وجود

... loading ...

وجود
وجود

عدل و انصاف کا دُہرا معیار

جمعه 26 مئی 2023 عدل و انصاف کا دُہرا معیار

ڈاکٹر سلیم خان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اتر پردیش کی سرکار ابھی عتیق احمد سے فارغ نہیں ہوئی تو مختار انصاری کے پیچھے پڑ گئی لیکن اس بیچ ایک طویل انتظار کے بعد الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بینچ نے پربھات گپتا قتل معاملہ میں اپنا فیصلہ سنادیا۔ لکھیم پور کھیری کے تکونیا تھانہ علاقے کے اندرمیں 22 سالہ نوجوان پربھات گپتا کوسن 2000 میں گھر جاتے ہوئے گولی مار کر سربازار ہلاک کر دیا گیا تھا ۔ اس وقت پربھات سماجوادی پارٹی کے یوتھ ونگ کے رکن تھے ، جبکہ ٹینی بی جے پی سے وابستہ تھے ۔ان دونوں کے درمیان سیاسی رسہ کشی ایک فطری بات تھی۔ اس معاملے میں اجے مشرا عرف ٹینی کو تین دیگر ملزمین کے ساتھ نامزد کیا گیا تھا۔ کیس کی سماعت کے بعد کھیری کی ایک سیشن عدالت اجے مشرا اور دیگر ملزمان کو ثبوت کی عدم دستیابی کی وجہ سے بری کر دیا تھا۔ اجئے مشرا ٹینی جیسے خونخوار ڈان کو مقامی عدالت کے لیے مجرم ٹھہرانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ یہ وہی اجئے مشرا ہے جس کے بیٹے آشیش نے 3 اکتوبر2021 کو جیپ سے چارکسانوں کو کچل دیا تھا۔ یہ واقعہ بھی اسی تکونیا گاوں میں پیش آیا تھا جہاں باپ پرپربھات گپتا کے قتل معاملہ میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ بیٹا باپ سے بھی آگے بڑھ گیا اور اس کے تشدد میں کل 8 لوگ مارے گئے تھے ۔ان میں 4 کسان، ایک مقامی صحافی، دو بی جے پی کارکن شامل تھے ۔ اس مجرم پیشہ باپ بیٹے پر یہ کہاوت صادق آتی ہے کہ ” باپ پر پوت پتا پر گھوڑا بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا”۔
اجئے مشرا ٹینی کی رہائی سے متعلق ہونے والے فیصلے کے خلاف اس وقت کی ریاستی حکومت نے 2004 میں ہائی کورٹ کے اندر اپیل دائر کی تھی۔حکومت کی یہ دلیل تھی کہ پنچایت انتخابات کو لے کر ٹینی کا طالب علم رہنما سے تنازعہ چل رہا تھا اس لیے پربھات گپتا کو اجئے مشرا ٹینی اور دوسرے ملزم سبھاش ماما نے گولی ماری تھی۔ اس واقعے کے عینی شاہدین بھی تھے لیکن ان کی گواہی کو ٹرائل کورٹ نے نظر انداز کر دیا تھا ۔ اس پر مدعا علیہ نے دلیل دی تھی کہ مبینہ عینی شاہد کی گواہی کو اس لیے قابل اعتبار نہیں سمجھا گیا کیونکہ عینی شاہد اس دکان کا ملازم تو تھا جہاں یہ واقعہ پیش آیا لیکن واردات کے دن وہ دکان کھلی ہی نہیں تھی حالانکہ ملازم کی موجودگی کا دکان کے کھلے یا بند ہونے سے کوئی تعلق ہی نہیں بنتا۔ قتل کا شاہد بند دکان کے باہر چھٹی کے دن بھی موجود ہوسکتا ہے لیکن عدالت نے موقعِ واردات پر عینی شاہد کی موجودگی کو مشکوک قرار دے کر اجے مشرا ٹینی کو فیصلہ سنا کر 2004 میں بری کر دیا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ ریاستی حکومت نے اسی وقت اس فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
وطن عزیز میں عدالتی معاملات کا ٹلنا کوئی حیرت کی بات نہیں ہے ۔ یہ مقدمہ ٢٢ سال چلا اور پھر پچھلے سال 10 نومبر( 2022) کو عدالت نے شنوائی کے بعد فیصلہ سنانے کے بجائے اسے محفوظ رکھ لیا نیز کچھ نکات کی وضاحت کے لیے دوبارہ سماعت کی ۔ مرکزی وزیر کے خلاف فیصلہ سنانے میں ہچکچاہٹ ایک فطری بات ہے ۔ امسال 21 فروری کو اس کیس کی سماعت کے بعد لکھنؤ بنچ نے دوسری بار فیصلہ سنانے کی جرأت نہیں کی اور اسے پھرمحفوظ رکھ لیا ۔ اس قتل کا الزام چونکہ مرکزی وزیر مملکت اجئے مشرا ٹینی پر تھا اس لیے ماہ رواں میں مشرا کو پھر سے بری کر دیا گیا۔ یوگی حکومت اپنے آپ کو ہندو سماج کا محافظ بناکر پیش کرتی ہے ایسے میں اسے پربھات گپتانامی مقتول کی حمایت زور و شور کرنی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اس لیے کہ گپتا کے قتل کا الزام کسی مسلمان پر نہیں تھا۔ یوگی سرکار غنڈہ گردی اور قتل و غارتگری کے خلاف صفر برداشت کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے ۔ وہ اگر اس معاملے میں مخلص ہوتی تو سیشن کورٹ کے فیصلے کی مخالفت میں ہائی کورٹ کے اندر ایسے شواہد پیش کرتی کہ عدالت کے لیے ان سے صرفِ نظر کرنا مشکل ہوجاتا مگر چونکہ اپنے مرکزی وزیر کو بچانا تھااس لیے ڈھیلا ڈھالا رخ اختیار کیا گیا ۔
بی جے پی والے سماجوادی اور دیگر سیاسی جماعتوں پر غنڈوں بدمعاشوں کی سرپرستی کا الزام لگاتے ہیں لیکن اس کو اگر قتل و غارتگری سے پر ہیز ہوتا تو ایک ایسے شخص کو مرکزی وزیر بناکر وزارت داخلہ جیسے شعبے میں وزارت داخلہ کا قلمدان نہیں دیا جاتا جس پر ایسے سنگین الزامات لگے تھے ۔ ملک کی پولیس اسی وزارت کے تحت آتی ہے اس لیے اس سے یہ توقع کیسے کی جائے کہ وہ اپنے آقا کے خلاف ثبوت جمع کرے گی۔ اس رویہ کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتا تھا کہ سیشن کورٹ کے ذریعہ اجئے مشرا ٹینی کو بری کیے جانے کا فیصلہ برقرار رکھا جاتا اور وہی ہوا۔ ملک کی عدالت میں یہ ہمت نہیں ہے کہ مرکزی اور ریاستی سرکار کی جانب نگاہِ غلط بھی ڈال سکے ۔ اتر پردیش میں گینگسٹر ایکٹ کے تحت بلڈوزر کا چلنا اور جائیداد کی قرقی عام بات ہے ۔ حکومت اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے انکاونٹر کرنے سے بھی نہیں چوکتی لیکن ایسی کوئی کارروائی مشرا خاندان کے خلاف نہیں ہوئی ۔ اترپردیش میں ایک طرف ٹینی جیسا باپ رہا ہوجاتا ہے اور اس کے بیٹے کو سیاسی رسوخ کے سبب ضمانت مل جاتی ہے مگرسابق رکن اسمبلی مختار انصاری کے خلاف جولائی 2001 میں اُسری چٹی گینگ وار کے سلسلے میں نیا قتل کا مقدمہ درج کرلیا جاتا ہے ۔
حیرت کی بات یہ ہے شروع میں مختار انصاری اس کیس میں گواہ تھے ، لیکن 22 سال بعد سیاسی دشمنی کے سبب انہیں ملزم بناکر آئی پی سی کی دفعہ 302 (قتل) کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے ۔یہ 15 جولائی 2001 کا واقعہ ہے جس میں مختار انصاری اور ان کے حریف برجیش سنگھ کے درمیان غازی پور ضلع کے اُسری چٹی میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ اس واقعہ میں مختار انصاری کے سرکاری گنر منوج رائے اور رام چندر سمیت تین لوگ مارے گئے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مختار انصاری بھلا خود اپنے سرکاری محافظ پر گولی کیونکر چلا سکتے ہیں؟ لیکن متوفی منوج رائے کے والد شیلیندر کمار رائے کے ذریعہ ایف آئی آر درج کرائی گئی اور مقدمہ بن گیا۔ حال میں شیلیندر کمار رائے نے لکھنؤ میں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (لا اینڈ آرڈر) پرشانت کمار سے ملاقات کی تھی اور انصاری کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔اس وقت پرشانت کمار نے یہ سوال نہیں کیا کہ اتنے عرصہ کے بعد اسے یہ خیال کیوں آیا جبکہ ٦ سال سے اترپردیش میں یوگی جی کا راج ہے ۔ اُسری چٹی کیس کی سماعت بھی اسی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ جج-1 (ایم پیـایم ایل اے ) درگیش پانڈے کی عدالت میں جاری
ہے ۔انہوں نے انصاری کو حال میں ایک مقدمہ سے رہا کردیا ہے ۔
سابق رکن اسمبلی مختار انصاری کو کس طرح جعلی مقدمات میں پھنسایا جارہا ہے اس کا ایک ثبوت اس وقت سامنے آیا جب ان کو غازی پور سے ایم پیـایم ایل اے کورٹ نے اسی طرح کے ایک قتل کی کوشش کے معاملے میں بے قصور قرار دے دیا۔ اس معاملے میں گزشتہ 6 مئی کو مختار انصاری کی طرف سے زبانی بحث کی گئی تھی۔ اس کے بعد عدالت نے فیصلہ سنانے کے لیے 17 مئی کی تاریخ طے کی تھی۔ سال 2009 میں غازی پور کے محمد آباد کوتوالی میں سابق ایم ایل اے کے خلاف یہ معاملہ درج ہوا تھا جس میں ان کو راحت ملی ۔ یہ معاملہ بھی عجیب ہے کہ ابتداء میں اس کے اندر مختار انصاری کہیں بھی نہیں تھے ۔ میرحسن نام کے ایک شخص نے محمدآباد تھانے میں سونو یادو کے خلاف قتل کا معاملہ درج کرایا تھا۔ اس معاملے کی جانچ کے دوران پولیس نے مختارانصاری پر دفعہ 120 بی کے تحت مقدمہ درج کرکے قتل کی کوشش اور سازش کرنے کا الزام لگا دیا ۔ اس معاملے میں لمبی بحث چلی اور دونوں فریق کی طرف سے اپنے اپنے موقف عدالت کے سامنے رکھے گئے ۔ اس کے بعد عدالت نے مختارانصاری کو بری کردیا حالانکہ سونو یادو جس کے خلاف شروع میں مقدمہ درج کیا گیا تھا وہ تو پہلے ہی رہا ہوچکا ہے ۔
اس رہائی کے بعد بھی مختار انصاری کا جیل سے نکلنا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ انہیں اس طرح کے کئی معاملات میں ملوث کیا گیا ہے ۔رکن اسمبلی کرشنانند رائے قتل معاملہ میں مختار انصاری کو 10 سال قید کی سزا سنائی جاچکی ہے نیز ان پر 5 لاکھ روپے کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا ۔ مختار انصاری کو یہ سزا غازی پور کے ایم پیـایم ایل اے کورٹ نے سنایا تھا ۔اس کے بعد یہ معاملہ سیشن کورٹ اور پھر عدالت عالیہ میں جائے گا۔ بعید نہیں کہ اوپری عدالت میں اس معاملے کا بھی وہی حشر ہو جو میر حسن کے قضیہ میں ہوا ہے ۔ ویسے پولیس حراست میں پریاگ راج کے اندر عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کے قتل کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرنے کے لیے داخل کردہ درخواست پرسپریم کورٹ نے سماعت سے اتفاق کرلیا ہے ۔سپریم کورٹ کے وکیل وشال تیواری نے مطالبہ کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق جج کی سربراہی میں ایک آزاد ماہر کمیٹی اس معاملہ کی تحقیقات کرے نیز 2017 سے اب تک پولیس کی جانب سے کیے گئے 183 انکاؤنٹروں کی بھی تفتیش کی جائے ۔ یہ تفتیش اگر غیر جانبداری سے ہوجائے تو یوگی ادیتیہ ناتھ کا جیل جانا لازم ہے لیکن اس سے پہلے انہیں اقتدار سے بے دخل کرنا ضروری ہے کیونکہ سپریم کورٹ سے بھی سرکار دربار کے خلاف کسی جرأتمندانہ فیصلے کی امید بہت کم ہے ۔کسی ملک اور سماج میں اگر عدل و انصاف میں تفریق و امتیاز ہوتو اس کے سارے بلند بانگ دعویٰ کھوکھلے ہوجاتے ہیں۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر