وجود

... loading ...

وجود
وجود

عمران خان تنہاہوگئے ؟

جمعرات 25 مئی 2023 عمران خان تنہاہوگئے ؟

رفیق پٹیل

پاکستان کے سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے ساتھی گرفتاریوں کے بعد رہائی کی صورت میں ان سے علیحدہ ہورہے ہیں، حال ہی میں ڈاکٹر شیریں مزاری کو گرفتار کیا گیا۔ ان کی ایک مرتبہ ضمانت پر رہائی ہوئی ۔انہیں دوبارہ گرفتار کرلیا گیا۔ دوسری مرتبہ رہائی ملی۔ تب بھی عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ انہیں تیسری مرتبہ رہائی ملی اس وقت جب وہ ہاتھ اٹھا کر کامیابی کا نشانہ بنارہی تھیں تو ان کی بیٹی نے ان کا ہاتھ پکڑکر نیچے کرلیا وہ پھر گرفتا ر ہوگئیںجب وہ چوتھی مرتبہ گرفتار ہوئیں تو اطلاع آئی کہ وہ پارٹی چھوڑ رہی ہیں۔ انہوں نے ایک مختصر پریس کانفرنس کی اور اس موقع پر ایک کاغذ پر لکھی ہوئی تحریر پڑھ کر سنائی کہ وہ تحریک انصاف سے علیحدہ ہورہی ہیں۔ اورسیاست سے ہی دستبردار ہورہی ہیں ۔ وہ خود بیمار ہیں والدہ کی دیکھ بھال کرنی ہے اور بچوں کا خیال رکھنا ہے یہی ان کی ترجیح ہے۔ یہ مختصر گفتگوموجودہ حالات کی عکّاسی تھی اور اتنی اثر انگیز تھی کہ یہ عرصہ دراز تک یاد رکھی جائے گی ۔
اسی طرح روزانہ کسی نہ کسی پی ٹی آئی کے رہنما کی علیحدگی کی اطلاع آرہی ہے عمران خان کے ساتھی یا تو روپوش ہیں یا گرفتار ہیں۔ اس لیے عملاً وہ تنہا ہو چکے ہیں۔عمران خان کہتے ہیںکہ وہ اکیلے بھی رہ گئے تو اپنی تحریک جاری رکھیں گے۔ ان کا خیال ہے کہ 9 مئی کے واقعات ایک خاص منصوبہ بندی کا نتیجہ تھے۔ ان کی یہ بات کہاں تک درست ہو سکتی ہے یہ بات آئندہ دنوں میں واضح ہوسکتی ہے لیکن یہ درست ہے کہ9مئی کو ا سلام آباد ہائی کورٹ میںرینجرز کے ذریعے گرفتاری کے نتیجے میں پاکستان میں ہونے والے ہنگاموں کے بعد تحریک انصاف کے خلاف جاری غیر اعلانیہ پابندیوں اور آپریشن کی وجہ سے موجودہ حالات میں تحریک انصاف انتخابات میں حصہ لینے کی پوزیشن میں نہیں ہے ۔ان کے کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے ۔بعض اطلاعات کے مطابق تقریباً آٹھ سے دس ہزارکارکن گرفتار کیے گئے ہیں جس میں سیکڑوں خواتین بھی شامل ہیں۔بے شمار کارکن زیرزمین ہیں یا ملک سے باہر جاچکے ہیں۔ فوجی عدالتوں میں مقدمات کی تیاری جاری ہے۔ عمران خان اوران کے ساتھیوں کو دہشت گرد قرار دینے کے امکانات غالب ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی سے یہ معلومات حاصل کی جارہی ہیں کہ جس علاقے میں ہنگامے ہو رہے تھے وہاںکون کون سے موبائل فون موجود تھے۔ اس طرح تقریباً پینتالیس ہزار افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ابھی یہ طے نہیں ہوا کہ ان میں سے کتنے افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمات چلائے جائیں گے۔ میڈیا میں ان تمام لوگوں کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس وقت تقریباً 35 ہزار دہشت گردوں کی تلاش جاری ہے۔ اس طرح کی خبروں اور بیانات میں احتیاط ضروری ہے ۔ اس کے بیرونی دنیا پر منفی اثرات ہونگے اور سرمایہ کاری بھی متاثر ہوگی۔
ملک میں پہلے سے جاری سیاسی بحران کے نتیجے میں معاشی بحران شدید سے شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ لوگ مہنگائی سے انتہائی پریشان اور تنگ ہیں۔غریبوں کے لیے گزارہ مشکل ہے۔ غربت میں اضافہ ہورہا ہے اس طرح کے بیانات کی تشہیر سے اس بحران میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائش گاہ میں چالیس دہشت گردوں کی روپوشی کی خبروں سے بھی پاکستان کی ساکھ متاثر ہوئی۔ حکومتی عہدیداروں کی جانب سے بیانات کا سلسلہ اب بھی برقرارہے۔ تحریک انصاف کے لیے انتہائی مشکلات کا وقت ہے۔ اس وقت ان کی حیثیت ایک کا لعدم جماعت کی ہے۔ کسی سیاسی سرگرمی کے لیے ان کا کوئی کارکن میدان میں نہیں آسکتا ہے۔ پاکستان کے تقریباًتمام ٹی وی چینل عمران خان اور ان ساتھیوں کو دہشت گرد قرار دینے اور ان پر لعنت و ملامت کے بیانات کی بھر پور تشہیر کررہے ہیں۔ میدان خالی دیکھ کرجماعت اسلامی نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں جو کراچی میںاپنا میئر لانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اس کے لیے انہیں زیر عتاب تحریک انصاف کے کونسلرز اور چیئر مینوں کے ووٹ درکار ہیں، جنہیں حلف اٹھانے سے پہلے یا بعد میں گرفتا ر کیا جا رہا ہے۔ اس لیے پیپلز پارٹی کی ممکنہ کامیابی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے۔
کراچی میں جماعت اسلامی کی کامیابی کی صورت میں حافظ نعیم اگلے مرحلے میں بھی پیش قدمی کر سکتے ہیں ملک بھر میں کمزور ہوتی ہوئی مسلم لیگ ن کے علاوہ گرفتاریوںاور پابندیوں کے عتاب کی شکار تحریک انصاف سے ایک خلا پید اہوسکتاہے۔ جماعت اسلامی اس ممکنہ خلا کو پر کرنے کے لیے زور لگارہی ہے ۔جماعت اسلامی ،تحریک لبیک اور پی پی پنجاب پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ دوسری جانب جہانگیر ترین ان لوگوں کو ساتھ ملانا چاہتے ہیں جو جدّی پشتی سیاستدان ہیں اور اپنا ذاتی ووٹ بینک رکھتے ہیں۔ تحریک لبیک بھی حالات سے فائدہ حاصل کرکے اپنی پارلیمانی پوزیشن حاصل کر سکتی ہے ۔قومی اور صوبائی اسمبلی میں وہ بھی حصہ دار بننے کی کوشش کرے گی۔ تحریک انصاف کے سوا تمام جماعتیں فوجی عدالتوں کا سہارا لے کر سیاست کر رہی ہیں اور سیا سی عمل کے بجائے فوجی عدالتوں کے ذریعے تحریک انصاف کو سیاسی عمل سے باہر کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ بظاہر حالات پر امن نظر آرہے ہیں لیکن ایک طویل عرصے تک ان حالات کو برقرار رکھنا انتہائی مشکل اور پیچیدہ ہوگا۔ دوسری مرتبہ عمران خان کی ممکنہ گرفتاری کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے کئی رہنما اپنی وفاداریاں تبدیل کر چکے ہوں گے جس کا سلسلہ جاری ہے۔ آنے والے دنوں میں اعلی عدالتیں بھی موجودہ انتظامیہ کے سامنے بے بس دکھائی دیں گی جس کے واضح آثا ر حکومت عدالتی احکامات کو نظر انداز کررہی ہے۔ اصل سیاسی ٹکرائو عدالت کے اس حکم کی وجہ سے ہوا تھا کہ 14مئی کو پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے انتابات کرائے جائیں جس پر عمل درآمد نہیں کرایا گیا۔ اب عدالتیں پی ٹی آئی کے کارکنوں اور رہنمائوں کو رہا کرنے کا حکم دیتی ہے اورپو لیس انہیں دوبارہ گرفتار کرکے لے جاتی ہے۔ بعض غیر مصدّقہ اطلاعات کے مطابق اعلیٰ عہدیداروں کو 9مئی کے واقعات کے بارے میں صحیح رپورٹ نہیں دی گئی تھی۔ اب ایک اور رپورٹ دی گئی ہے جس میں ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جس میں سول حکومت کے لیے شدید مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس رپورٹ میں بعض سول ادارے اور اعلیٰ عہدیدار ذمّہ دار قرار دیے جارہے ہیں ۔اگر یہ اطلاع درست ثابت ہوتی ہے ۔اعلیٰ سطح پر اسے تسلیم کرلیا جاتا ہے تو ممکنہ طور پر توڑ پھوڑ میں ملوّث چند لوگوں کے سو ا پی ٹی آئی کے بیشتر کارکنوں اور رہنمائو ںکو جلدرہا کردیا جائے گا جس سے ملک میں صورت حال تبدیل ہوجا ئے گی۔ اس طرح کی اطلاع لندن برطانیہ سے ایک صاحب نے اپنے ٹوئٹ کے ذریعے دی ہے فی الحال عمران خان مشکل سے دوچارہیںاورسیاسی تنہائی کا شکار ہیں ان کے مخالفین خوشی سے جھوم رہے ہیں۔ عوام کے لیے مسائل میں کوئی کمی نہیں ہورہی ہے جو مسلسل معاشی بحران سے شدید پریشانی اور ناقابل برداشت تکلیف کا سامنا کر ہے ہیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر