وجود

... loading ...

وجود
وجود

محافظوں پرتنقید

هفته 25 مارچ 2023 محافظوں پرتنقید

حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محافظوں پر گھر کے اندر سے تنقیدہونے لگے تو نہ صرف مقابلے میں مشکل پیش آتی ہے بلکہ دشمن کو مذموم سازشیں پروان چڑھانے کا موقع مل سکتا ہے۔ 1971 کے واقعات تائید کرتے ہیں کہ قوم اور فوج کی سوچ متضادہو تو نقصان کاامکان بڑھ جاتا ہے۔ تھوڑا مزید ماضی میں جائیں تو 1965 کی جنگ میں عددی اعتبارسے بہت کم اور اسلحہ بھی ازکاررفتہ رکھنے والی پاک فوج نے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کئی گنا بڑے دشمن کے حملے کو پسپا کردیا اِس جنگ میں فوجی جوانوں کی قربانیوں اور بہادری کی آج بھی مثالیں پیش کی جاتی ہیں لیکن اب وہ جذبہ کمزوربلکہ مفقودنظرآتا ہے۔ ملک کے محافظوں کے خلاف سوشل میڈیا پر پراپیگنڈہ اور تنقیدعروج پر ہے حالانکہ محافظوں کی حوصلہ افزائی کی ضرورت ہے تاکہ وہ زیادہ بہتر طریقے سے دشمن کو دندان شکن جواب دے سکیں ۔
وزیرستان میں انگوراڈا کے قریب منگل کے روز دہشت گردوں نے حملہ کیا اورفائرنگ کے تبادلے میں آئی ایس آئی کے بریگیڈئیر مصطفی کمال برکی تین دیگر جوانوں کے ساتھ جامِ شہادت نوش کر گئے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اب تک چار جرنیل اور دوبریگیڈئیر سمیت کئی دیگر اعلیٰ عہدیدار اور جوان شہیدہوچکے۔ اشفاق پرویز کیانی اور پرویز مشرف پراُس وقت قاتلانہ حملے ہوئے جب وہ آرمی چیف کے منصب پر فائز تھے۔ اِس کا مطلب ہے کہ ہمارا دشمن ہماری صفوں میں موجود اپنے آلہ کاروں کے ذریعے دہشت گردوں کی پشت پناہی اوراُن کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ وگرنہ اِتنے بڑے منصب پر فائز کسی شخصیت کو نشانہ بنانا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیداکریں اور دشمن کے ناپاک اِرادوں کو ناکام بنانے میں مصروف اپنے محافظوں کا ساتھ دیں اور اُن پرتنقیدکرنے کی جاری مُہم کو ناکام بنانے کے لیے کردار ادا کریں کیونکہ دہشت گردوں کے خلاف اگر حقیقی معنوں میں کوئی سرگرمِ عمل ہے تو وہ صرف ہماری فوج اور ایجنسیاںہیںاور اِس دوران سپاہیوں سے لیکر جنرل تک نہ صرف خود قربانیاں دے رہے ہیں بلکہ اپنے بچے بھی وطن پر قربان کرنے سے دریغ نہیں کررہے۔ قربانی کی ایسی لازوال داستان دنیا میں اور کہیں نہیں ملتی مگر افسوس کہ تمام تر قربانیوں اور فرض شناسی کے باوجود فوج اور جرنیلوں کے خلاف سوشل میڈیا پر ایسی افسوسناک مُہم جاری ہے جس پر وطن دوستوں کے دل غمزدہ ہیں۔ دنیا میں فوج اور انٹیلی جنس اِداروں کے خلاف مُہم کی کوئی ملک اجازت نہیں دیتا اور جو ایسا کرتا ہے اُسے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے مگر ہمارے وطن میں جس کا جب دل چاہتا ہے گلا پھاڑ کر محافظوں کے خلاف بولنے اور دشنام طرازی کرنے لگتا ہے جسے روکنے یا ٹوکنے کا کوئی مناسب طریقہ کارنہیں۔ ملک کے محافظو ں پرتنقیددراصل اُن کی حوصلہ شکنی کے مترادف ہے جس کا جلدخاتمہ ہی دشمن کو ناپاک عزائم میں ناکام بنانا ہے ۔
یہ درست ہے کہ فوجی جوانوں کو تنخواہ ملتی ہے جودراصل عوام کے ٹیکس کا پیسہ ہے مگر ملک میں اور بھی کئی شعبے ہیں جہاں لوگوں کوروزگاراور مراعات حاصل ہیں لیکن کوئی بھی فوجی بھائیوں کی طرح نہ تو گھر سے دور شب وروز گزارتا ہے اور نہ ہی ہر وقت حملوں کا سامنا کرتا اور قربانیاں دیتا ہے۔ فوجی بھائی اپنی قوم کے سکون اور وطن کی سا لمیت کے تحفظ کے لیے ہر وقت جان ہتھیلی پر رکھتے ہیں۔ ایسی فرض شناسی کہیں اور دکھائی نہیں دیتی ۔یہی جذبہ دشمن کو کھٹکتا ہے مگر اب وہ براہ راست حملہ کرنے کی تو جرأت نہیں کر سکتا۔ اسی لیے پراکسی پر اُتر آیا ہے۔ کبھی قوم پرستوں کو استعمال کیا جاتا ہے کبھی سیاسی کارکنوں کے جذبات سے کھیلتا اور کبھی ناراض عناصر کو منظم کرنے اُنھیں تربیت دینے کے ساتھ وسائل مہیاکرتا ہے۔ قوم کو ایسی سازشوں کا ادراک کرنا چاہیے اور سوچنا اورفکرکرنا چاہیے کہ دشمن کی آنکھ میں ہمارے فوجی بھائی ہی کیوں کھٹکتے ہیں ؟ قوم نے اگر یہ جان اور سمجھ لیا توپھر محافظوں پرتنقید جیسی روایت کا خاتمہ ہو جائے گا۔ یہ قوم پرست ،ناراض عناصر اور سیاسی کارکن ذہن نشین کرلیں دشمن کواِن میں سے کسی سے پیار نہیں بلکہ اُس کا اولیں مقصد پاک وطن کی سا لمیت کو نقصان پہنچانااور پاک فوج کو کمزور کرناہے۔ آئیں 23 مارچ کے دن پھر یہ عہد کریں کہ پاک فوج کے خلاف جاری منفی مُہم کو ناکام بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے تاکہ وطن کے یہ بہادر محافظ دشمن کو منہ توڑ جواب دیتے رہیں۔ پاکستان ہماری شناخت ہے اور پاک فوج حفاظت کی ضامن ہے جس پر اُنگلی اُٹھانا ملک کو کمزور کرنااور دشمن کی سازشوں میں معاونت کے مترادف ہے ۔
ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے محدود سیاسی مفادات کے لیے فوج کے خلاف بیانیہ اپنایا۔ البتہ جو جماعت اقتدار میں ہووہ ایسا کرنے سے گریز کرتی ہیں حالانکہ فوج مخالف بیانیہ دشمن کی خواہش ہے ۔اِس وقت پاک فوج کوبھارت کی ایسی فوج کا سامنا ہے جوجدید ترین ہتھیاروں سے لیس مضبوطی کے لحاظ سے دنیامیں چوتھے نمبرپرہے۔ علاوہ ازیں اِس میں بھی کوئی ابہام نہیں کہ وہ پاکستان میں دہشت گردی کی سرپرستی ومعاونت پر اربوں روپیہ خرچ کر رہا ہے۔ اِس بارے پاکستان کی طرف سے اقوامِ متحدہ میں پیش کیا گیا ڈوزئیر ثبوت کے طور پر موجود ہے مگر دنیا طاقت کی زبان سمجھتی ہے۔ اسی لیے ثبوت و شواہد سمیت تفصیلات کے باوجود عالمی اِدارے نے کسی قسم کی کارروائی نہیں کی۔ آج بھی وہ شدت پسندوں اور ناراض عناصر کی سرپرستی سے انھیں مضبوط کرنے اورپھر دہشت گردی کرانے میں مصروف ہے جس سے نمٹنا فوج ،پولیس سمیت ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے مگر جب تک ہر فرد اپنا کردار ادا نہیں کرتا تب تک دہشت گردعناصرکا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ ایسے حالات میں فوج اور ایجنسیاں جب دہشت گردوں سے برسرِ پیکار ہیں کچھ سیاسی عناصر فوج اور ایجنسیوں پر اُنگلیاں اُٹھانے لگے ہیں جس کی کسی صورت حوصلہ افزائی نہیں کی جا سکتی ۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ملک کا ہر شہری اپنے اِداروںکا ساتھ دے جب تک سب میں یہ احساس پیدا نہیں ہوگا اور وہ بساط کے مطابق کرادار ادا نہیں کریں گے تب تک دہشت گردوں کو کچلنے میں مکمل کامیابی نہیں مل سکتی ۔
وقت آگیا ہے کہ ملک کے تمام طبقات ایک ہو کر محافظ اِداروں کا ساتھ دیں تاکہ دودہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو منطقی انجام تک پہنچایا جا سکے مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حکومت ہو یا معاشرے کے دانشور اور علما ودیگر طبقات، انھوں نے اِس مسئلے کو نہ توکبھی سنجیدہ لیا ہے اور نہ ہی کردار ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی لیے وقفے وقفے سے دہشت گرد کاروائیاں کرنے لگتے ہیں ہماری غیرسنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ صورتحال کی نزاکت کا احساس کیے بغیر اپنی ہی فوج اور ایجنسیوں کے خلاف نفرت انگیز مواد کی تشہیر میں حصہ لیتے ہیں جسے کسی صورت قابلِ تقلید یا قابلِ تحسین قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ رویہ اور سوچ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو ناکام بنانے کا باعث بن سکتا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ فرائض کی ادائیگی میں مصروف اپنے جوانوں کو خراجِ تحسین پیش کیا جائے اور شہادت کے رُتبے پر فائز ہونے والوں کی قربانیوں کا احساس کیا جائے ،جنھوں نے ہمارے پُرامن کل کے لیے اپنے قیمتی آج کی قربانی دی لیکن سوشل میڈیا پرایسی منفی مُہم جاری ہے جس کا فائدہ صرف بھارت اور دہشت گردوں کو ہو سکتا ہے۔ جہالت اور کم علمی کی بناپرکچھ عناصرملک میں موجودپس ماندگی ، غربت اوربے روزگاری کا ذمہ دار دفاعی اِدارے کوقرار دیتے ہیں حالانکہ ایسا ہر گز نہیں بلکہ اِس کی وجہ وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم ہے۔ اگر حکمران وسائل کی تقسیم میں انصاف سے کام لیں تو بڑی حد تک مسائل کم ہو سکتے ہیں لیکن حکمرانوں کی توجہ اپوزیشن کو کچلنے پرہے۔ اِدارے تو حکومتی احکامات کی تعمیل کرتے ہیں مگر راہ گم کردہ کچھ لوگ اپنے دفاعی اِداروں کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں ۔ یہ زہریلی روش ملکی
سا لمیت کے لیے انتہائی خطرناک ہے حکومت اِس روش کے فوری خاتمے کے لیے جلد ایسا طریقہ کار اور پالیسی بنائے تاکہ آئندہ کسی کو ملک کے محافظ اِداروں پر تنقید اوراُن کی حوصلہ شکنی کرنے کا موقع نہ ملے۔ دفاعی ادارے اور ایجنسیوں کے خلاف بات کرنے یا مُہم چلانے کی جسارت کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی بھی دفاع وطن کی مضبوطی کے لیے لازم ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر