وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارت کی دولت امیروں کے قبضے میں

بدھ 25 جنوری 2023 بھارت کی دولت امیروں کے قبضے میں

اس دور کا یہ کیسا سنگین المیہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس بے پناہ دولت اور وسائل ہیں،وہ تمام ذمہ داریوں سے آزاد ہیں اور دنیا کا سارا بوجھ اٹھانے کی ذمہ داری ان غریبوں کے کاندھوں پر ڈال دی گئی ہے جو خود اپنا بوجھ اٹھانے کے لائق بھی نہیں ہیں۔پوری دنیا میں معیشت کا جو نیاقانون نافذ ہے، اس کے تحت غریب دن بہ دن غریب اور امیر دن بہ دن امیر ہوتا چلا جارہا ہے۔ترقی پذیر اور غریب ملکوں میں اس صورتحال نے بھیانک رخ اختیار کرلیا ہے اور نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ لوگ نان شبینہ کو محتاج ہوتے چلے جارہے ہیں۔ معاشی خلیج اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ تباہی پھیلانے کے لیے کسی اور ہتھیار کی ضرورت نہیں ہے۔غریبوں، لاچاروں، مجبوروں اور محروموں کے ملک ہندوستان کا اس سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے کہ یہاں 70کروڑ لوگوں کے پاس جتنی دولت ہے، اتنی صرف 21امیر لوگوں کے پاس ہے۔ اس سے آپ معاشی نابرابری کی بھیانک صورتحال کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔یہ صورتحال اس ملک میں ہے جہاں دنیا کے سب سے زیادہ یعنی 22کروڑ غریب انسان بستے ہیں، جن کی تعداد22کروڑ ہے۔
عوام کو حکومت نے اس فریب میں مبتلا کردیا ہے کہ ہندوستان جلد ہی دنیا کی سب سے بڑی معیشت بننے والا ہے۔ اس وقت بھی ہم دنیا کے تیسرے سب سے مالدار ملک ہیں، لیکن جب ہم اپنے گریبان میں منہ ڈالتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ اس ملک میں غربت بھی اسی تیزی سے بڑھ رہی جس تیزی کے ساتھ امیری میں اضافہ ہورہا ہے۔امیر بننے والوں کی تعداد صرف سیکڑوں میں ہوتی ہے، لیکن غریب ہونے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔عالمی معاشی فورم ’آکسفوم‘ کے تازہ اعداد وشمار چونکانے والے ہیں۔’آکسفوم‘ درحقیقت ۲۱غیرسرکاری تنظیموں کا ایک پلیٹ فارم ہے جو1942 میں قایم ہوا تھا اور اس کا بنیادی مقصد دنیا سے غربت اور محرومی کا خاتمہ کرنا ہے۔
آکسفوم کی تازہ رپورٹ کے مطابق پچھلے دوسال میں ہندوستان میں ۶۴ /ارب پتی بڑھے ہیں اور صرف 100ہندوستانی ارب پتیوں کی دولت54لاکھ کروڑ سے زائد ہے۔یعنی ان کے پاس حکومت ہند کے ڈیڑھ سال کے بجٹ سے زیادہ دولت ہے۔قابل غور نکتہ یہ ہے کہ تمام ارب پتیوں کی دولت پر بمشکل دوفیصد ٹیکس لگتا ہے۔اگر اس دولت پر مناسب ٹیکس لگایا جائے تواس سے ملک کے تمام بھوکے لوگوں کو آئندہ تین سال تک کھانا کھلایا جاسکتا ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ ٹیکس کا سارا بوجھ غریب عوام کے کاندھوں پر ڈال دیا جاتاہے اورامیروں کو اس لیے کھلا چھوڑ دیا جاتا ہیکہ یہیسیاسی پارٹیوں کے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بنتے ہیں۔ عوام صرف ووٹ دیتے ہیں اور یہ سرمایہ دار نوٹ دیتے ہیں۔اگر ان امیروں پر تھوڑا زیادہ ٹیکس لگادیا جائے اور ضروری اشیائ￿ پر ٹیکس گھٹا دیا جائے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ ملک کے غریب لوگوں کو پہنچے گا۔موجودہ صوتحال یہ ہے کہ ابھی ملک میں جتنی پیداوار ہوتی ہے اس کا چالیس فیصد حصہ صرف ایک فیصد لوگ ہضم کرجاتے ہیں، جبکہ پچاس فیصد لوگوں کو اس کا تین فیصد حصہ ہی ہاتھ لگتا ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ پچاس فیصد لوگ جن کی گردن پہلے ہی ماردی گئی ہوتی ہے، ان سے حکومت جی ایس ٹی کا 64فیصد پیسہ وصول کرتی ہے جب کہ ملک کے دس فیصد سب سے زیادہ مالدار لوگ صرف تین فیصد ٹیکس دیتے ہیں۔ان دس فیصد لوگوں کے مقابلے نچلے پچاس فیصد لوگ چھ گنا زیادہ ٹیکس بھرتے ہیں۔قابل غور بات یہ ہے کہ غریب اور متوسط طبقہ کے لوگوں کو اپنی روزمرہ کی ضروری اشیائ￿ کو خریدنے پر بہت زیادہ ٹیکس بھرنا پڑتا ہے، کیونکہ یہ ان کو بتائے بغیر ہی خاموشی سے کاٹ لیا جاتا ہے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک کے ۷۰/کروڑ لوگوں کی مجموعی دولتملک کے صرف 21ارب پتیوں سے بھی کم ہے۔سال بھر میں ان کی دولت میں 121فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ کورونا دور میں جب ہرطرف ہاہاکار مچی ہوئی تھی اور لاکھوں لوگ موت کے منہ میں جارہے تھے،ان سرمایہ دور کی دولت میں اضافہ درج کیا گیا۔ شاید اسی لیے کارل مارکس نے کہا تھا کہ’’جب غریب لوگ مہنگائی کی وجہ سے خودکشیاں کرنے لگیں گے تو سرمایہ دار سّیاں بنانے اور بیچنے کا دھندہ شروع کردیں گے۔‘‘
معاشیات ایک خشک موضوع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اس میں دلچسپی نہیں لیتے۔ جو لوگ معیشت کے نشیب وفراز اور اس کی کمزوریوں سے واقف ہیں، وہ دواور دو پانچ کرنے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ عام آدمی کو تو صرف یہی فکر ستاتی رہتی ہے کہ وہ کس طرح اپنے اور اپنے بچوں کی روٹی کا بندوبست کرے۔ عالمی معاشی فورم نے اپنی تازہ رپورٹ میں جو اعداد وشمار پیش کئے ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک کے امیرلوگوں پر اگر مناسب ٹیکس لگایا جائے تو کس طرح غربت اور افلاس کے مسائل حل کئے جاسکتے ہیں۔ فورم کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے دس سب سے زیادہ امیر لوگوں پر پانچ فیصد ٹیکس لگانے سے بچوں کو اسکول واپس لانے کے لیے پوری رقم مل سکتی ہے۔ صرف ایک ارب پتی گوتم اڈانی کو 2017 اور 2021کے درمیان جو منافع حاصل ہوا ہے، اس پر معمولی ٹیکس لگاکر پونے دولاکھ کروڑ سے زیادہ اکھٹا کئے جاسکتے ہیں جو ہندوستان کے پرائمری اسکولوں کے پچاس لاکھ ٹیچروں کو ایک سال کے لیے روزگار دینے کے لیے کافی ہیں۔اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے اگر ارب پتیوں کی دولت پر دوفیصد کی شرح سے یکمشت ٹیکس لگایا جائے تو آئندہ تین سال تک غذائی قلت کا شکار لوگوں کی آبادی کو کھانا کھلانے میں مدد ملے گی۔
آکسفوم انڈیا کے سی ای او امیتابھ بیہر نے اپنی رپورٹ میں ملک کی سب سے زیادہ مظلوم آبادی کی صورتحال پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں دلت، آدیواسی،مسلمان،خواتین اور غیرمنظم زمرے کے مزدور ایک جنجال میں پھنسے ہوئے ہیں، جو سب سے امیرلوگوں کی بقائ￿ کے ضامن ہیں۔انھوں نے کہا کہ غریب زیادہ ٹیکسوں کی ادائیگی کررہے ہیں۔وہ ضروری اشیائ￿ اور خدمات پر امیروں کے مقابلے میں زیادہ خرچ کررہے ہیں۔امیروں پر ٹیکس لگانے اور اس بات کو یقینی بنانے کا وقت آگیا ہے کہ وہ منصفانہ حق ادا کریں۔‘‘
یہ پہلا موقع ہے کہ عالمی معاشی فورم نے اپنی رپورٹ میں ہندوستان کی زمینی صورتحال کا جائزہ لے کر یہ ثابت کیا ہے کہ امیروں کی دولت دراصل غریبوں کاخون چوس کر بڑھ رہی ہے۔ آئے دن اخبارات میں یہ خبریں گردش کرتی رہتی ہیں کہ فلاں ہندوستانی صنعت کارنے اپنا نام دنیا کے امیر ترین لوگوں کی فہرست میں درج کرالیا ہے یا فلاں صنعت کار ایشیائ￿ کا سب سے بڑے تاجر بن گیا ہے۔مگر یہ دولت اور تجارت دراصل غریبوں کی قیمت پر بڑھ رہی اور بدقسمتی سے حکومت اس میں پوری طرح شریک ہے۔ کارپوریٹ ٹیکس میں کمی بھی اسی لیے کی جاتی ہے تاکہ اس کا فائدہ سرمایہ داروں کو پہنچے۔ اس کے برعکس غریبوں کا سب کچھ نچوڑلیا جاتا ہے۔ جب سے جی ایس ٹی کا لگان شروع ہوا ہے تو ضروریات زندگی کی کوئی شے ایسی نہیں ہے جو اس سے آزاد ہو۔اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کانگریس صدر ملک ارجن کھڑگے نے درست ہی کہا ہے کہ’’بی جے پی حکومت کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کا عام شہری معاشی نابرابری کی گہری کھائی میں پھنس گیا ہے اور ملک کی بیشتر دولت چند مخصوص لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی ہے۔‘‘پارلیمنٹ کا اجلاس عنقریب شروع ہونے والا ہے جس میں حکومت نیا بجٹ پیش کرے گی۔ آکسفوم کی چشم کشا رپورٹ کے بعد کیا سرمایہ داروں کی بے تحاشہ دولت میں سے کچھ رقم غربت کا عذاب دور کرنے کے کام میں لا ئی جائے گی۔ کیا امیروں پر زیادہ ٹیکس عائد کرکے غریبوں کو کچھ راحت دی جائے گی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
میں مینار پاکستان ہوں! وجود جمعرات 23 مارچ 2023
میں مینار پاکستان ہوں!

آٹے کے ساتھ دو تھپڑ مفت وجود جمعرات 23 مارچ 2023
آٹے کے ساتھ دو تھپڑ مفت

اِس حادثہ وقت کو کیانام دیا جائے وجود جمعرات 23 مارچ 2023
اِس حادثہ وقت کو کیانام دیا جائے

23 مارچ 1940 ء کے تاریخی جلسے کا آنکھوں دیکھا حال وجود جمعرات 23 مارچ 2023
23 مارچ 1940 ء کے تاریخی جلسے کا آنکھوں دیکھا حال

لیڈی ہائی جیکر وجود بدھ 22 مارچ 2023
لیڈی ہائی جیکر

پینے کے صاف پانی کی کمی وجود بدھ 22 مارچ 2023
پینے کے صاف پانی کی کمی

اشتہار

تہذیبی جنگ
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے

توہین آمیز مواد نہ ہٹانے پر وکی پیڈیا بلاک کر دیا گیا وجود هفته 04 فروری 2023
توہین آمیز مواد نہ ہٹانے پر وکی پیڈیا بلاک کر دیا گیا

برطانوی رکن پارلیمنٹ کی پاکستانیوں سے متعلق بیان پر معافی وجود بدھ 01 فروری 2023
برطانوی رکن پارلیمنٹ کی پاکستانیوں سے متعلق بیان پر معافی

اوآئی سی کا غیر معمولی اجلاس، یورپ میں قرآن مجید جلانے کے اشتعال انگیز واقعات کی مذمت وجود بدھ 01 فروری 2023
اوآئی سی کا غیر معمولی اجلاس، یورپ میں قرآن مجید جلانے کے اشتعال انگیز واقعات کی مذمت

مودی سرکار کی مسلم تاریخ مٹانے کی مہم، ایوان صدر کے مغل گارڈن کا نام تبدیل وجود پیر 30 جنوری 2023
مودی سرکار کی مسلم تاریخ مٹانے کی مہم، ایوان صدر کے مغل گارڈن کا نام تبدیل

بھارتی انتہا پسندوں کا حکومت سے ٹیپو سلطان سے منسوب باغ کا نام بدلنے کا حکم وجود اتوار 29 جنوری 2023
بھارتی انتہا پسندوں کا حکومت سے ٹیپو سلطان سے منسوب باغ کا نام بدلنے کا حکم

اشتہار

شخصیات
انقلابی شاعر حبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 30 برس بیت گئے وجود اتوار 12 مارچ 2023
انقلابی شاعر حبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 30 برس بیت گئے

جسٹس (ر) ملک محمد قیوم انتقال کر گئے وجود جمعه 17 فروری 2023
جسٹس (ر) ملک محمد قیوم انتقال کر گئے

معروف ہدایت کار، اداکار اور ٹی وی میزبان ضیاء محی الدین انتقال کر گئے وجود پیر 13 فروری 2023
معروف ہدایت کار، اداکار اور ٹی وی میزبان ضیاء محی الدین انتقال کر گئے
بھارت
بھارت کے لیے نامزد امریکی سفیر کا نام 2 سال کی تاخیر کے بعد منظور وجود جمعرات 16 مارچ 2023
بھارت کے لیے نامزد امریکی سفیر کا نام 2 سال کی تاخیر کے بعد منظور

بھارت کے تیار کردہ کھانسی کے شربت سے بچوں کی ہلاکت، کمپنی کے 3 ملازمین گرفتار وجود اتوار 05 مارچ 2023
بھارت کے تیار کردہ کھانسی کے شربت سے بچوں کی ہلاکت، کمپنی کے 3 ملازمین گرفتار

خالصتان تحریک، مودی سرکار کی بھارتی پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کی سازش وجود هفته 04 مارچ 2023
خالصتان تحریک، مودی سرکار کی بھارتی پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کی سازش

برطانوی اخبار نے مودی سرکار کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب کر دیا وجود پیر 20 فروری 2023
برطانوی اخبار  نے مودی سرکار کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب کر دیا
افغانستان
افغان صوبہ کنڑ میں فائرنگ، کالعدم ٹی ٹی پی کمانڈر نور سعید محسود ہلاک وجود جمعرات 23 فروری 2023
افغان صوبہ کنڑ میں فائرنگ، کالعدم ٹی ٹی پی کمانڈر نور سعید محسود ہلاک

طالبان قیادت میں غیر معمولی اختلافات، وزیرداخلہ سراج الدین حقانی کی اعلی قیادت پر تنقید وجود هفته 18 فروری 2023
طالبان قیادت میں غیر معمولی اختلافات، وزیرداخلہ سراج الدین حقانی کی اعلی قیادت پر تنقید

سعودیہ کے بعد امارات نے بھی افغانستان میں سفارت خانہ بند کر دیا وجود پیر 06 فروری 2023
سعودیہ کے بعد امارات نے بھی افغانستان میں سفارت خانہ بند کر دیا
ادبیات
اردو کے ممتاز شاعر احمد فراز کا یوم ولادت وجود جمعرات 12 جنوری 2023
اردو کے ممتاز شاعر احمد فراز کا یوم ولادت

کراچی میں دو روزہ ادبی میلے کا انعقاد وجود هفته 26 نومبر 2022
کراچی میں دو روزہ ادبی میلے کا انعقاد

مسجد حرام کی تعمیر میں ترکوں کے متنازع کردار پرنئی کتاب شائع وجود هفته 23 اپریل 2022
مسجد حرام کی تعمیر میں ترکوں کے متنازع  کردار پرنئی کتاب شائع