وجود

... loading ...

وجود
وجود

کراچی پر قبضے کا کھیل ؟

پیر 23 جنوری 2023 کراچی پر قبضے کا کھیل ؟

پیپلزپارٹی تو کجا مقتدر قوتوں نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ کراچی بلدیاتی انتخابات میں زبردست دھاندلی کا خوف ناک منصوبہ اسی کا غماز ہے۔ پیپلزپارٹی کا تصورِسیاست اہلِ کراچی کو نہیں بھاتا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو سے اختلافات رکھنے والے بھی جانتے تھے کہ اُن کے دامن میں کچھ سیاسی تصورات تھے، وہ پاکستان کے سیاسی اُفق پر اپنا ایک سایہ رکھتے تھے۔ مگر آصف علی زرداری کی پیپلزپارٹی کے دامن میں کچھ بھی نہیں۔ دولت پر اپنے بے پناہ اعتماد اور سیاست میں بدعنوانی کو ایک قدر کے طور پر راسخ کرنے کے علاوہ اب زرداری ٹولے کے پاس کچھ بھی نہیں ۔ اُن کے ارد گرد پیپلزپارٹی کے سیاسی زعماء نہیں سودا کار رہتے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت (2013تا 2018) میںجب آصف علی زرداری صدر تھے، تو اپنی بدترین معاشی بدعنوانیوں پر اُٹھنے والے سوالات پر وہ کندھے اُچکا لیتے تھے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت میں چند ماہ کی مدت ہی باقی رہ گئی تھی۔وہ مختلف معاشی فضیتوں (اسکینڈلز) کے باعث سوالات کے نرغے میں تھی۔ اُن دنوں ایوان صدر میں صحافیوں کے ساتھ ایک بیٹھک میں جناب زرداری سے سوال ہوا کہ وہ اتنی بڑی بدعنوانیوں کے الزامات کا سامنا انتخابی میدان میں کیسے کر سکیں گے؟ زرداری نے لمحہ بھر تامل کیے بغیر جواب دیا کہ” وہ الیکشن خرید لیں گے”۔جناب زرداری کراچی کے بلدیاتی انتخابات کو بھی خریدنے کی راہ پر گامزن ہیں۔ پاکستان میں پیپلزپارٹی کے کارکنان سمیت کوئی ایک بھی فرد ایسا نہ ملے گا،جو جناب زرداری کی بدعنوانیوں پر یقین نہ رکھتا ہو۔ پاکستان کا پورا عدالتی و سیاسی نظام اس کالی دولت کا محافظ بن چکا ہے۔ چنانچہ ہمیں انتخابی عمل کو یرغمال بنا نے کی ”انتظامی” ہمت کے ساتھ اب اِسے دولت سے قابو کرنے کی بدترین عوام دشمن روش کا بھی سامنا ہے۔کراچی کے بلدیاتی انتخابات نے یہ ثابت کیا کہ انتظامی مشنری اس مکروہ کھیل کی چاکری کرنے میںمصروف رہی۔ الیکشن کمیشن سندھ بالعموم اور بالخصوص کراچی و حیدرآباد میں ایک شفاف انتخاب دینے میں مکمل ناکام رہا۔
کراچی میں پیپلزپارٹی کو پہلی بڑی انتخابی جماعت کے طور پر اُبھارنے کی مشق بھونڈی ، بھدی، گدلی اور گندی ہے ، جس کا دفاع کرنے والے شرم کی ایک ادنیٰ رمق بھی نہیں رکھتے۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج کو اس بُری طرح سے اُدھیڑا گیا ہے کہ اس سے کوئی ایک یونین کمیٹی کا نتیجہ بھی محفوظ نہیں رہا۔ اس گندگی کو پھیلانے کے لیے انتخابی نتائج میں غیر معمولی تاخیر کی گئی ۔ چوبیس گھنٹے سے زائد وقت تک انتخابی نتائج کو التواء میں رکھا گیا۔ الیکشن کمیشن نے سب سے پہلے فارم گیارہ اور بارہ پولنگ ایجنٹوں کو دینے سے انکار کیا۔ یہ اس کے باوجود تھا کہ انتخابات کے دوران مطلوبہ دھاندلی کی جا چکی تھی۔ پھر بھی اس دھاندلی کے باوجود پیپلزپارٹی وہ ہندسہ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہی تھی جو میئر کے انتخاب میں درکار تھا۔ چنانچہ انتخابی نتائج میں تاخیر کر کے اس پر غور کیا گیا کہ میئر کے لیے 124 کا جادوئی ہندسہ حاصل کرنے کے لیے مزید کون سی بے شرمی دکھائی جا سکتی ہے؟ اس دوران جماعت اسلامی کے کارکنان اور تربیت یافتہ پولنگ ایجنٹ ڈٹ گئے اور وہ فارم گیارہ اور بارہ حاصل کیے بغیر پریزائیڈنگ افسران کے سامنے ٹلنے سے انکاری ہو گئے۔ یہاں تحریک انصاف کی تنظیمی کمزوریاں بے نقاب ہوئیں کہ وہ کراچی میں حمایت رکھنے کے باوجود اس کی حفاظت کا کوئی انتظامی ڈھانچہ نہ رکھتی تھی۔ یہاں تک کہ وہ ایسی یوسیز میں بھی پولنگ ایجنٹ تک نہیں رکھتے تھے جہاں سے وہ جیت سکتے تھے، یا جہاں دوسرے نمبر پر تھے۔ اس کا مکمل فائدہ پیپلز پارٹی نے اُٹھایا۔ جس نے زیادہ تر نشستیں تحریک انصاف کی نگل لیں۔ جماعت اسلامی کے پاس اپنی کامیاب نشستوں کا دفاع فارم گیارہ اور بارہ کی شکل میں تھا۔ مگر تحریک انصاف جن یونین کمیٹیوں میں کامیاب ہوئی تھی ، اسے ثابت کرنے کے لیے اُن کے پاس ایسا کوئی دفاع نہیں تھا۔ واضح تھا کہ پیپلزپارٹی ، پی ٹی آئی کو ہڑپنے کے زیادہ بڑے کھیل میں ان کمزوریوں سے فائدہ اُٹھانے کے قابل تھی۔ پھر کراچی بلدیاتی انتخاب کا سب سے بڑا ہدف بھی پیپلزپارٹی کی برتری کے ساتھ پی ٹی آئی کو کھدیڑنا تھا۔ تاکہ یہ عام انتخابات میں کراچی اور سندھ کی حد تک کوئی بڑی جماعت دکھائی نہ دے۔ یہ ہدف صرف پیپلزپارٹی کا نہیں تھا۔ بلکہ یہ اُن ”سلیکٹرز” کا تھا، جن کی اصل سلیکٹڈ جماعت پچھلے اٹھارہ بیس برسوں سے ”پیپلزپارٹی” ہے اور جنہیں سندھ اور کراچی میں بغیر کسی رکاؤٹ کے ہر قسم کی کھلی کرپشن کی ”منافع بخش” اجازت ملی ہوئی ہے۔ اس حوالے سے تمام انتظامی و ریاستی ادارے پیپلزپارٹی کے مجرمانہ طور پر شراکت دار بن چکے ہیں۔ بدقسمتی کا یہ منحوس اتحادی چکر کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں اہلِ کراچی کے لیے زیادہ مایوس کن رہا۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو کو دو دن پہلے یہ یقین دلا دیا گیا تھا کہ حیدرآباد اور کراچی میں پیپلزپارٹی اپنا میئر لانے کا انتظامی بندوبست رکھتی ہے۔ بلاول بھٹو نے انتخابات سے صرف ایک روز پہلے ذرائع ابلاغ کے سامنے اس کا اعلان بھی کردیا۔ یہ اعلان کسی عوامی حمایت پر نہیں بلکہ نظام کی یقین دہانی اور انتظامی بندوبست کا نتیجہ تھا۔ جناب زرداری کی سرپرستی میں ایک سسٹم مافیا کا کراچی میں بے حد چرچا ہے۔ جو اے جی مجید کے ذریعے کارگزار ہے۔ کراچی اور حیدرآباد سمیت سندھ کے تمام اہم علاقوں میں جہاں زمینوں پر قبضوں کا دھندا کیا جاتا ہے، وہاں انتظامی مشنری اور ڈپٹی کمشنرز کا تقرر یہی مافیا کرتا ہے۔ کراچی و حیدرآباد کے بلدیاتی انتخاب میں اس انتظامی مشنری کی ہی الیکشن کمیشن سے تال میل تھی۔ اس کھیل کی اجازت دینے والے ایک بار پھر تاریخ کا سبق فراموش کرگئے۔ اُنہیں 1971ء کا سانحہ یاد نہیں رہا۔
متحدہ پاکستان میں7 دسمبر 1970ء کے پہلے عام انتخابات میںیہ پیپلزپارٹی ہی تھی جس نے مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ قومی اسمبلی کی کل 300نشستوں میں سے حکومت سازی کے لیے درکار 151کا ہندسہ عوامی لیگ کے پاس تھا، جس نے 160نشستیں حاصل کر لی تھیں۔ اس کے برعکس پیپلزپارٹی نے 81نشستیں حاصل کی تھیں۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو نے مقتدر قوتوں کے ساتھ مل کر عوامی لیگ کا پاکستان پر حق حکمرانی تسلیم نہیں کیا۔ کراچی میں یہ معاملہ اس سے کہیں زیادہ بھیانک ہے، کیونکہ یہاں پر پیپلز پارٹی نے نشستیں بھی جعل سازی سے حاصل کی ہے یعنی وہ اپنا میئر اُن نشستوں کی تعداد پر لانا چاہ رہی ہے جو دراصل جیتی ہوئی نہیں بلکہ ہتھیائی ہوئی ہیں۔ یہی نہیں، پیپلزپارٹی ہتھیائی ہوئی نشستوں کے باوجود میئر کے لیے 124 نشستوںکا وہ ہندسہ نہیں رکھتی جو میئر کے لیے درکار ہے۔ اس کے لیے وہ جناب زرداری کی کالی دولت پر انحصار کررہی ہے جو دیگر جماعتوں کے کامیاب چیئرمین خرید کر میئر کے لیے مطلوب حمایت بہر قیمت حاصل کرنے پر تُلی بیٹھی ہے۔ اگرچہ پیپلزپارٹی نے اپنے میئر کے اِصرار کے ساتھ جماعت اسلامی کو اتحاد کی پیشکش کی ہے، مگر وہ اپنا میئر لانے کے لیے کسی جماعت کی حمایت کے بجائے ہر جماعت کو توڑنے اور اس کے اندر سے چیئرمین کی حمایت ”خریدنے” پر ہی زیادہ انحصار کر رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ جسے جو آتا ہے، وہ وہی کرتا ہے۔ اس کھیل میں پیپلزپارٹی سیاست نہیں کاروبار کر رہی ہے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کے یوسی چیئرمین سب سے زیادہ غیر محفوظ ہیں، جن میں سے کافی سارے برائے فروخت ہیں۔ افسوس ناک طور پر پیپلزپارٹی کراچی کی میئرشپ کے لیے جس کھیل کو رچا رہی ہے وہ ذہنی طور پر اہلِ کراچی کو مکمل مایوس کررہا ہے۔ وہ انتخابی عمل میں اپنے مینڈیٹ پر قبضے کے دیرینہ کھیل کے تسلسل کو دیکھتے ہوئے اب سیاسی جماعتوں سے نہیں بلکہ بااثر قوتوں سے مایوس ہو رہے ہیں۔ اگلے ماہ وسال کراچی ایک خونی ردِ عمل کے راستے پر جاسکتا ہے اور یہ صرف پی ٹی آئی کو ناکامی سے دوچار دکھانے کے لیے پیپلزپارٹی کو ملنے والی کھلی چھٹی کے باعث ہو گا۔ مقتدر قوتیں اس کھیل سے جو حاصل کر رہی ہیں، اس کے بجائے یہ حساب لگائیں کہ وہ اس کھیل میں کھو کیا رہی ہیں؟ کراچی کا مینڈیٹ چُرانے کے چار دہائیوں سے زیادہ پُرانے کھیل کے نتیجے میں اہلِ کراچی پر کیا نفسیاتی اور سیاسی اثرات مرتب ہو رہے ہیں، اس پر توجہ دینے کے لیے ابھی کوئی تیار نہیں۔مگر اس کے ردِ عمل کی چاپ بہت جلد سب کو متوجہ کر ے گی، مگر تب وقت گزر چکا ہوگا۔افسوس تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
میں مینار پاکستان ہوں! وجود جمعرات 23 مارچ 2023
میں مینار پاکستان ہوں!

آٹے کے ساتھ دو تھپڑ مفت وجود جمعرات 23 مارچ 2023
آٹے کے ساتھ دو تھپڑ مفت

اِس حادثہ وقت کو کیانام دیا جائے وجود جمعرات 23 مارچ 2023
اِس حادثہ وقت کو کیانام دیا جائے

23 مارچ 1940 ء کے تاریخی جلسے کا آنکھوں دیکھا حال وجود جمعرات 23 مارچ 2023
23 مارچ 1940 ء کے تاریخی جلسے کا آنکھوں دیکھا حال

لیڈی ہائی جیکر وجود بدھ 22 مارچ 2023
لیڈی ہائی جیکر

پینے کے صاف پانی کی کمی وجود بدھ 22 مارچ 2023
پینے کے صاف پانی کی کمی

اشتہار

تہذیبی جنگ
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے

توہین آمیز مواد نہ ہٹانے پر وکی پیڈیا بلاک کر دیا گیا وجود هفته 04 فروری 2023
توہین آمیز مواد نہ ہٹانے پر وکی پیڈیا بلاک کر دیا گیا

برطانوی رکن پارلیمنٹ کی پاکستانیوں سے متعلق بیان پر معافی وجود بدھ 01 فروری 2023
برطانوی رکن پارلیمنٹ کی پاکستانیوں سے متعلق بیان پر معافی

اوآئی سی کا غیر معمولی اجلاس، یورپ میں قرآن مجید جلانے کے اشتعال انگیز واقعات کی مذمت وجود بدھ 01 فروری 2023
اوآئی سی کا غیر معمولی اجلاس، یورپ میں قرآن مجید جلانے کے اشتعال انگیز واقعات کی مذمت

مودی سرکار کی مسلم تاریخ مٹانے کی مہم، ایوان صدر کے مغل گارڈن کا نام تبدیل وجود پیر 30 جنوری 2023
مودی سرکار کی مسلم تاریخ مٹانے کی مہم، ایوان صدر کے مغل گارڈن کا نام تبدیل

بھارتی انتہا پسندوں کا حکومت سے ٹیپو سلطان سے منسوب باغ کا نام بدلنے کا حکم وجود اتوار 29 جنوری 2023
بھارتی انتہا پسندوں کا حکومت سے ٹیپو سلطان سے منسوب باغ کا نام بدلنے کا حکم

اشتہار

شخصیات
انقلابی شاعر حبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 30 برس بیت گئے وجود اتوار 12 مارچ 2023
انقلابی شاعر حبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 30 برس بیت گئے

جسٹس (ر) ملک محمد قیوم انتقال کر گئے وجود جمعه 17 فروری 2023
جسٹس (ر) ملک محمد قیوم انتقال کر گئے

معروف ہدایت کار، اداکار اور ٹی وی میزبان ضیاء محی الدین انتقال کر گئے وجود پیر 13 فروری 2023
معروف ہدایت کار، اداکار اور ٹی وی میزبان ضیاء محی الدین انتقال کر گئے
بھارت
بھارت کے لیے نامزد امریکی سفیر کا نام 2 سال کی تاخیر کے بعد منظور وجود جمعرات 16 مارچ 2023
بھارت کے لیے نامزد امریکی سفیر کا نام 2 سال کی تاخیر کے بعد منظور

بھارت کے تیار کردہ کھانسی کے شربت سے بچوں کی ہلاکت، کمپنی کے 3 ملازمین گرفتار وجود اتوار 05 مارچ 2023
بھارت کے تیار کردہ کھانسی کے شربت سے بچوں کی ہلاکت، کمپنی کے 3 ملازمین گرفتار

خالصتان تحریک، مودی سرکار کی بھارتی پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کی سازش وجود هفته 04 مارچ 2023
خالصتان تحریک، مودی سرکار کی بھارتی پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کی سازش

برطانوی اخبار نے مودی سرکار کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب کر دیا وجود پیر 20 فروری 2023
برطانوی اخبار  نے مودی سرکار کا گھناؤنا چہرہ بے نقاب کر دیا
افغانستان
افغان صوبہ کنڑ میں فائرنگ، کالعدم ٹی ٹی پی کمانڈر نور سعید محسود ہلاک وجود جمعرات 23 فروری 2023
افغان صوبہ کنڑ میں فائرنگ، کالعدم ٹی ٹی پی کمانڈر نور سعید محسود ہلاک

طالبان قیادت میں غیر معمولی اختلافات، وزیرداخلہ سراج الدین حقانی کی اعلی قیادت پر تنقید وجود هفته 18 فروری 2023
طالبان قیادت میں غیر معمولی اختلافات، وزیرداخلہ سراج الدین حقانی کی اعلی قیادت پر تنقید

سعودیہ کے بعد امارات نے بھی افغانستان میں سفارت خانہ بند کر دیا وجود پیر 06 فروری 2023
سعودیہ کے بعد امارات نے بھی افغانستان میں سفارت خانہ بند کر دیا
ادبیات
اردو کے ممتاز شاعر احمد فراز کا یوم ولادت وجود جمعرات 12 جنوری 2023
اردو کے ممتاز شاعر احمد فراز کا یوم ولادت

کراچی میں دو روزہ ادبی میلے کا انعقاد وجود هفته 26 نومبر 2022
کراچی میں دو روزہ ادبی میلے کا انعقاد

مسجد حرام کی تعمیر میں ترکوں کے متنازع کردار پرنئی کتاب شائع وجود هفته 23 اپریل 2022
مسجد حرام کی تعمیر میں ترکوں کے متنازع  کردار پرنئی کتاب شائع