وجود

... loading ...

وجود
وجود

بیڑہ غرق۔۔

بدھ 23 نومبر 2022 بیڑہ غرق۔۔

دوستو، مکان بنانے والے مستری اور مزدور ان پڑھ ہوتے ہیں۔ آپ کے پاس کار یا موٹرسائیکل ہے تو جب اسے ٹھیک کرانے کسی میکنک کے پاس جاتے ہیں وہ بھی ان پڑھ۔۔ گھر میں بجلی کی وائرنگ کرانی ہو یا کوئی سوئچ لگانا ہو، وہ بھی ان پڑھ۔۔ گھرمیں رنگ و روغن کرانا ہے تو وہ بھی ان پڑھ۔۔ گھر کا ٹی وی ، واشنگ مشین، جوسر بلینڈر، استری، موبائل ٹھیک کرانا ہو تو وہ بھی زیادہ تر ان پڑھ ہی ملتے ہیں۔ بال کٹوانے جائیں تو نائی بھی زیادہ تر ان پڑھ ہی ہوتے ہیں۔۔ شادی بیاہ پر کھانا پکوانا ہو تو باورچی بھی ان پڑھ۔۔گھر میں پلمبر کو بلا کر نلکا، واش بیسن یا کوئی اور کام کرانا ہوتو وہ بھی اکثر ان پڑھ ہی نکلتا ہے۔ یا اکثریت ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جنہوں نے اسکول کا منہ نہیں دیکھا یا پھر اسکول گئے تو تھے لیکن دو،چار جماعتیں ہی پڑھ سکیںاور اسکول جانا چھوڑ دیا۔۔ان تمام لوگوں سے جب آپ ملیں گے ،آپ سے بہت اخلاق سے پیش آئیں گے اور انکساری سے بات چیت کریں گے۔۔ لیکن اس سے الٹ اگر آپ کسی بینک، دفتر، تھانہ، عدالت، کچہری، پوسٹ آفس وغیرہ جائیں جہاں اکثریت ڈگری ہولڈرز کی ہوتی ہے، آپ کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا، یہ لوگ اپنا کام ٹھیک طرح سے کر نہیں سکتے البتہ عوام کو ذلیل کرنے اور دھتکارنے کا عمل اچھی طرح انجام دے لیتے ہیں۔۔باباجی فرماتے ہیں۔۔ اس ملک اور نظام کا بیڑہ غرق کسی ان پڑھ نے نہیں بلکہ تعلیم یافتہ لوگوں نے کیا۔۔ بچپن سے سنتے اور دیکھتے آ رہے ہیں ترقی کے لیے تعلیم بڑی ضروری ہے آج گھر گھر محلے محلے اسکول و کالج کھلے ہیں مگر آج معاشرے و نظام کی حالت چالیس سال پہلے سے بدتر سے بدتر ہے کیوں۔۔؟فیصلہ اب آپ نے کرنا ہے۔۔
کہتے ہیں کہ قیام پاکستان سے قبل کی بات ہے، لکھنؤ میں جب پہلی بار میونسپل کارپوریشن کے انتخابات ہوئے۔ اپنے وقت میں لکھنؤ کی مشہور طوائف اور محفل کا فخر ’’دلربا جان‘‘ چوک سے امیدوار بنیں۔اس کے خلاف کوئی الیکشن لڑنے کو تیار نہیں تھا۔ ان دنوں ایک مشہور حکیم صاحب تھے۔۔ حکیم شمس الدین۔۔اسی چوک میں حکیم صاحب کا مطب بھی تھا۔۔ وہ اپنے زمانے کے مشہور حکیم تھے۔ اور بڑے باعزت و نیک نام تھے۔ دوستوں نے انہیں زبردستی الیکشن میں’’دلربا جان‘‘ کے مقابلے میں کھڑا کیا۔دلربا جان کی تشہیر نے زور پکڑا۔ روزانہ سر شام چوک میں محفلیں سجنے لگیں۔ جدن بائی جیسی اپنے زمانے کی مشہور رقاصاؤں کے پروگرام ہونے لگے اور محفلوں میں بے تحاشہ بھیڑ جمع ہونے لگی۔ اس وقت حکیم صاحب کے ساتھ چند دوست ہی ہوا کرتے تھے جنہوں نے انہیں الیکشن میں جھونک دیا تھا۔اب حکیم صاحب کو غصہ آیا کہ تم لوگوں نے مجھے مار دیا، میری شکست یقینی ہے۔ دوستوں نے ہمت نہیں ہاری۔۔ اور نعرہ دیا۔۔۔ہے ہدایت چوک کے ہرووٹر شوقین کو، دل دیجئے دلربا کو ووٹ شمس الدین کو۔۔ یہ نعرہ تیزی سے مقبول ہونے لگا تو دلربا جان نے جوابی اٹیک کردیا۔۔ہے ہدایت چوک کے ہرووٹر شوقین کو، دلربا کو ووٹ دیجئے نبض شمس الدین کو۔۔بدقسمتی یہ رہی کہ دلربا جان کا نعرہ عوام میں مقبولیت اختیار نہ کرسکا۔ الیکشن کے نتائج آئے تو حکیم صاحب کا نعرہ کامیاب ہوا تھا اور وہ الیکشن جیت گئے۔۔ لکھنؤ کی تہذیب کے مطابق،دلربا جان نے حکیم صاحب کو گھر پر جاکر مبارکباد دیتے ہوئے کہا۔۔ میں الیکشن ہار گئی، آپ جیت گئے، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا ‘ مگر آپ کی جیت سے ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ۔۔ لکھنؤ میں مرد کم اور مریض زیادہ ہیں۔!اگر اس واقعہ کو سامنے رکھیں تو آج بھی وہی حال ہے، الیکشن وہی جیت پاتا ہے جس کا نعرہ سندقبولیت اختیار کرتا ہے۔ عوام میں جس لیڈر کا بیانیہ پاپولر ہوجائے اسے الیکشن جیتنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔۔
بات جب سیاست دانوں کی نکلی ہے تو کہاجاتا ہے کہ سیاست دان بولتے بہت ہیں۔۔عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ دنیا کی تقریباً آدھی آبادی کو اس وقت منہ کی مختلف بیماریوں کا سامنا ہے جن میں سڑتے ہوئے دانت، مسوڑھوں میں سوجن اور منہ کا کینسر شامل ہیں۔ ایک نئی رپورٹ میں منہ کی صحت کی خدمات تک رسائی میں واضح عدم مساوات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس نے انتہائی کمزور اور پسماندہ آبادی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ڈبلیو ایچ او کے سربراہ کے مطابق ۔۔عالمی صحت کے نظام میں اس بات کو جانتے ہوئے کہ منہ کی بہت سی بیماریوں کو روکا جا سکتا ہے اور سستے اقدامات سے ان کا علاج کیا جا سکتا ہے،جس کو طویل عرصے سے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق عالمی آبادی کا 45 فیصد، یا تقریباً ساڑھے تین ارب لوگ دانتوں کی خرابی، مسوڑھوں کی بیماری اور منہ کی دیگر بیماریوں سے لڑ رہے ہیں۔ یہ رپورٹ 194 ممالک کی صورتحال کی پہلی جامع تصویر پیش کرتی ہے، اس میں پتا چلا ہے کہ گزشتہ 30 سالوں میں منہ کی بیماریوں سے متاثرہ افراد کی تعداد میں ایک ارب کا اضافہ ہوا ہے۔
باباجی نے اپناکچھ عرصہ پرانا قصہ سناتے ہوئے کہا۔۔مسجد میں چند روز سے نمازِ فجر کی جماعت کے بعد ایک شخص باقاعدگی سے مجھ سے مصافحہ کرنے لگا تھا۔ اگر میں دعا کرنے میں مشغول ہوتا تو میرا انتظار کرتا اور مصافحہ کر کے گھر کو لوٹتا۔وہ اب مسجد میں بھی جلدی آنے لگا تھا۔ پہلے پہلے اذان کے فوراً بعد، پھر اذان سے پہلے، پھر اس سے بھی پہلے۔ دن بہ دن اس کے مسجد میں داخلے کا وقت پیچھے کی طرف بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ایک دن مصافحہ کرتے اس نے مجھ سے کہا۔۔ میں ہمیشہ سے آپ پر رشک کرتا آیا ہوں، جبکہ میں روز ہی پوری کوشش کرتا رہا ہوں کہ اب کی بار آپ سے پہلے مسجد میں داخل ہوں گا مگر ہر بار آپ کو ہی پہلے یہاں موجود پایا۔ آپ کس طرح یوں پابندی کے ساتھ سب سے قبل مسجد پہنچ جاتے ہیں؟میں نے نہایت صبر اور ٹھہر ٹھہر کر جواب دیا۔۔ میری دو بیویاں ہیں، وہ دونوں مل کر میری خدمت کرتی ہیں اور نماز کی اس پابندی میں میری مدد کرتی ہیں۔وہ شخص میرے جواب سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے بھی دوسرا نکاح کر لیا۔۔۔اب ۔۔’’ الحمد للہ ‘‘ وہ نمازِ فجر میں سب سے پہلے مسجد میں موجود ہوتا ہے۔ کیونکہ وہ میرے ساتھ ہی مسجد میں سوتا ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔اگرآپ دوسروں سے الگ نظر آنا چاہتے ہیں تو ابھی سے ۔۔سوئیٹر یا جیکٹ پہن لیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟ وجود جمعه 19 اپریل 2024
مسلمان کب بیدارہوں گے ؟

عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران وجود جمعه 19 اپریل 2024
عام آدمی پارٹی کا سیاسی بحران

مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام وجود جمعه 19 اپریل 2024
مودی سرکار کے ہاتھوں اقلیتوں کا قتل عام

وائرل زدہ معاشرہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
وائرل زدہ معاشرہ

ملکہ ہانس اور وارث شاہ وجود جمعرات 18 اپریل 2024
ملکہ ہانس اور وارث شاہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر