وجود

... loading ...

وجود

موہن بھاگوت:ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا

جمعه 24 مارچ 2023 موہن بھاگوت:ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا

ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہندوستانی خبر رساں ادارے اے این آئی کے مطابق موہن بھاگوت نے دارالحکومت نئی دہلی سے ملحق ریاست ہریانہ میں ایک اسپتال کا افتتاح کرتے ہوئے اپنے خطاب میں یہ دعویٰ کیا کہ ،برطانوی راج سے پہلے ہمارے ملک کی 70 فیصد آبادی تعلیم یافتہ تھی اور بے روزگاری نہیں تھی جبکہ انگلینڈ میں صرف 17 فیصد لوگ تعلیم یافتہ تھے ۔ انگریزوں نے اپنے تعلیمی ماڈل کو یہاں نافذ کیا اور ہمارے ماڈل کو اپنے ملک میں نافذ کیا۔ اس لیے انگلستان میں 70 فیصد لوگ تعلیم یافتہ ہو گئے جبکہ ہندوستان میں اس کی آبادی کا صرف 17 فیصد تعلیم یافتہ رہ گیا۔’ تعلیم اور روزگار سے متعلق یہ بیان عجیب لگتا تو ہے مگر مبنی برحقیقت ہے ۔ وطن عزیز میں تعلیم کے حوالے سے اوریا مقبول جان کی ایک چشم کشا تحقیق مندرجہ ذیل حقائق کی تصدیق کرتی ہے ۔ اس کے مطابق اورنگزیب عالمگیر (م 1707ئ) کا ہندوستان اپنے دور میں آباددنیا کی تہذیبوں میں علم و عرفان کا ایسا درخشندہ ستارہ تھاجہاں تعلیم گاہوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ ہندوستان کے عظیم تعلیمی نظام کی پہلی گواہی کسی اور نے نہیں بلکہ ایک برطانوی پادری ولیم ایڈم نے دی ہے ۔
1818ء میں ہندوستان آکر ایڈم نے یہاں 27 سال گزارے ۔ اس وقت کے گورنر جنرل لارڈ ولیم بینٹک کے حکم پر برصغیر کے تعلیمی نظام میں اصلاحات کی غرض سے موصوف نے بنگال اور بہار کے تعلیمی نظام کا سروے کیا۔انہوں نے اپنی رپورٹ میں اعتراف کیا کہ بنگال اور بہار میں تقریبا ایک لاکھ سکول بنیادی تعلیم فراہم کرتے ہیں۔ ا سکول جانے کے قابل ہر 32لڑکوں کے لیے ایک درسگاہ میسر ہے۔ ضلع راج شاہی کے قصبے نلتور کی آبادی 129,640 تھی۔ وہاں پر دو قسم کاتعلیمی نظام رائج تھا۔ ایک میں رسمی انداز سے جدید تعلیم دی جاتی تھی اور دوسرے گھریلوا سکول تھے ۔ اس کے تحت ایک اُستاد یا اتالیق پورے خاندان کو ایک ساتھ بٹھا کر تعلیم دیتا تھا۔ رسمی تعلیم والے اسکول میں داخلے کی اوسطاً عمر آٹھ سال تھی اور پانچ سال کی تعلیم کے بعدتقریباً 14 سال کی عمر میں ایک لڑکا فارغ التحصیل ہو جاتا تھا۔ نلتور میں جملہ گیارہ اسکول تھے جو عربی زبان میں تعلیم اور قرآن پڑھانے کے لیے مخصوص تھے ، جبکہ دس بنگالی میں تعلیم دیتے تھے اور چار فارسی میں۔ ہر فرد کو آزادی تھی کہ وہ پرائمری تعلیم عربی، فارسی یا بنگالی میں سے کسی ایک میں حاصل کرے ۔ اوسطاً ایک اسکول میں دس سے پندرہ طلبہ زیر تعلیم تھے ۔
مدراس کے علاقے میں بھی1822 ء سے 1826 ء کے درمیان علاقائی نظام تعلیم کا جائزہ لیاگیا۔ اس کی رپورٹ کے مطابق وہاں پر 12,498 اسکولوں میں 1,88,650 طلبہ زیر تعلیم تھے ۔ ایسا ہی سروے بمبئی کے علاقے میں ہوا تو پتہ چلا کہ ہر 30 طلبا پر ایک ا سکول موجودتھا۔ پنجاب کے بارے میں گورنمنٹ کالج لاہور کے پہلے پرنسپل گوٹلب ولیم لائٹنزکی ضخیم کتاب میں ہر گاؤں کے اندر تعینات اساتذہ کے نام، طلبہ کی تعداد، مضامین کی اقسام اور معیار تعلیم کا تفصیلی تذکرہ موجودہے ۔ وہاں بھی رسمی تعلیم گاہوں کے علاوہ دیہاتوں میں ایسے استاد اور اتالیق کاتقرر کیا جاتا تھا جو گھروں میں جاکر تعلیم دیتے تاکہ ہر شخص ایک پڑھی لکھی، مہذب دنیا کا فرد بن سکے ۔ ایڈورڈ تھامسن نامی برطانوی ادیب اور ناول نگار نے ہندوستان کے بازار کا ماحول نقشہ کھینچا تو وہ پڑھا لکھا معاشرہ نظر آتا ہے ۔ اس کے مطابق ہندوستان کے اسکولی تعلیم سے محروم رہ جا نے والے غریب لوگ بھی لکھنا پڑھنا جانتے تھے ۔ غیر رسمی حصول کے ذرائع نے ا سکول جانے والوں سے کئی گنا زیادہ پڑھے لکھے افراد پیدا کردیے تھے ۔ تھامسن نے کئی بنگالی کتابوں کا ترجمہ کیا ۔ وہ لکھتا ہے کہ بنگال کے بازاروں میں لاکھوں کتابیں فروخت ہوتی تھیں۔اس زمانے میں سرت چندر چٹرجی کی ’دیوداس‘ صرف بارہ آنے میں بکتی تھی پھر بھی انہیں اس کی بارہ ہزار روپے رائلٹی ملتی کیونکہ اس ناول کے دو لاکھ نسخے فروخت ہوئے تھے ۔
بنیادی تعلیم کے علاوہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کا ایک بھی جال بچھا ہوا تھا۔ 1820 ء سے 1830 ء تک بمبئی صوبے کے نظام تعلیم کا سروے کیا گیا تو پتہ چلا کہ بمبئی میں 222 بڑے کالج اور یونیورسٹیاں موجود تھیں۔ احمد نگر میں 16 بڑے کالج اور پونا شہر میں 164 کالج اعلیٰ تعلیم کے لئے مخصوص تھے ۔ مدراس کے علاقے میں اعلی تعلیم کے لیے 1,101 کالج موجود تھے ۔ ان میں سب سے زیادہ 279 کالج، راج مندر میں تھے جبکہ ترچن لوبائی میں 173، بنگلورمیں 137 اور تنجور میں 109 کالج تھے ۔ان کالجوں میں 5431 طلبہ کو قانون، فلکیات، فلسفہ، شاعری، جہاز رانی، طب، فن تعمیر اور آلاتِ حرب بنانے کے علوم سکھائے جاتے تھے ۔کروشیا کا ادیب ’فراپاولینو دی بارلٹو لومیو‘نے 1798 ء میں ہندوستانی تعلیمی نظام کواپنے دور کا سب سے بہترین اور اعلیٰ معیار کا پایا۔ اس کے مطابق یہاں ایسے تمام فکری، مابعدالطبیعاتی اور سائنسی علوم پڑھائے جاتے تھے جن کا تصور بھی یورپ میں نہیں ہوتا تھا۔
مسلمان بادشاہوں نے تعلیم برہمنوں اور شاہی خاندانوں کے حدود سے نکال کر عام لوگوں تک پہنچایاتاکہ ہر رنگ اور نسل کے بچے زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب انگریزوں نے بنگال میں ذات پات کے حوالے سے تعلیمی سروے کیا تو معلوم ہوا کہ وہاں جملہ 1,75,089 ہندو طالب علموں میں صرف 24 فیصد یعنی 42,502 برہمن تھے ، جبکہ 19,669 ویش اور 85,400 شودر تعلیم حاصل کررہے تھے ۔ ٹیپو سلطان کے قائم کردہ ا سکولوں میں 65 فیصد شودر بچے تعلیم حاصل کرتے تھے ۔ انگریزوں نے چونکہ دلّی دربار سے قبل بنگال، بہار، اڑیسہ، مدراس،میسور، پنجاب وغیرہ میں اپنی حکومت قائم کرلی تھی اس لیے وہاں پر تعلیمی سروے کروایا گیا لیکن 1857 ء کی جنگ آزادی سے بہت پہلے پورے ہندوستان میں یہی تعلیم کی یہی صورتحال تھی۔بھاگوت کی یہ بات بھی درست ہے کہ ہندوستان میں رائج تعلیمی نظام کو انگریزوں نے اپنایا کیونکہ اے ای دوبز نے 1920 ء میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ پورے برطانیہ میں اٹھارویں صدی تک صرف 500 گرامر سکول تھے اوران میں صرف اعلیٰ نسل کے بچوں کو تعلیم دی جاتی تھی۔ جبکہ سترہویں اور اٹھارویں صدی عیسوی کے مغلیہ ہندوستان میں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اندر ہر کوئی بلاتخصیصِ مذہب، رنگ، نسل اور ذات پات، اپنے بچوں کو داخل کرا سکتا تھا ۔
برطانیہ کے اندر 1802 ء میں Peel‘s Act آیا جس کے تحت عام بچوں کے لئے بھی پڑھنا لکھنا اور حساب سیکھنا لازم قرار دیاگیا۔ جوزف لنکاسٹر اور اینڈریو بیل نے مغلیہ ہندوستان کے اتالیق سسٹم کے خطوط پر غیر رسمی تعلیمی نظام رائج کیا۔ 1801 ء کے انگلینڈ میں صرف 3,363 اسکول تھے اور طلبا کی تعداد چالیس ہزار تھی جبکہ ہندوستان میں لاکھوں ا سکول موجودتھے ۔ 1818ء کے اندر برطانیہ میں یہ تعداد بڑھ کر 6,74,883 ہوئی اور1851ء میں وہاں 21,44,377 طلبہ 46,114 اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔ انگریزوں کے طرز فکر میں یہ انقلابی تبدیلی ہندوستان میں رائج نظام تعلیم کو اپنانے کے بعد آئی۔ہندوستان میں رائج نظام تعلیم دین و دنیا دونوں علوم کا احاطہ کرتا تھا۔ تفسیر اور حدیث کے ساتھ ساتھ منطق، فلسفہ، علم ریاضی، جیومیٹری ، الجبرا، علم الہندسہ، طب ،گرامر، ادب اور فن تعمیرات پڑھائے جاتے تھے ۔ ان مدارس سے ایک ایسی نسل برآمد ہوتی تھی جو ہندوستانی سول سروس ،عدلیہ، صحت، تعلیم اور تعمیرات جیسے تمام شعبوں میں اپنی کارکردگی دکھاتی تھی اور جو اپنے اپنے مذاہب کے علم سے بھی آراستہ ہوتی تھی۔
اوریا مقبول جان کی تحقیق کے مطابق مغلیہ تعلیمی نظام کی داغ بیل شاہ عبدالرحیم نے ڈالی تھی ۔انہوں نے اورنگ زیب عالمگیر کی فرمائش پر فتاویٰ عالمگیری بھی مرتب کی۔ ان کے مدرسہ رحیمیہ کا نصاب سب کے لیے قابل قبول تھا۔ اس وقت تک دین اور دنیا کی تعلیم میں کوئی امتیاز نہ تھااور نہ علیحدہ علیحدہ مدارس تھے ۔ ایک ہی سکول کالج اور یونیورسٹی دونوں علوم ساتھ ساتھ پڑھائے جاتے تھے ۔عصرِ حاضر کے معروف ماہر تعلیم اور مصنف پروفیسر پروشوتم اگروال نے بھی موہن بھاگوت سے جزوی اتفاق کرتے ہوئے ان کے اعتراف کو سراہا ۔ اگروال بھی مانتے ہیں کہ برطانوی راج سے پہلے مغل حکومت کا نظام اچھا تھا ۔
بھاگوت کا بیانیہ مغل حکمرانوں کے ظالم و جابر ہونے کی نفی کرتا ہے ۔اگروال کے مطابق ہندوستان میں بنیادی تعلیمی نظام کا مضبوط ڈھانچہ موجود تھا اورایسے مکتب اور مدارس تھے ، جن میں مذہبی تعلیم کے علاوہ سیکولر(فنی) تعلیم بھی دی جاتی تھی۔یہ ایک حقیقت ہے کہ انگریزوں کی آمدسے قبل اورنگ زیب کی موت کے وقت ہندوستان کا جی ڈی پی دنیا کے جی ڈی پی کا 24 فیصد تھا جو کہ برطانوی راج کے اختتام پر کم ہو کر چار فیصد پرآ گیا ۔اس دور میں چونکہ دنیا بھر کی 25 فیصد پیداوار ہندوستان میں ہوتی تھی اس لیے لوگ بے روزگار بھی نہیں تھے یعنی بھاگوت کا دوسرا دعویٰ بھی درست ہے ۔ یہ کمال احسان فراموشی ہے کہ موہن بھاگوت تو نام لیے بغیر مسلمانوں کے تعلیمی خدمات کا اعتراف کرتے ہیں مگر ان کی مہاراشٹر سرکار معمولی سیاسی فائدے کے لیے اورنگ آباد شہر کا نام تبدیل کردیتی ہے ۔ نظامِ تعلیم سے متعلق موہن بھاگوت کے بیان پر علامہ اقبال کا یہ شعر صادق آتا ہے
آہ! جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو گئی
پھول کو بادِ بہاری کا پیام آیا تو کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
امن دستوں کا عالمی دن وجود منگل 30 مئی 2023
امن دستوں کا عالمی دن

محسنوں کو خراج عقیدت وجود منگل 30 مئی 2023
محسنوں کو خراج عقیدت

الحمرا آرٹ کونسل اور لوٹ سیل وجود منگل 30 مئی 2023
الحمرا آرٹ کونسل اور لوٹ سیل

عمرانی انقلاب کی ناکامی وجود پیر 29 مئی 2023
عمرانی انقلاب کی ناکامی

بخشش کا بہانہ وجود پیر 29 مئی 2023
بخشش کا بہانہ

اشتہار

تجزیے
نوجوانوں کو کڑی سزاؤں کی نہیں محبت کی ضرورت ہے وجود منگل 23 مئی 2023
نوجوانوں کو کڑی سزاؤں کی نہیں محبت کی ضرورت ہے

کراچی میں میئرشپ کی دوڑ وجود منگل 23 مئی 2023
کراچی میں میئرشپ کی دوڑ

قومی اسمبلی میں مذاکرات کی راہ ہموار ہوگئی وجود پیر 22 مئی 2023
قومی اسمبلی میں مذاکرات کی راہ ہموار ہوگئی

اشتہار

دین و تاریخ
پڑوسیوں کے حقوق شریعت اسلام کی نظر میں وجود جمعرات 11 مئی 2023
پڑوسیوں کے حقوق شریعت اسلام کی نظر میں

غزوہ احد، پس منظر، حقائق اور نتائج وجود جمعه 05 مئی 2023
غزوہ احد، پس منظر، حقائق اور نتائج
تہذیبی جنگ
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے

توہین آمیز مواد نہ ہٹانے پر وکی پیڈیا بلاک کر دیا گیا وجود هفته 04 فروری 2023
توہین آمیز مواد نہ ہٹانے پر وکی پیڈیا بلاک کر دیا گیا

برطانوی رکن پارلیمنٹ کی پاکستانیوں سے متعلق بیان پر معافی وجود بدھ 01 فروری 2023
برطانوی رکن پارلیمنٹ کی پاکستانیوں سے متعلق بیان پر معافی
بھارت
بھارت میں تمام 62 کنٹونمنٹ بورڈ ختم کرنے کا اعلان وجود بدھ 03 مئی 2023
بھارت میں تمام 62 کنٹونمنٹ بورڈ ختم کرنے کا اعلان

بھارت جی ٹوئنٹی اجلاس کی ممکنہ ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کرنے لگا وجود جمعه 21 اپریل 2023
بھارت جی ٹوئنٹی اجلاس کی ممکنہ ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کرنے لگا

اترپردیش میں 76 فیصد طلباء کا کسی نہ کسی عارضے میں مبتلا ہونے کا انکشاف وجود جمعه 07 اپریل 2023
اترپردیش میں 76 فیصد طلباء کا کسی نہ کسی عارضے میں مبتلا  ہونے کا انکشاف

راہول گاندھی کی نا اہلی، کانگریس پارٹی کا قانونی جنگ لڑنے کا اعلان وجود هفته 25 مارچ 2023
راہول گاندھی کی نا اہلی، کانگریس پارٹی کا قانونی جنگ لڑنے کا اعلان
افغانستان
افغان صوبہ کنڑ میں فائرنگ، کالعدم ٹی ٹی پی کمانڈر نور سعید محسود ہلاک وجود جمعرات 23 فروری 2023
افغان صوبہ کنڑ میں فائرنگ، کالعدم ٹی ٹی پی کمانڈر نور سعید محسود ہلاک

طالبان قیادت میں غیر معمولی اختلافات، وزیرداخلہ سراج الدین حقانی کی اعلی قیادت پر تنقید وجود هفته 18 فروری 2023
طالبان قیادت میں غیر معمولی اختلافات، وزیرداخلہ سراج الدین حقانی کی اعلی قیادت پر تنقید

سعودیہ کے بعد امارات نے بھی افغانستان میں سفارت خانہ بند کر دیا وجود پیر 06 فروری 2023
سعودیہ کے بعد امارات نے بھی افغانستان میں سفارت خانہ بند کر دیا
شخصیات
انقلابی شاعر حبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 30 برس بیت گئے وجود اتوار 12 مارچ 2023
انقلابی شاعر حبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 30 برس بیت گئے

جسٹس (ر) ملک محمد قیوم انتقال کر گئے وجود جمعه 17 فروری 2023
جسٹس (ر) ملک محمد قیوم انتقال کر گئے

معروف ہدایت کار، اداکار اور ٹی وی میزبان ضیاء محی الدین انتقال کر گئے وجود پیر 13 فروری 2023
معروف ہدایت کار، اداکار اور ٹی وی میزبان ضیاء محی الدین انتقال کر گئے
ادبیات
اردو کے ممتاز شاعر احمد فراز کا یوم ولادت وجود جمعرات 12 جنوری 2023
اردو کے ممتاز شاعر احمد فراز کا یوم ولادت

کراچی میں دو روزہ ادبی میلے کا انعقاد وجود هفته 26 نومبر 2022
کراچی میں دو روزہ ادبی میلے کا انعقاد

مسجد حرام کی تعمیر میں ترکوں کے متنازع کردار پرنئی کتاب شائع وجود هفته 23 اپریل 2022
مسجد حرام کی تعمیر میں ترکوں کے متنازع  کردار پرنئی کتاب شائع