وجود

... loading ...

وجود

پکڑے گئے!

پیر 26 ستمبر 2022 پکڑے گئے!


حکمران اشرافیہ کو اپنی عادتیں بدلنی ہونگیں، نیا عہد اُن کے ساتھ نباہ نہ کر پائے گا۔ تاریخ کا جبر ایسی حقیقتوں کا نام ہے، جو ارادوں کو باندھ دیتا ہے، طاقت کو عاجز کردیتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی حقیقتیں اب تاریخ کے جبر کے سامنے سجدہ ریز ہیں۔ حکمران اشرافیہ کا اپنی طاقت پر بھروسا، اپنی دولت کا آسرا اور اختیار واقتدار کا سہارا زیادہ مفید ثابت نہ ہو سکے گا۔ تاریخ کا جبر جب فعال ہوتا ہے، تو وقت کا دھارا دوسری سمت میں بہنے لگتا ہے۔ وہ بہہ رہا ہے۔ حکمران اشرافیہ مگر بے خبر ہے۔
نئی آڈیو لیکس (سمعی فیتے) سادہ واقعہ نہیں، یہ اختیار و اقتدار کی بنیادِ فصیل و در میں بھونچال پیدا کرسکتے ہیں۔ ابھی تین سمعی فیتے منظر عام پر آئے ہیں۔ یہ شہباز حکومت کے پچھلے چارماہ میں وزیراعظم ہاؤس کے اندر ہونے والی گفتگو کا احاطہ کرنے والا ایک آواز ذخیرہ ہے۔ تقریباً آٹھ (8) گیگا بائٹس پر محیط یہ سو سے زائد فیتے ہیں، ہر فیتہ ایک گھنٹے سے زیادہ پر پھیلا ہوا ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہ آٹھ سو گھنٹوں سے زائد کا محفوظہ ہے، جس میں وزیراعظم سمیت اہم شخصیات کے درمیان ہونے والی گفتگو کا مواد ہے۔ ڈارک ویب پر یہ سارا ذخیرہ برائے فروخت ہے۔ لین دین کی بولی میں خریداروں کی طرف سے جو سوالات کیے گئے، فروخت کنندہ کے جواب سے واضح ہے کہ اس میں عسکری ذمہ داران سمیت بہت ہی اہم شخصیات کی گفتگو بھی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ گفتگو کے حصے پاکستان کی قومی سلامتی سمیت بعض حساس منطقوں میں داخل ہوتے ہیں۔ ابھی سمعی فیتوں سے منکشف ہوتے حقائق کی سنگینی پر بات موقوف رکھیں۔ فرض کرتے ہیں کہ ان سمعی فیتوں میں کوئی بات بھی خطرناک نہیں، تب بھی یہ فضیتا (اسکینڈل) بجائے خود بہت خطرناک ہے۔ کیونکہ یہ سمعی فیتے عام طور پر ٹیلی فونک یا مواصلاتی بات چیت کی ریکارڈنگ کی طرح نہیں بلکہ یہ مختلف اجلاسوں میں کسی آلے سے خفیہ طور پر ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ گویا اور کچھ بھی نہیں تو اس سے وزیراعظم ہاؤس کے غیر محفوظ ہونے کی نشاندہی ضرور ہوتی ہے۔ یہ معاملہ اور زیادہ بھیانک یوں بھی ہے کہ گزشتہ چار دہائیوں میں وزیراعظم ہاؤس آنے والے تمام ہی وزرائے اعظم نے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر وزیراعظم ہاؤس کے غیر محفوظ ہونے کی شکایت کی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے دور میں اس کی بازگشت عدالت میں بھی سنائی دی۔ نوازشریف متعدد مرتبہ نجی محفلوں میں یہ تذکرہ کرتے رہے ہیں۔ عمران خان سے بھی اسی نوع کی بات منسوب کی جاتی ہے۔ یہ مذاق کل تک اندرون ملک قومی مفاد کی آڑ میں برداشت کیا جاتا رہا۔ مگر اب سمعی فتیوں کا جو طوفان آیا ہے، اُس نے قومی مفاد اورملکی سلامتی سب کو داؤ پر لگادیا ہے۔ کیونکہ اس کی زد قومی مفاد کے”رکھوالوں“ اور ملکی سلامتی کے ”ضامنوں“ پر بھی پڑتی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ سمعی فیتے محض نمونہ سمجھے جارہے ہیں۔ اصل مال برائے فروخت ہے۔ اس سے زیادہ شرم ناک بات کوئی نہیں ہوسکتی کہ وزیر اعظم ہاؤس میں اہم شخصیا ت کے درمیان ہونے والی گفتگو آن لائن اور وہ بھی انٹرنیٹ کی سب سے بھیانک اور پراسرار دنیا یعنی ڈارک ویب پرفروخت ہورہی ہے۔ ان آٹھ سو گھنٹوں کے تقریباً سو سمعی فیتوں کے خریدار مشکوک ڈارک ویب پر مسلسل بولی لگا رہے ہیں۔ گزشتہ روز تین لاکھ 45 ہزار سے اس کی نیلامی شروع ہو ئی تھی۔ یہ مسئلہ وزیراعظم ہاؤس کی سیکورٹی کا نہیں، بلکہ سیکورٹی اداروں کی سیکورٹی سے جڑ چکا ہے۔ افسوس حکومتیں گرانے، بنانے کے عمل نے ملک کے ہر ادارے میں شگاف ڈال دی ہے، ہر عمارت پر کمند اچھالنا ممکن بنادیا ہے۔ ہر آدمی اور ہر منصب کو شک کے دائرے میں لاکھڑا کیا ہے۔ یہ آواز ذخیرہ اپنے مواد میں اگر قابل اعتراض نہ بھی ہو، تب بھی اپنے افشاء ہونے کی حالت میں قومی سلامتی کے حوالے سے ایک انتہائی دل دہلا دینے والا شرم ناک واقعہ ضرور ہے۔ الفاظ کو احترام کا جو بھی جامہ پہنایا جائے، حرف، حرمت آشنا رہتے ہوئے بھی کہیں گے کہ یہ کئی اداروں کی ناکامی کا چیختا چنگھاڑتا اعلان ہے۔
آواز ذخیرے کے مندرجات کی طرف آتے ہیں۔ اگر چہ نون لیگ کی جانب سے وضاحتوں کا ایک سلسلہ ہے۔مگر ان وضاحتوں سے سوالات ختم نہیں ہوئے، بلکہ مزید بڑھ گئے ہیں۔ سمعی فیتوں کے چند منٹوں کے تین مختلف حصوں کی تفصیلات سوالات کا ایک طوفان اُٹھاتی ہے۔ مثلا ایک سمعی فیتہ وزیراعظم شہباز شریف اور اُن کے پرنسپل سیکریٹری ڈاکٹر توقیر شاہ کے درمیان گفتگو سے متعلق ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو ڈاکٹر توقیر شاہ بتا رہے ہیں کہ مریم صفدر نے بھارت سے اپنے داماد کے لیے پاؤر پلانٹ منگوانے کی سفارش کی ہے، آدھا پاؤر پلانٹ بھارت سے آگیا ہے اور آدھا آنا باقی ہے۔ یہ معاملہ اتنا بھدا ہے کہ شہباز شریف کو معاملہ بتانے سے پہلے ہی پرنسپل سیکریٹری صاف الفاظ میں یہ کام کرنے سے اُنہیں منع کر رہے ہیں۔ اور اس کے مضمرات سے آگاہ کر رہے ہیں۔ نون لیگ کی وضاحتیں اپنی جگہ، مگر اندازا لگائیے، ایک سرکاری افسر وزیراعظم کے سامنے بغیر کسی ہچکچاہٹ جس کا م کو کرنے سے اُنہیں تاکیداً روک رہا ہے، مریم نواز اُس کی پُرزور سفارش کررہی ہے اور وزیراعظم شہباز شریف بھی مریم نواز کو سمجھانا اتنا مشکل سمجھ رہے ہیں کہ اس کے لیے کوئی راستا نکالنے کا کہہ رہے ہیں، پھر ترکی سے واپسی پر یہ بوجھ اُٹھانے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ اس پر بس نہیں پرنسپل سیکریٹری ڈاکٹر توقیر شاہ، وزیراعظم کو کہہ رہے ہیں کہ یہ کام اسحاق ڈار کے ذمہ لگانا چاہئے وہ زیادہ بہتر انداز سے نوازشریف اور اُن کے خاندان کو سمجھا سکیں گے۔ شہباز شریف فوراً مان لیتے ہیں کہ مصیبت ٹلی۔ مریم نواز کے داما د راحیل منیر ہیں۔ راحیل منیر کے والد چودھری منیر کا نام گزشتہ چند سالوں سے پسِ پردہ معاملات میں موضوع بحث رہا ہے۔ ایک انتہائی اعلیٰ عسکری شخصیت کے ایک رشتہ دار سے اُن کی دوستی کے چرچے بھی زباں زدِ خاص ہیں۔ وہی شخصیت نواز شریف سے ابتدائی رابطوں کا ذریعہ بنی تھی جب عمران خان برسراقتدار تھے۔ اب ذرا اُس شادی کا پسِ منظر بھی دھیان میں رکھیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی 26دسمبر 2015 کو اچانک لاہور تشریف لائے، وہ افغان پارلیمنٹ کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے بعد واپسی میں علامہ اقبال انٹر نیشنل ائیر پورٹ اُترے، جہاں سے اُنہیں ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے جاتی امراء لے جایا گیا۔ یہ کسی بھی بھارتی وزیراعظم کا گیارہ سال بعد پاکستان کا دورہ تھا، اس سے قبل بی جے پی کے ہی اٹل بہاری واجپائی نوازشریف کے ہی دور میں پاکستان آئے تھے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی صرف دو گھنٹوں کے لیے پاکستان تشریف لائے تو اُن کی صرف دو مصروفیات تھیں۔ ایک وزیراعظم نوازشریف کو اُن کی سالگرہ پر مبارک باد، دوسری نوازشریف کی نواسی کی شادی میں شرکت۔ خود مودی نے اپنے ایک ٹوئٹ میں یہی دو مصروفیات بیان کیں۔ پاکستان کی جانب سے وزیر خارجہ سرتاج عزیز اور قومی سلامتی کے مشیر ناصر خان جنجوعہ کو اس پورے معاملے سے دور رکھا گیا تھا۔ یہ سب کچھ نہایت پراسرار تھا۔ نوازشریف کی اسی نواسی کی شادی جناب راحیل منیر سے ہوئی تھی۔ نریندر مودی اسی تقریب میں شریک تھے۔ پاناما لیکس کی تحقیقات کے دوران شریف خاندان کوکھنگالتے ہوئے ایک والیم 10 کا بڑا تذکرہ ہوتا تھا۔ آخر والیم 10 میں کیا تھا؟ بار بار استفسار پر سرگوشیوں میں یہ بتایا جاتا کہ یہ شریف خاندان کے بھارت سے تعلقات کا احاطہ کرتا ہے۔ یہ سب باتیں پروپیگنڈا ہوسکتی ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مودی کا گیارہ سال بعد دورہ بھی پراسرار نہ ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ واجپائی کے بعد مودی کی پاکستان آمد نوازشریف کے ہی مختلف ادوار میں محض ایک اتفاق ہو۔ مگر کیا ایسے پروپیگنڈے اور ان اعتراضات میں بھارت سے مشینری منگوانے کا خطرہ مریم نواز کے داماد کو مول لینا چاہئے؟ پھر کیا مریم نواز کو اس معاملے میں سفارش کرنی چاہئے؟ آخریہ لوگ اتنے مشکوک پسِ منظر میں بھی ایسے کاموں کی ہمت کہاں سے لاتے ہیں؟ ایک سوال اور بھی ہے کہ بھارت سے آدھی مشینری منگوائی جاچکی ہے۔ وضاحت یہ کی جارہی ہے کہ یہ مشینری بھارت سے تجارت پر پابندی لگنے سے پہلے منگوائی گئی۔ ہوسکتا ہے کہ یہ وضاحت بالکل درست ہو، مگر یہ سوال پھر بھی ختم نہیں ہوتا کہ حکمرانوں اور اُن کے متعلقین کے لیے کاروبار میں احتیاطیں عام کاروباری ضوابط سے زیادہ ہیں یا نہیں؟ بھارت سے کاروبار میں شریف خاندان کی دلچسپی کے محرکات میں سازشوں کا ایک پس ِ منظر اُبھرتا ہے۔ پھر یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ احتیاط دانش مندی کی سب سے بڑی بیٹی ہے۔ کالم کا ورق نبڑ چکا،مگر سوالات باقی ہیں، اِسے کسی اور موقع کے لیے اُٹھا رکھتے ہیں۔ سمعی فیتے نظر انداز نہ ہو سکیں گے۔ یہ وکی لیکس کی طرح اُبھر اُبھر کر اور اُچھل اُچھل کر منہ پر آئیں گے۔ ابھی زد میں شریف خاندان ہیں، مگر محفوظ کوئی بھی نہیں رہے گا۔ حکمران اشرافیہ اور مقتدر مخصوصہ نے اپنی عادتیں نہ بدلیں تو نیا عہد اُن کے ساتھ نباہ نہ کر پائے گا۔


متعلقہ خبریں


قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس (آج) شام چار بجے دوبارہ طلب وجود - بدھ 28 ستمبر 2022

وزیراعظم شہباز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بدھ کی شام چار بجے دوبارہ طلب کر لیا۔ ذرائع کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وزارت داخلہ، خارجہ، خزانہ، اطلاعات کے وزرا شرکت کریں گے، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف، تینوں سروسز چیف بھی شرکت کریں گے۔ نجی ٹی وی کے مطابق اجلاس...

قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس (آج) شام چار بجے دوبارہ طلب

آڈیو لیکس پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منسوخ وجود - منگل 27 ستمبر 2022

وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے قومی سلامتی کمیٹی کا بدھ کو طلب کیا گیا اجلاس منسوخ کر دیا گیا۔ نجی ٹی وی نے ذرائع وزارت داخلہ کے حوالے سے بتایا کہ آڈیو لیکس کے لیے ابھی کوئی جے آئی ٹی نہیں بنی، قومی سلامتی کمیٹی کا بدھ کو ہونے والا اجلاس بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔ وزیراعظم شہباز شر...

آڈیو لیکس پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منسوخ

مضامین
آقاۖکی حیات مبارکہ کے آخری لمحات وجود جمعه 29 ستمبر 2023
آقاۖکی حیات مبارکہ کے آخری لمحات

نبی کریمۖ پر درود و سلام کی فضیلت وجود جمعه 29 ستمبر 2023
نبی کریمۖ پر درود و سلام کی فضیلت

کینیڈا بھارت تعلقات سرد مہری کا شکار وجود جمعرات 28 ستمبر 2023
کینیڈا بھارت تعلقات سرد مہری کا شکار

سعودیہ اور اسرائیل دوستانہ روش پر وجود جمعرات 28 ستمبر 2023
سعودیہ اور اسرائیل دوستانہ روش پر

وکیل اور وکالت وجود بدھ 27 ستمبر 2023
وکیل اور وکالت

اشتہار

تجزیے
متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!! وجود هفته 23 ستمبر 2023
متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!!

نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟ وجود بدھ 20 ستمبر 2023
نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟

نیپرا کا عوام کش کردار وجود جمعه 15 ستمبر 2023
نیپرا کا عوام کش کردار

اشتہار

دین و تاریخ
حضور سرور کونین،تاجدار مدینہ،خاتم النبیین حضرت محمدﷺکی سیرت طیبہ وجود جمعه 29 ستمبر 2023
حضور سرور کونین،تاجدار مدینہ،خاتم النبیین حضرت محمدﷺکی سیرت طیبہ

سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش وجود هفته 23 ستمبر 2023
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش

جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے وجود جمعه 15 ستمبر 2023
جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے
تہذیبی جنگ
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے

مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی وجود جمعرات 03 اگست 2023
مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی

کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے
بھارت
بھارت میں ہم جنس پرست لڑکیوں نے شادی کر لی وجود جمعرات 28 ستمبر 2023
بھارت میں ہم جنس پرست لڑکیوں نے شادی کر لی

سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم وجود منگل 19 ستمبر 2023
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم

آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا

بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا وجود بدھ 06 ستمبر 2023
بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا
افغانستان
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا

افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی وجود پیر 14 اگست 2023
افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی

بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام وجود منگل 08 اگست 2023
بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام
شخصیات
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے وجود جمعه 22 ستمبر 2023
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے

معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال
ادبیات
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر

فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے وجود پیر 11 ستمبر 2023
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال