وجود

... loading ...

وجود

بھارت میں علیحدگی کی تحریکیں

جمعه 19 مئی 2023 بھارت میں علیحدگی کی تحریکیں

ریاض احمدچودھری

بھارتی ریاست منی پور میں بھارت سے علیحدگی کا مطالبہ شدت اختیار کر گیا، وزیراعلیٰ نونگتھم بم بیرن سنگھ نے بھارتی حکومت کی طرف سے الحاق کا معاہدہ جعلی قرار دے ڈالا۔منی پور کی جلا وطن حکومت کے وزیر اعلیٰ نونگتھم بم بیرن کی طرف سے جاری پریس ریلیز میں واضح کیا گیا ہے کہ آزادی ایکٹ 1947ء کے تحت منی پور کی آزاد حیثیت کو تسلیم کیا گیا تھا۔ بھارت نے الحاق شدہ ریاستوں کو صوبوں میں بدل کر آزادی ایکٹ 1947ء کی خلاف ورزی کی۔
منی پور میں آزادی اور بھارت سے علیحدگی کا مطالبہ 1949ء سے چل رہا ہے۔ 1980ء سے منی پور میں علیحدگی کی جدوجہد جاری ہے جس میں ہزاروں بھارتی فوجی، پولیس اہلکار اور عام شہری اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ 1972ء میں منی پور کو ریاست کا درجہ دے دیا گیا تھا۔بھارت میں اس وقت 15 سے زائد ریاستوں میں آزادی اور علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں، آج کی یہ نفرت، تقسیم اور ہتک آمیز رویہ بھارتی نام نہاد جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں اس وقت 67 علیحدگی پسند تحریکیں کام کر رہی ہیں۔ ان میں سے17بڑی اور 50چھوٹی تحریکیں ہیں۔ بعض اطلاعات کے مطابق بھارت میں 100سے زائد دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں۔ دراصل اپنی ان لا تعداد تنظیموں پر پردہ ڈالنے اور حقائق چھپانے کے لئے وہ پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ کرتا ہے۔بھارت کے صرف ایک صوبے آسام میں 34 علیحدگی پسند تنظیمیں ہیں۔ ان میں یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیمو کریٹک فرنٹ، کے ماتا پور لبریشن آرگنائزیشن برچھا کمانڈو فورس، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا ، مسلم ٹائیگر فورس، آدم سینا، حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد، کارگورکھا ٹائیگر فورس، پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ شامل ہیں۔ منی پور میں پیپلز لبریشن آرمی، منی پور لبریشن ٹائیگر فورس، نیشنل ایسٹ مائینارٹی فرنٹ، کوکی نیشنل آرمی، کوکی ڈیفنس فورس، ناگالینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل، تری پورہ میں آل تری پورہ ٹائیگر فورس ، تری پورہ آرمڈ ٹرائیبل والنٹیرز فورس ، تری پور مکتی کمانڈوز، بنگالی رجمنٹ ، مینرو رام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ، پنجاب میں ببر خالصہ انٹرنیشنل، خالصتان زندہ باد فورس، خالصتان کمانڈو فورس، بھنڈرانوالہ ٹائیگر فورس، خالصتان لبریشن فرنٹ، خالصتان نیشنل آرمی سمیت بھارت میں بائیں بازو کی کئی انتہا پسند تنظیمیں سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ بھارت نے جن انتہا پسند تنظیموں پر پابندی نہیں لگائی ان میں پیپلز گوریلا آرمی، پیپلز وار گروپ نیکسلائٹس، تامل نیشنل ٹروپس، آصف رضا کمانڈو فورس رن ویرسینا ، ایل ٹی ٹی ای وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ گوہاٹی میں رات کے وقت سڑکوں پر گوریلوں کا راج ہوتا ہے اس لیے غروب آفتاب کے بعد لوگ گھروں باہر نہیں نکل سکتے۔ حکومت کی جانب سے پابندیوں کے باوجود علیحدگی پسند اور دہشت گرد تنظیموں کی کاروائیاں انڈر گراؤنڈ جاری رہتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق بھارتی پنجاب، ناگا لینڈ٫ بہار٫ مغربی بنگال٫ مقبوضہ کشمیر اور آزادی پسند ریاستوں کے تقریباً 66فیصد عوام بھارت سے اکتا چکے ہیں۔ گورکھا ٹائیگر فورسز اور علیحدگی پسندوں کی کاروائیوں سے بھارت کے انٹیلی جنس ادارے خود پریشانی کا شکار ہیں جبکہ بھارتی حکام اپنے ملک میں ہونے والی تمام تخریبی کاروائیوں کے اصل حقائق تک پہنچنے کے بجائے پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دیتے ہیں۔
بھارت میں 100 سے زائد دہشت گرد تنظیموں میں سے 35تنظیمیں انتہائی خطرناک شمار کی جاتی ہیں۔ سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس٫ بابری مسجد کے انہدام٫ گجرات فسادات اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف دہشت گردی اور قتل و غارت میں بھارت کی خطرناک دہشت گرد تنظیموں کا ہاتھ رہا ہے۔ تاہم ان سب تنظیموں میں سب سے زیادہ خطر ناک اور شدت تنظیم نکسل باڑی ہے جیسے ماؤ نواز علیحدگی پسند تنظیم کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔ پچھلے بیس سالوں کے دوران ماؤ باغیوں نے چھ ہزار سے زائد افراد مارے۔ اس تنظیم کی بڑھتی کاروائیوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1996 میں ان کے حملوں میں صرف 156 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ پچھلے سال ان کے ہاتھوں 1134 افراد مارے گئے۔ چونکہ ان کے ٹارگٹ زیادہ تر سیکورٹی اہلکار ہوتے ہیں، اس حوالے سے یہ تعداد کم نہیں۔ گزشتہ چند برسو ں سے بھارت کی مختلف ریاستوں میں نکسل باڑیوں نے قیامت برپا کر رکھی ہے۔
اسی طرح بھارتی پنجاب 1984کی دہائی میں خالصتان کے حصول کی تحریک زوروں پر تھی جس کو اندرون وبیرون ملک مقیم سکھوں کی مالی اور اخلاقی امداد حاصل تھی۔ بھارتی سکھوں کا ایک مسلح گروپ بھارت سے علیحدہ ایک الگ ریاست خالصتان کے حصول کیلئے برسر پیکار تھا جس کی سرکوبی کیلئے اندرا گاندھی نے امرتسر میں واقع سکھوں کے مقدس ترین گولڈن ٹیمپل میں فوج کے ایک سکھ جرنیل کو کارروائی کرنے کا حکم دیا تھا۔بھارتی حکومت کے ایماء پربھارتی فوج نے سکھوں کے انتہائی مقدس مذہبی مقام پر دھاوا بول کرجہاں ”دربار صاحب ” کی بے حرمتی کی وہاں عبادت کیلئے آئے ہوئے چار ہزار سے زائد سکھوںسمیت سکھوں کے مذہبی لیڈر جرنیل سنگھ بھنڈرہ کوعلیحدگی پسند قرار دیتے ہوئے بے رحمی کے ساتھ قتل کرکے خالصتان تحریک کو ہمیشہ کیلئے کچلنے کا اعلان کر دیا۔لیکن تھوڑے ہی عرصے کے بعد دو سکھ محافظوں نے اندرا گاندھی کو گولی مار کر ہلاک کرکے بہر حال دنیا کو ایک پیغام ضرور دیدیا کہ وہ اب ایسے بھارت کے ساتھ رہنے کو قطعی تیار نہیں جہاں سکھوں کے جان ومال کے ساتھ ان کی مذہبی عبات گاہوں کے تقدس کو پامال کیا جا رہاہو۔اندرا گاندھی کے قتل پردن دیہاڑے حکومتی مشینری کے سامنے جس طرح ہزاروںسکھوں کو زندہ جلادیاگیاان مظالم کی المناک داستان اب بھی کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ ہے جو بھارتی بنئے کی سفاکی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔لہذا وہاں بھی علیحدگی کی تحریک زوروں پر ہے۔بھارتی حکام سیاسی تجزیہ نگار اور دانشور اپنے بیانات میں ملک کے اندر دہشت گردی انتہا پسندی مذہبی جنونیت کو تسلیم کر چکے ہیں اور بھارت کے تقسیم ہونے کا خدشہ محسوس کرتے ہیں۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
غزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل میں سسکتے فلسطینی وجود جمعه 09 مئی 2025
غزہ دنیا کی سب سے بڑی جیل میں سسکتے فلسطینی

بھارت کوبھرپور جواب دیاجائیگا وجود جمعه 09 مئی 2025
بھارت کوبھرپور جواب دیاجائیگا

درد کارشتہ وجود جمعه 09 مئی 2025
درد کارشتہ

بھارتی حملے کا منہ توڑ جواب وجود جمعرات 08 مئی 2025
بھارتی حملے کا منہ توڑ جواب

جنگی ماحول میں اور ریاستی ادارے وجود جمعرات 08 مئی 2025
جنگی ماحول میں اور ریاستی ادارے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر