وجود

... loading ...

وجود

ایک اور دھرنے کا سامنا ہے !

منگل 16 مئی 2023 ایک اور دھرنے کا سامنا ہے !

عطا محمد تبسم
۔۔۔۔۔۔

ہماری تاریخ میں یوم سیاہ بڑھتے جارہے ہیں، ہوسکتا ہے کہ کلینڈر پر اتنے سیاہ دھبے نظر آئیں ، کہ ہمیں پورا کلینڈر ہی سیاہ نظر آنے لگے ، ایک سے بڑھ کر ایک سانحہ ہمیں پچھلے سانحے بھلا دیتا ہے ، 12 مئی کا سانحہ کراچی میں ایک فوجی آمر کی طاقت کا مظاہرہ تھا، ایم کیو ایم نے اس دن اس فوجی آمر کا بھرپور ساتھ دیا اور پورے کراچی کو خون میں نہلا دیا۔ہم اس سانحے کو نہیں بھولے ، لیکن اب مئی کے ماہ میں ہمیں ایک اور سیاہ دن 9 مئی کو منانا ہوگا، اس دن ایک سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے کارکن ہماری پاک فوج کے ہیڈ کواٹر ، جی ایچ کیو پر اور لاہور میں کور کمانڈر کے گھر پر حملہ کرتے ہیں، لوٹ مار کرتے ہیں، آگ لگاتے ہیں، پی ٹی آئی کے پرتشدد مظاہروں میں صرف راولپنڈی میں سرکاری اور نجی املاک کو دس کروڑ روپے کا نقصان پہنچایا ہے ، دوسری طرف دو روز میں ٹیلی کام سیکٹر کو ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کا نقصان، حکومتی محصولات میں 57کروڑ کی کمی،لاکھوں افراد کی آمدن متاثر ہوئی۔ انٹرنیشنل پلیٹ فارمز پر پاکستانی فری لانسرز کو مشکلات کرنا پڑا، جو اس خراب حالات میں بھی ملک میں ڈالر لا رہے ہیں۔ پاکستان میں انٹرنیٹ کی بندش سے سے ہزاروں نوجوان جو بیرونی دنیا سے منسلک ہوکر کام کررہے ہیں،انھیں دشواری کا سامنا ہے ۔ان مالی نقصان سے کہیں زیادہ اس پاک فوج کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے ، جس پر ہم اب تک پھول نچھاور کرتے آتے ہیں۔
ملک میں سیاست میں تشدد کا عنصر کچھ نیا تو نہیں ہے ۔ اے این پی کے بم دھماکوں پیپلز پارٹی کے پی آئی اے کے طیارہ اغوا چوہدری ظہور الٰہی خواجہ رفیق ظہور الحسن بھوپالی کا قتل الذوالفقار تنظیم کی دہشت گردی ،بے نظیر قتل پر پورے ملک میں تین دن تک لوٹ مار کراچی میں ایم کیو ایم کی مسلسل دہشت گردی حکیم سعید سے لیکر محمد صلاح الدین اور ہزاروں افراد کا قتل فوج کے میجر کلیم کا کیس چینلز پر فوج کے جرنیلوں کو سرعام گالیاں پھر ٹی ٹی پی کی دہشت گردی چھاؤنی آرمی ہیڈ کواٹر پر حملے سے پی ایس میں معصوم بچوں کا قتل عام اور اس کے بعد بھی آئے دن پرتشدد واقعات ہوتے رہتے ہیں۔لیکن پھر یہ سیاست دان پاک و صاف ہوجاتے ہیں، سیاسی جماعتیں ان واقعات سے سبق نہیں سیکھتی اور سیاسی قیادت وقت آنے پر پھر اپنے کارکنوں کو پکارتی ہیں، انھیں احتجاج پر اکساتی ہیں، سیاسی کارکنوں کی ڈھال میں سیاسی لیڈر اپنا قد کاٹھ بلند کرتے ہیں۔ عظیم قوموں کے چھوٹے لوگ کسی بحران کی کسوٹی پر اپنے آپ کو کامیاب ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ پاکستان میں دھرنا سیاست نے اب مستقل اہمیت اختیار کرلی ہے ، ہم کسی بھی مسئلہ کو اس وقت تک سیریس نہیں لیتے جب تک عوام سڑ کوں پر نکل نہ آئیں اور دھرنا نہ دیں۔ عمران خان کی سیاست میں دھرنے بہت اہمیت کے حامل ہیں، دھرنے جماعت اسلامی نے بھی دیئے ہیں، مولانا فضل الرحمن بھی اپنی قوت کا اظہار دھرنے سے کرنے والے ہیں، منیر نیازی کے شعر میں تھوڑی سی ترمیم کردی جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ
ایک اور دھرنے کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک اور دھرنے سے نکلا تو میں نے دیکھا
اس ملک میں سیاست میں دخیل رہنا اور من پسندیدہ قیادت کو پالنا اسے اقتدار میں لانا اور اتارنا ایسا شوق ہے ، جو بار بار کیا جاتا ہے ، اس شوق کی بھاری قیمت ادا کرنے پر اس شوق سے تائب ہونے ، اور آئندہ یہ نہ کرنے کا اعلان بھی ہمیں اس سے باز نہیں رکھتا ۔نواز شریف کی رخصتی کس انداز میں ہوئی، عدالتیں کیسے فیصلے کرتی رہی، پھر کیسے ایک لاڈلے کو لاڈ اور پیار سے لایا گیا۔ یہ سب کچھ اب تاریخ کا حصہ ہے ۔ پھر عمران خان کی رخصتی جس عجلت اور جارحانہ انداز سے کی گئی ، وہ بھی سب کے سامنے ہے ، پی ڈی ایم میں مختلف الخیال سیاسی جماعتوں کو ایک کال پر کیسے جمع کرلیا گیا، اسمبلی میں کیا کیا تماشے نہ ہوئے ، اور اب تک ہورہے ہیں، ملک کی معاشی بدحالی عروج پر ہے ، کس نے اس پر توجہ دی ہے ، سب کچھ واضح ہے کہ اس لڑائی میں سب نے اپنا حصہ ڈالا ہے ، اور اب بھی ڈال رہے ہیں، سیاست دان تو سیاست ہی کرتے ہیں، انھوں نے تو پنترے ہی بدلنے ہوتے ہیں، کہہ کر مکر جانا ان کی عادت ہوتی ہے ، لیکن ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو اپنا وقار ملحوظ رکھنا چاہیئے ۔ ہمارے ریاستی اداروں کے شوق پورے ہی نہیں ہوتے ۔ ملک تباہ ہوتا ہے تو ہوجائے ۔ معاملہ جب خراب ہوتا ہے جب ان کے پالے ، انھیں آنکھیں دکھانا شروع کرتے ہیں۔ اپنے پالنے والوں پر بھونکھنا اور بھنبھوڑ نا شروع کرتے ہیں۔ اس وقت ملک کی سلامتی اور جموریت کے سفید پرچم نکال کر امن کی دہائی دی جاتی ہے ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ظلم بھی رہے اور امن بھی ہو۔ اس ملک کی عوام کو غربت اور افلاس کی چکی میں پس رہی ہے ، ملک کا آئین اور قانون کہا ں ہے ، عدالتوں کا احترام کہاں ہے ، جب ادارے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوجائیں ، تو ملک میں امن اور سلامتی ایک خواب بن جاتی ہے ، اور آج پھر ہمارے سامنے ادارے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے کبھی اس پر ہاتھ رکھنا کبھی اس پہ ہاتھ رکھنا ۔ کا کھیل کھیل رہے ہیں، جو ملک کو تباہی کی طرف لے جارہا ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
بھارتی آبی جارحیت۔۔ خطرے کی گھنٹی وجود بدھ 07 مئی 2025
بھارتی آبی جارحیت۔۔ خطرے کی گھنٹی

مودی اور آر ایس ایس ایک ہی ہیں! وجود بدھ 07 مئی 2025
مودی اور آر ایس ایس ایک ہی ہیں!

مودی مقبوضہ کشمیر کو غزہ بنارہا ہے! وجود بدھ 07 مئی 2025
مودی مقبوضہ کشمیر کو غزہ بنارہا ہے!

سیاحوں کی ہلاکت:پولرائزیشن کے ہتھیار اور کشمیریوں کی بے بسی وجود منگل 06 مئی 2025
سیاحوں کی ہلاکت:پولرائزیشن کے ہتھیار اور کشمیریوں کی بے بسی

پہلگام فالس فلیگ، حقائق چھپانے کی بھارتی کوشش ناکام وجود منگل 06 مئی 2025
پہلگام فالس فلیگ، حقائق چھپانے کی بھارتی کوشش ناکام

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر