وجود

... loading ...

وجود
وجود

ملک! ہائے میرا ملک!!

بدھ 25 جنوری 2023 ملک! ہائے میرا ملک!!

محسن نقوی نگراں وزیراعلیٰ مقرر ہوئے۔ رشتوں کی نزاکتوں میں جکڑے سرکاری فیصلے تہ داریوں میں بھی تہ بہ تہ لپٹے ہیں۔ کوئی مرگلہ کی پہاڑیوں سے چیخے، ملک ، ہائے میراملک!!
ٹہرئیے ٹہریئے کس حقیر موضوع پر وہ عظیم دانشور یاد آیا، جس کے حوالے مارکس، لینن ، شیکسپیئر، ارسطو، افلاطون اور فرائیڈ کے بعد سب سے زیادہ دیے گئے۔ فلسفی نوم چومسکی نے اپنی غیر معمولی کتابوں سے لسانیات، عمرانیات اور انسانی نفسیات کے مختلف شعبوں کو تبدیل کر دیا۔ وہ ریاستی اور بین الریاستی کشاکش میں طاقت کے حقیقی مراکز کو دریافت کرتے ہوئے مروجہ تصورات کو بھک سے اڑا دیتا ہے۔وہ ایسا سراغ رساں ہے کہ دنیا بھر کی حکومتوں پر کنٹرول رکھنے والی امریکی حکومت کو کنٹرول کرنے والی طاقت کو بھی کھوج لیتا ہے۔چومسکی کی 2011ء میں ایک چشم کشا کتاب”How the World Works” سامنے آئی، یعنی دنیا کیسے کام کرتی ہے؟ کھیل کے اندر کھیل کو سمجھانے والی یہ کتاب انسان کو بت کدۂ اوہام کی ویرانیوں سے نکال کر حقیقت کی تپتی دھوپ میں لے آتی ہے۔ وہی نوم چومسکی اب پھر گرہ کشائی کرتا ہے، دنیا ناقابل تلافی نقصان کی طرف بڑھ رہی ہے۔نوم چومسکی کی دنیا کچھ زیادہ بڑی ہے، مگر کیا کیجیے! ہماری تو کُل دنیا ہی پاکستان ہے۔ ہمارے لیے دنیا کے ناقابل تلافی نقصان کی طرف جانے کا کوئی مطلب ہی نہیں ، ہاں مگر پاکستان کے ناقابل تلافی نقصان کی جانب بڑھنے سے دل بیٹھ جاتا ہے۔ نوم چومسکی کا اپنا اُسلوب اور اپنے الفاظ ہیں، ایک حالیہ انٹرویو میںکہتا ہے:تباہی کو جانچنے کے لیے ساختہ گھڑی ”ڈومس ڈے کلاک”بربادی کے مقررہ نقطے تک پہنچ گئی ہے، اندازا ہوتا ہے کہ انسان نسل کشی پر آمادہ ہے”۔ وہ اس موت آمادہ بربادی کی تین وجوہات بیان کرتا ہے۔ ابتدائی دو وجوہات بھی ہمارے لیے اہم ہیں، مگر تیسری وجہ ہی اصل ہے جس کا پاکستان میں ہمیں سامناہے او رجو ہماری ”ڈومس ڈے کلاک” کو بربادی کے نقطے تک لے آئی ہے۔ چومسکی تیسری وجہ کے ذیل میں کہتا ہے کہ” لوگوں میں مسائل کو منطقی انداز سے حل کرنے کی صلاحیت زوال پزیر ہو رہی ہے ، اورجمہوری قوتیں کم سے کم ہوتی جا رہی ہیں”۔چومسکی جب جمہوری قوتوں کی کمی کی بات کرتا ہے تو وہ جمہوری قوتوں کے اندر ہی جمہوریت کی تلاش میں ہوتا ہے۔ کچھ یہی ماجرا ہمارا بھی ہے۔ ہم نے مسائل کو منطقی انداز میں حل کرنے کی صلاحیت کبھی پائی ہی نہ تھی جو اس کے زوال کا ماتم کرتے۔ ہماری جمہوریت بھی کبھی جمہوری نہ تھی سو اس کے لیے بھی کیا روئیں۔ مگر بدقسمتی دیکھیے! جو کچھ جیسے بھی جتنی کہتر، کمتر اور بدتر حالت میں میسر تھا، ہاتھ سے جارہا ہے۔ مسائل کو منطقی انداز میں حل کرنے کی صلاحیت کا تازہ مظاہرہ نگراں وزیرا علیٰ پنجاب کی تقرری میں ہوا ہے، جہاں محسن نقوی کو ایسے اُتارا گیا ہے جیسے کبھی بنی اسرائیل کے لیے آسمانوں سے من وسلویٰ اُتارا جاتا تھا۔
ماشاء اللہ محسن نقوی کی خانہ کعبہ میں فوجی سربراہ کے ساتھ چَھب دکھلائی جا رہی ہے، گوہر شاہی کی طرح جس کی تصویر کبھی چاند پردکھائی دیتی تھی۔ یہ کافی نہ تھا کہ ایک بصری فیتہ بھی ہماری بینائی کو بڑھانے کے لیے منہ پر مارا گیا ہے، جس میں جناب زرداری چودھری پرویز الہٰی کو شستہ پنجابی میں فرماتے ہیں کہ تمہارا تو یہ رشتے دار ہے مگر ہمارا تو یہ بچہ ہے”۔وہی زرداری جسے پیسوں کی نہ ختم ہونے والی بھوک کے عذاب میں ایسے مبتلا کیا گیا ہے کہ پیٹ کی بھوک مٹادی گئی۔ محسن نقوی اُن کے ساتھ بیٹھ کر فلمیں دیکھنے کی قربت بھی رکھتا ہے۔ خیر سے اب وہ نگراں وزیراعلیٰ پنجاب ہے۔ مگر اُس نوم چومسکی کا کیا کریں جو ہمیں اتنی اچھی اور اُجلی تصویر میں مسائل پر منطقی انداز سے سوچنے کی زحمت میں مبتلا کرتا ہے۔ کوئی مرگلہ کی پہاڑیوں سے چیخے، ملک ! ہائے میرا ملک!!
نگرانوں کا منصب غیر جانب داروں پر سجتا ہے۔مگر ہمارے غیر جانب دار جیسے غیر جانب دار ہیں ، ویسے ہی مسلط بھی کرتے ہیں۔ محسن نقوی بھی ایسے ہی مسلط کیا گیا۔ محسن نقوی کو نگراں وزیراعلیٰ مقرر کرتے ہوئے الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کی اِصابت کے طور پر یہ بیان کرنا بھی ضروری سمجھا کہ موصوف کو متفقہ طور پر وزیراعلیٰ مقرر کیا گیا۔ کیا الیکشن کمیشن میں موم کے پُتلے اور چابی کے کھلونے ہوتے ہیں ، کوئی انسان نہیں ہوتے، جو اختلا ف کے معمولی شرف سے بھی محروم ہے۔ کیا ان کا اتفاق رائے کا ہنر کسی اور میں نہیں ،ممحسن نقوی کے چُننے میں ظاہر ہوتا ہے۔ محسن نقوی کا فیصلہ اگر متفقہ نہ ہوتا تو حیرت ہوتی ، ایسے فیصلے اگر غیر متفقہ ہو تو پھر وہ گنجائش نکلتی ہے کہ نظام میںہی ایسے لوگ موجود ہیں جو اس میں اصلاح و ترمیم کی گنجائش پیدا کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ مگر اس فیصلے کے اجتماعی ہونے سے ہی ثابت ہوا کہ الیکشن کمیشن کا ذہنی دیوالیہ پن بھی اجتماعی اور متفقہ ہے۔ اس نظام پر عدم اعتماد بھی اجتماعی اور متفقہ ہے۔ اس نظام پر نحوست بھی کلی ہے۔ اس نظام پر لعنت بھی مکمل ہے۔ کسی ایک آدمی کے اختلاف نہ کرنے سے یہ واضح ہے کہ پورا نظام چاکری کر رہا ہے۔ کسی ایک میں بھی عزت کی کوئی پروا نہیں۔ کسی ایک پر بھی انسانی شرف کا کوئی معمولی ساسایہ بھی نہیں پڑا۔
الیکشن کمیشن کی منطقی انداز میںمسائل حل کرنے کی صلاحیت کا اندازا محسن نقوی کی متفقہ طور پر تقرری سے ہوتا ہے۔ ایک ایسے صوبے میں جہاں وفاقی حکومت سے اختلافات کے ناقابل واپسی نقطے پر تحریک انصاف اپنی حکومت پر لات مارتی ہے، وہاں الیکشن کمیشن کے پاس یہ مسئلہ ایسی حالت میںپہنچتا ہے کہ صوبائی حکومت کے مستعفی وزیراعلیٰ ، قائد حزب اختلاف کے ساتھ کسی نام پر اتفاق نہیں کرتے۔ مسئلہ اتنا سنجیدہ ہے کہ دیگر حل بھی موثر نہیںرہتے۔ یہاں تک کہ یہ معاملہ تیسرے فورم یعنی الیکشن کمیشن کے پاس جاتا ہے، جس کا آئینی کردار پہلے سے غیر جانب دار ہونا طے ہے۔ مگر وہ اپنے کردار سے خود کو جانب دار ثابت کرچکا ہے، وہ وفاقی حکومت میں شامل تمام اتحادی جماعتوں کے لیے نرم گوشے کے ساتھ آسانیاں پیدا کرنے کے الزام رکھتا ہے۔ جس کے پاس ایسے مقدمات ہیں جس کو یکطرفہ چلانے کے اُس پر الزامات ہیں۔ جس نے ابھی کراچی میں ایک ایسا بلدیاتی انتخاب کرایا ہے ، جس میں کسی بھی نمبر پر ناموجود پیپلزپارٹی کو پہلے نمبر پر لانے کی جادو گردی دکھائی ہے۔جس نے فارم گیارہ اور بارہ کے نتائج سے آنکھیں پھیر کر ایسے نتائج دیے ہیں جس کی تائید خود اس کے پاس موجود محفوظے ( ریکارڈ) سے نہیںہوتی۔ وہ الیکشن کمیشن ایک ایسے شخص کو نگراں وزیراعلیٰ کے طور پر مقرر کرتا ہے ، جس کی جانب داری واضح ہے۔ جس کا ماضی عیاں ہے۔ اس نگراں وزیراعلیٰ کو غیر جانب دار رہ کر اُس صوبے میں انتخاب کرانے ہیں جس پر پاکستان کا مستقبل منحصر ہے۔ مگر وہ یہ کام ایسے کرے گا کہ زرداری اُسے اپنا بچہ کہتا ہے، اور وہ اگلاوزیراعظم اپنے بیٹے بلاول کو لانے کی منصوبہ بندی کا برملا اظہار بھی کرتا ہے۔ کیا اس متعفن ماحول میں محسن نقوی غیر جانب داری سے پنجاب میں انتخابات کرائے گا؟کیا یہ ہمارا منطقی شعور ہے جو مسائل کو حل کرنے میں استعمال ہو رہا ہے؟
نگراں وزیراعلیٰ محسن نقوی کو چنتے ہوئے یہ احساس بھی غالب تھا کہ ان پر مختلف النو ع اعتراضات وارد ہوں گے۔ مگر فیصلہ ساز قوتوں نے اس کی چنداں پروا نہیںکی۔طاقت ور حلقوں نے اس پہلو کو بھی اہمیت نہیں دی کہ یہ معاملہ سیاسی طور پر ہی نہیںبلکہ عدالتوں میں بھی خفت کا باعث بنے گا۔کیونکہ عدالت عظمیٰ کے ایک فیصلے کے تحت کسی بھی مالیاتی فضیتے (اسکینڈل) میں پلی بارگین کرنے والا کوئی بھی ملزم عوامی منصب کے لیے مستقلاً نااہل ہو جاتا ہے۔ وہ حارث اسٹیل میل کیس میں2010 میں 35 لاکھ روپے نیب کو ادا کرچکے ہیں۔ یہ معاملہ تمام فیصلہ ساز قوتوں کے علم میں تھا، مگر اس کے باوجود یہ فیصلہ لیا گیا۔ یہاں تک کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد رات گئے محسن نقوی سے فورا ًسے پیشتر حلف بھی اُٹھوا لیا کیونکہ یہ اندیشہ موجود تھا کہ اگلے ہی روز یہ معاملہ عدالت میںزیر بحث آ سکتا ہے۔ آخر تما م قوتیں مجتمع ہو کر کیوں اس نظام پر باقی رہ جانے والے معمولی اعتماد کو بھی ختم کرنے پر تُل گئی ہیں؟ یہ کافی نہ تھا کہ اگلے ہی روز محسن نقوی نے اپنا پہلا حکم نامہ سی سی پی اور لاہور کے طور پر ایک ایسے شخص کو تعینات کرنے کی صورت میں جاری کیا جو 25 مئی کو تحریک انصاف کے خلاف ریاستی تشدد کا نگران تھا۔ محسن نقوی کی متنازع تقرری کے بعد ایک ذرا سا معمولی وقفہ بھی نئے متنازع فیصلوں کے لیے گوارا نہیں کیا گیا۔ یہ نظام آخر کیوں اتنی عجلت میں ہے؟ محسن نقوی کی تقرری کے فیصلے سے محسن نقوی کے اپنے فیصلوں تک کسی منطقی انداز سے سوچنے کی صلاحیت کا معمولی بھی اظہار نہیں ہوا۔ کیا نظام کی قوتوں نے یہ طے کر لیا ہے کہ وہ اپنے فیصلوں کو نافذ کرنے میں ملک پر قائم اعتماد کو بھی داؤ پر لگانے سے نہیں ہچکچائیں گے؟ کیا تباہی جانچنے کی ہماری ”ڈومس ڈے کلاک” بربادی کے مقررہ نقطے تک پہنچ گئی ۔ کوئی مرگلہ کی پہاڑیوں سے چیخے ملک !ہائے میرا ملک!!
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
میں مینار پاکستان ہوں! وجود جمعرات 23 مارچ 2023
میں مینار پاکستان ہوں!

آٹے کے ساتھ دو تھپڑ مفت وجود جمعرات 23 مارچ 2023
آٹے کے ساتھ دو تھپڑ مفت

اِس حادثہ وقت کو کیانام دیا جائے وجود جمعرات 23 مارچ 2023
اِس حادثہ وقت کو کیانام دیا جائے

23 مارچ 1940 ء کے تاریخی جلسے کا آنکھوں دیکھا حال وجود جمعرات 23 مارچ 2023
23 مارچ 1940 ء کے تاریخی جلسے کا آنکھوں دیکھا حال

لیڈی ہائی جیکر وجود بدھ 22 مارچ 2023
لیڈی ہائی جیکر

پینے کے صاف پانی کی کمی وجود بدھ 22 مارچ 2023
پینے کے صاف پانی کی کمی

اشتہار

تہذیبی جنگ
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے

توہین آمیز مواد نہ ہٹانے پر وکی پیڈیا بلاک کر دیا گیا وجود هفته 04 فروری 2023
توہین آمیز مواد نہ ہٹانے پر وکی پیڈیا بلاک کر دیا گیا

برطانوی رکن پارلیمنٹ کی پاکستانیوں سے متعلق بیان پر معافی وجود بدھ 01 فروری 2023
برطانوی رکن پارلیمنٹ کی پاکستانیوں سے متعلق بیان پر معافی

اوآئی سی کا غیر معمولی اجلاس، یورپ میں قرآن مجید جلانے کے اشتعال انگیز واقعات کی مذمت وجود بدھ 01 فروری 2023
اوآئی سی کا غیر معمولی اجلاس، یورپ میں قرآن مجید جلانے کے اشتعال انگیز واقعات کی مذمت

مودی سرکار کی مسلم تاریخ مٹانے کی مہم، ایوان صدر کے مغل گارڈن کا نام تبدیل وجود پیر 30 جنوری 2023
مودی سرکار کی مسلم تاریخ مٹانے کی مہم، ایوان صدر کے مغل گارڈن کا نام تبدیل

بھارتی انتہا پسندوں کا حکومت سے ٹیپو سلطان سے منسوب باغ کا نام بدلنے کا حکم وجود اتوار 29 جنوری 2023
بھارتی انتہا پسندوں کا حکومت سے ٹیپو سلطان سے منسوب باغ کا نام بدلنے کا حکم

اشتہار

شخصیات
انقلابی شاعر حبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 30 برس بیت گئے وجود اتوار 12 مارچ 2023
انقلابی شاعر حبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 30 برس بیت گئے

جسٹس (ر) ملک محمد قیوم انتقال کر گئے وجود جمعه 17 فروری 2023
جسٹس (ر) ملک محمد قیوم انتقال کر گئے

معروف ہدایت کار، اداکار اور ٹی وی میزبان ضیاء محی الدین انتقال کر گئے وجود پیر 13 فروری 2023
معروف ہدایت کار، اداکار اور ٹی وی میزبان ضیاء محی الدین انتقال کر گئے
بھارت
بھارت کے لیے نامزد امریکی سفیر کا نام 2 سال کی تاخیر کے بعد منظور وجود جمعرات 16 مارچ 2023
بھارت کے لیے نامزد امریکی سفیر کا نام 2 سال کی تاخیر کے بعد منظور

بھارت کے تیار کردہ کھانسی کے شربت سے بچوں کی ہلاکت، کمپنی کے 3 ملازمین گرفتار وجود اتوار 05 مارچ 2023
بھارت کے تیار کردہ کھانسی کے شربت سے بچوں کی ہلاکت، کمپنی کے 3 ملازمین گرفتار

خالصتان تحریک، مودی سرکار کی بھارتی پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کی سازش وجود هفته 04 مارچ 2023
خالصتان تحریک، مودی سرکار کی بھارتی پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کی سازش

برطانوی اخبار نے مودی سرکار کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب کر دیا وجود پیر 20 فروری 2023
برطانوی اخبار  نے مودی سرکار کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب کر دیا
افغانستان
افغان صوبہ کنڑ میں فائرنگ، کالعدم ٹی ٹی پی کمانڈر نور سعید محسود ہلاک وجود جمعرات 23 فروری 2023
افغان صوبہ کنڑ میں فائرنگ، کالعدم ٹی ٹی پی کمانڈر نور سعید محسود ہلاک

طالبان قیادت میں غیر معمولی اختلافات، وزیرداخلہ سراج الدین حقانی کی اعلی قیادت پر تنقید وجود هفته 18 فروری 2023
طالبان قیادت میں غیر معمولی اختلافات، وزیرداخلہ سراج الدین حقانی کی اعلی قیادت پر تنقید

سعودیہ کے بعد امارات نے بھی افغانستان میں سفارت خانہ بند کر دیا وجود پیر 06 فروری 2023
سعودیہ کے بعد امارات نے بھی افغانستان میں سفارت خانہ بند کر دیا
ادبیات
اردو کے ممتاز شاعر احمد فراز کا یوم ولادت وجود جمعرات 12 جنوری 2023
اردو کے ممتاز شاعر احمد فراز کا یوم ولادت

کراچی میں دو روزہ ادبی میلے کا انعقاد وجود هفته 26 نومبر 2022
کراچی میں دو روزہ ادبی میلے کا انعقاد

مسجد حرام کی تعمیر میں ترکوں کے متنازع کردار پرنئی کتاب شائع وجود هفته 23 اپریل 2022
مسجد حرام کی تعمیر میں ترکوں کے متنازع  کردار پرنئی کتاب شائع