وجود

... loading ...

وجود
وجود

ایم کیوا یم اور پیپلزپارٹی کا اتحاد، رنگ لانے لگا ہے

پیر 19 دسمبر 2022 ایم کیوا یم اور پیپلزپارٹی کا اتحاد، رنگ لانے لگا ہے

 

سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کے لیئے جب پاکستان پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کے درمیان 18 نکاتی ’’چارٹر آف رائٹس ‘‘ نامی معاہدہ طے پایا تھا تواُس وقت بہت ہی کم لوگوں کو یہ یقین تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی مذکورہ معاہد ہ پر من و عن عمل درآمد کرے گی ۔ کیونکہ زیادہ تر افراد کا یہ ہی ماننا تھا کہ ’’چارٹر آف رائٹس‘‘نظریہ ضرورت کے تحت کیا جانے والا فقط ایک وقتی ’’سیاسی معاہدہ ‘‘ہے اور جیسے ہی تحریک عد م اعتماد کامیاب ہونے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کا بوریا بستر گول ہوجائے گا ،تو اُس کے کچھ اُس عرصہ بعد ہی پیپلزپارٹی ’’چارٹر آف رائٹس ‘‘ سے دست بردار ہوجائے گی ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عمران خان کے ایوانِ اقتدار سے رخصت ہونے کے بعد کئی ماہ تک جب مذکورہ معاہدہ پر عمل درآمد نہیں ہوا تو ایم کیو ایم کی قیادت کو بھی یہ اندیشے لاحق ہونے لگے تھے کہ شاید پیپلزپارٹی اُن کے ساتھ دستخط کئے گئے معاہدہ پر عمل درآمد کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے اور ’’چارٹر آف رائٹس‘‘ پر عمل درآمد کے حوالے سے ہونے والی تاخیر پر ایم کیو ایم رہنماؤں نے پیپلزپارٹی اور سندھ حکومت کے خلاف ذرائع ابلاغ میں بڑھ چڑھ کر جارحانہ سیاسی بیانات بھی دیئے ۔ جس کے جواب میں پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ہمیشہ یہ ہی موقف اختیار کیا کہ اُن کی جانب سے ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ کئے گئے معاہدہ ’’چارٹر آف رائٹس ‘‘ پر بہر صور ت عمل کیا جائے گا۔
یاد ش بخیر ! دیر آید درست آید کے مصداق پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنا سیاسی وعدہ نبھایا اور ’’چارٹر آف رائٹس ‘‘ میں درج اکثر نکات یعنی مطالبات کو درست تسلیم کرتے ہوئے اُن پر عمل درآمد بھی کر کے دکھا دیا ہے۔مثال کے طور پر سب سے پہلے ایم کیو ایم کے رہنما کامران ٹیسوری کو گورنر سندھ کا عہدہ دیا گیا اور اَب ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضی وہاب سے استعفا لے کر اُ ن کی جگہ ایم کیو ایم کے نامزد کردہ معروف بیورو کریٹ ڈاکٹر سیف الرحمن کو ایڈمنسٹریٹر کراچی کے عہدہ پر تعینات کردیا گیاہے ۔ نیز پیپلزپارٹی نے کراچی کے 7 سات اضلاع میں سے فی الحال 3اضلاع (کورنگی، شرقی اور وسطی ) کی ایڈمنسٹریٹر شپ بھی ایم کیو ایم کے حوالے کرنے کا اعلان کردیا ہے۔جبکہ گورنر سندھ کامران ٹیسوری کی کوششوں سے ایم کیو ایم پاکستان نے باضابطہ طور پر سندھ حکومت میں شامل ہونے پر بھی رضامندی ظاہر کردی ہے اورغالب امکان ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کے کم ازکم تین وزراء اگلے ایک دوہفتے تک اپنے اپنے عہدے کاحلف اٹھالیں گے۔ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم کی جانب سے سندھ حکومت میں صوبائی وزارتوں کے لیئے جو نام تجویز کئے گئے ہیں ان میں سرفہرست جاوید حنیف کو وزارتِ بلدیات، محمدحسین کو امور نوجوان و کھیل کا وزیر جبکہ رعنا انصار کو خواتین اور انسانی حقوق کی صوبائی وزارت کا قلم دان دیا جائے گا۔ علاوہ ازیں ایم کیو ایم پاکستان کی سندھ حکومت میں شمولیت کے بعد اُسے سندھ کابینہ میں ایک مشیر اور ایک معاون خصوصی کا عہدہ بھی دیا جائے گا ۔
دوسری جانب ’’چارٹر آف رائٹس ‘‘میں ایم کیوایم نے سندھ کے شہری علاقوں کے لیئے سرکاری ملازمتیں فراہم کرنے کا اپنا دیرینہ مطالبہ بھی لکھوایا تھا۔اچھی بات یہ ہے کہ جونیئر اسکول ٹیچر ز اور پرائمری اسکول ٹیچرز کی بھرتیاں کرتے وقت سندھ حکومت نے ایم کیو ایم کے مذکورہ مطالبہ کو بھی خاص طور پر ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے، اِس بار میرٹ پر بڑی تعداد میں شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والوں نوجوانوں کو جے ایس ٹی اور پی ایس ٹی کی سرکاری ملازمتوں کے تقررنامے تقسیم کیئے ہیں ۔ شاید یہ تاریخ میں پہلی بار ہورہا ہے کہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کی جانب سرکاری ملازمتوں پر تعینانی کے لیئے صرف اور صرف میرٹ کی سختی کے ساتھ پاس داری کرنے کا التزام کیا گیا ہے۔ یقینا پاکستان پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت بالخصوص وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ ،میرٹ کی بالادستی کو فروغ دینے کا تاریخی کارنامہ انجام دینے پرغیر معمولی ستائش کے مستحق ہیں ۔ اگر سیاسی روادری کا یہ سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رہتا ہے تواُمید کی جاسکتی ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں میں پیپلزپارٹی کے اثرو نفوذ میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا۔ جس کا ایک ہلکا سا’’سیاسی نظارہ‘‘ ہم صوبہ سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج کی صورت میں ملاحظہ بھی کرچکے ہیں ۔
ہماری دانست میں ’’چارٹر آف رائٹس ‘‘ میں درج ایم کیوایم پاکستان کے تمام مطالبات پر پیپلزپارٹی نے عمل درآمد کردیا ہے ،سوائے صرف ایک سیاسی مطالبہ کے ۔یعنی ایم کیو ایم کے سیاسی دفاتر ابھی تک نہیں کھل سکے ہیں ۔حالانکہ غیر مصدقہ خبریں یہ بھی ہیں کہ کراچی ،حیدرآباد کے بعض علاقوں میں محدود پیمانے پر ہی سہی ایم کیو ایم کے دفاتر کھل بھی رہے ہیں اور اُ ن میں مختلف نوعیت کی سیاسی سرگرمیاں بھی انجام دی جارہی ہیں ۔ تاہم چند علاقے ضرور ایسے ہیں جہاں ایم کیو ایم پاستان کو اپنی سیاسی سرگرمیاں انجام دینے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے ۔ مگر یہ رکاؤٹیں زیادہ تر ایم کیوایم رہنماؤں کے آپسی اختلافات اوراُن کی عوام میں عدم مقبولیت کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں ۔ وگرنہ سندھ حکومت یا پھر قانون نافذ کرنے والے کسی بھی ادارے کی جانب ایم کیو ایم کی خالص سیاسی سرگرمی کی راہ میں کسی بھی قسم کی انتظامی رکاؤٹ حائل نہیں کی جارہی ہے۔
دراصل ایم کیوایم کے لیئے اس وقت سب سے بڑا سیاسی چیلنج پاکستان پیپلزپارٹی نہیں بلکہ اُن کے اپنے اندرونی اختلافات ہیں ۔جبکہ پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت تو چاہتی ہے کہ ایم کیوا یم کراچی میں سیاسی طور پر مضبوط ہو ،تاکہ اگلے قومی و صوبائی انتخابات میں تحریک انصاف کو سندھ کے شہری علاقوں میں اپنا سیاسی کھیل کھیلنے کا زیادہ موقع نہ مل سکے ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ آصف علی زرداری اگلے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو سندھ سے ناک آؤٹ کرنے کے لیئے ایم کیوا یم کے ساتھ مل کر انتخابات لڑنے کا ذہن بناچکے ہیں ۔اَب فیصلہ ایم کیو ایم کی قیادت نے کرنا ہے کہ وہ کراچی و حیدرآباد سے پی ٹی آئی کا سیاسی پتہ صاف کرنے کے لیے کتنی بھرپور سیاسی قوت کے ساتھ انتخابی میدان میں اُترتی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر