وجود

... loading ...

وجود
وجود

راہل گاندھی،جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے ، وہ نظر کیا

منگل 14 مارچ 2023 راہل گاندھی،جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے ، وہ نظر کیا

ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیاست میں منافقت کی ملاوٹ کرنے والوں سے حماقت سرزد ہوتی ہے ۔ اس معاملے میں مودی اور راہل کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے ۔ برطانیہ کے اندرآر ایس ایس کے بارے میں اپنی دانشوری جھاڑتے ہوئے راہل گاندھی نے اس کا اخوان المسلمون سے موازنہ کرکے یہ ظاہر کردیا کہ سنگھ کے بارے میں تو خوب جانتے ہیں مگر اخوان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ۔ راہل نے کہا آپ اسے (آر ایس ایس کو) ایک خفیہ سماج کہہ سکتے ہیں۔ مذکورہ بیان کا یہ حصہ دونوں پر صادق نہیں آتا کیونکہ دونوں کھلے عام کام کرتے ہیں۔اس کے بعد راہل بولے وہ (آر ایس ایس)اخوان المسلمون کے خطوط پر تعمیر کی گئی ہے ۔ یہ دعویٰ بھی غلط ہے اس لیے کہ اخوان تو اسلام کی بنیاد پر ابھرنے والی تحریک ہے اور آر ایس ایس پہلے دن سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منظم کی جانے والی تنظیم ہے ۔ دونوں کے قیام میں صرف تین سال کا فرق ہے اور جس وقت آر ایس ایس قائم ہوئی اس کو یہ پتہ بھی نہیں رہا ہوگا کہ دنیا میں اخوان نام کی کسی تنظیم کا وجود ہے ۔
آر ایس ایس کی بابت یہ بات جگ ظاہر ہے کہ اس سے قبل ملک میں ساورکر کی قیادت میں ہندو مہا سبھا نامی ایک سیاسی جماعت موجود تھی۔ وی ڈی ساورکر کے افکار و نظریات کو تہذیبی سطح پر عام کرنے کے لیے آر ایس ایس قائم کی گئی اور آگے چل کر گولوالکر نے اپنی کتاب بنچ آف تھاٹ میں اس کو تفصیل کے ساتھ بیان کردیا، ہٹلر کو دل کھول کر سراہا ۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہندوتوا نوازوں نے ڈاکٹر مونجے کو اٹلی میں مسولینی کی فسطائیت کا مطالعہ کرنے اور اس کا عملی مظہر دیکھنے کے لیے روانہ کیا تاکہ انہیں خطوط پر ہندوستان میں حکومت قائم کی جائے ۔ اس لیے آر ایس ایس اور فسطائیت کے اندر تو مشابہت واضح ہے اور اگر راہل یہی مثال دیتے تو برطانیہ کے لوگوں کی سمجھ میں بہ آسانی آجاتی۔ اخوان المسلمون تو اول دن سے فسطائیت سمیت سارے مغربی نظریات کی ناقد رہی ہے ، اس لیے آر ایس ایس کو اخوان المسلمون سے جوڑ دینا ایک ناقابلِ فہم حماقت ہے ۔ اس کی ممکنہ وجہ ہندو عوام کی منہ بھرائی ہوسکتی ہے تاکہ انہیں یہ باور کرایا جائے کہ راہل کچھ مسلمانوں کے خلاف بھی ہے ۔
جمہوری سیاست کے اندر سیاسی رہنماؤں کو ایک غیر عقلی توازن قائم رکھنا پڑتا ہے اور یہی مجبوری ان سے بڑی بڑی حماقتیں سرزد کرواتی ہے ۔ اس کے سبب وہ ایسی غیر معقول باتیں بول جاتے ہیں جن سے ان کی کم علمی اور جہالت کھل کر دنیا کے سامنے آجاتی ہے ۔ راہل گاندھی نے وی ڈی ساورکر کی ایک کتاب کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ اس میں لکھا ہے ، انہیں اپنے ساتھیوں کے ساتھ ایک مسلمان کو مار کر خوشی ہوئی ۔ اس کے بعد وہ بولے پانچ لوگوں کا ایک آدمی کو مار کر خوش ہونا بزدلی ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ اس طرز فکر کو موجودہ دور کے ہجومی تشدد سے جوڑتے لیکن انہیں شاید یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ اس مثال سے ہندو رائے دہندگان ناراض ہوجائیں گے ۔ اس لیے آر ایس ایس کو ہٹلر اور مسولینی سے جوڑنے کے بجائے جو ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے اخوان المسلمون سے مشابہ قرار دے دیا جو سراسر بہتان ہے ۔ ڈر صرف دشمنوں کانہیں بلکہ دوستوں کی ناراضی کا بھی ہوتا ہے مگر اس کا حق گوئی پر غالب آجانا شرمناک ہے ۔خوف کے خاتمے پر دن رات پر وچن دینے والے رہنما کو ووٹرز کا یہ ڈر زیب نہیں دیتامگر مغربی جمہوریت میں اس سے نجات ممکن نہیں ہے اور اس حوالے سے راہل اور مودی میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
راہل گاندھی نے اپنے اس متنازع بیان میں آگے کہا کہ اس کا(یعنی آر ایس ایس یا اخوان کا) مقصد جمہوری مسابقت کے ذریعہ اقتدار میں آنا اور پھر جمہوری مسابقت کو ختم کرنا ہے ۔ اس بات کا اطلاق اخوان المسلمون پر کسی زاویہ سے نہیں ہوتا۔مصر کی حالیہ تاریخ سے متعلق معمولی معلومات کا حامل انسان بھی جانتا ہے کہ وہاں طویل آمریت کے بعد 2012 میں آزادانہ انتخابات منعقد ہوئے تھے ۔ ان میں 51 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے کے بعد 30جون 2012ء کو فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے رہنما ڈاکٹر محمد مرسی مصر کے صدر منتخب ہوئے ۔مصر کے انتخابات کو اگر مغرب کے جمہوری پیمانے پر بھی جانچا جائے تب بھی وہ نہایت شفاف اور غیر جانبدارانہ تھے ۔ اس میں کوئی جھول نہیں تھا۔ اس کا اعتراف ساری دنیا نے کیاتھا۔ عوام کی مرضی سے قائم ہونے والی اس حکومت نے آزادی یا انسانی حقوق کو سلب نہیں کیا بلکہ وہ تو آمریت کی سازش کا شکار ہوگئی یعنی جو کچھ راہل گاندھی نے کہا اس کے بر خلاف الٹا معاملہ ہوا ۔ ایک سال کے اندرفوجی مداخلت کے ذریعہ ایک عوامی حکومت کی بساط لپیٹ دی گئی۔
مصر کے اندر آئین کو معطل کرنے اور منتخب صدر ڈاکٹر مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ کر انہیں رفقاء سمیت نظر بند کرنے کا کام تو اخوان کے مخالفین نے کیا ۔ ایسے میں راہل گاندھی کا اخوان المسلمون کو آر ایس ایس کی مانند فسطائی قرار دے دینا سراسر زیادتی اور کم عقلی ہے ۔ اخوان اگر غلط تھے تو کیا ان کو ہٹا کر بزور قوت اقتدار پر قابض ہونے والا جنرل عبدالفتاح السیسی درست ہے ؟ کیا راہل گاندھی فوجی مداخلت کے ذریعہ ایک منتخبہ صدر کی معزولی کے حامی ہیں؟ ان سوالات کا جواب ان کو دینا ہوگا کہ آخر زندگی بھر شہری حقوق،آزادی اور قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی منتخب حکومت کو جبری طور پر کیوں برطرف کیا گیا ؟ اس کی پرامن مذمت کرنے والے اخوانی دانشوروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں پر مظالم کے پہاڑ توڑ کر انصاف و قانون کی دھجیاں کس نے اور کیوں اڑائی ؟ ایسے میں مظلوم کی مخالفت در اصل ظالم کی حمایت کے مترادف ہے ۔ آگے بڑھنے سے قبل یہ جاننا ضروری ہے کہ آخراخوانی رہنما ڈاکٹر مرسی کو اقتدار سے کیوں بے دخل کیا گیا؟
مغربی سامراج اور اس کے بغل بچہ اسرائیل کے نزدیک صدر مرسی کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ انہوں نے دینی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ کے مجبور، محصور اور بے کس مسلمانوں کی مدد کرکے اسرائیل کو پیغام دیا کہ وہ بے گناہ فلسطینیوں کا قتل عام بند کرے ۔ صدر مرسی کا یہ اقدام اسرائیل اور مصر کے عیش پرست جرنیلوں کوناگوار گزرا اور انہوں نے ناجائز طریقہ سے ایک جائز حکومت کا خاتمہ کردیا۔ محمد مرسی کی مخالفت میں موقع پرست سیکولر جماعتوں نے غاصب فوج کا ساتھ دیا۔ فوج کی لونڈی عدلیہ کھل کر آئین، قانون، اخلاق اور انصاف کے مقابلے میں لاقانونیت، بدمعاشی اور بے انصافی پر اتر آئی ۔ اس کا فائدہ اٹھاکر عالمی استعمار نے لادینیت کا شکار فوج کو اپنا آلۂ کار بناکر آمریت کو پھر سے نافذ کردیا۔ راہل گاندھی کو ہندوستان میں قدم جمانے والی فسطائیت سے شکایت ہے لیکن مصر کے اندر اخوان کے خلاف
جس سفاکی و بربریت کا مظاہرہ کیا گیا اس کا تو وہ تصور بھی نہیں کرسکتے ۔
تختہ پلٹنے کے بعد اخوان نے اپنے مسلسل پرامن احتجاج سے فوج کی اس دلیل کوخارج کردیا کہ عوام صدر محمد مرسی کے خلاف ہوگئے ہیں۔ اس وقت ساری دنیا کے سامنے یہ بات آگئی تھی کہ اخوان کے حامیوں کی تعداد ان کے مخالفین سے کہیں زیادہ ہے اور وہ کئی ہفتوں تک سراپا احتجاج رہے ۔ مصری جرنیلوں اور ان کی پشت پناہی کرنے والی قوتوں کو فوجی اقتدار کے بعد سامنے آنے والے اس شدید عوامی ردعمل کا ادراک نہیں تھا ۔ بالآخر فوجی حکومت نے احتجاج کرنے والوں کے خلاف متعدد انسانیت سوز آپریشن شروع کرکے فرعون کے اقتدار کی یاد تازہ کردی لیکن ہر طرح کی ابتلاء و آزمائش کے باوجود اخوان ہنوز اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں۔یہ اللہ کی مشیت تھی کہ جو اسلامی حکومت بحال نہ ہوسکی مگر کہاں یہ عزیمت و شہادت کی عظیم روایت جوکسی صورت باطل کے آگے سرنگوں نہیں ہوئی اور کہاں بزدل آر ایس ایس کے جس نے ہر آزمائش میں کمزوری کا مظاہرہ کیا ؟ راہل گاندھی کو آئندہ اخوان سے متعلق لب کشائی سے قبل اس کی تابناک تاریخ پر نظر ڈال لینی چاہیے ، ورنہ ان میں اور مودی میں کوئی فرق نہیں رہے گا ۔ اس میں شک نہیں کہ راہل گاندھی کے برطانوی دورے نے مودی سرکار کی نیند اڑا دی اور کئی لحاظ سے وہ نہایت کامیاب دورہ تھا لیکن اخوان المسلمون کے سنگھ پریوار سے موازنہ نے اس پردیسی یاترا پر کلنک کا ٹیکہ لگا دیا ۔ علامہ اقبال نے ایسے موقع کے لیے کیا خوب شعر کہا جو راہل کی کم نگاہی پر صد فیصدصادق آتا ہے
اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خُوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے ، وہ نظر کیا
(جاری ہے)


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر