وجود

... loading ...

وجود
وجود

بلوچستان کا بجٹ تماشا

بدھ 29 جون 2022 بلوچستان کا بجٹ تماشا

بلوچستان کا سال2022-23ء کا بجٹ بالآخر 21جون کو پیش کردیا گیا۔ بجٹ تماشا بنارہا ۔ صوبے کی پارلیمانی تاریخ میں ایک اور کر یہہ باب کا اضافہ ہوا ہے۔ پیش ازیں 18جون2021ء میں جا م کمال حکومت میں بجٹ کے دن بلوچستان اسمبلی کا احاطہ اکھاڑے میں بدل کر تاریخ رقم کی جا چکی ہے۔ یو ں اس بار فنڈز کے کش و بگیر میں ذہنی پستی کی مثا لیں قائم کردی گئی ہیں ہے۔ فنڈز کی کھینچا تانی کے بعد72ارب روپیخسارے کا بجٹ پیش کر دیا گیا ۔بجٹ کا کل حجم 612 ارب روپے ہے ،ترقیاتی اخراجات کی مد میں 191ارب روپے جبکہ غیر ترقیاتی اخراجات کی مد میں 367ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ جاری ترقیاتی منصوبوں کے لئے 133ارب جبکہ 3470نئی اسکیمات کے لئے 59 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔چناں چہ ماہرین کہتے ہیں کہ مجموعی طور پر بجٹ سخت مالیاتی پالیسی کمزور معیشت کو ظاہر کرتا ہے۔ بجٹ خسارہ 71 ارب ظاہر کیا گیا ہے جو درحقیقت شاید 90 ارب سے زیادہ ہو۔ پنشن میں اضافہ ایک چیلنج ہے۔ بجٹ ارکان اسمبلی میں تقسیم ہے اور انہیں نوازا گیا ہے۔ ترقیاتی منصوبے ناقص نوعیت کے ہیں، منصوبوں کی اکثریت، سڑکوں ، پی ایچ ای اور مقامی حکومت پر مشتمل ہے ،یعنی منصوبوں کی ایک بڑی تعداد بلاک ، انفرادی اور غیر پائیدار نوعیت کی ہے۔خسارے کا ماضی سے تقابل یہ ثابت کرتا ہے کہ صوبے اخراجات آمدن سے بہت بڑھتے جا رہے ہیں۔غرض تفصیل اس کشمکش اور ہلکے پن کی یہ ہے کہ بجٹ اجلاس کے لئے 17جون کو شام چار بجے وقت مقرر ہوا تھا۔جو تیاری اور اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث منعقد نہ ہوسکا ۔اسطرح نیا شیڈول جاری کیا گیا اور 20جون چار بجے کا وقت متعین کیاگیا۔ یہ اجلاس بھی منعقد نہ ہوا ، جس کی عدم اتفاق رائے سمیت ایک وجہ بلوچستان عوامی پارٹی کے جماعتی انتخابات بنی۔ یوں بجٹ اجلاس کیلئے21جون کا دن مقرر کرکے شیڈول کیا گیا ۔ اس روز چار بجے اجلاس شروع ہونا تھا ۔مگر اجلاس مقررہ وقت پر شروع نہ ہوا ۔ اس وقت تک صوبائی کابینہ کا اجلاس بھی نہ ہوسکا تھا۔
صوبے کی پارلیمانی تاریخ کے اندر یہ بات بھی رقم ہوئی کہ اتحادی جماعتوں پر مشتمل صوبائی کابینہ کی بجائے حزب اختلاف بھی مانگنے اور تجاویز میں شریک تھی۔ اول وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو، خود بلوچستان نیشنل پارٹی کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ملک نصیر شاہوانی کی رہائشگاہ گئے تھے ۔ پیہم ملاقاتیں و رابط جمعیت علماء اسلام سے بھی رہیں۔ تاہم جمعیت علماء اسلام بجٹ اجلاس کے آخری لمحات تک کامل حصہ کے حصول کے مطالبے پر کھڑی رہی۔ جے یو آئی کی طرف سے پارٹی کے اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ملک سکند رکی بجائے دلیل بازی وفاقی وزیر مواصلات و تعمیرات مولانا عبدالواسع کررہے تھے۔ بی اے پی کے صوبائی وزیر ترقی و منصوبہ بندی نور محمد دمڑ بھی جارحانہ انداز اپنائے زیادہ فنڈز کے مطالبے پرڈٹے ہوئے تھے۔ چناں چہ ماحول پوری طرح تلخ رہا۔ اس طرح تین گھنٹے کی تاخیر سے اجلاس شروع ہوا۔ وزیر مواصلات و تعمیرات سردار عبدالرحمان کھیتران جنہیں وزارت خزانہ کا اضافی چارج بھی سونپا گیا ہے نے بجٹ پیش کرنا شروع کردیا۔ یہاں انوکھی روایت ملاحظہ ہو کہ بجٹ تقریر تک شائع شدہ تھی۔ بیان گو کے سامنے متفرق صفحات تھے، جس سے اسے پڑھنے میں دقت کا سامنا رہا ۔عجب یہ کہ بجٹ کتابیں چھپ ہی نہ سکی تھیں۔ ایوان کو بجٹ دستاویزات کا مکمل سیٹ فراہم نہ ہوسکا، وہ یونہی تقریر سنتے رہا۔ تاسف کہ اس بد انتظامی پر حزب اختلاف کی جانب سے پھس پھسا سا اعتراض و احتجاج بھی نہ ہوا ۔ کیونکہ وہ اس عمل شریک تھی ۔ جمعیت علماء اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے عبدالقدوس اور اس کی جماعت کے وزراء کی دکھتی رگ پر پائوں رکھا تھا کہ ان کی طفیل و ہ وزارت اعلیٰ کی پرکشش کرسی پر براجمان ہے۔ اس بنا پورا پورا حصہ بٹور لینے میں کامیاب رہیں۔20جون کے اجلاس کے لئے اول تو بجٹ تیاری نہ تھی، دوئم انہیں انٹرا پارٹی و انتخابات کرانے کی پڑی تھی۔اس دن سول سیکرٹریٹ کے افسران کے ساتھ اجلاس ہورہا تھا کہ یہ سب اٹھ کر چلے گئے۔ بجٹ اس انتخابات کے لیے بطور آلہ استعمال کیا گیا کہ اپنی جماعت کے اراکین ادھر ادھر نہ جائیں ۔ ان انتخابات میں عبدالقدوس بزنجو صدر چنے گئے ۔ حالاں کہ پارٹی کے صدر جام کمال خان نے انٹرا پارٹی انتخابات19 اگست میں منعقد کرانے کا اعلان کر رکھاہے۔ مقصد یہاں جام کمال خان کو مزید پیچھے دھکیلنے کا بھی تھا۔ یہاں بھی یہ لوگ پارٹی عہدوں پر گتھم گتھا ر ہے۔ سیکریٹری جنرل کے عہدے کے لیے وزیر پی اینڈ ڈی نور محمد دمڑ نے خود کو پیش کیا تھا۔ بات نکلی ہے کہ رکن قومی اسمبلی سردار اسرار ترین اور نور محمد دمڑ کے درمیان تلخ کلامی ہوئی۔ نور محمد دمڑ نے ان پر جھپٹنے کی کوشش بھی کی ۔
جام کمال کو وزارت اعلیٰ میں سال2021-22ء کے بجٹ والے دن حزب اختلاف کے اراکین نے اسمبلی احاطہ اکھاڑے میں تبدیل کردیا تھا۔ توڑ پھوڑ کی جام کمال خان پر حملہ کی کوشش کی دھنگا فساد عبدالقدوس بزنجو ، حزب اختلاف وغیرہ کی ملی بھگت سے ہوا ۔اور پھر طے شدہ منصوبے کے تحت بجلی روڈ تھانہ گرفتاری دینے پر بھی چلے گئے ،جام کمال پر الزامات لگائے۔حالانکہ انسپکٹر جنرل پولیس بلوچستان رائے محمد طاہر برملا کہتے کہ وزیراعلیٰ اور اراکین اسمبلی کو اندر جانے کے لئے بکتر بند گاڑی کے ذریعے گیٹ توڑنے کا حکم اس نے خود دیا تھا۔ دیکھا جائے تو جام کمال تنہا کردیے گئے۔ نواب یوسف عزیز مگسی خانوادے کے فرد نوابزادہ طارق مگسی بھی ٹھہر نہیں سکا ہے ۔رہی بات چیف آف رند قبائل سردار یار محمد رند کی تو وہ اب تک کئی زقند لگا چکے ہیں۔ یعنی قدوس بزنجو رند کے گھر گئے یوںتلخیاں فراموش اور قدوس بزنجو اچھے قائد ایوان تسلیم کرلئے گئے ۔ یار محمد رند نے پہلے جام کے خلاف پلٹی کھائی تھی۔ دال نہ گلی تو عبدالقدوس کے خلاف ہوئے۔ جام کو اس نے اور ظہور بلیدی نے عدم اعتماد کے فر یب میں مبتلا کیا تھا ،یعنی بازی ان کی تھی ۔ گویا صوبے کی یہ خراب شناخت پشت پناہی سے قائم ہے، کہ سب ہی مستفید ہورہے ہیں ۔جام البتہ روک ٹوک کرتے تھے۔ مختلف امور میں قانون اور ضابطہ مد نظر رکھتے تھے۔جبکہ اب سب ہی کے لئے کھلی چھوٹ ہے۔ادھر ضلع لسبیلہ سے حب نکال کر الگ ضلع بنایا گیا جو دراصل جام کمال پر ضرب کاری کا حصہ ہی ہے۔ عبدالقدوس بزنجو دراصل اپنے خاندان کے لیے مسقبل کی پیوند کاری کرچکے ہیں۔ لگتا ہے کہ صوبہ میں آئندہ ہونے والے عام انتخابات کے بعد نا معقولیت ہی کو صوبے پر مسلط رکھا جائے۔ اسی میں پشت پناہ اپنی فلاح دیکھتے ہیں۔ لگتا ایسا ہے کہ پیپلز پارٹی کے اشتراک سے کاری گری ہونے جارہی ہے۔ چیف سیکریٹری عبدالعزیز عقلی کی تعیناتی اور عبدالخالق شیخ کی بطور آئی جی پولیس صوبے میں تقرری عیار کی سیاست کا حال بتاتا ہے۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ پچھلی کی مانند اس بار نگراں وزارت اعلیٰ کے منصب کی کیا بولی لگائی جائے گی۔ آیا پھر کوئی اسمگلر ڈھونڈا جائے گا۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

بھارت اورایڈز وجود منگل 23 اپریل 2024
بھارت اورایڈز

وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن وجود منگل 23 اپریل 2024
وزیر اعظم کا یوتھ پروگرام امید کی کرن

انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان وجود پیر 22 اپریل 2024
انتخابی منظرنامہ سے غائب مسلمان

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3) وجود اتوار 21 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 3)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر