وجود

... loading ...

وجود
وجود

کیا کمشنز بلوچستان کے مسائل کا حل ہیں؟

جمعرات 24 نومبر 2022 کیا کمشنز بلوچستان کے مسائل کا حل ہیں؟

اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر پنجاب کی درسگاہوںمیں زیر تعلیم بلوچستان کے یا بلوچ طالبعلموں کی مبینہ ہراسگی اورحبس بے جا میں رکھنے کی شکایات اور مسائل کی جانچ کی خاطر اپریل 2022ء کو کمیشن قائم کر نے کا حکم دیا تھا۔ کمیشن کے کنوینئر بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل بنائے گئے۔ ان کی سربراہی میں کمیشن کے متعدد اجلاس ہوچکے ہیں۔ چناں چہ کمیشن نے15تا17نومبر کو کوئٹہ کا دورہ بھی کیا۔ اطلاع دی گئی کہ سینیٹر رضا ربانی، سینیٹر کامران مرتضیٰ، سینیٹر مشاہد حسین، رکن قومی اسمبلی اسد عمر ، افراسیاب خٹک، ناصر محمود کھوسہ، علی احمد کرد ایڈووکیٹ ، حفیظ الرحمان چودھری ، ڈاکٹر عاصمہ فیض اسی طرح وفاقی سیکریٹری داخلہ ، سیکریٹری انسانی حقوق کمیشن اور سینیٹ سیکریٹریٹ کی سیکریٹری کی آمد ہے۔ چناں چہ سردار اختر مینگل کے ہمراہ سینیٹر کامران مرتضیٰ، افراسیاب خٹک، علی احمد کرد ایڈووکیٹ، ڈاکٹر عاصمہ فیض آئے۔ آمد کے روز عدالت روڈ پر قائم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے کیمپ کا دورہ کیا اور متعلقہ لوگوں کو سنا ۔ ان کے شکایات قلم بند کئے۔یہاں سے فراغت کے بعد بلوچستان ہائی کورٹ گئے۔ جہاں ہائی کورٹ کے بار ایسوسی ایشن، بلوچستان بار کونسل، کوئٹہ بار اور سپریم کورٹ بار نے استقبالیہ دیا تھا۔ وکلاء رہنمائوں اور کمیشن کے نمائندوں نے تقاریر کیں۔ اگلے روز کمیشن نے جامعہ بلوچستان کا دورہ کیا ۔ یہاں بلوچ طلبہ تنظیموں کے نمائندوں اور کارکنان سے مسائل پر گفتگو کی ،ان کے تحفظات سپرد قلم کئے۔ جامعہ کا وائس چانسلر بھی موجود تھا۔ اس روز گورنر ہائوس میں قائمقام گورنر جان محمد جمالی کی موجودگی میں صوبے کی تمام جامعات کے وائس چانسلر صاحبان سے ملاقات کی۔ کمیشن نے وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ جاکر عبدالقدوس بزنجو ، ان کی کابینہ سے ملا۔ آخری روز یعنی 17نومبر کو سی ایم سیکریٹریٹ میں ایک اہم اجلاس ہوا جس میں ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ بلوچستان، آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ، ڈی آئی جی سی ٹی ڈی ا ور صوبے کے تمام ڈویژنل کمشنرز نے شرکت کی ۔ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ ا ور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی نے بریفنگ دی۔ کمیشن کے کنوینئر اور ارکان نے حکام سے سوالات کئے۔کمیشن کی آمد سے قبل صوبے کے تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز میں کمیشن کی ہدایات کے تحت سیل قائم کئے جاچکے تھے، کہ لاپتہ افراد کے لواحقین قائم سیل سے رجوع کریں۔
واضح ہو کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے مذکورہ معاملات کی تحقیقات کے لیے قائم کئے گئے کمیشن کا کوئی بھی اجلاس نہ ہوسکا تھا۔ بعد ازاں 3اکتوبر2022ء سردار اختر مینگل کمیشن کے کنوینئر بنائے گئے۔ چونکہ کمیشن اپنے تئیں تحقیقات اور معروضی احوال تحریری طور پر اسلام آباد کو پیش کرے گا ۔ چناں چہ یہاں کمیشن کا دائرہ اختیار و کار دیکھنا ہوگاکہ آیا بلوچستان سے باہر کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ کی مبینہ مشکلات، ان کی گرفتاریوں کا مسئلہ حل کرنا اسلام آباد ہائی کورٹ کے پیش نظر ہے یا بلوچستان کے اندر صورتحال بھی ؟ چوں کہ ایک عرصہ سے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں بلوچستان کے طلباء کے مسائل پر قومی اسمبلی، سینیٹ اور دوسرے فورمز پر احتجاج ہوتا رہتا ہے۔ اس متواتر شور و احتجاج کے پیش نظر معزز عدالت نے جانکاری کی خاطر کمیشن کی تشکیل کا حکم دیا۔ دیکھتے ہیں کہ کمیشن کی مرتب رپورٹ پر معزز عدالت مزید کیا رائے اور احکامات صادر کرتی ہے؟۔ بلوچستان کے ان لاپتہ افراد کا مسئلہ حساس یقینا ہے مگر اتنا ہی گھمبیر اور گنجلک بھی ہے جس کا فوری حل اور تدارک ایسے حالات میں کہ جب کالعدم اور مسلح گروہ ریاست کے خلاف فعال دکھائی دیتے ہوں ۔نہ سردار اختر مینگل قادر ہیں کہ فریقین کو ایک میز پر بٹھا سکے تاکہ یہ قضیہ ہمیشہ کے لیے حل ہو۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ سپریم کورٹ کوئٹہ رجسٹری نے سال دو ہزار بارہ تیرہ میں کئی کئی دنوں تک طویل طویل سماعتوں کے ساتھ سنا۔ تب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخارچودھری تھے۔ پولیس، کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں، آئی جی پولیس ،پولیس کے دوسرے حکام اور ایف سی کے افسران عدالت میں طلب کئے گئے۔ یہاں تک کہ چیمبر میں خفیہ اداروں کے حکام بھی حاضر ہوئے۔ چیف جسٹس افتخار چودھری کمرہ عدالت میںسماعت میں مصروف تھے کہ ہائی کورٹ کی عمارت کے باہر کوئلہ کان کے سات مزدوروں کی لاشوں کے ہمراہ مزدور احتجاج کے لیے پہنچ گئے۔ یہ کالعدم گروہ کا نشانہ بنے تھے۔ دیر تک رونے دھونے کے بعد لاشیں اٹھا کر چلے گئے۔اور جسٹس افتخار چو دھری نے کچھ سنا ہی نہیں۔ گویا افتخار چودھری مسئلے کا احاطہ ہی نہ کرسکے۔ ایک ہی پہلو کے ساتھ سماعت پہ سماعت کرتے رہیں۔وگرنہ اس سماعتوں کے وقت بھی فوج، ایف سی، پولیس، اساتذ، ڈاکٹر ، مزدور ار آباد کار سینکڑوں کی تعداد میں آزادی کی بات کرنے والے مسلح گروہوں کے ہاتھوں قتل ہوئے تھے۔ چناں چہ یہ سلسلہ تب اور نہ ہی آج رکا ہے۔ مسلح گروہ اپنے سلوگنز کے ساتھ اب بھی ریاست پر حملہ آور ہیں۔ روز فورسز اورتنصیبات پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ نیزکسی کے قتل کی ذمہ داری مخبر کہہ کر قبول کی جاتی ہے ۔ ہرنائی میں ہیلی کاپٹر مار گرانے کا دعویٰ کیا ہے ۔ دو افراد کو مغوی بناکر بدلے میں اپنے لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ یہ گروہ کہتے ہیں کہ ان کے گرفتار لوگوں کے ساتھ جنیوا ایکورڈکے تحت سلوک کیا جائے کہ یہ جنگی قیدی ہیں۔ اب ایسی فضاء میں وہ صورت کیاہے کہ جب یہ اطمینان کرلیاجائے گا کہ آئندہ کوئی فرد لاپتہ ہوگا اور نہ حبس بے جا میں رکھا جا ئے گا۔ جنگ کی صورت میں ریاست اور اس کے اداروں سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟یقینا صوبہ بڑی آزمائش سے دو چار ہے۔ لہٰذا امن کے امکانات پر سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ اس نوع کی سیاسی تگ و دو وقتی اورانتخابی سیاسی حاصل پرمنتج تو ہوسکتی ہے مگر درپیش آزمائش کا حل ہر گز نہیں ہے۔ حل اس قضیہ کا ہمہ پہلو ہم آہنگی ،بات چیت اور اس کے نتیجے میں مسلح سیاست سے دستبرداری ہے ۔ یہ اگر صوبے کی کسی جماعت اور رہنماء کے بس میں ہے تو آگے بڑھیں۔اس ضمن میں حکومتوں ہی کی پیشرفت معنی رکھتی ہے ۔اور بتایا جائے کہ صوبے کی موجودہ حکومتی اشارافیہ کا مسلط کیا جانا اور اس کے ساتھ سیاسی گٹھ جوڑ کا سوال کس سے کیا جائے ۔؟
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر