وجود

... loading ...

وجود
وجود

باجوہ صاحب ! گمنامی کہاں؟

بدھ 30 نومبر 2022 باجوہ صاحب ! گمنامی کہاں؟

باجوہ صاحب ! گمنامی کہاں؟ بغداد کے صوفی نے رسان سے کہاں تھا: عافیت گمنامی میں ہے، وہ میسر نہ ہو توتنہائی میں، وہ میسر نہ ہو تو خاموشی میں اور وہ بھی میسر نہ ہو تو صحبت ِ سعید میں”۔ اب کہاں گمنامی میسر ، اور گمنامی نہیں تو عافیت کہاں! گم نامی اموی خلفیہ کو موزوں تھی اور تنہائی حضرت ابو ذر غفاری کو زیبا ۔ جنرل ڈگلس میکارتھر پر یہ الفاظ سجتے تھے، مگر آپ کے لبوں پر مچلتے ہوئے یہ ہچکچاتے کیوں رہے؟

“Old Soldiers Never Die, They Just Fade Away”
(پرانے سپاہی کبھی نہیں مرتے، وہ فقط نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں)

۔
امریکی جنرل میکارتھر نے جاپان کے سیاہ ترین دور میں اس کا کنٹرول سنبھالا تھا۔ امریکا نے دوسری جنگ عظیم کے دوران 6 اگست کو ہیروشیما اور 9 اگست 1945ء کو ناگا ساکی پر ایٹمی بم گرائے ۔ ایک کھنڈر کی طرح جاپان ڈھہ رہا تھا۔تب جاپان کے منظر پر شیگرو یوشیدا کی قیادت اُبھرتی ہے۔ وہ ایک ایسی عمر میں اقتدار حاصل کرتا ہے جب دوسرے ریٹائر ہو چکے ہوتے ہیں۔ یہی وہ وقت تھا جب امریکی جنرل میکارتھر اور جاپانی وزیراعظم یوشیدا میں ایک ہم آہنگی قائم ہوتی ہے۔ متصادم ماحول اور ایک متضاد مساوات میں یہ دونوں سماجی، معاشی اور سیاسی طور پر جاپان کو تبدیل کردیتے ہیں۔اس غیر معمولی کامیابی میں جب میکارتھر کے سائے امریکا میں لمبے ہوتے جا رہے تھے، امریکی صدر ٹرو مین اور میکارتھر سیاسی کشمکش میں اُلجھ جاتے ہیں۔ سیاسی نظام ایسے ہی طاقت نہیں پکڑتے۔میکارتھر کے عروج میں امریکی صدر اُنہیں اُٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں۔ ریٹائرڈ جنرل باجوہ کو اپنے آخری خطاب میں امریکی جنرل میکارتھر کے آخری خطاب کے الفاظ کیوں یاد آئے، حیرت ہوتی ہے۔ ہر امریکی صدر کو بھی ایسا خیرمقدم نصیب نہیں ہوتا، جو امریکی جنرل میکارتھر کے حصے میں آیا تھا۔ اُنہیں کانگریس اور سینیٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے لیے مدعو کیا گیا۔ کبھی نہیں ایک جنرل کو کبھی ایسا موقع امریکی سیاسی تاریخ میں نہیں ملا۔ ایسا شاہانہ خیر مقدم تاریخ پر بھی اپنا سحر چھوڑجاتا ہے۔ جنرل میکارتھر نے خود کو اس کا مستحق ثابت کیا تھا۔ یہ اپریل کی 19تاریخ تھی اور سال 1951ئ۔ وہ اپنے عہد کی سب سے بڑی سیاسی مخالفت کے شکار ہونے کے باوجود گونج رہے تھے۔ ارکان کانگریس میکارتھر کے زوردار خطاب کے دوران مبہوت تالیاں بجاتے رہے، تب وہ اپنے اختتامی کلمات ادا کرتے ہیں: پُرانے سپاہی کبھی نہیں مرتے، وہ فقط نظروں سے اوجھل ہو جاتے ہیں۔” پھر وہ شاہانہ انداز سے نیچے اُترتے ہیں۔ تب ایک رکن کانگریس کہتا ہے: اس نے ابھی یہاں خدائی آواز سنی تھی۔” ایک اور رکن نے ازرہِ تفنن فقرہ اچھالا: میکارتھر کی تقریر سے ریپبلکن پارٹی کی آنکھیں بھیگی تھیں اور ڈیمو کریٹس کی پتلونیں۔”
جناب ریٹائرڈ جنرل باجوہ کو میکارتھر کیوں سوجھے؟ اُن کے خطاب کے دوران میں مجمع کی گفتگو مکھیوں کی طرح بھنبھناہٹ کی آواز پیدا کر رہی تھی۔ سوشل میڈیا پر تمام حلقوں سے ہی ”یوم نجات ” کا رجحان بھیڑ پکڑ رہا تھا۔میکارتھر کے کنج ِ لب سے پھوٹنے والے الفاظ تاریخ کی آواز تھے، مگر ریٹائرڈ جنرل باجوہ یہ الفاظ دُہراتے ہوئے تاریخ کے انتقام کی آہٹیںخود سن رہے تھے۔ مناصب کی طاقت سے خودفراموشوں پر نہیں، یہ الفاظ تو سچے سپاہیوں پر سجتے ہیں۔ اختیارات کو اپنی طاقت سمجھ کر زندگی کرنے والوں پر وقت آتا ہے تو گم نامی بھی اُن کے اپنے اختیار میں نہیں رہتی۔ تاریخ اُن گم نامیو ں کی قدر کرتی ہے جو بااختیار لوگ ، اختیار کی جواب دہی کے وفور ِ احساس میں اختیار کرتے ہیں۔ انسانوں کو ریوڑوں کی طرح ہانکنے اور موت بانٹنے کے مناظر دیکھتے ہوئے اموی خلیفہ صرف تین ماہ کے بعد اقتدار سے دست بردار ہو گئے، فرمایا: مجھ میں حکومت کا بوجھ اُٹھانے کی طاقت نہیں۔” گم نامی اُن کو زیبا تھی۔ پھر تنہائی ابوذر غفاری کو شایان ِ شان تھی جو ایک ویرانے میں جابسے۔ خاتم النبیۖ کا فرمان مبارک جن کے متعلق تھا کہ وہ موت کو صحرا میں دیکھیں گے، یہاں تک کہ مسلمانوں کی ایک جماعت اُن کے پاس پہنچے گی۔ حضرت ابوذر غفاری کی قبر ویرانے میں اللہ کے نور سے آباد رہتی ہے۔ کیا وہ منظر ہوگا، جب مسلمانوں کی جماعت دم مرگ اُن کے پاس پہنچی تو اُنہوں نے متانت سے محبوب خدا ۖ کی پیشن گوئی سنائی اور پھر قسم دی کہ تم میں سے جو شخص حکومت کا ادنیٰ عہدہ دار بھی ہو وہ مجھے کفنانے میں شریک نہ ہو۔”حکومت میں رہے ادنیٰ عہدے دار بھی اس قدر آلودہ ہوتے ہیں کہ تنہائیاں اُنہیں گوارا نہیں کرتیں،چہ جائیکہ اعلیٰ مناصب کے حاملین جو انسانوں پر لوہے سے حکومت کرنا چاہتے ہوں۔
ریٹائرڈ جنرل باجوہ کے پاس اپنے آخری خطاب میں کہنے کو کچھ بھی نہیں تھا۔ اُن کے الفاظ اُن کے چھ سالہ عسکری دور سے مناسبت نہ رکھتے تھے۔ وہ ہچکچاتے اور لڑکھڑاتے لہجے میں ایک ایسا خطاب فرما رہے تھے جس پر بولنے اور سننے والے دونوں ہی کو یقین نہ تھا۔ اُن کا چھ سالہ دور پاکستان کے لیے کوئی اچھی خبر نہیںلاسکا۔ مگر اس دور میں ایسے تنازعات نے سراُٹھایا جس کے باعث مسلح افواج کا عوام سے تعلق کمزور ہوا۔عوام کی نظروں میں سا لمیت وطن کے ضامن ادارے کے اعتبارکے حوالے سے جو سوالات پیدا ہوئے وہ آسانی سے ختم نہ ہو سکیں گے، او رجو نقصان ہوا ہے وہ شاید کبھی پورا نہ ہو سکے۔ ریٹائرڈ جنرل باجود اپنے آخری دو دنوں میں بھی اپنی طاقت کے استعمال سے دامن نہ بچا سکے۔ ان آخری دو دنوں میں بھی بعض ایسی گرفتاریاں ہوئیں اور کچھ ایسے مقدمات قائم ہوئے جو اُن کا تعاقب کرتے رہیں گے۔ اُن کی گمنامی کی خواہش کو پورا نہیں ہونے دیںگے۔ ایسا شاید پہلی دفعہ ہوا ہے کہ رخصت ہونے والا فوجی سربراہ مختلف فضیتوں (اسکینڈلز ) کے لیے جواب دہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے بدترین جرنیلوں کی رخصتی کے ایام بھی ایسے نہ تھے کہ اُن کے ساتھ اُن کے اہل ِ خاندان پر بھی سوالات کھڑے کر دیے گئے ہوں۔یہ سوالات ایسے نہیں کہ ریٹائرڈ جنرل باجوہ کو میکارتھر کے الفاظ ڈھارس دے سکیں یا اُن کی گم نامی کی خواہش کو پورا ہونے دیں۔
ریٹائرڈ جنرل باجوہ گم نامی کی خواہش کے ساتھ اس سوال پر غور کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے پیش رو فوجی سربراہ سے مختلف رخصتی کے سزاوار کیوں ہوئے؟ جنرل راحیل شریف جب رخصت ہورہے تھے تو سماجی ذرائع ابلاغ (سوشل میڈیا)پر تھینک یو جنرل راحیل کے رجحان جگمگاتے رہے۔ سوالات اُن پر بھی تھے، مگر وہ بے توقیر نہ کیے گئے اور اُن کی رخصتی آبرو مندانہ رہی۔حیرت ہوتی ہے، جنرل راحیل کی رخصتی کے صرف دو ماہ بعد ہی 24 جنوری 2017ء کو ایک خبر چلائی گئی کہ انہیں861کنال (تقریباً 90ایکڑ) زمین لاہور کے قریب بیدیاں روڈ پر الاٹ کی گئی ہے۔ تب اس کی مالیت کا اندازا کم وبیش تین سے چار ارب روپے لگایا جاتا تھا۔ خاص بات یہ تھی کہ یہ زمین جنرل راحیل شریف نے خود ہی اپنے آپ کو الاٹ کی تھی۔ اس خبر نے جنرل راحیل شریف کی مسٹر کلین کی چھوی بُری طرح متاثر کی۔ تب اس خبر کے پیچھے کارگزار عوامل کو کھنگالا گیا تو یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ یہ سارا کھیل جی ایچ کیو سے ہی کھیلا گیا تھا۔ نوازشریف جنرل راحیل شریف سے نالاں تھے۔ جو ڈان لیکس کے فضیتے پر انتہائی برانگیختہ تھے۔ دوسری طرف نئے آرمی چیف (جنرل باجوہ) نوازشریف کا اعتماد حاصل کرنے کی کوششوں میں تھے۔ اس کھیل میں جنرل راحیل شریف کی چھوی کو تختہ مشق بنایا گیا۔ نیا فوجی سربراہ اپنے پچھلے سربراہ کا کبھی بوجھ نہیں اُٹھاتا۔ پھر یہاں تو مسئلہ عوامی نفرت کے ایک سیلاب کا ہے ۔ ریٹائرڈ جنرل باجوہ جو کرتے رہے، اُن کے ساتھ وہی کچھ ہوگا۔ کیونکہ ماضی انسان کا تعاقب کرتا رہتا ہے۔ ریٹائرڈ جنرل باجوہ گم نامی کی خواہش پال سکتے ہیں مگر کیا کریں احمد نورانی ایسے لوگ یہ کرنے نہیں دیتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر