وجود

... loading ...

وجود
وجود

منی بجٹ آنے کے بعد کیاہوگا؟

هفته 11 فروری 2023 منی بجٹ آنے کے بعد کیاہوگا؟

 

پاکستانی قوم کاکیسا نصیب ہے کہ وہ جس سیاستدان کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں وہی ان پرمہنگائی،بیروزگاری،لوڈشیڈنگ اور محرومیوںکا عذاب مسلط کردیتاہے حکمران اپنے اللے تللے ختم نہیں کرتے کشکول پکڑے کسی بیرون ملک امدادلینے جاتے ہیں تو ان کا لائف اسٹائل دیکھ کر امداد دینے والے پریشان ہوجاتے ہیں یہی وجہ سے اکثروبیشتر کوئی خیرات دینا گوارا نہیں کرتا لیکن وہ بے مزہ ہوئے بغیر سیر سپاٹے کے لیے کسی اور ملک کا دورہ رکھ لیتے ہیں یہ الگ بات کہ فاقوںکی ماری قوم میںسے نہ جانے کتنے خودکشیاں کررہے ہیں لیکن شہبازشریف حکومت دنیا کی سب سے بڑی کنگ سائز کابینہ انجوائے کررہی ہیں مگر کمال ہے کوئی دھیلے کی کرپشن کرے نہ کرے درجنوں وزیروں،مشیروں اور معاونین ِ خصوصی مال ِ مفت دل ِ بے رحم کے مصداق پر وٹوکول ،وزارتوںکے ہوشربا اخراجات سے ملکی معیشت کو ڈھبردوس کررہے ہیں ان حالات میں وفاقی وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کی بعض اصلاحات پاکستان کے حق میں ہیں، منی بجٹ لانا پڑے گا جس میں 170 ارب کے ٹیکس لگائے جارہے ہیں جبکہ پاکستان کو آئی ایم ایف جائزے کے بعد 1.2 ارب ڈالرز ملنے کی توقع ہے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے آخری دور میں کئی امور پر اتفاق کرلیاگیا ہے ،موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے کئے گئے پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسی فراہم کر دی ہے۔
وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بھی آئی ایم ایف کو عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی ہے، یہ اصلاحات پاکستان کی ضرورت ہیں بجلی اور گیس کے نقصانات کم کرنا ہماری ضرورت آئی ایم ایف سے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے اور توانائی کے شعبے میں گردشی قرض کو روکنے پر اتفاق ہوا ہے، گیس کے شعبے میں گردشی قرض میں مزید اضافہ روکنا ہے جبکہ عمران خان کے آئی ایم ایف سے کئے گئے معاہدے پر شہباز حکومت عمل در آمد کر رہی ہے، حکومت اور معاشی ٹیم معاہدے پر عمل کے لیے تگ و دو کر رہی ہے، آئی ایم ایف سے توانائی اور دیگر مالیاتی امور پر وسیع مذاکرات ہوئے وزیرِ خزانہ کا کہنا ہے کہ کچھ ایسے سیکٹر ہیں جن میں اصلاحات کی ضرورت ہے، 5 سال کی معاشی تباہی اور خراب گورننس سے مشکلات پیدا ہوئیں، 10 دن کے ڈائیلاگ کے لیے ہم نے خود کو تیار کر رکھا تھا، آئی ایم ایف کی ٹیم واپس چلی گئی ہے، اب پیر کو آئی ایم ایف سے ورچوئل میٹنگ ہو گی۔انہوں نے کہا کہ ٹارگٹڈ سبسڈیز کو کم کیا جائے گا، گیس کے شعبے میں گردشی قرضے کو صفر کرنا ہے، توانائی کے شعبے میں اصلاحات طے کی جائیں گی۔اسحاق ڈار نے کہا کہ گزشتہ 5 سال میں 24 نمبر کی معیشت کو 47 نمبر پر لا کھڑا کیا گیا، بی آئی ایس پی کے تحت 40 ارب کا مزید ریلیف دیا جائے گا، منی بجٹ لانا پڑے گا، خواہ بل کی شکل ہو یا آرڈی ننس کی صورت میں۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ ہم نے پیٹرول پر سیلز ٹیکس نہیں مانا، انہوں نے یہ بات مان لی ہے، باہمی طور پر اتفاق کیا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس نہیں لگے گا، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں لیوی کو 5، 5 روپے بڑھایا جائے گا 170 ارب کے ٹیکسز میں جنرل سیلز ٹیکس شامل ہو گا اس پرتبصرہ کرتے ہوئے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھامجھے نکال کر کوئی اکانومسٹ ٹائپ کا بندہ ہی لے آتے، مسلم لیگ میں احسن اقبال جیسے قابل لوگ بھی ہیں انہیں لے آتے ڈار صاحب کی سوچ ہی الٹی ہے، اپنی انا کے چکر میں لوگوں کی فیکٹریاں بند کروادیں۔ مفتاح اسماعیل نے ایک بیان میں کہا تھا کہ میرے وزیر خزانہ بننے کے بعد 6 ماہ تک اسحاق ڈار نے میرے خلاف مہم چلائی تھی۔ سوشل میڈیا پوڈ کاسٹ میں گفتگو کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا تھا کہ اسحاق ڈار کو خود وزیر خزانہ بننے کا بہت زیادہ شوق تھا، وہ ٹی وی پر کہتے تھے کہ میں 160 کا ڈالر کردوں گا، میرے خلاف پروگرام کراتے تھے۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ اسحاق ڈار نواز شریف کے قریب تھے، ان کا بیٹا نواز شریف کا داماد ہے، وہ نواز شریف سے کہتے تھے میں ڈالر اور پیٹرول سستا کر دوں گا۔ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا تھا کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف میری کارکردگی سے خوش تھے، ہٹانا نہیں چاہتے تھے، مجھے ہٹانا وزیرِ اعظم کی صوابدید تھی مگر جس طریقے سے ہٹایا وہ درست نہیں تھا مفتاح اسماعیل اور اسحاق ڈارکی باتیں اپنی جگہ پرلیکن حالات بتاتے ہیں کہ 170 ارب کے ٹیکسزلگانے سے ملک میں مہنگائی کاایک نیا طوفان آجائے گاجس سے ہرچیزمہنگی ہونے کا خدشہ ہے اب عوام کیا کریں گے اب یہ بھی شنیدہے کہ بجلی کی قیمتیں اورپٹرولیم مصنوعات میں بھی اضافہ کیاجارہاہے یعنی غریبوں کی پھر شامت آنے والی ہے موجودہ حکومت تو مہنگائی کو بنیادبناکربرسرِ اقتدارآئی تھی ہر روز مہنگائی کی نئی لہرآنے سے پاکستانی روپیہ مزیدبے توقیر ہوجائے گاڈالرمہنگاہوگاتوملکی معیشت کا کیا بنے گا کوئی نہیں جانتا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر