وجود

... loading ...

وجود
وجود

معدنیات سے مالا مال تھر پارکر میں موت کا رقص

هفته 25 مارچ 2023 معدنیات سے مالا مال تھر پارکر میں موت کا رقص

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندھ کا ضلع تھر پارکرجہاں موت کا رقص تو جاری ہے ،ساتھ بھوک نے بھی ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ بڑوں کی خودکشیوں کے ساتھ ساتھ نومولود بچوں کی اموات کا سلسلہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا اور اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم دوسروں کی اموات کو بھی شغل کے طور پر لیتے ہیں اور اپنے بچوں کے کان میں درد ہو تو لیکر دبئی یا یورپ بھاگ جاتے ہیں اور اگر نہ جاسکیں تو ڈاکٹر وہاں سے بلوا لیتے ہیں تھرپارکر ایسا علاقہ ہے جو معدنی ذخائر سے مالا مال ہے مگر وہاں صاف پانی ہے اور نہ ہی صحت کی سہولتیں اگر ہسپتال ہیں تو وہ بھی انتظامی بدنظمی کا شکار۔ ڈاکٹر ہیں نہ ادویات۔ محکمہ صحت کی رپورٹ کے مطابق تھرپارکر کے سرکاری ہسپتالوں میں گزشتہ 14ماہ میں ایک ہزار سے زائد بچے زندگی کی بازی ہار گئے۔ تھر میں بھوک افلاس سے جڑی ماؤں کے بچوں کی اموات کا سلسلہ تھم نہیں رہا اور حکومتی اقدامات صرف زبانی جمع خرچ تک محدود ہیں۔18 لاکھ آبادی پر مشتمل صحرائے تھر کے باسیوں کی مشکلات ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔
تھرپارکر جسے تھر بھی کہا جاتا ہے کا صدر دفتر مٹھی میں ہے ۔قیام پاکستان سے پہلے بھی ضلع تھر اور پارکر کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ تھرپارکر سندھ کا سب سے بڑا ہے جہاں ہندو آبادی بھی اکثریت میں ہے تھرپارکر کا نام تھر (صحرائے تھر ) اور پارکر ( پار کرنا ) سے نکلا ہے تھر کے علاقے کا تذکرہ رامائن میں بھی ملتا ہے جہاں اسے ”لاواناساگر” ( نمک کا سمندر ) کہا جاتا ہے۔ وادی سندھ کی تہذیب کے زوال کے بعد سندھ پر مختلف خاندانوں کی حکومت رہی ۔ ان خاندانوں میں سومرے، سمّے، ارغون، کلہور اور تالپور شامل تھے۔ ان حکمرانوں نے بنیادی طور پر سندھ کے وسطی اور مغربی حصوں پر توجہ مرکوز کی جبکہ تھرپارکر سمیت مشرقی علاقوں کو بڑی حد تک نظر انداز کیا گیا۔ 1843 میں برصغیر پاک و ہند کے بڑے حصوں پر برطانوی فتح کے بعد چارلس جیمز نیپیئر کمانڈر انچیف آف پریذیڈنسی آرمیز نے تالپور خاندان کو شکست دی اور سندھ کو فتح کیا۔ تھرپارکر سمیت مفتوحہ علاقوں کو کیچ ایجنسی اور حیدرآباد کلکٹریٹ میں شامل کیا گیا، برٹش انڈیا کی حکومت نے سندھ کو کلکٹریٹس یا اضلاع میں تقسیم کر دیا جو انگریزوں کے مقرر کردہ زمینداروں کے زیر انتظام تھے اور پھر بعد میں سندھ کو برطانوی ہند کے بمبئی پریذیڈنسی کا حصہ بنا دیا گیا ۔ 1858 ء میں تھرپارکر کے آس پاس کا پورا علاقہ حیدرآباد ڈویژن کا حصہ بن گیا اور 1860 میں اس علاقے کا نام تبدیل کرکے مشرقی سندھ سرحد رکھ دیا گیا جس کا صدر دفتر امرکوٹ میں تھا۔ 1882 میں اسے تھر اور پارکر ضلع کے طور پر دوبارہ منظم کیا گیا جس کی سربراہی ایک برطانوی ڈپٹی کمشنر کر رہے تھے۔ 1906 میں ضلعی ہیڈ کوارٹر امرکوٹ سے میرپور خاص منتقل کر دیا گیا ۔ 31؍ اکتوبر 1990 کو ضلع کو تھرپارکر اور میرپور خاص اضلاع میں تقسیم کیا گیا۔ 17؍ اپریل 1993 کو عمر کوٹ ضلع تھرپارکر سے الگ کردیا۔ 2017 کی ایچ ڈی آئی رپورٹ میں 114 اضلاع میں تھرپارکر 109 ویں نمبر ہے جو 2013 میں 103 ویں نمبرپر تھا۔ تھرپارکر 2005 اور 2015 کے درمیان ترقی کی شرح میںدس بدترین اضلاع میں بھی شامل ہے تھرپارکر کی 87% آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کررہی ہے۔ اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے تھرپارکر میں غذائی عدم تحفظ کو کم کرنے کے لیے 2019 میں پاکستان کو 362,000 امریکی ڈالر اور 4,727 ملین ٹن خوراک کی امدادبھی فراہم کی ۔ تھرپارکر میں صحت کی سہولیات تو نہ ہونے کے برابر ہیں ہی ساتھ میں بھوک اور غذائیت کی کمی سب سے بڑا مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ہر سال تھر پارکر میں تقریباً 1500 بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ صوبائی، وفاقی اور بین الاقوامی حکام کی طرف سے انسانی بنیادوں پر اقدامات کے باوجود خطے میں بہت کم بہتری دیکھنے میں آئی ہے۔ خاص طور پر بچوں کی شرح اموات میں 2019 کے درمیان 84 شیر خوار بچوں سمیت مجموعی طور پر 703 بچے غذائی قلت سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ تھرپارکر میں پینے کے پانی کے بھی انتہائی ناقص انتظامات ہیں، صرف 47 فیصد آبادی کو پینے کا پانی میسر ہے 60 فیصد گھرانے اپنی باری کے لیے کنوؤں پر ایک گھنٹے سے زیادہ انتظار کرتے ہیں۔ 30 فیصد گھرانوں کو دو بالٹی پانی کے لیے 50 روپے سے زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ 85 فیصد گھرانے پانی لے جانے کے لیے اخال (اونٹ یا گدھے کے ذریعے اٹھائے جانے والے ربڑ کے تھیلے) کا استعمال کرتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں پانی کے حصول میں دو دن بھی لگ جاتے ہیں۔ 75 فیصد خواتین اوسطاً 3 کلومیٹر سفر طے کر کے پانی لاتی ہیں اور اپنے کام کے اوقات کا 52 فیصد وقت صرف پانی لانے میں ہی گزر جاتا ہے۔ تھر پارکر کے دیہی علاقے جو کہ ضلع کی 96 فیصد آبادی پر مشتمل ہے کو زندگی کی کوئی سہولت میسر نہیں۔ پورے تھرپارکر کے 44 فیصد گھرانوں کے پاس بیت الخلاء ہی نہیں ہے۔ کوئلے کے ذخائر کے ذریعے پاکستان کی توانائی کی سپلائی کا زیادہ تر حصہ فراہم کرنے کے باوجود صرف 39 فیصد گھرانوں میں بجلی کا استعمال ہوتا ہے۔ تھرپارکر میں 99 فیصد گھرانے کھانا پکانے کے لیے لکڑی کا استعمال کرتے ہیں ،دوسری سب سے بڑی سپلائی گیس ہے جسے صرف 0.7 فیصد گھرانے استعمال کررہے ہیں۔ تھرپارکر کو پورے ملک کا سب سے پرامن مقام بھی سمجھا جاتا ہے اور یہ صدیوں پرانی بین المذاہب ہم آہنگی کے لیے بھی مشہور ہے۔
تھرپارکر کی ثقافت نہ صرف سندھ بلکہ ملک بھر کے لیے ایک مثال ہے یہاں کے مسلمان باشندے گائے کی قربانی کسی قانون کی وجہ سے نہیں کرتے بلکہ ہندو برادری کو تکلیف دینے سے بچنے کے لیے ایساکرتے ہیں۔ ہندو باشندے محرم کے دوران شادیوں اور تقریبات سے اجتناب کرتے ہیں، یہاں کے ہندو بھی روزہ رکھتے ہیں اور رمضان کے مہینے میں اپنے مسلمان پڑوسیوں کے لیے افطار ڈنر کا اہتمام کرتے ہیں اور دونوں طرف عید اور دیوالی پر مٹھائی کا تبادلہ کرتے ہیں اورمسلمان ہندوؤں کے نوراتری کے موقع پر گوشت کھانے سے بھی گریز کرتے ہیں اور تو اور تھر پارکر میں فرقہ وارانہ تشدد کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس ضلع میں غربت اور بے روزگاری کے باوجود جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تھرپارکر میں خشک سالی، غذائی قلت، بچوں کی اموات، خودکشی اور ٹڈی دل کے حملے عام ہیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کے مطابق تھر پارکر میں انفراسٹرکچر کی ترقی پر 70 ارب روپے خرچ کیے جا چکے ہیں اور اسکے باوجود تھرپارکر کے لوگوں کامعیار زندگی 50 فیصد تک گر گیا ہے۔ اس ضلع کو صوبائی اسمبلی میں حلقہ 54، 55، 56، اور 57 جبکہ قومی اسمبلی میں 221 اور 222 کے ذریعے نمائندگی بھی حاصل ہے۔ 2018 کے انتخابات میں دونوں قومی حلقے اور چار میں سے تین صوبائی حلقوں پر پی پی پی نے کامیابی حاصل کی جبکہ ایک صوبائی نشست گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے جیتی ہوئی ہے۔ یہاں پر لگنائٹ کوئلے کے ذخائر کا تخمینہ 185.175 بلین ٹن ہے جو دنیا میں ساتویں بڑے ذخائرمیں سے ایک ہے، صرف اکیلے تھرپارکر ضلع میں قومی ذخائر کا 175.506 بلین ٹن (95%) ذخیرہ ہونے کا تخمینہ ہے ،جس میں توانائی کا مواد سعودی عرب اور ایران کے وسائل کے ذخائر کی مشترکہ توانائی کو پیچھے چھوڑ دے گا ۔ تھر پارکر میںمعدنی کان کنی کے کام صوبائی انتظامیہ کے تابع ہیں مگر نکمے اور نکھٹو محکمے نے کچھ نہیں کیا، انہیں چاہیے کہ پنجاب میں محکمہ مائنز اینڈ منرل کا قبلہ درست کرنے والے سیکریٹری بابر امان بابر اور ڈی جی راجہ منصور جیسے قابل افسران ڈھونڈیں، نہ ملیں تو ان سے رہنمائی لے کر تھرپارکر کے خزانے تلاش کریں تاکہ یہ علاقہ نہ صرف ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکے بلکہ ان سینکڑوں معصوم بچوں کی بھی جان بچائی جاسکے جو علاج نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میںجارہے ہیں ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی وجود جمعرات 18 اپریل 2024
بھارت، سنگھ پریوار کی آئیڈیالوجی کالونی

ایرانی حملے کے اثرات وجود بدھ 17 اپریل 2024
ایرانی حملے کے اثرات

دعائے آخرِ شب وجود بدھ 17 اپریل 2024
دعائے آخرِ شب

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر