وجود

... loading ...

وجود
وجود

کیا طوفانی بارشوں میں ’’ این ڈی ایم اے‘‘ بھی ڈوب گیا؟

جمعرات 04 اگست 2022 کیا طوفانی بارشوں میں ’’ این ڈی ایم اے‘‘ بھی ڈوب گیا؟

 

نواب آف جونا گڑھ کے پاس ایک شخص ملازمت کے لیے آیا۔نواب نے اُس شخص سے دریافت کیا کہ ’’اُس میں کون سی ایسی خوبیاں ہیں، جن کی وجہ سے وہ اُسے اپنے پاس ملازمت پر رکھ لے‘‘۔ملازمت کے خواہش مند شخص نے عاجزی سے جواب دیا کہ ’’سرکار! مجھ میں بس ایک ہی خوبی ہے اور وہ یہ کہ جب آندھی ،بارش اور طوفان آجائے تو میں چادر لمبی تان کر خوب مزے سے سوتا ہوں‘‘۔نواب اُس شخص کا عجیب و غریب جواب سُن کر سخت حیران ہوا ، بہرحال نواب صاحب نے اُس شخص کو اپنے پاس جانوروں کے طبیلے پر ملازم رکھ لیا ۔چند ہفتہ بعد جب اچانک جوناگڑھ کے علاقہ میں تیز آندھی اور شدید بارش کا طوفان آیا تو نواب صاحب اپنے ملازم کی خوبی کو ٹوہ لینے کے لیے خاموشی کے ساتھ طبیلہ میں گئے تو اُنہوں نے دیکھا کہ طبیلے میں تمام جانور بارش سے محفوظ پڑچھتی میں ترتیب سے کھڑے ہیں ، نیز اناج کی بوریاں ترپال سے ڈھکی ہوئی ہیں ، جبکہ جانوروں کا چارہ بھی کھرلی میں محفوظ ہے اور طبیلہ میں ہر شئے اپنے مقام پر رکھی ہوئی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ طبیلہ کے صاف ستھرے فرش پر بارش کا پانی جھرنے کی طرح بہہ رہا ہے اور اُس کا ملازم واقعی ایک کونے میں چارپائی پر لمبی چادر تان کر مزے سے سویا ہواہے۔جب کہ اُس کی حویلی میں موجود دیگر تمام ملازم اپنے اپنے ساز و سامان کو تیز آندھی اور شدید بارش کے طوفان سے بچانے کے لیے پریشانی کے عالم اِدھر ،اُدھر بھاگ دوڑ کررہے ہیں ۔مذکورہ واقعہ سے بس ایک ہی سبق ملتا ہے کہ اگر پہلے سے پلاننگ اور پیش بندی کرلی جائے تو اچانک سے سر پر پڑنے والی کسی بھی اُفتاد سے باآسانی نمٹا جاسکتاہے۔
بے شک !بارش اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رحمت ہے۔ لیکن یہ رحمتِ الہٰی ہمیشہ ہی سے ہمارے ہاں زحمت بن جاتی ہے۔جولائی کے رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں ہونے والی موسلادھار بارشیں، گزشتہ 30 سال کی اوسط سے دگنی ہوئی ہیں اور حالیہ طوفانی بارشوں نے گزشتہ 30 سال کے تمام ریکارڈ توڑ د یئے ہیں ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مون سون کے موسم نے ابتدا ہی میں انسانی جانوں اور املاک کا زبردست نقصان کر کے تاریخی تباہی مچائی ہے ۔یقینا بعض ماہرین کا یہ کہنا بھی بالکل درست ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا بھر میں طوفانی بارشیں اور جان لیوا سیلاب تسلسل کے ساتھ آرہے ہیں، لیکن گزشتہ چند ہفتوں میں طوفانی بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے ہونے والی انسانی ہلاکتوں کو صرف موسم کی تبدیلی سے منسوب کرنا بھی فطرت کے ساتھ سخت ناانصافی ہوگی۔ کیونکہ بارش کے نتیجہ میں صوبہ سندھ اور بلوچستان میں ہونے والی بدترین تباہی کی ایک بڑی وجہ بیڈ گورننس بھی ہے۔
کیا یہ اتفاقیہ حادثہ ہے کہ بارشوں سے سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان دریاؤں یا نالوں کے آس پاس ہوا ہے۔ مثال کے طور پر کراچی میں ہمیشہ کی طرح نالے کچرے سے بھرے رہے ہیں ،جس کے نتیجے میں حالیہ بارشوں میں شہر بھر کی سڑکیں اور رہائشی علاقے زیرآب آگئے۔ نیز کراچی کے نالوں میں گند اور غلاظت پھینکنے کا رواج عام ہونے کی وجہ سے پورا شہر کیچڑ اور گندگی کے ڈھیر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ خاص طورپر کراچی کی سبزی منڈی میں بارشوں کے بعدکیچڑ اور گندگی کے ڈھیرکے باعث سبزیاں بھی مضرصحت اورآلودہ ہوگئیںہیں،جس کی وجہ سے شہر میں ہیضے کی وباء پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے ۔ جبکہ سندھ کے دیگر علاقوں میں بھی کھانے پینے کی اشیاء کا قلت کاسامنا ہے اور بارش سے متاثرہ اکثر علاقوں میں وبائی امراض پھوٹ پڑے ہیں اوراَب تک سندھ کے سرکاری اور غیر سرکاری اسپتالوں میں ایک ہزار سے زائد بچے اور بڑے گیسٹرو اور ڈائریا میں مبتلا ہوچکے ہیں ۔
المیہ ملاحظہ ہو کہ ضلع دادو کی 6 یونین کونسلوں کے 200 سے زائد دیہاتوںکا دو ہفتہ گزرنے کے بعد بھی ،دوسرے علاقوں کے ساتھ زمینی رابطہ منقطع ہے اور علاقہ متاثرین پیدل یا کندھوں پر موٹر سائیکلیں اٹھا کر لے جانے پر مجبور ہیں۔بظاہر اِس وقت سندھ میں بارشیں تھم چکی ہیں لیکن محکمہ موسمیات آئندہ چند دنوں میں صوبہ بھر میں مزید طوفانی بارشوں کی پیش گوئی کی ہوئی ہے ۔ جبکہ دریائے سندھ میں نچلے درجے کے سیلاب کی صورتحال بھی بدستور برقرار ہے۔ گڈو اور سکھر بیراج پر سطح آب میں تیزی سے اضافے کے باعث دونوں بیراجوں کے عین درمیان میں واقع کچے کا ایک بڑا علاقہ اور متعدد دیہات زیر آب آگئے ہیں۔جبکہ سکھر بیراج کے مقام سے لاشیں ملنے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔یاد رہے کہ گزشتہ 11 روز میں صرف سکھر بیراج کے آس پاس سے مجموعی طور پر اب تک 20 انسانی لاشیں مل چکی ہیں۔
واضح رہے کہ حالیہ بارشوں میں صوبہ بلوچستان تو سندھ سے بھی زیادہ متاثر ہوا ہے۔ جہاں بارش اور سیلاب کے باعث جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد 150 تک جاپہنچی ہے۔ پی ڈی ایم اے کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، صوبہ بلوچستان میں حالیہ بارشوں کے دوران مختلف حادثات میں جاں بحق ہونے والے 150 افراد میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے۔نیز جاں بحق ہونے والوں میں 57 مرد،41 خواتین اور 52 بچے شامل ہیں اور زیادہ تر اموات بولان، کوئٹہ، ژوب، دکی، خضدار،کوہلو، کیچ، مستونگ، ہرنائی، قلعہ سیف اللہ اور سبی میں ہوئیں۔نیز بلوچستان میںبارشوں کے دوران حادثات کا شکار ہوکر 70 افراد زخمی ہوئے ہیں، زخمیوں میں 46 مرد،10 خواتین اور 14 بچے شامل ہیں۔جبکہ مجموعی طور پر صوبے بھر میں13 ہزار 535 مکانات منہدم ہوئے ہیں ۔علاوہ ازیں بلوچستان میں بارش اور سیلاب کے نتیجہ میں میں 640 کلو میٹر پر مشتمل مختلف 6 شاہرائیں شدید متاثر ہوئی ہیں اورمختلف مقامات پر 16 پل ٹوٹ چکے ہیں۔
بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں انگوروں کے تمام باغات تباہ و برباد ہو گئے ہیں۔ صوبہ کا سب سے زیادہ متاثرہ ضلع قلعہ سیف اللہ کے دور افتادہ علاقے اوربلوچستان کو خیبر پختون خوا اور پنجاب سے ملانے والی قومی شاہراہ N50 پر واقع صوبے کے بلند ترین صحت افزا مقام کان مہتر زئی ہے ، جہاں سیلابی صورت حال نے نظامِ زندگی مکمل طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا ہے اورلوگ پہاڑوں پر زندگی گزارنے والے حالات سے مجبور ہیں یا پھر محفوظ علاقوں کی جانب نقل مکانی کر رہے ہیں۔یاد رہے کہ پاکستان میں ذائقے اور مٹھاس میں شہرت رکھنے والے سیب، خوبانی اور چیری کاشت کرنا کان مہتر زئی کے مکینوں کا واحد ذریعہ معاش ہے مگر طوفانی بارش اور سیلاب نے پر فضاء پہاڑوں میں پرسکون زندگی کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیا ہے۔یہاں منہ زور سیلابی ریلہ کئی دیہات کو تو مکمل طور پر بہا کر اپنے ساتھ لے گیا ہے ۔جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ کر بال بچوں کے ساتھ پہاڑوں پر پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
دوسری جانب ضلع لسبیلہ کے علاقے اوراکی میں بھی صورتِ حال بہت زیادہ خراب ہے اور سیلاب کے باعث بیشتر نشیبی علاقے مکمل طورپر زیر آب آگئے ہیں۔ کچے مکانات پانی میں بہہ گئے ہیں اور لوگ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔ لسبیلہ کے بعض علاقوں میں 24 گھنٹے گزرنے کے باجود بھی ابھی تک کئی افراد سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والے زیادہ ترویڈیو کلپس اِسی علاقہ کی ہیں۔ جن میں دیکھا جاسکتا ہے کہ لوگ سیلابی پانی میں پھنسے ہوئے ہیں۔شدید بارشوں سے کوئٹہ اور کراچی کے درمیان تین رابطہ پلوں سمیت ہائی وے کے کچھ حصے بہہ جانے کے باعث ٹریفک کا نظام برے طرح سے متاثر ہوا ہے۔
واضح رہے کہ صوبہ بلوچستان میں طوفانی بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کا تناسب دوسرے علاقوں سے کہیں زیادہ ہے اور یہاں جانی و مالی نقصانات کے اعدادو شمار انتہائی ہول ناک ہیں۔ قلعہ سیف اللہ، ژوب، چمن، لورالائی، لسبیلہ اور دیگر کئی علاقوں میں بارشوں سے اس مرتبہ شدید تباہی ہوئی ہے،یہاں پچھلے 30 سال کا ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے اور بارشیں معمول سے 100 گنا زیادہ ہوئی ہیں۔نیزپی ڈی ایم اے کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق مون سون کی حالیہ بارشوں کے باعث بلوچستان کے اضلاع کوئٹہ، پشین، قلعہ سیف اللہ، قلعہ عبداللہ، سبی، واشک، چمن، آواران، نوشکی، زیارت، شیرانی، ہرنائی، جعفرآباد، ژوب، ڈیرہ بگٹی، خضدار، مستونگ، پنجگور، کوہلو اور لسبیلہ میں سب سے زیادہ انسانی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
اگرچہ وزیراعظم پاکستان ،شہباز شریف نے اعلان کیا ہے کہ جو لوگ اس بارشوں اور سیلاب کے دوران جاں بحق ہوئے ہیں ان کے لواحقین کو 10 لاکھ روپے دیے جائیں گے، اسی طرح جو گھر سیلاب میں تباہ ہوئے ہیں، اس کے لیے 5 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔جبکہ فصلوں کی تباہی اور دیگر نقصانات کا تعین کرنے کیلئے سروے کرکے صحیح تخمینہ لگایا جائے گا اور بعد ازاں سیلاب زدگان کی بحالی کے عمل میں وفاقی حکومت صوبائی حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرے گی۔ تاہم ضرورت اِس امر کی ہے کہ فوری نوعیت کی امدادی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ بارش اور سیلاب جیسے مسائل سے مستقل بنیادوں پر نمٹنے کے منصوبے بھی شروع کیے جائیں۔جیسے سب سے پہلے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی جو کہ وفاقی سطح پہ جب کہ صوبائی سطح پہ پی ڈی ایم اے کو فعال بنایاجائے اور دونوں اداروں سے وہ کام لیے جائیں جن کے لیے یہ ادارے معر ض وجود میں لائے گئے ہیں ۔ بظاہر این ڈی ایم ہے کا گول goal اور موٹو’’ریسکیو‘‘ قرار دیا گیا ہے اور این ڈی ایم اے کی آفیشل ویب سائٹ پرکیپیٹل لیٹر یعنی جلی حروف میں ’’ریسکیو‘‘ کا لفظ لکھا گیا ہے ۔ لیکن افسوس یہ ادارہ کہیں بھی سیلاب زدگان کو اُس طرح سے’’ ریسکیو‘‘ کرتا ہوا دکھائی نہیں دیا ،جیسا کہ اِسے عام لوگوں کو کیا جانا چاہیے تھا۔ حالانکہ اُردو زبان میں ریسکیو کا مطلب خطرے سے بچانا ہے،ناکہ تباہ کاریوں کا انتظارکرنا اور بعدازاں سیلابی پانے میں ڈوبتی ہوئی لاشیں برآمد کرنا۔ہمارا سوال تو بس اتنا سا ہے کہ کیا این ڈی ایم اے بھی کبھی نواب آف جونا گڑھ کے عقل مند ملازم کی طرح تیز بارش اور طوفان سے نمٹنے کے لیے پیشگی پلان مرتب کرسکے گا؟۔
٭٭٭٭٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر