وجود

... loading ...

وجود
وجود

ایوانِ پارلیمان کے افتتاح میں ساورکر پر گاندھی کی فتح

جمعرات 01 جون 2023 ایوانِ پارلیمان کے افتتاح میں ساورکر پر گاندھی کی فتح

ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مودی سرکار کو کورونا وبا کے دوران سارے اصول و ضوابط اور احتیاطی تدابیر بالائے طاق رکھ کر ایوانِ پارلیمان کی نئی عمارت تعمیر کرنے کے لیے یاد رکھا جائے گا۔ وزیر داخلہ کا دعویٰ ہے کہ ساٹھ ہزار محنت کشوں نے اس عمارت کی تعمیر میں حصہ لیا ہے ۔ یہ پتہ لگانے کی ضرورت ہے کہ ان میں سے کتنے کورونا سے متاثر ہوئے ۔ ان کے علاج معالجہ کے لیے سرکار یا اس کے ٹھیکیداروں نے کیا اقدامات کیے اور کتنوں نے اپنی جان گنوائی۔ ان کی موت کے بعد اہل خانہ کی خبر گیری کے لیے کیا کیا گیا۔ کوئی تفتیشی صحافی اگر اس موضوع پر تحقیق کرے تو چونکانے والے اعدادو شمار منظرِ عام پر آسکتے ہیں۔ وہ ایسا زمانہ تھا کہ لاکھوں مزدور پیدل نقل مکانی کے مجبور ہوگئے تھے ۔ وقت کا دھارا تھم سا گیا تھا۔ عام لوگ دانے دانے کو ترس رہے تھے ۔ آکسیجن سلنڈر کی خاطر در در کی ٹھوکریں کھارہے تھے ۔ گلی کوچوں میں لاشیں جلائی جارہی تھیں ۔ گنگا ندی میں لاشوں کے بہنے کی خوفناک تصاویر دل دہلا رہی تھیں ۔اس سب کے باوجود دارالخلافہ دہلی میں زور و شور کے ساتھ ایوان پارلیمان کی نئی عمارت میں وزیر اعظم کے خوابوں کا محل تعمیر ہورہا تھا ۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سفاکی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود کیا آئندہ سال ملک کے عوام اس نئے مکان میں وزیر اعظم کو رہنے کی اجازت دیں گے یا انہیں قرار واقعی سزا دے کر نکال باہر کریں گے ۔بی جے پی اگر یہ سوچتی ہے کہ نئی عمارت کو دیکھ کر ملک کے باشندے خوش ہوجائیں گے تو یہ اس کی خوش فہمی ہے کیونکہ اس نے اس کا سنگ بنیاد رکھتے وقت سابق دلت صدر رام کووند کو نظر انداز کردیا اور افتتاح میں قبائلی صدرِ مملکت دروپدی مرمو کی ان دیکھی کی۔ کیا ملک کا دلت اور قبائلی سماج اس پر اپنی ناراضی کا اظہار نہیں کرے گا؟ سنگھ پریوار کی موقع پرستی کا یہ عالم ہے کہ جب 1989 میں پہلی بار اس نے اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی سے رام مندر کا سنگ بنیاد رکھنے کی اجازت مانگی تو اس کام کے لیے بہار میں دلت سماج سے تعلق رکھنے والے کامیشور چوپال کا انتخاب کیا گیا تھا۔ اس طرح یہ فریب دہی کی کوشش کی گئی کہ رام مندر دلتوں کے لیے بھی ہے ۔ اس کے بعد ونئے کمار کٹیار جیسے پسماندہ کو بجرنگ دل کا صدر اور کلیان سنگھ و اومابھارتی جیسے لودھ سماج کے لوگوں کو یوپی وایم پی کا وزیر اعلیٰ بناکر پسماندہ طبقات کو قریب کیا گیا لیکن اب اقتدار مل گیا تو دلت و قبائلی صدرِ مملکت کو بھی ایوانِ پارلیمان کا سنگ بنیاد اور افتتاح کے لیے نہیں بلایا گیا۔ اسے ابن الوقتی کہتے ہیں۔
فی زمانہ ملک میں نہ صرف اقلیتوں بلکہ پسماندہ طبقات کو بھی پوری طرح نظر انداز کیا جارہاہے ۔مہاتما گاندھی ، مولانا آزاد اور ڈاکٹر امبیڈکر کے بجائے وی ڈی ساورکر ، ایم ایس گولوالکر اور ناتھو رام گوڈسے جیسے لوگوں کی پذیرائی کی جارہی ہے ۔یہ ایسے لوگ ہیں جنھوں نے انگریزوں سے معافی مانگی اور ان سے وفاداری کا حق ادا کردیا ۔ان لوگوں کو عوام کا آئیڈیل بنایا جارہاہے جنھوں نے انگریزوں کے بانٹو اور کاٹو کی حکمت عملی پر زور و شور سے عمل کیا اور آزادی کے بعد ملک میں پہلا دہشت گردانہ حملہ کرکے گاندھی جی کو قتل کردیا ۔ یہی وجہ ہے کہ ایوانِ پارلیمان کا افتتاح کرنے کی خاطر خود ساختہ ویر جنھیں ان کے ناقد معافی ویر بھی کہتے ہیں کے یوم پیدائش کا انتخاب کیا گیا ۔ یہ وہی ساورکر ہے جنھوں نے ناتھو رام گوڈسے کو آشیرواد دے کر گاندھی جی کے قتل کی خاطر روانہ کیا تھا ۔ گولوالکر کے نظریات سے متاثر ہوکر گوڈسے پہلے آر ایس ایس میں شامل ہوا۔ اس کے بعدساورکر کی ہندو مہاسبھا میں جاکر گاندھی جی کا قتل کردیا۔
یہ محض الزام نہیں ہے بلکہ عدالت میں ثابت ہو نے والا جرم ہے ۔ ناتھو رام گوڈسے نے ٩ نومبر سنہ 1948 کو عدالت میں یہ اعتراف کیا تھا کہ : ‘ہاں، میں نے گاندھی جی کو گولی ماری تھی۔ گولی لگنے کے بعد ایک شخص نے پیچھے سے مجھے سر پر مارا اور خون نکلنے لگا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نے وہی کیا جو میں نے منصوبہ بنایا تھا اور مجھے کوئی افسوس نہیں ہے ۔ ‘ اس قتل کے بعد بی جے پی کے چہیتے نائب وزیر اعظم ولبھ بھائی پٹیل نے ڈیڑھ سال کے لیے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ پر پابندی عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘گاندھی کے قتل کے لیے وہ فرقہ وارانہ زہر ذمہ دار ہے جسے پورے ملک میں پھیلا گیا ہے ۔’ساورکر اور گولوالکرکے ہندوتوا کی مخالفت اس لیے کی جاتی ہے کیونکہ اسی نظریہ کے بطن سے ہندوستان کا سب سے پہلا دہشت گرد پیدا ہوا ۔ اس نے ملک کے سب سے بڑے رہنما کو ببانگ دہل قتل کیا ۔ گاندھی کا قتل ناتھو رام گوڈسے کاانفرادی عمل نہیں بلکہ آر ایس ایس کی دلی خواہش تھی۔
گاندھی جی کے پرسنل سیکریٹری نے روزنامہ نوجیون پرکاشن میں لکھا تھا :آر ایس ایس کے ممبروں کو کچھ جگہوں پر پہلے ہی سے ہدایت تھی کہ وہ جمعہ کے دن خوشخبری کے لیے ریڈیو کو کھلا رکھیں۔ اس کے ساتھ ہی آر ایس ایس ارکان نے متعدد مقامات پر مٹھائیاں بھی تقسیم کیں۔’ یہ کوئی وقتی ردعمل نہیں تھا بلکہ اس سانحہ کے دو عشروں بعد آر ایس ایس کی ترجمان ‘آرگنائزر’ نے 11 جنوری سنہ 1970 کو اپنے اداریہ میں لکھا تھا کہ ‘نہرو کے پاکستان نواز ہونے اور گاندھی جی کے بھوک ہڑتال پر جانے سے لوگوں میں کافی ناراضی تھی۔ ایسے میں ناتھورام گوڈسے ان لوگوں کی نمائندگی کررہے تھے ، گاندھی کا قتل عوامی غم و غصے کا اظہار تھا۔’ ان لوگوں کے نزدیک عوامی غم و غصے کے تحت قتل یا کسی عبادتگاہ کی مسماری جائز ہے ۔ ان لوگوں نے بابری مسجد کی شہادت کا بھی یہی جواز پیش کیا گیا تھا۔ ان کی حکمت عملی عوام میں غم و غصہ پیدا کرکے اس کے ذریعہ ظلم و جبر کو جائز ٹھہرانا ہے ۔
آر ایس ایس کے لوگ ناتھو رام گوڈسے کے سنگھ سے نکل جانے کا بہانہ بناکر اپنا پلہّ جھاڑنے کی کوشش کرتے ہیں مگر قاتل کے بھائی گوپال گوڈسے نے 28 جنوری 1994 کو جریدہ فرنٹ لائن سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ : ‘ہم سب بھائی آر ایس ایس میں تھے۔ ناتھورام، دتاتریہ، میں اور گووند۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے گھر میں نہیں آر ایس ایس میں بڑے ہوئے ہیں۔ آر ایس ایس ہمارے لیے خاندان تھا۔ ناتھورام آر ایس ایس میں دانشور کارکن بن گئے ۔ ناتھورام نے اس لیے اپنے بیان میں آر ایس ایس چھوڑنے کی بات کہی تھی تا کہ گولوالکر اور آر ایس ایس کو گاندھی کے قتل میں پھنسنے سے بچایا جائے ، لیکن ناتھورام نے آر ایس ایس کو نہیں چھوڑا تھا۔’ گوپال گوڈسے نے بی جے پی رہنما ایل کے اڈوانی کے ذریعہ آر ایس ایس اور ناتھورام میں تعلق کے انکار پر کہا تھا : ‘وہ بزدلانہ باتیں کر
رہے ہیں۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آر ایس ایس نے ایسی کوئی قرارداد منظور نہیں کی تھی کہ ‘جاؤ اور گاندھی کو مار دو’ لیکن آر ایس ایس کے ساتھ ناتھورام کے تعلقات کو مسترد نہیں کرسکتے ۔ ‘ یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ناتھو رام نے نہ کبھی سنگھ کو چھوڑا اور نہ ہی اسے برطرف کیا گیا۔
عتیق احمد کے قاتلوں اور گوڈسے کی ذہنیت میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے ۔ دونوں ایک فکر و نظریہ کے علمبردار ہیں۔ اس لیے بی جے پی والے اگر ایسا سمجھتے ہیں تو ان غلام قاتلوں کو ہیرو بنادیں گے تو ا یک سال انتظار کریں آئندہ سال ان کی ساری خوش فہمی دور ہوجائے گی ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ایک بات سمجھ لینا چاہیے کہ اب حزب اختلاف پہلے جیسا نہیں ہے ۔ اس نے بھی مودی جی کی مانند آپدا میں اوسر( مشکل میں موقع) کا فن سیکھ لیا ہے ۔ وہ مودی سرکار کو گھیرنے کا کوئی موقع نہیں گنواتا اس لیے ایوانِ پارلیمان کے افتتاح کی وہ تقریب جس کو موجودہ حکومت 2024 میں کامیابی کا ہتھیار بنانا چاہتی تھی اسے بڑی مہارت سے بدنامی کی سبیل بنادیا گیا ہے ۔ گاندھی قتل معاملے میں خود وی ڈی ساورکر پر بھی سازش میں شامل ہونے کا الزام تھا مگر وہ ثبوتوں کی کمی کے سبب چھوٹ گئے ۔ اب اگر ایسے شخص کے یوم پیدائش پر ایوان پارلیمان کا افتتاح ہو تو اس کی مخالفت لازم ہوجاتی ہے ۔ حزب اختلاف کی پرزور مخالفت نے وزیر اعظم کو ساورکرکے بجائے گاندھی جی کوخراج عقیدت پیش کرکے تقریبات کا آغاز کرنے پر مجبور کردیا۔یہ ساورکر نوازوں پر گاندھی کے حامیوں کی ایک فتح ہے ۔ 21 سیاسی جماعتوں کے متحدہ بائیکاٹ نے یہ ثابت کردیا کہ اب وہ بڑھ چڑھ کر حملہ کرنے لگے ہیں۔ اس لیے موجودہ سرکار کا دوبارہ اقتدار میں آجانا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے ۔ حزب اختلاف کے بلند حوصلوں پر خالد محمود کا یہ شعر صادق آتا ہے
مقابلہ ہو تو سینے پہ وار کرتا ہے
وہ دشمنی بھی بڑی پروقار کرتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
وکیل اور وکالت وجود بدھ 27 ستمبر 2023
وکیل اور وکالت

لوٹ مچ گئی ہے کیا؟ وجود بدھ 27 ستمبر 2023
لوٹ مچ گئی ہے کیا؟

حکمرانوں کی کرپشن سے مہنگائی میں اضافہ ہوا وجود بدھ 27 ستمبر 2023
حکمرانوں کی کرپشن سے مہنگائی میں اضافہ ہوا

عید میلادالنبیۖ وجود منگل 26 ستمبر 2023
عید میلادالنبیۖ

اورنگ زیب عالمگیر ایک بہادر مسلمان مغل حکمران وجود منگل 26 ستمبر 2023
اورنگ زیب عالمگیر ایک بہادر مسلمان مغل حکمران

اشتہار

تجزیے
متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!! وجود هفته 23 ستمبر 2023
متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!!

نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟ وجود بدھ 20 ستمبر 2023
نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟

نیپرا کا عوام کش کردار وجود جمعه 15 ستمبر 2023
نیپرا کا عوام کش کردار

اشتہار

دین و تاریخ
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش وجود هفته 23 ستمبر 2023
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش

جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے وجود جمعه 15 ستمبر 2023
جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے

مادیت کا فتنہ اور اس کاعلاج وجود جمعه 08 ستمبر 2023
مادیت کا فتنہ اور اس کاعلاج
تہذیبی جنگ
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے

مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی وجود جمعرات 03 اگست 2023
مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی

کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے
بھارت
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم وجود منگل 19 ستمبر 2023
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم

آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا

بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا وجود بدھ 06 ستمبر 2023
بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا

چندریان تھری کی کامیابی پر بھارتی نجومی کا پاگل پن، چاند کو ہندو سلطنت قرار دینے کا مطالبہ وجود پیر 28 اگست 2023
چندریان تھری کی کامیابی پر بھارتی نجومی کا پاگل پن، چاند کو ہندو سلطنت قرار دینے کا مطالبہ
افغانستان
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا

افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی وجود پیر 14 اگست 2023
افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی

بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام وجود منگل 08 اگست 2023
بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام
شخصیات
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے وجود جمعه 22 ستمبر 2023
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے

معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال
ادبیات
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر

فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے وجود پیر 11 ستمبر 2023
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال