وجود

... loading ...

وجود

میں مینار پاکستان ہوں!

جمعرات 23 مارچ 2023 میں مینار پاکستان ہوں!

میں مینار پاکستان ہوں! مینار پاکستان!!
میں کبھی ایک کھلا میدان تھا۔ میری تعمیر سے پہلے یہاں ایک قوم کی تعمیر کا نقشہ تیار ہوا۔ میں اُس نقشے سے نکلا۔ تمہاری تاریخ کا امین بنا۔ تمہارے وجود کا بانکپن کہلایا۔ خیر کی علامت ہوا۔ علامہ اقبال کے اشعار کی تفسیر میں ڈھلا۔قائد اعظم کے اقوال میں گونجا۔ میرے میدان سے اقبال کے خواب کی تعبیر نکلی۔ ”پاکستان کا مطلب کیا” کا نعرہ یہاں ایک قرارداد میں ڈھلا۔ قائد اعظم کی جدوجہد نے یہاں ارتکاز کی صورت لی۔ برصغیر کے طول وعرض میں پھیلی مسلم جدوجہدنے یہاں ایک چہرہ پایا۔یہیںتاریخ کے مختلف کردارمجسم ہو ئے۔ مختلف تحریکیں امر ہوئیںاور ایک قرارداد میں ڈھل گئیں۔ جہاں سے وہ راستا نکلاجو آزادی کی منزل سے ہمکنار ہوا۔
میں مینار پاکستان ہوں! مینار پاکستان!!
میں جہاں ایستادہ ہوں، تمہاری تاریخ کے مدوجزر نے مختلف پراؤ کے بعد حتمی منزل کا سراغ یہاں سے تلاشا تھا۔میں دو قوموں کے درمیان یہاں ایک حد فاصل بننے کی امید پر کھڑا کیا گیا۔ میں کوئی دفاعی مینار تھانہ مجھے میسو پوٹیمیا کی اختراعی تاریخ سے کوئی علاقہ تھا۔ میں اہلِ روم اور بازنطینی استعمال کی خو بو بھی نہ رکھتا تھا۔ مجھے گھنٹہ گھروں اور گرجا گھروں سے لے کر کائی جمے تاریخی محلوں پر کھڑے خمیدہ میناروں سے کوئی مناسبت نہیں تھی۔ میں تمہاری دعاؤں سے نکلا تھا۔ تمہارے نعروں میں اُبھرا تھا۔ میں مسجدوں کے نسب سے ہوں۔ اذانوں کی گونج ہوں۔ دو قومی نظریہ کی شناخت ہوں۔ قرارداد پاکستان کی علامت ہوں۔ میںاسلامی جمہوریہ پاکستان ہوں۔ میں مینار پاکستان ہوں۔
میںمینار پاکستان ہوں! مینار پاکستان!!
میرے میدان میں گامے سے گھنشام اور کفر سے اسلام الگ ہوئے۔ یہیں ٹام راج اور رام راج سے الگ ہونے کی اُمید جاگی۔اس اُمید نے تاریخ کی تمام لڑیوں اور کڑیوں کو باہم پیوست کردیا۔ حضرت مجدد الف ثانی سے لے کر شاہ ولی اللہ اور سرسید سے لے کر علامہ اقبال تک مسلم جداگانہ قومی تشخص کے تصورات کو ایک الگ قوم کی پہچان میں ڈھال دیا۔یہیں تحریک خلافت کی گونج پاکستان کے نعرے میں گھل مل گئی۔ تحریک ریشمی رومال اپنے نئے وجود میں جی اُٹھی۔ سرنگا پٹم میرے میدان میں سمٹ آیا۔ ٹیپو کی تلوار الفاظ کا روپ دھار گئی۔ اُن کا قول ”شیر کی ایک دن کی زندگی، گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے” قومی جدوجہد کا استعارہ بن گیا۔ تحریک پاکستان نے تاریخ پاکستان کو سمیٹ لیا۔ میرا میدان ان تمام پاک باز روحوں کی ایک بازیافت بن گیا۔ میرے میدان میں گونجنے والی قرارداد سات برسوں میں الگ ملک کا خدائی تحفہ بن گئی۔ مسلم برصغیر نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی منزل پالی۔ اسی تاریخ نے مجھے کھوجا۔ میرے کھلے میدان میں آزادی نے تیرہ برس بعد ایک مینارے کی شکل میں مجسم ہونا شروع کیا۔ میری تعمیر یوں تو آٹھ برسوں میں اکتوبر 1968ء میں مکمل ہو سکی۔ مگر میں بہادر شاہ ظفر کی آخری ہچکی سے لے کر قائداعظم کی زیارت سے کراچی واپسی میں دم آخری تک مسلسل تعمیر ہوتا رہا۔ میں دین اکبری کے خلاف مجدد الف ثانی کی مزاحمت سے لے کر 1857 کی جنگ آزادی تک ، تحریک بالاکوٹ سے لے کر تحریک ریشمی رومال تک، تحریک خلافت سے لے کر قیام پاکستان تک ہر ہر لمحے کی جدوجہد کا رازداں ہوں۔
میں مینار پاکستان ہوں! مینار پاکستان!!
میںیوں تو 196 فٹ بلند ہوں، مگر میری بلندی کا یہ پیمانہ نہیں۔ میں 27رمضان المبارک کے مقدس ترین دن آزادی کا انعام ہوں۔ میری سربلندی سرکار دوعالمۖ کے واقعہ معراج پر ایمان سے رفعت پاتی ہے۔ اُنۖ کے عظمت کی بلندی سے درازی لیتی ہے۔ میرا محیط یوں تو 18ایکڑ رقبے پر ہے، مگر میرے محیط میں مقبوضہ کشمیر بھی شامل ہیں۔ میں ہندوستان کی تمام مسلم یادگاروں کے محیط تر ملی وجود کا حصہ ہوں۔ میرا مینار برصغیر کی تمام مساجد کے میناروںکی برادری میں شامل ہے۔ میں بابری مسجد کے کھوئے ہوئے میناروں کا ماتم ہوں۔ میں بھارت میں شہید تمام مساجد کے میناروں پر مرثیہ خواں ہوں۔تم نے مجھے اپنی تاریخ سے نکھارا، اپنے تصورات سے اُبھارا۔تم نے میرے وجود کو سنگ ِمرمر کی 7 فٹ لمبی اور 2 فٹ چوڑی 19تختیوں سے بامعنی بنایا۔مجھے معمارِاوّل وازل کی آخری کتاب ہدایت کی آیات سے جاودانی دی۔ میرے ماتھے پراللہ رب العزت کے نناوے صفاتی ناموں کے نقش سجائے۔ قائد محترم کے اقوال کو میری زینت بنایا، اقبال کی نظم” خودی کا سر نہاںلاالہ الا اللہ” کو میرا چہرہ بنایا۔ قرارداد پاکستان کو یہاں کندہ کیا۔ مگر اس شاندار تاریخ کو میرے میناروں پر سجا کر اس سے خود بیگانہ ہوگئے۔ تمہیں تاریخ سے کوئی نسبت کیوں نہیں رہی۔
میں مینار پاکستان ہوں! مینار پاکستان
کبھی میں تمہارے کردار کی بلندی کو جھک کر دیکھتا تھا۔ اب یہاں سے تم پست قامت نظرآتے ہو، تکلف برطرف !نظر ہی نہیںآتے۔ تحریک خلافت سے تحریک آزادی تک میرے گردو پیش رہنے والے لوگ کہاں گئے؟ اور جوتم ہو، وہ پہچانے کیوں نہیں جاتے۔ تم نے اپنے آپ کو نہیں کھویا، میرے وجود کو بھی دھندلا دیا۔ تمہارے شب وروز کی نہ ختم ہونے والی کھکھیڑوں نے مجھے بے آبرو کردیا۔ میرے سانس لیتے تاریخی وجود کو ایک برہنہ لاش بنا دیا۔ مجھے آ نے والے وقتوں کی آہٹ بننا تھا، تم نے مجھے گئے وقتوں کی ہچکی بنا دیا۔ تمہارے سیاسی بازیگروں اور دفاعی شعبدہ گروں نے مجھ سے میرے آزاد وجود کا مان بھی چھین لیا۔ میری آزادی کو اغیار کی تحویل میں دے دیا۔ میرے اعلیٰ تصورات کو چند ٹکوں کی بھیک کے عوض بیچ دیا۔ تمہیں اپنے آگے بے بس گھر داماد کی مانند بنادیا۔تمہارے دفاعی شعبدہ گر رستم مکھی مار اور جھوٹے عزت دار بن گئے۔ تم حاکموں کے قوال ، دشمنوں کے دلال ، غداروں کے ہانڈی وال اور ہر بھاؤ بکاؤ مال بن گئے۔ تم عالمی منڈی کی سب سے ارزاں جنس ہو گئے۔ تمہارے حال نے میرے ماضی کو شرمندہ کردیا۔ میری تاریخ کو رسوا کردیا۔ میری بلندیوں کو خمیدہ کردیا۔ تم اپنے حال میں کیا حیادار ہوتے، تم تو اپنے ماضی کے وفادار بھی نہیں رہے۔ تم نے اپنی سیاسی بداعمالیوں ، آئین سے غداریوں اور اقتدار کی کھینچا تانیوں میں میری تاریخ کو اپنا چارہ بنایا۔ تم نے مجھے 1960 سے پہلے کہاں یاد رکھا ۔ میں ”یوم پاکستان” کے طور پر ایک بھولی بسری یاد تھا۔ تم نے 1956ء کے پہلے آئین کی منظوری کے بعد 23مارچ کو ”یوم جمہوریہ ”بنایا، ”یوم پاکستان” نہیں۔ پھر اکتوبر 1958 ء میں اس ملک کو پہلی مرتبہ ایوب خان نے فتح کرنے کا سلسلہ شروع کرتے ہوئے مارشل لاء لگایااور آئین ایک بھولی بسری کہانی بن گیا۔ یوم جمہوریہ فیلڈ مارشل کی چھڑی کے نیچے آگیا۔ تو یہ 1960 کا سال تھا، جب یوم جمہوریہ کی جگہ تمہیں میری ضرورت پڑی تاکہ تم آئین کی کمی محسوس نہ کرسکو۔ آئین سے انحراف کو قابل سزا جرم نہ سمجھو۔ تم طاقت کے آگے اپنی حد سے باہر نہ جاسکو۔ تم اپنی زنجیروں کا احترام کہیں کھو نہ دو۔ بس تب تمہیں یوم جمہوریہ کی جگہ مجھ بیچارے کی ضرورت پڑی۔ تم نے میری تاریخ کو تحریک نہیں بنایا، اپنی ضرورتوں کا چارہ بنایا۔ اسی لیے میں ایک رسم ہوں، تاریخ نہیں ، تحریک نہیں۔ میرا جگمگاتا وجود اسی باعث دھندلا گیا۔ میرا بانکپن جاتا رہا۔ میں نوید فردا کے بجائے ماضی کا مزار بن گیا۔
میں ہوں مینار پاکستان! مینار پاکستان!
میں تم میں سے ہوں مگر اب کہاں اب کہاں۔ اب تم خود اپنے آپ میں نہیں۔
۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
محمود غزنوی اور سلطنت غزنویہ وجود جمعه 22 ستمبر 2023
محمود غزنوی اور سلطنت غزنویہ

بوڑھوں کا ملک وجود جمعه 22 ستمبر 2023
بوڑھوں کا ملک

چیف جسٹس کے 404 دن اور عوام کے 56 ہزار مقدمے وجود جمعه 22 ستمبر 2023
چیف جسٹس کے 404 دن اور عوام کے 56 ہزار مقدمے

احتساب کی چھلنی وجود جمعه 22 ستمبر 2023
احتساب کی چھلنی

نئے چیف جسٹس سے توقعات وجود جمعرات 21 ستمبر 2023
نئے چیف جسٹس سے توقعات

اشتہار

تجزیے
نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟ وجود بدھ 20 ستمبر 2023
نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟

نیپرا کا عوام کش کردار وجود جمعه 15 ستمبر 2023
نیپرا کا عوام کش کردار

مہنگائی میں مزید اضافے کا خطرہ وجود جمعرات 14 ستمبر 2023
مہنگائی میں مزید اضافے کا خطرہ

اشتہار

دین و تاریخ
جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے وجود جمعه 15 ستمبر 2023
جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے

مادیت کا فتنہ اور اس کاعلاج وجود جمعه 08 ستمبر 2023
مادیت کا فتنہ اور اس کاعلاج

سُسرِ رسول سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ وجود جمعه 01 ستمبر 2023
سُسرِ رسول سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ
تہذیبی جنگ
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے

مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی وجود جمعرات 03 اگست 2023
مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی

کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے
بھارت
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم وجود منگل 19 ستمبر 2023
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم

آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا

بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا وجود بدھ 06 ستمبر 2023
بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا

چندریان تھری کی کامیابی پر بھارتی نجومی کا پاگل پن، چاند کو ہندو سلطنت قرار دینے کا مطالبہ وجود پیر 28 اگست 2023
چندریان تھری کی کامیابی پر بھارتی نجومی کا پاگل پن، چاند کو ہندو سلطنت قرار دینے کا مطالبہ
افغانستان
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا

افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی وجود پیر 14 اگست 2023
افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی

بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام وجود منگل 08 اگست 2023
بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام
شخصیات
معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال

علامہ دلاور سعیدی بھی سفاک بنگلہ دیشی حکومت کے جبر کا شکار ہوئے وجود اتوار 20 اگست 2023
علامہ دلاور سعیدی بھی سفاک بنگلہ دیشی حکومت کے جبر کا شکار ہوئے
ادبیات
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے وجود پیر 11 ستمبر 2023
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال

محتسب (عالمی ادب سے منتخب افسانہ) وجود پیر 10 جولائی 2023
محتسب  (عالمی ادب سے منتخب افسانہ)