وجود

... loading ...

وجود
وجود

سرسبزپاکستان مگرکیسے

هفته 06 اگست 2022 سرسبزپاکستان مگرکیسے

تحریک انصاف کے دورحکومت میں جب سابق وزیر اعظم عمران خان نے سرسبزپاکستان منصوبے کے لیے جب ٹریلین درخت لگانے کااعلان کیا تو مخالفین نے خوب مذاق اڑایا تھاویسے بھی اپوزیشن نے عمر ان خان کی ہر تجویزکا یہی حشر کیاتھا حالانکہ ملک وقوم کے وسیع ترمفادمیں کچھ تجاویزکا تقاضا ہوتاہے اسے سنجیدگی سے لیا جائے بہرحال عمران خان کی حکومت تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اب ختم ہوچکی ہے قطع نظراس بات کے کہ پی ٹی آئی کی حکومت غلط ہٹائی گئی یاطریقہ کاردرست تھا،اس بحث کویہیں چھوڑکراصل موضوع کی جانب آیاجاناہی بہترہے ،ضروری نہیں ماضی کی حکومت کی جانب سے اٹھایاگیاہراقدام غلط ہواس کے کچھ اقدامات ایسے بھی ہوسکتے ہیں جن سے بہرصورت ملک وقوم کافائدہ ہی ممکن ہے ،انہی اقدامات میں پی ٹی آئی دورحکومت کاملین ٹری منصوبہ بھی ہے ۔
اس میں کوئی شک نہی کہ ملک میں بڑھتی ہوئی آلودگی، موسموں کے درمیاتی مدت کے دوران حدت میں اضافہ،بارشوںمیں کمی اور موسمی تغیرات کے پیش ِ نظر شجرکاری کی مہم پورا سال جاری رہنی چاہیے، پاکستان جیسے ملک میں گرمیوںکے موسم میں جیسے سورج سوا نیزے پر آجاتاہے جس کے باعث بجلی کا استعمال بڑھ جانے سے صنعتوںپر ا سکے منفی اثرات الگ مرتب ہوتے ہیں بلکہ بجلی مسلسل مہنگی ہونے سے عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی چلی جارہی ہے ان حالات میں ٹریلین درخت لگانے کا منصوبہ شدید حبس کے درمیان تازہ ہوا کے جھونکے کے مترادف ہے اس لیے ٹریلین درخت لگانے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے کی اشدضرورت ہے ، پاکستان بھر میں ریلوے ٹریک کے ساتھ ساتھ لاکھوںدرخت لگائے جاسکتے ہیں جبکہ ملک بھرکی نہروںکے دونوں اطراف پھل اور پھول دار درخت لگانے سے نہ صرف ماحول خوشگوار بنانے میں مدد ملے گی بلکہ روزگار کے نئے مواقع بھی میسر آسکتے ہیں اور اس طرح حادثات میں بھی نمایاں کمی ہوسکتی ہے مگر ضروری ہے کہ ایک باقاعدہ پلاننگ کے تحت کام لیا جائے۔
پھل اور پھول دار درختوں کے ایریاز کو لیزپر دیا جاسکتاہے اور اس سے زرمبادلہ بھی آسانی سے کمانے کی سبیل پیداہوجائے گی ،اس ضمن میں سوشل میڈیا پر سے بھی مدد لی جاسکتی ہے ،یقینا آپ سب نے پاکستان میں بننے والی پانچوں موٹرویز کا سفر کیا ہوگا یا کم از کم لاہور سے اسلام آباد کی موٹروے کا سفر تو کیا ہی ہوگا کبھی آپ نے غور کیا کہ موٹروے کے دونوں طرف جو باؤنڈری کے اندر زمین ہے اس پہ سفیدہ لگا ہوا ہے. مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس سفیدے کا کیا فائدہ ہے، انتہائی زرخیز زمین ہے پھر سفیدہ لگانے کی بات کچھ سمجھ نہیں آتی اگر موٹر وے “ون “جو پشاور سے اسلام باد تک ہے اس کے گرد آڑو, زیتون, انار, کالی مرچ, اور سیب وغیرہ کے پودے لگا دئیے جائیں جن کے لیے وہاں کی آب و ہوا ساز گار ہے تو کتنی خوبصورتی ہوگی اور کتنا زیادہ فروٹ بھی حاصل ہوجائے گا اسی طرح موٹروے” ٹو” پہ اسلام آباد سے کلر کہار تک صنوبر اور لوکاٹ بڑا زبردست ہو سکتا… لِلہ سے لے کر بھیرہ تک بیری کا درخت بہت کامیاب ہے ،اسی پہ بھیرہ سے لے کر پنڈی بھٹیاں تک موسمبی، کینو، سنگترہ اور گریٹ فروٹ بہت کامیاب رہے گا،. پنڈی بھٹیاں سے لاہور تک امرود, فالسہ, لیچی, انگور اور جامن بہترین پرورش پا سکتے، موٹروے” تھری” پہ پنڈی بھٹیاں سے فیصل آباد اور موٹروے “فور” پہ لاہور سے عبدالحکیم اور فیصل آباد سے عبدالحکیم پربھی امرود, آم, جامن, فالسہ ,بیری اور شہتوت وغیرہ کامیاب پودے رہیں گے،موٹروے” فائیو “ملتان سے سکھر پہ بھی بہت اعلٰی اقسام کے کھجور اور آم کے درخت لگائے جا سکتے, جیساکہ آپ کو پتہ ہوگا ،آم پھلوں کا بادشاہ ہے اور اس کی 1000 سے زیادہ اقسام ہیں لہذایہاں پریہ ساری اقسام لگائی جا سکتی ہیں ،اب دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کی ان پھل دار پودوں کی نگہداشت کون کرے گا تو اس کے لیے مالی بھی رکھے جا سکتے ہیں, یا پھر باغات ٹھیکے پر دئیے جا سکتے ہیں اس طرح ملک پہ بوجھ بھی نہیں بنے گا الٹا یہ پھل دار درخت حکومت کو منافع دیں گے. اور ہزاروں لوگوں کو روز گار ملے گا اور مزید برآں پھل پورے ملک میں سستا ہو جائے گا اور پھر حکومت اسے ایکسپورٹ بھی کر سکتی ہے
جب موٹر وے بنی تو کوئی سوچ سکتا تھا کہ پاکستانی اسے صاف ستھرا رکھیں گے اس پہ سفر کرنے والوں کی جان ومال محفوظ ہو گی یہاں تیز رفتاری پہ چالان ہو گا ۔اس وقت لوگوںکا خیال تھا موٹروے روایتی سڑکوں جیسی ہوگی کچھ کا خیال تھا کچھ عرصہ بعد یہاں جگہ جگہ ” کھڈے” پڑجائیں گے لیکن یہ باتیں غلط ثابت ہوئیں اور ترقی یافتہ ملکوں کی طرح تمام خوبیاں آج موٹروے میں موجود ہیں اس کے لیے کہ ایک ماحول بنایا گیا ہے لوگ اپنا کچرا موٹروے پہ نہیں پھینکتے قوانین کی پاسداری کرتے ہیں تو ماحول تو بنانا پڑے گا ۔اب کچھ کچھ لوگ خیال کریں گے ،پھل اور پھول دار درختوں کودیکھ کر مسافر رکیں گے اور حادثات ہوں گے نہیں جناب ٹھہریئے ،کوٹ مومن کے پاس سے گزریں تو دیکھیں سڑک کی دونوں طرف کینو کے باغات ہیں لیکن کوئی گاڑی انہیں دیکھنے کے لیے نہیں رکتی، اسی طرح بھلوال سے سرگودھا جائیں تو راستے کے دونوں جانب برلب سڑک کینو کے باغات ہیں لیکن نہ کوئی گزرتے ہوئے انہیں توڑتا ہے نہ ٹریفک کے لیے کبھی کوئی روکاوٹ بنتی ہے تو موٹر وے کے ساتھ ہزاروں میل کی زمین کو اگر اس طرح کارآمد بنایا جائے تو کمال ہی ہوجائے، زیتون بھی کاشت کی جا سکتی ہے،بہاولپور جب آزاد ریاست تھی تو اس میں ا سکولوں، کالجوں، جامعات، ہر سرکاری دفاتر، شاہرات، نہروں کے کناروں، زخرہ جات میں ایسے ہی پھل دار اورنہایت کارآمد اشجار لگائے جاتے تھے جو کہ ماحول میں خوبصورتی کے ساتھ ساتھ حکومتی آمدنی میں اضافے کا خاطرخواہ زریعہ بھی تھے جس کی نشانیاں اب بھی کہیں کہیں باقی ہیں.. لیکن اب تو اس ملک کا باوا آدم ہی نرالہ ہے ،میرے خیال میں یہ نا ممکن نہیں بس جذبے کی ضرورت ہے حکومتی سطح پہ بھی اور عوامی سطح پہ بھی۔باقی ہمت مرداں۔۔مدد خدا تجویز بہت اچھی ہے لیکن ویسے ہم بھیڑچال کے عادی ہوگئے ہیں ماضی میں بغیرسوچے سمجھے سفیدے کے درخت بے تحاشہ لگادئیے گئے ،دیکھنے میں تو سفیدہ خوبصوت لگتاہے کیا اونچے اونچے دبلے پتلے درحتوںکی اپنی ہی شان ہے لیکن سفیدہ زمین کا پانی چوس کرجوان ہوتا ہے پاکستان میں تو پہلے ہی پانی کی شدید کمی ہے اس لیے سفیدے کا درخت نہ لگایا جائے کچھ لوگوںکا کہنا یہ بھی ہے کہ سفیدے کا درخت جلد بڑا ہو کر زمین کے کٹاؤ اور ایکسیڈنٹ کی صورت میں گاڑی کو گہری کھائی میں جانے سے روکتا ہے۔بہرحال پھل اور پھول دار درخت لگانے کی تجویز بہت ہی اچھی اور فائدہ مند تجویز ہے اس پرعمل ہونا بھی چاہیے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ اس ملک پر مسلط اشرافیہ عوام اور ملک کی بھلائی کا کم اور اپنا ذاتی فائدہ کا زیادہ سوچتی ہے اگر سنجیدگی سے ملک کے طول و عرض میں پھل اور پھول دار درختوںکی افزائش کے منصوبے شروع کیے جائیں تو اس کے کئی فائدے ہیں پاکستان کو ایک سرسبزملک بنانے سے ماحولیاتی آلودگی کا خاتمہ ہوگا،لوگوںکو روزگار کے مزید مواقع میسر آئیں گے،موسموںکی شدت میں کمی آجائے گی ۔
روز خوابوں میںملاقات ہوا کرتی تھی
اور خواب شرمندہ ٔ تعبیرہوا کرتے تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر