وجود

... loading ...

وجود
وجود

ٹوئٹر کی ممکنہ موت،کیا ہماری دنیا بدل سکتی ہے؟

جمعرات 24 نومبر 2022 ٹوئٹر کی ممکنہ موت،کیا ہماری دنیا بدل سکتی ہے؟

 

سماجی رابطوں کی معروف ترین ویب سائیٹ ٹوئٹر کا سب سے بنیادی وصف اور خوبی ہی یہ تھی کہ اِس نے اپنے صارفین کو کم سے کم الفاظ میں اپنا نقطہ نظر اور مافی الضمیر دنیا بھر کے سامنے من و عن بیان کرنے کی آزادی دی ہوئی تھی۔ لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ اپنے صارفین کو اظہار رائے کی مکمل اور مادرپدر آزادی دینے والا ٹوئٹر آج خود، اپنے نئے مالک ایلون مسک کے ہاتھوں میں قید ہو جانے کے بعد آزادی کے لیئے اپنے پَر پھڑپھڑا رہا ہے ۔ ویسے تو سب کو ہی یہ معلوم تھا کہ متلون مزاج ایلون مسک ، ٹوئٹر کو خریدنے کے بعد تبدیلی کی کھٹالی سے گزارکر اِسے ’’کندن‘‘ یعنی زیادہ سے زیادہ منافع بخش بنانے کی ضرور کوشش کریں گے۔مگر ٹوئٹر کے کسی بھی صارف کو یہ اندازہ ہرگز نہیں تھا ایلون مسک ٹوئٹر کے نازک اندام جسم سے نفع کشید کرتے کرتے اِسے موت کی دہلیز تک پہنچانے کے بعد پھر خود ہی بیچارے ٹوئٹر کی قبر کی تصاویر اپنے اکاؤنٹ پر شیئر کرنے لگیں گے۔
جی ہاں! واقعی ایلون مسک نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایک میم شیئر کی ہے ، جس میںایک بوسیدہ سی قبر پر ٹوئٹر کے نام کا کتبہ لگاہوا ہے۔مذکورہ تصویر وائر ل ہونے کے بعد سوشل میڈیا کی دنیا میں گویا ایک بھونچال آگیا ہے اور سماجی رابطوں کی ویب سائیٹ ٹوئٹر سے منسلک ہر صارف کے ذہن میں یہ خدشہ کلبلانے لگا ہے کہ کہیں ٹوئٹر اگلے چند ماہ یا ہفتوں میں مرحوم تو ہونے والا نہیں ہے۔ بظاہر ٹیکنالوجی کے ماہرین کا خیال ہے کہ ایلون مسک نے ٹوئٹر کے کتبہ والی میم شیئر کرکے اپنے صارفین کے ساتھ صرف ایک’’کاروباری مذاق ‘‘کرتے ہوئے یہ باور کروانے کی کوشش کی ہے کہ’’ وہ ٹوئٹر کمپنی میں جس قدر تبدیلیوں کا تہیہ کرچکے ہیں ، وہ انہیں اَب پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دَم لیں گے۔ یعنی وہ ٹوئٹر کو اپنی مرضی اور خواہشات کے مطابق ڈھالنے کے لیے کسی بھی آخری حد تک جاسکتے ہیں‘‘ ۔ نیز ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’ایلون مسک ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہیں اور انہوں نے ٹوئٹر پیسہ کمانے کے لیئے ہی مہنگے داموں خریدا ہے ۔ لہٰذا ، وہ کیوں چاہیں گے کہ انتہائی مہنگے دام پر خریدی ہوئی ٹوئٹر کمپنی بغیر نفع کمائے ہی بند کردیں ‘‘۔
دراصل ایلون مسک نے ٹوئٹر کی قبر کی تصویر شیئر کرکے اپنے اربوں صارفین کو صرف یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ اگر کسی صارف کو ٹوئٹر پر رہنا ہے تو پھر اُسے ہی نئے ٹوئٹر کی ہرتبدیلی کے ساتھ سمجھوتہ کرنا ہوگا اور ٹوئٹر میں رونما ہونے والی ہر تبدیلی کو خوش آمدید کہنا ہوگا۔کیونکہ ایلون مسک تو کسی بھی صورت ٹوئٹر صارفین کے ساتھ سمجھوتہ کرنے والے نہیں ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹوئٹر کی موت کی خبر کتنی ہی غیر حقیقی کیوں نہ ہو، بہرحال اِس چھوٹی سی خبر نے دنیائے انٹرنیٹ پر ایک سونامی آنے جیسا ماحول پیداکردیا ہے اور عام صارفین تو چھوڑیں، دنیا کی اہم ترین شخصیات بھی جن میں سیاست دان ، گلوکار، اداکار ، صحافی ، ادیب ،دانشور اور بڑے بڑے کاروباری حضرات شامل ہیں ، ٹوئٹر کے مستقبل کے حوالے سے سخت فکر مند پائے جاتے ہیں ۔بعض دانش و بنیش حلقوں کی جانب سے تو یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ٹوئٹر کی موت کے بعد دنیا کا سیاسی منظرنامہ یکسر تبدیل بھی ہوسکتاہے۔ خاص طور پر و ہ ممالک جہاں بعض سیاسی جماعتیں اپنے مقبولیت کا پیمانہ ہی ٹوئٹر کے فالوورز کو قرار دیتی تھیں ، آخر اُن سیاسی جماعتوں کا کیا بنے گا؟۔
واضح رہے کہ پاکستان میں تحریک انصاف کو بھی باآسانی ایک ایسی سیاسی جماعت قرار دیا جاسکتاہے ، جن کی تمام تر سیاسی اُٹھان ٹوئٹر پر لمحہ بہ لمحہ ہونے والے ٹوئٹس کی مرہونِ منت ہے۔ شاید یہ ہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر ایلون مسک کو اپناایک ٹوئٹ ٹیگ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ٹوئٹر کے بغیر دنیا کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا،براہ مہربانی مسئلے کو حل کریں اور ہمیں پریشان نہ کریں‘‘۔فواد چوہدری کے مذکورہ ٹوئٹ سے زیادہ تر صارفین یہ مطلب مراد لیتے دکھائی دیئے کہ ’’ٹوئٹر کے بغیر تحریک انصاف کا پاکستان کے سیاسی اُفق پر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا‘‘ ۔ حالانکہ ہماری دانست میں ایسا نہیں ہے کہ عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف ٹوئٹر کے بغیر اپنی سیاسی مقبولیت کو برقرار نہیں رکھ سکتے ،لیکن یہ بھی ایک بڑی سچائی ہے کہ ٹوئٹر کو اگر تحریک انصاف سے سیاسی سرگرمیوں سے منہا کردیا جائے تو پھر اِس جماعت کو دیگر سیاسی جماعتوں پر سوشل میڈیا میں جو غیر معمولی برتری حاصل ہے ، وہ کافی حد تک ختم ہوجائے گی اور اگلے قومی انتخابات سے پہلے یا قریب ایسا اچانک سے ہوجانا تحریک انصاف کے لیے ایک بہت بڑے سیاسی نقصان کا باعث ضرور بن سکتاہے۔
اس وقت پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’’ریسٹ اِن پیس ٹوئٹر‘ ‘ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہا ہے جس کی وجہ ٹوئٹر کی جانب سے ملازمین کے نام وہ پیغام ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کمپنی کے تمام دفاتر کو 21 نومبر تک بند کیا جا رہا ہے۔بظاہراس عجیب و غریب فیصلے کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی تاہم عالمی ذرائع ابلاغ پر خبریں گردش کررہی ہیں کہ ٹوئٹر کے نئے مالک ایلون مسک کی جانب سے زیادہ گھنٹے کام کرنے کی شرط عائد کیے جانے پر پرانے ٹوئٹر ملازمین کی ایک بڑی تعداد ملازمت چھوڑ رہی ہے۔کیونکہ ایلون مسک نے کمپنی کا انتظام سنبھالنے کے فوراً بعد ہی تمام ملازمین کو ایک ای میل کردی تھی کہ ’’ان کو بغیر کسی اضافی اُجرت کے زیادہ وقت کام کرنا ہوگا یا پھر ملازمت سے مستعفی ہونا ہوگا اور جو ملازمین زیادہ وقت کام بھی نہیں کریں گے اور مستعفی بھی نہیں ہوں گے ، اُن کو کمپنی کی طرف سے تین ماہ کی تنخواہ دے کر فارغ کردیا جائے گا۔ اس ای میل کے موصول ہونے کے بعد ملازمین کی اکثریت نے ایلون مسک کے زیرنگیں کام کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنی ملازمت سے استعفا دے دیا۔ جبکہ اس سے پہلے ایلون مسک نے کمپنی کے آدھے سے زائد ملازمین کو یہ کہتے ہوئے ہی خود ہی برطرف کر دیا تھا کہ یہ ملازمین کمپنی پر ایک بہت بڑا مالی بوجھ تھے اور ٹوئٹر کو ان کی وجہ سے روزانہ چار ملین ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہو رہا تھا۔
واضح رہے کہ 2006 میں بننے والی ٹوئٹر سوشل میڈیا سائیٹ، جسے 2013 میں’ ’انٹرنیٹ کا ایس ایم ایس‘‘ بھی قرار دیا گیا تھا، کو دنیا بھر میں بلا شک و شبہ کروڑوں لوگ استعمال کرتے ہیں۔رواں برس ایلون مسک نے 44 ارب ڈالر کے عوض ٹوئٹر کو خرید لیا تھا۔ایلون مسک کے کمپنی کا کنٹرول سنبھالنے سے قبل ٹوئٹر کے کُل مستقل ملازمین کی تعداد تقریبا ساڑھے سات ہزار تھی۔اس کے علاوہ کمپنی نے ہزاروں کی تعداد میں کنٹریکٹ ملازمین بھی رکھے ہوئے تھے جن کی اکثریت کو ایلون مسک نے پہلے دن ہی نکال دیا گیا تھا۔المیہ ملاحظہ ہو کہ صرف چند ہفتوں میں ٹوئٹر ملازمین کی تعداد 2 ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے اور غالب امکان یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں باقی بچ جانے والے ملازمین میں سے بھی 80 فیصد ملازمین کوبرخاست کردیا جائے گا اور ٹوئٹر کے تمام دفاتر کو تالے لگا دیئے جائیں گے۔
ٹوئٹر صارفین کے لیے سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ جب اگلے ایک یا دو ہفتوں میں ٹوئٹر کے تمام دفاتر مقفل ہوجائیں گے تو ٹوئٹر کیسے کام کرے گا یاوہ اپنے صارفین کو کیسے خدمات مہیا کرے گا؟۔دراصل ایلون مسک ٹوئٹر کو کم سے کم ملازمین کے ذریعے چلانے کا ارادہ رکھتا ہے اور اُس کی خواہش ہے کہ صرف درجن بھر ملازم مصنوعی ذہانت سے لیس مشینوں کی مدد سے دنیا بھر میں ٹوئٹر کو فعال رکھیں ۔ تاکہ ٹوئٹر کمپنی کے اخراجات نہ ہونے کے برابر ہوں اور اس کے حاصل ہونے والا منافع لامحدود ہو۔ یا د رہے کہ ایلون مسک دنیا پر مشینوں کی حکومت کا قائل ہے اور اُس نے ماضی سے لے کر اَب تک جتنی بھی مصنوعات فروخت کے لیئے پیش کی ہیں ، اُن کے استعمال کے لیے انسانی عمل دخل نہ ہونے کے برابر درکار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ٹیسلا کی کاریں بغیر ڈرائیور کے چلتی ہیں ، اور ٹیسلا کی ایک کار فقط 22 پارٹس سے مل کر بنتی ہے اور یہ تا حیات مینٹینس فری ہوتی ہے ۔ یعنی ٹیسلا کے دعوی کے مطابق اُن کی بنائی گئی کار میں کوئی بھی خرابی واقع ہوجائے گی تو ٹیسلا کمپنی اُس کے عوض دوسری نئی کار اپنے صارف کو دینے کا دعوی کرتی ہے ۔
ایلون مسک کا ایک ایسا ہی منفرد ٹیک منصوبہ ’’سٹار لنک سٹیلائٹ انٹر نیٹ ‘‘ کا بھی ہے ۔جس کی بدولت دنیا کے دور دراز علاقوں میں بھی بھاری بھرکم انٹرنیٹ انفراسٹکچر کے بغیر تیز ترین انٹرنیٹ فراہم کیا جارہاہے۔ یعنی انٹرنیٹ ٹاور ، فائبر آپٹیکل کیبل وغیرہ کے بغیر یہ کمپنی دنیا بھر میں تیز ترین انٹرنیٹ فراہم کررہی ہے ۔ اسٹار لنک سیٹلائٹ، اسپیس ایکس کا پراجیکٹ ہے اور اسٹار لنک ابھی 40 ممالک میں انٹرنیٹ تک رسائی فراہم کر رہا ہے۔ایلون مسک نے روسی حملے کے فوری بعد یوکرین میں سٹار لنک کی سروس کو فراہم کردی تھیں اور سٹار لنک کی تقریباً 15,000 ڈشز اور راؤٹرز یوکرین بھجوائے دیے تھے جس کی بدولت یوکرینی عوام حالتِ جنگ میں بھی انٹرنیٹ استعمال کرنے کے قابل ہوگئے۔ یوںسٹار لنک نے جنگ کے دوران بھی یوکرین میں رابطے بحال رکھے اور ملک میں سب کچھ تباہ وہ برباد ہوگیا تھا ،اُس وقت بھی یوکرین میں انٹرنیٹ چل رہا تھا اور حیران کن بات یہ ہے کہ ابھی تک روسی افواج کو اسے بند کرنے کا کوئی طریقہ نہیں مل سکا۔کیونکہ سٹار لنک کو انسانی وسائل نہیں بلکہ مشینوں کی مصنوعی ذہانت چلاتی ہے۔ بالکل اسی طرز پر ایلون مسک، ٹوئٹر کو بھی چلانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس لیے خاطر جمع رکھیے کہ ٹوئٹر کمپنی بند نہیں ہونے جارہی ،بلکہ ٹوئٹر، عن قریب ٹیکنالوجی کے ایک نئے جہان میںقدم رکھنے جارہاہے۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر