وجود

... loading ...

وجود
وجود

اب ایک اور عمران آرہا ہے

هفته 03 دسمبر 2022 اب ایک اور عمران آرہا ہے

پاکستان میں عسکری قیادت کی تبدیلی کے مرحلے کی تکمیل کے بعدپاکستان کی سیاست میں تبدیلی کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا اس کی بنیادی وجہ ملک کے معاشی حالات ہیں جس کی خرابی کی وجہ سے ملک کا مستقبل خطرے سے دوچار ہے معاشی بہتری کے لیے سیاس استحکام کی فوری ضرورت ہے پی ٹی آئی کے نز دیک اس کا حل عام انتخابات ہیں عمران خان کے پنجاب اور پختون خواہ صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے اعلان کے ساتھ ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ شدّت سے جاری رہے گا انتخابات کو مقررہ وقت پر آئندہ سال اگست میں منعقد کرنے یا اسے طول دینے سے پی ڈی ایم کی جماعتیں مزید کمزور ہوجائیں گی اور ان جماعتوں میں اندرونی خلفشار کو مزید تقویت ملے گی پی ڈی ایم کی جماعتوں کی قیادت اقتدار کو طوالت دینے کی کوششوں کی وجہ سے اپنے ووٹ بنک سے محروم ہوتی جارہی ہیں یہ محض ایک خیالی پلائو ہے کہ دو سال بعدانتخابات کرانے سے پی ڈی ایم اقتدار میں واپس آجائے گی وہ اپنی آٹھ ماہ کی کارکردگی سے ثابت کر چکی ہیں کہ وہ معیشت کو مزید زوال کی طرف دھکیل دیں گی پی ڈی ایم کی قیادت کو عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندہ قیادت کی حیثیت سے پذیرائی نہیں مل رہی ہے پی ڈی ایم کے رہنما اس زمینی حقیقت کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیںکہ ان کے عمران خان کے خلاف بیانات کا قومی اور بین الاقوامی سطح پر اصل فائدہ عمران خان کو ہورہاہے اور اگر عمران خان کو سیاست سے باہر کربھی دیا جائے اس صورت میں بھی پی ڈی ایم کو ایک اور مزید طاقتور عمران خان کا سامنا کرنا ہوگا اور نیا عمران خان ہر گلی اور گھر تک پہنچ جائے گا یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بجلی کے بھاری بل ، پٹرول اور اشیاء ضرورت کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ عوام میں غصے اور نفرت کے جذبات کو اس قدر ہوا دے چکاہے لوگ پی ڈی ایم سے دور اور پی ٹی آئی سے قریب ہو رہے ہیں پی ڈی ایم کی بقا اپوزیشن میں ممکن ہے لیکن اقتدا ر میں کسی بھی صورت میں ممکن نہیں ہے پی ٹی آئی جس تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اس کے لیے اپنی ہی جماعت کومتحدکھنا بہت مشکل ہوگا اور وہ ممکنہ طور پر مستقبل میں تقسیم ہو جائے گی ایسی صورت میں بھی اس بات کا خدشہ برقرار رہے گا کہ اول اور دوئم نمبر پر بھی پی ٹی آئی ہوگی پی ڈی ایم کی جماعتوں کو اپنا وجود برقرار رکھنا معجزہ ہوگا دراصل انتخابات سے بھاگ کر پی ڈی ایم ووٹ بینک کو تباہ کر رہی ہے۔
ایک جانب پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کے درمیان پس پردہ بالواسطہ مذاکرات جاری ہیںصدر پاکستان کا ثالثی کا کردار سامنے آچکا ہے دونوں جانب کے بعض رہنمائوں کو امید ہے کہ شاید نتائج مثبت ہوں گے لیکن اکثریت بے یقینی کا شکار ہے موجودہ بحران اور سیاسی بے یقینی کے پس منظر کاجائزہ لیا جائے تو ان مذاکرات کی سمت اور ممکنہ نتائج کا اندازہ لگایا جاسکتاہے رواں سال کے آٹھ مارچ کو تحریک عدم اعتماد اور نو اپریل کو عمران کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اب تک پاکستان کی سیاست میں حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ایک ایسی شدید سیاسی محاذ آرائی جاری ہے جس کے خاتمے کے آثار بہت محدود ہیں دوسری جانب موجودہ حکومت کو معاشی میدان میں شدید مشکلات کا سامنا ہے مہنگائی نے لوگوں کو پریشان کردیا ہے بجلی کے بل عوام کی برداشت سے باہر ہیںصنعت اور تجارت انتہائی سست روی کا شکار ہیںبے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے عوام کا رجحان پی ٹی آئی کی جانب ہے یہ ایک فطری عمل ہے کہ اس وقت جو بھی مہنگائی کے خلاف بات کرے گا اسے عوامی حمایت ملے گی پی ٹی آئی کو یقین ہے کہ عام انتخابات میں وہ بھاری اکثریت حاصل کرلیں گے گذشتہ آٹھ ماہ کے دوران پاکستان کے تمام ادارے شدید دبائو میں ہیںجس میں عدلیہ بھی شامل ہے ممتاز صحافی ارشد شریف کے کینیا میں قتل،سینیٹر اعظم سواتی پر تشدّد اور عمران خان پر قاتلانہ حملے جیسے واقعات نے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا جبکہ پی ڈی ایم کا خیال ہے کہ انتخابات کو اس وقت تک ٹال دیا جائے جب تک عمران خان کی سیاسی جماعت کو کئی جما عتوں میں تقسیم نہیں کردیا جاتااور عمران خان کو نااہل کرکے سیاست سے باہر نہیں کردیا جاتا اور ماحول ساز گار نہیںہوجاتاپی ڈی ایم کے رہنما موجودہ اسمبلی کی مدت میں اضافہ کرنے کا اشارہ دے چکے ہیںعمران خان کو سیاسی منظر سے باہر کرنے کے بعد پی ٹی آئی کے کسی ایک گروپ کو پی ڈی ایم میں شامل کرنے کی راہ ہموار ہوسکتی ہے جس کے لیے پس پردہ طاقتور حلقوں کی سرپرستی ضروری ہے۔
موجودہ بحرانی کیفیت میں تلاطم اور ہیجان کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے عمران خان کو سیاست سے باہر کرنے کا عمل آسان نہیں ہوگا اس کے نتیجے میں انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہوگا زمینی حقائق یہ ہیںکہ لوگ مہنگائی کے خاتمے اور بجلی کے بلوں میں فوری کمی چاہتے ہیں مہنگائی سے وہ بہت زیادہ تنگ ہیںایسے موقع پر پی ڈی ایم کی جماعتیں عمران خان کے خلاف بیانات سے پی ٹی آئی کو فائد ہ پہنچارہی ہیںکیونکہ وہ ان بیانات پر جواب دے کر مزید میڈیا کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں حکومت انہیں میڈیا سے باہر کرنے کے بجائے اس کی مزید توجہ کامرکز بناتی ہے یہ ایک فطری امر ہے کہ لوگ الزام کا جواب چاہتے ہیں البتہ الزامات سے فائدہ اٹھانے میں انتہائی مہارت پی ٹی آئی کے پاس ہے جوابی الزامات سے پی ڈی ایم کو پچھلے قدموں میں دھکیل دیتے ہیںاور عمران خان کے ساتھی مزید تیزی سے کام کرنے لگتے ہیںاوپی ڈی ایم کے بعض ارہنما ئو ں کو پی ٹی آئی میں شامل کر لیتے ہیں جیسے ہی حالیہ الزامات عائد کیے گئے پیپلز پارٹی ،جے یوآئی اور ن لیگ کے چند رہنمائوں کو ساتھ ملالیا الزامات کا سلسلہ عمران خان کے سیاست میں آنے سے لے کر اب تک جاری ہے جس میں ان کی جمائمہ خان سے شادی کے بعد یہودی ایجنٹ قرار دینا ،ان کی دوسری شادی کے بعد ریحام خان کی جا نب سے نشہ کرنے کے الزامات،کفر کے فتوے ،غیر ملکی فنڈزکا حصول،شوکت خانم ہسپتال کے فنڈز میں خرد برداور اب توشہ خانہ وغیرہ شامل ہیں لیکن عمران خان کی مقبولیت مسلسل بڑھ رہی ہے وجہ یہ ہے کہ لوگ پی ڈی ایم کے رہنمائو ں پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہیں متبادل عمران خان ہے تعلیم یافتہ نوجوان نسل کی بڑی تعداد اس کی موثر ٹیم بن کر کام کر رہی ہے جس میں اضافہ ہو رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ا


متعلقہ خبریں


مضامین
عوامی خدمت کا انداز ؟ وجود منگل 16 اپریل 2024
عوامی خدمت کا انداز ؟

اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے! وجود منگل 16 اپریل 2024
اسرائیل کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ چکی ہے!

آبِ حیات کاٹھکانہ وجود منگل 16 اپریل 2024
آبِ حیات کاٹھکانہ

5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین وجود منگل 16 اپریل 2024
5 اگست 2019 کے بعد کشمیر میں نئے قوانین

کچہری نامہ (٢) وجود پیر 15 اپریل 2024
کچہری نامہ (٢)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر