وجود

... loading ...

وجود
وجود

وزارت خارجہ: پاکستان کی پہلی دفاعی لائن پر ایک اور حملہ

بدھ 03 اگست 2022 وزارت خارجہ: پاکستان کی پہلی دفاعی لائن پر ایک اور حملہ

پچھلے وزیراعظم نے ٹیلی ویژن کو استعمال کرتے ہوئے وزارت خارجہ کے افسروں پر حملے کیے جو ساری دنیا کے میڈیا میں ہمارے لیے جگ ہنسائی کا سبب بنے۔ بھارتی میڈیا نے تو خصوصا اس کو خوب مرچ مصالحہ لگا کر ہمارے ایک اہم قومی ادارے کا خوب مذاق اڑایا۔سابق وزیراعظم نے صرف اس بے عزتی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ سائفر گیٹ کے ذریعے ہمارے سفارت کاروں کی بیرون ملک معلومات حاصل کرنے کی صلاحیت کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ اس سکینڈل کے بعد بہت سارے سینیئر غیرملکی عہدیدار ہمارے سفارت کاروں سے بات کرنے سے کترانے لگے کہ شاید ہمارے مفاد پرست وزیراعظم ان نازک باہمی تعلقات کے موضوعات کو اپنی سیاست کی نذر نہ کر دیں۔
موجودہ حکومت نے ایک قدم آگے بڑھ کر ہماری پہلی دفاعی لائن کو زیادہ موثر طریقے سے نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے۔ ایک غیر دانشمندانہ فیصلے کے ذریعے وزارت خارجہ کے بیرون ملک تعینات سفارت کاروں کے الانسز، جن کی وجہ سے وہ بیرون ملک اپنے گھریلو اخراجات چلاتے تھے، پر 35 فیصد اضافی ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے سب الانسز میں اس وقت 35 فیصد کمی کر دی گئی ہے جبکہ دنیا بھر میں بشمول پاکستان افراط زر میں بیمثل اضافہ ہوا ہے۔
سفارت کاروں کو یہ الائونسز اس لیے دیے جاتے ہیں کہ وہ بیرون ملک ایک باوقار طریقے سے اپنے ملک کی نمائندگی کر سکیں کیونکہ پاکستان میں جو بنیادی تنخواہ دی جاتی ہے اس سے دنیا کے مہنگے ترین شہروں لندن، واشنگٹن، نیو یارک، جنیوا یا پیرس میں مقر طریقے سے پاکستان کی نمائندگی نہیں کی جا سکتی۔
مثلا پاکستان میں افسروں کے بنیادی ا سکیل 17 کی تنخواہ 75 ہزار سے ایک لاکھ کے قریب ہوتی ہے جو کہ ڈالر کے موجودہ ریٹ کے مطابق تقریبا 300 ڈالر کے برابر ہوتی ہے۔ یقینا اس معمولی سی رقم سے بیرون ملک باوقار طریقے سے نہیں رہا جا سکتا اور اسی لیے مختلف الانسز کے ذریعے سفارت کاروں کے لیے پیشہ وارانہ ذمہ داریاں با توقیر طریقے سے ادا کرنے میں آسانی پیدا کی جاتی ہے۔ان الائونسز میں سب سے بڑا فارن الائونس ہوتا ہے جو بنیادی تنخواہ کو استحکام دیتا ہے۔ یہ الانس سفارت کاروں کو اپنے ملک کی نمائندگی ایک باعزت طریقے سے کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔ اس سے وہ اپنے روزمرہ کے اخراجات، بجلی، گیس اور پانی کے اخراجات کے علاوہ گھر کے کام کرنے والے جزوقتی عملے کی تنخواہ ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔
اب آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ بنیادی ا سکیل 17 کا ایک تھرڈ سیکریٹری تین سو ڈالر میں یہ اخراجات کیسے پورے کر سکتا ہے؟
یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ افسر ان تین سو ڈالر پر پاکستانی انکم ٹیکس بھی ادا کر رہا ہوتا ہے۔ اس اضافی فارن الانس سے یہ قدرے ممکن ہو پاتا ہے کہ وہ شائستگی سے اور مہذب طریقے سے بیرون ملک اپنا رہن سہن برقرار رکھ سکے۔ اب اس اضافی الانس میں سے 35 فیصد کم کر دینے سے کیسے ممکن ہے کہ یہ افسر اپنے گھر کا کچن ان مہنگے شہروں میں عزت سے چلا سکے گا؟
اسی طرح جیسے پاکستان میں حکومت اپنے ملازمین کو گھر کی سہولت فراہم کرتی ہے یا مناسب پیسے دے کر اسے خود گھر کرائے پر لینے کی اجازت دیتی ہے، اسی طرح بیرون ملک سفارت کاروں کو گھر کی سہولت دینا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے، کیونکہ سفارت کار مسلسل مقامی حکومتی عہدیداران اور اہم لوگوں سے رابطے میں رہتے ہیں اور ان سے میل جول بڑھا کر پاکستان کے سیاسی، معاشی، تجارتی اور عسکری مفادات کو آگے بڑھاتے ہیں۔
ان تعلقات میں گہرائی اور مضبوطی لانے کے لیے ان اہم شخصیات کو گھروں پر مدعو کرنا سفارتی ذمہ داریوں اور آداب میں شامل ہوتا ہے۔ عموما ہر ملک کے سفارت کار مناسب رہائشی علاقوں میں رہائش تلاش کرتے ہیں تاکہ اہم مقامی شخصیات ان پتوں پر آنے میں ہچکچاہٹ نہ محسوس کریں۔یقینا اسلام آباد میں مقیم کوئی غیر ملکی سفارت کار راجہ بازار میں رہائش اختیار کر کے یہ امید نہیں کر سکتا کہ اہم مقامی عہدیدار اس کے گھر آنا پسند کریں گے، اسی لیے مناسب ہاس رینٹ الاونس ہمارے سفارت کاروں کو بیرون ملک بہتر علاقوں میں رہائش کا موقع دیتے ہوئے انہیں اہم مقامی شخصیات سے تعلقات بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اب اس الائونس میں بھی 35 فیصد کمی بذریعہ ٹیکس کر دی گئی ہے۔ یہ کٹوتی ہمارے سفارت کاروں کو بدرجہ کم بہتر جگہوں پر نقل مکانی کرنے پر مجبور کرے گی جس کا ہمارے سفارتی اہداف حاصل کرنے کی قوت پر منفی اثر پڑے گا۔اسی طرح اس نئے ٹیکس سے سفارت کاروں کے بچوں کو تعلیم کے لیے دیے جانے والی امداد پر بھی 35 فیصد ٹیکس لگا دیا گیا ہے۔ یہ تعلیمی امداد میں اس قدر شدید کمی ہے کہ شاید ہمارے سفارت کاروں کے لیے اپنے بچوں کو سکول بھیجنا ہی ممکن نہ رہے۔
حکومتی تعلیمی امداد صرف ان ممالک میں دی جاتی ہے جہاں انگریزی نہیں بولی جاتی اور وہاں پر موجود انگریزی سکول ہمارے سفارت کاروں کی مالی پہنچ سے بہت دور ہوتے ہیں۔ اس امداد میں کمی سے ممکن ہے کہ بہت سارے بچے بیرون ملک اپنی تعلیم مکمل نہ کر پائیں یا انہیں مقامی زبان والے سکولوں میں جانا پڑے جو ان کے تعلیمی مسائل میں وطن واپسی پر شدید اضافے کا باعث بنے گا۔ اس نئے غیر دانشمندانہ اور ظالمانہ ٹیکس کو اگر فورا واپس نہ لیا گیا تو یہ فارن سروس کے لیے ایک زہر قاتل ثابت ہو گا۔ یقینا اس نئے ٹیکس سے فارن سروس میں آنے والوں کے لیے ترغیب میں بھی کمی آئے گی۔ پہلے ہی فارن سروس مختلف وجوہات کی بنیاد پر مقابلے کے امتحان میں کافی نیچے درجے پر آ چکی ہے اور اس قدم سے یہ تقریبا آخری درجے پر پہنچ جائے گی۔
اس لیے ضروری ہے کہ اس فہم سے عاری ٹیکس کو فوری ختم کیا جائے۔ اگر کچھ وجوہات اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں کے دبا کی وجہ سے یہ ممکن نہیں تو ان الانسز میں ٹیکس لگانے کے بعد ان میں فورا 35 فیصد اضافہ کر دیا جائے۔ وزارت خارجہ کے افسران پہلے ہی شدید مشکل حالات میں بیرون ملک اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں اور ہمیں اس قدم سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کرنے کی ضرورت نہیں۔
وزارت خارجہ ایک بہت بڑا اور اہم قومی ادارہ ہونے کے باوجود ایک انتہائی معمولی بجٹ پر کام کر رہا ہے۔ وزارت خارجہ کا مکمل بجٹ صرف 12 کروڑ ڈالر ہے جس سے ہمارے سو سے زیادہ سفارت خانے اور وزارت خارجہ کا کام چلایا جاتا ہے۔ اس نئے ٹیکس سے شاید حکومت پاکستان انتہائی قلیل 80 یا 90 لاکھ ڈالر بچا سکے گی۔ اس قدر معمولی رقم کے لیے ملک کی پہلی دفاعی لائن کو کمزور بنانے میں کسی قسم کی حکمت نہیں دکھائی دیتی۔ پاکستان سے قدرے مختصر بنگلہ دیشی وزارت خارجہ کے لیے تقریبا 18 کروڑ ڈالر کا بجٹ مخصوص ہے جب کہ بھارت تو تقریبا دو ارب ڈالر کے قریب اپنی سفارت کاری پر لگا رہا ہے۔
بیرون ملک پاکستان مخالف قوتوں کے مقابلے میں قلیل وسائل کے ساتھ ہمارے سفارت کاروں کے تقریبا ہاتھ کاٹ کر ان سے بہتر کارکردگی کا مطالبہ یا توقع کرنا خام خیالی کے سوا کچھ نہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ حکومت اس غیر سنجیدہ اور دانش سے عاری فیصلے پر فورا نظر ثانی کرے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر