیا کے نمایاں رہنمائوں میں سے ایک ہیں کیونکہ عالمی سطح پر مظلوم مسلمانوں کے لیے اُن کی آوازہمیشہ توانا اور پُرجوش رہی ہے مگرطویل عرصہ اقتدار میں رہنے کے باوجود اگر داخلی مسائل حل کرنے میں اب بھی ناکام رہے تو عوام میں بے زاری و اضطراب پیداہونا فطری بات ہے اپوزیشن امیدوار کے حاصل کردہ ووٹ کافی حیران کُن ہیں جس کا مطلب ہے کہ ترک عوام آجکل بے زاری و اضطراب کے دوراہے پر کھڑے ہیں اگر عوامی اعتماد بحال رکھنا ہے تو داخلی مسائل بھی حل کرنا ہوںگے۔
ترکیہ اِس وقت کئی اندرونی اور بیرونی مسائل کے بھنورمیں ہے نہ صر ف کرنسی کی قدرگررہی ہے بلکہ تباہ کُن زلزلے سے صنعتی و زرعی پیداوار بھی متاثر ہوئی ہے۔ نو منتخب صدر نے زلزلہ متاثرین کو ایک برس میں 19ہزار گھر بنا کر دینے کے ساتھ گھریلو صارفین کو مفت قدرتی گیس فراہم کرنے اور پچیس کیوبک میٹر تک ماہانہ گیس استعمال کرنے والوں کو ایک برس تک مفت سہولت فراہم کرنے کا وعدہ کررکھا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ زوال پزیر ترک معیشت اتنی بڑی چھوٹ کی متحمل ہو سکتی ہے کیونکہ ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر بھی کم ہوتے جارہے ہیں۔ ملک کے پہلے جوہری پلانٹ کی تکمیل ،مقامی طورپر تیار کی گئی پہلی الیکٹرک کار،زمین پر نظر رکھنے کے لیے سیٹلائٹ کی لانچنگ ،بحری دفاع کو بہتر بنانے کے لیے ملک کے سب سے بڑے جنگی جہاز کی تیاری اور جدید ترین ٹینک فوج کے حوالے کرناکارنامہ سہی مگر مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کا رجحان بھی ایک حقیقت ہے اگر پالیسیوں میں تبدیلیاں نہ لائی گئیں تو لامحالہ عوامی نفرت جنم لے گی ۔
بظاہرسرد جنگ کا زمانہ نہیں مگر امریکہ اور چین مخاصمت میں اب کوئی ابہام نہیں رہا دونوں بڑی معاشی طاقتیں ایک دوسرے کو تجارتی و معاشی حوالے سے زیر کرنے کی تگ و دو میں ہیں اِس تگ ودومیں روس بھی امریکی مخالفت میں پیش پیش ہے جس سے تجارتی ومعاشی لڑائی مزید وسعت اختیار کرگئی ہے حیران کُن طور پرگزشتہ کئی برس سے ترکیہ نے اپنا وزن روسی پلڑے میں ڈال رکھا ہے جس پر امریکہ اور مغربی ممالک نے ایک سے زائد بار ناپسندیدگی کا اظہاربھی کیا اور سفارتی زرائع سے پیغامات بھی دیے پھربھی نیٹو کا ممبر ہونے کے باوجود روس سے جدید ترین میزائل نظام خرید نے پرترکیہ نے نظرثانی نہیں کی شاید اسی وجہ سے 2016سے یورپی یونین میں شامل ہونے کے لیے تعطل کا شکار بات چیت کا عمل آج تک بحال نہیں ہو سکا نیٹو کی توسیع میں بھی ترکیہ کے تعاون میں سُستی واضح ہے سویڈن نے نیٹو کی رُکنیت
کے لیے درخواست دے رکھی ہے لیکن منظوری کا عمل ترکیہ کی طرف سے رضامندی نہ ملنے کی بنا پر ہنوزنامکمل ہے مگریونان سے تنازعات کے باوجوداِس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جا سکتا کہ ترک مصنوعات کے سب سے بڑے خریدار مغربی ممالک ہیں لہذا طیب اردگان کو حقیقت پسند ہو کر معاملات دیکھنا ہوں گے وگرنہ جتنی تاخیر ہوگی ملکی معیشت مزیدغیر ہموار ہوتی جائے گی۔
حالیہ صدارتی انتخاب کی اچھی بات یہ ہے کہ طیب اردگان کو اپنی پالیسیاں جاری رکھنے کا ایک اور موقع مل گیا ہے لیکن یہ موقع حاصل کرنے کی لیے اُنھیں کئی سخت مراحل سے گزرناپڑا ہے اقلیتی فرقے سے تعلق کے باجود حزبِ اختلاف کے امیدوار نے 48فیصدووٹ لیکرسب کو چونکا دیا ہے حالیہ انتخابی نتائج ترک معاشرے میں نمو پاتی اِس سوچ کا اظہار ہیں کہ وہ ملک میں موجود3.7 ملین شامی مہاجرین کو بوجھ تصور کرتے ہیں جس نے نہ صرف ملک کی معاشی حالت کمزور کی ہے بلکہ ر وزگار کے کے مواقع بھی کم کیے ہیں اردگان لاکھ کہانیاں سُنائیں اُنھیں شامی مہاجرین کے بارے بھی جلد کوئی ایسا فیصلہ کرنا ہوگا جس سے اُن کی اپنے وطن جانے کی راہ ہموار ہو وگرنہ حالیہ صدارتی انتخاب اُن کے سیاسی کردار کا اختتامی نکتہ ثابت ہو سکتے ہیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر