وجود

... loading ...

وجود
وجود

سپریم کورٹ اور ہمارا سیاسی نظام

جمعرات 02 مارچ 2023 سپریم کورٹ اور ہمارا سیاسی نظام

روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سپریم کورٹ نے ہمارے سیاسی نظام کی نہ صرف قلعی کھول دی بلکہ ہمارے لڑتے جھگڑتے سیاستدانوں کی ایک اور مشکل بھی حل کردی ، ورنہ ہمارے سیاستدان مل جل کر نہ جانے پاکستان کو کہاں دھکیل رہے ہیں؟ اس فیصلہ پر بات کرنے سے پہلے دو اور چھوٹی سی خبریں جو آنے والے دنوں میں دب جائیں گی پہلی یہ کہ بزدار حکومت میں سابق مشیر زراعت عبدالحئی دستی کے گھرسے اینٹی کرپشن نے چھاپہ مار کر مختلف ٹھیکوں پر کمیشن اور لوٹ مار کی تقریبا ساڑھے بارہ کروڑ روپے سے زائدرقم برآمد کی ہے، یہ صرف ایک عوامی خدمتگار کا حال ہے یہاں پر تو پٹواری سے لیکر اوپر تک یہی صورتحال ہے ۔ دوسری خبرانتہائی تکلیف دہ ہے کہ پاکستان ریلوے کی طرف سے ہاکی کھیلنے والی 27 سالہ شاہدہ رضا سہا بے روزگاری سے تنگ آکر مستقبل کے سہانے خواب پلکوں پر سجائے ترکی سے کشتی پر اٹلی جاتے ہوئے سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوگئی ۔ شاہدہ رضا پاکستان ویمن ہاکی ٹیم کی اہم رکن بھی رہیں۔ شاہدہ رضا فٹبال کی بھی بہترین کھلاڑی تھیں اور ویمن فٹبال میں بلوچستان یونائیٹڈ کی نمائندگی کرتی رہیں۔ ہمارے ہاں تو کھیلوں میں بھی سیاست گھس آئی ہے۔ ابھی پاکستان ویمن کرکٹ ٹیم کی کپتان نے بھی استعفی دے دیا ہے۔ اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں، وہ بھی سامنے آجائیں گے۔
اب رہی بات الیکشن کی وہ سپریم کورٹ نے مسئلہ حل کردیا ہے جبکہ حکومت سیکیورٹی کا بہانہ بنا کر الیکشن سے فرار چاہتی تھی۔ حالانکہ ملک میں سیکیورٹی کی صورتحال اتنی خراب نہیں ہے جتنی 2008 اور 2013 کے عام انتخابات کے دوران تھی جبکہ 2018 میں بھی صورتحال اتنی بہتر نہیں تھی۔ 2008 ء میں انتخابات 18 فروری کو ہوئے تھے۔ اس وقت سیکیورٹی کی صورتحال انتہائی مخدوش تھی کیونکہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو انتخابات سے صرف دو ماہ قبل 27 دسمبر 2007کو راولپنڈی میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اکتوبر 2007 میں کراچی میں بے نظیر بھٹو کے استقبال کے لیے منعقد ہونے والی پیپلز پارٹی کی ریلی میں دھماکے کے نتیجے میں 180 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ 2007 جولائی میں لال مسجد آپریشن بھی دیکھا گیا۔ تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)بھی عام انتخابات دسمبر 2007 سے محض دو ماہ قبل قائم ہوئی تھی ۔ 2007 میں 639 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 1940 افراد ہلاک اور 2807زخمی ہوئے ۔ جنوری 2008 میں 39 حملوں میں 459 افر اد ہلاک ہوئے جو زیادہ تر کے پی اور سابق فاٹا کے علاقے میں ہوئے۔ 2022 کے دوران پاکستان کو 380 عسکریت پسند حملوں کا سامنا کرنا پڑا جن میں 539 افراد ہلاک اور 836 زخمی ہوئے۔ اس کا مطلب ہے کہ 2007کے مقابلے 2022 میں اموات میں 72 فیصد اور زخمیوں کی تعداد میں 70 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ صرف جنوری 2008 کے عام انتخابات سے پہلے اموات کی تعداد 2022 کے پورے سال سے زیادہ تھی۔ 2013ء میں عام انتخابات 11 مئی کو ہوئے تھے اور اس سے پہلے کے چار ماہ میں ملک میں 366 دہشت گرد حملے ہوئے جن میں 1120 افراد ہلاک اور 2151 زخمی ہوئے۔ اس کا مطلب ہے کہ ان چار مہینوں میں 2022 کے پورے سال کے مقابلے میں 52 فیصد زیادہ اموات اور 61 فیصد زیادہ زخمی ہوئے جبکہ 2013 کی انتخابی
مہم کے دوران دہشت گردوں کا بڑا ہدف سیاسی جماعتیں تھیں۔ 2013ء کے الیکشن میں ہی 60روزہ انتخابی عمل کے دوران مختلف امیدواروں، انتخابی دفاتر، مختلف سیاسی جماعتوں کے جلسوں ، پولنگ اسٹیشنوں اور الیکشن کمیشن کے دفتر پر 59 حملوں میں کم از کم 119 افراد ہلاک اور 438 سے زائد زخمی ہوئے ۔ اے این پی، پی پی پی، ایم کیو ایم اور آزاد امیدوار 2013 کی انتخابی مہم کے دوران دہشت گردوں کا بڑا ہدف تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ 2021 کے مقابلے میں 2022 کے دوران دہشت گردانہ حملوں میں تقریبا 32 فیصد اضافہ ہوا۔ تاہم حالات 2008 اور 2013 کے مقابلے میں بہت بہتر ہیں۔
پاکستانی سیکیورٹی فورسز بھی 2008 اور 2013 کے مقابلے میں بہتر تربیت یافتہ اور جدید ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ اس لیے اگر ان حالات میں سپریم کورٹ نے آئین کی پاسداری کرتے ہوئے ایک تاریخی اور لازوال فیصلہ دیا ہے تو اس میں کوئی برائی نہیں ہے۔ اس فیصلے کے مطابق سپریم کورٹ نے انتخابات از خود نوٹس میں فیصلہ دیتے ہوئے 90 روز میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کروانے کا حکم دے دیا ۔ عدالت نے صدر مملکت کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے پنجاب جبکہ کے پی میں گورنر کو الیکشن کمیشن سے مشاورت کرکے الیکشن کی تاریخ دینے کا حکم دیا ۔ سپریم کورٹ نے صدر کا 20 فروری کا حکم پنجاب کی حد تک درست قرار دیتے ہوئے کے پی اسمبلی کے لیے کالعدم قرار دے دیااور کہا کہ گورنر کے پی فوری طور پر انتخابات کی تاریخ دیں اور تمام وفاقی اور صوبائی ادارے الیکشن کمیشن کو سیکورٹی سمیت ہر طرح کی امداد فراہم کریں ۔ چیف جسٹس نے 22 فروری کو انتخابات میں تاخیر پر از خود نوٹس لیتے ہوئے 9 رکنی لاجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ حکمران اتحاد نے بینچ میں شامل 2 ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی پر اعتراض اٹھایا تھا۔جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ نے بھی خود کو بینچ سے علیحدہ کرلیا تھا جس کے بعد چیف جسٹس نے دوبارہ 5 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا پنجاب اور کے پی انتخابات از خود نوٹس کی 4 سماعتیں ہوئیں اور گزشتہ روز 7 گھنٹے کی طویل سماعت میں فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر سپریم کورٹ نے فیصلہ میں کہا کہ آئینی طور پر انتخابات 90 روز میں ہوں گے۔ کوئی آئینی ادارہ انتخابات کی مدت نہیں بڑھا سکتا ہے۔ انتخابات وقت پر نہیں ہوئے تو ملک میں استحکام نہیں آئے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہماری عدلیہ جرأت ،بہادری اور دلیری سے اپنا کام کررہی ہے۔ ورنہ ہمارے سیاستدانوں کے کارنامے تو سب کے سامنے ہی ہیں جو قیام پاکستان سے لیکر اب تک لوٹ مار میں مصروف ہیں۔ وہ دن نہ جانے کب آئیں گے، جب ہمارا مزدور بھی خوشحال ہوگا ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر