وجود

... loading ...

وجود
وجود

ایک ا ور نئے وزیر اعظم کی تلاش ؟

پیر 13 جون 2022 ایک ا ور نئے وزیر اعظم کی تلاش ؟

یہ حقیقت عمومی طور پرسب تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ پاکستان میں عدم اعتماد کے ذریعے آنے والی تبدیلی کے بعد سے ملک میں مسلسل سیاسی اور معاشی عدم استحکام ہے پاکستان کی ساکھ پر اچھے اثرات مرتب نہیں ہوئے ہیں نہ ہی عوام کو کوئی ریلیف ملا بلکہ مہنگائی اور لوڈشیڈنگ کا عذاب آگیا وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنے حالیہ غیر ملکی دوروں کے دوران بعض مسلم ممالک سے جس امداد کی درخواست کی تھی وہ بھی نہ مل سکی بین الا قوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے اب تک قرضہ نہیں ملا حیرت کی بات یہ ہے حال ہی میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل جب مذاکرات کے لیے دوہا گئے تو پاکستانی حکام سات ستارے کی عالیشان ہوٹل میں قیام پذیر تھے اور آئی ایم ایف کے حکام تین ستارے والی عام نوعیت کی ہوٹل میں مقیم تھے نئی حکومت کے قیا م کے بعد سے عدلیہ اور دفاعی اداروں پر تنقید میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہوا ہے معیشت کی صحت کا جائزہ لینے والی بین الاقوامی ایجنسی نے پاکستانی معیشت کو منفی ریٹنگ میں شمار کرلیا جس کے بعد ا ب بیرون ملک سے کچھ منگوانے کے لیے بھی پیشگی مکمل ادائیگی کرنی ہوگی زر مبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہورہے ہیں ملک رفتہ رفتہ دیوالیہ ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے مسلم لیگ ن کی عوامی حمایت روز بروز کم ہورہی ہے مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کے اکثر مطالبات ماننے پر مجبور ہے تیزی سے بڑھتی ہوئی حالات کی اس سنگینی اور مہنگائی کی وجہ سے حکومت پر عوام کے غصے سے پیدا ہونے والی صورت حال پر مسلم لیگ ن میں بھی بے چینی ہے پاکستان میں بعض مسلم لیگی حلقوں کاخیال ہے کہ مسلم لیگ ن کے نزدیک اس وقت ملک کے اصل وزیر اعظم شہباز شریف نہیں ہیں بلکہ عملی طور پر نوازشریف وزیر اعظم ہیں کیونکہ مسلم لیگ ن کے اراکین اسمبلی اور پارٹی کے عہدیداروں کی اکثریت ان کی ہدایات کو اولیّت دیتی ہے لہٰذا نواز شریف کو واپس بلا لیا جائے اور انہیں با قائدہ وزیر اعظم بنادیا جائے اس طرح پارٹی موثر انداز میں کام کرے گی اور پیپلز پارٹی کا دبائو بھی کم ہوجا ئے گا اس طریقہ کار کے تحت نواز شریف ملک کے تمام اداروں اور پیپلز پارٹی کے علاوہ باقی ماندہ سیاسی جماعتوں پر اپنا اثرو رسوخ قائم کرلیں گے مسلم لیگ ن کی تیزرفتاری سے ختم ہوتی ہوئی عوامی حمایت پر بھی قابو پایا جاسکے گا ان کی موجودگی میں مولانا فضل الر حمان بھی زیادہ مطمئن ہونگے ا ن کے لیے ملک کاصدر بن جانے کی راہ ہموار ہوگی ایک دوسری سوچ یہ ہے کہ انتخابات کے ذریعے دوبارہ اقتدار میں واپس آنے کی راہ ہموارکی جائے اس کے لیے اتفاق رائے پیدا کیا جائے انتخابات کو مد نظر رکھ کر اسی مطابقت سے نگراں حکومت لائی جائے اس کے لیے بھی ایک نئے وزیر اعظم کی تلاش ہوگی اور وہ مسلم لیگ ن کی مرضی کے مطابق ہو ایک اور رائے یہ ہے کہ اس نظام کو چلنے دیا جائے اورپیپلز پارٹی کی بات تسلیم کرلی جائے آئندہ سال اکتوبر میں انتخابات کرائے جائیں پیپلز پارٹی کے چیئرمین آصف زرداری کی بھرپور کوشش ہوگی کہ پنجاب کی سیاست میں قدم جمائیں اور بلاول بھٹو کو آئندہ سال وزیر اعظم بنانے کے لیے قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہرممکن کوشش کی جائے اس سلسلے میں ابتدائی طور پرپی ٹی آئی کی صوبائی حکومتوں کا خاتمہ پنجاب کے بعض اہم عہدوں پر گرفت اور پیپلز پارٹی کے لیے ملک کی صدارت کا عہدہ شامل ہے ایک اندازے کے مطابق بین الاقوامی سطح پر بلاول بھٹو کو گرین سگنل مل گیا ہے دوسری جانب مسلم لیگ کے قائد نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز کی اپنی سزا کے خاتمے اور ناہلی ختم کرانے کے لیے جلد از جلد عدالتی کارروائی کے ذریعے اپنے حق میں فیصلہ چاہتی ہیں اگر انہیں کامیابی مل جاتی ہے تو وہ کسی بھی مسلم لیگی رکن اسمبلی کو مستعفی کراکے اس کے متعلقہ حلقے سے انتخاب میں حصہ لے کر کامیاب ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں آجائیں گی اور نواز شریف کی جانشین کے طور پر خود وزیر اعظم بن جائیں گی یاغیر اعلانیہ وزیر اعظم بن جائیں گی اور نواز شریف کی واپسی کی راہ ہموار کریں گی اس طرح کی صورتحال شہباز شریف کو پسند نہیں آئے گی اس لیے وہ اب آہستہ آہستہ آصف زرداری سے زیادہ قریب ہورہے ہیں وہ نوازشریف کو بھی آمادہ کر رہے ہیں کہ انہیں ان کی مرضی کے مطابق کام کرنے دیا جائے اب تک وہ اس کوشش میں کامیاب ہیں پیپلزپارٹی کے لیے ایک اہم مسئلہ متحدہ قومی موومنٹ کے مطالبات کا ہے جس میں متحدہ سندھ کے شہری علاقوں پر مکمل کنٹرول چاہتی ہے یعنی بلدیات ،پولیس ،بلڈنگ کنٹرول، ترقیاتی ادارے،پانی کانظام ایم کیو ایم کے کنٹرول میں رہے آئندہ انتخابات میںوہ قومی کی بیس اور صوبائی کی پینتالیس نشستوںپر ممکنہ کامیابی کی کوشش کریںگے اگراس سلسے میں پس پردہ معاملات طے ہوجاتے ہیں تو پیپلز پارٹی کی رضامند ی سے متحدہ قومی مومنٹ اپنا مقصد حاصل کرسکتی ہے جو ان کے نزدیک ایک بہترین کامیابی ہوگی اگر پیپلز پارٹی نے متحدہ قومی موومنٹ کو بہت زیادہ اہمیت دی تو اس کی اپنی تنظیم پر منفی اثرات ہونگے کم از کم ماضی کا تجربہ یہی ہے آج کے حالات میں پاکستان جس بحران سے گذر رہا ہے اس کا کوئی حل نہ نکالاگیا تو پہلے مرحلے میں مزید عدم استحکام ہوگا دوسرے مرحلے میں فسادات کی آگ بھڑک سکتی ہے افغانستان بھی اس میںدخل انداز ہو سکتا ہے گذشتہ دو ماہ میں ہونے والی خرابی سے صنعت کاروبار اور سرمایہ کاری پر بھی منفی اثرات مرتّب ہورہے ہیںملک کے ایک معروف تجزیہ نگار نے اپنے ٹی وی شو میں بتایاکہ مہنگی بجلی ،گیس اور پٹرول کی وجہ سے صنعتیںاورسرمایہ بیرون ملک منتقل ہوگادنیا کے دیگر ملک سرمایہ کاروں کو سہولیات فراہم کررہے ہیںاسی طرح اعلٰی تعلیم یافتہ اور ہنر مند شہری بھی بیرون ملک چلے جائیں گے پاکستان میں پہلے سے سرمایہ کاری کا بہتر ماحول موجود نہیں ہے ہر دفتر میں رکاوٹ ہے بیرون ملک سے آنے والوں کو کئی مراحل اور رکاوٹوں سے گذرنا پڑتا ہے اب یہ سلسلہ بڑھتا چلاجائے گا موجود ہ حکومت کا دورانیہ اگر طویل ہوا توحالات مزید خراب ہونگے پاکستانی کی سیاسی جماعتوں کو اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ اس وقت ملک کی ضرورت ایک ایسا سمجھوتہ ہے جس سے ملک استحکام کی جانب آگے بڑھے لیکن سیاسی جماعتیں کمزور ہیں اور وہ ہر وقت طاقتور اداروں کا سہارا تلاش کرتی ہیں اگر چہ اس وقت موجودہ وزیر اعظم شہباز شریف گرانڈ ڈائیلاگ کی بات کررہے ہیں لیکن کسی سمجھوتے اور قربانی کے لیے تیار نہیں ہیں وہ اس با ت کا اندازہ نہیں کرہے ہیںکہ ہر گذرتے دن کے ساتھ مہنگائی بڑھ رہی ہے مہنگا ئی سے ہر سطح پر عوام کی پر یشانی میں اضافہ ہورہا ہے حکمراں جماعتیں عوامی حمایت سے محروم ہورہی ہیں بیرون ملک ان پر کوئی اعتبار کرنے کو تیار نہیںہے حالات کی خرابی کے باعث کوئی عوامی طوفان اٹھ کھڑا ہوا تو نتیجہ بہت بڑے فسادات کی صورت میں ہوسکتا ہے خطے کے نازک حالات کی وجہ سے یہ آگ دیگر ممالک تک جا سکتی ہے سوال یہ ہے کہ پاکستانی قیادت کو خطے میں ہونے والے خطرات کا اندازہ نہیں ہے یا تو وہ اسے نظر انداز کررہے یا وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی معمولی سی بات ہے متاثرین عوام ہیںوہ نہیں ہیں (patelrafique25@gmail.com)


متعلقہ خبریں


مضامین
دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
راہل گاندھی اور شیام رنگیلا :کس کس کا ڈر؟

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ وجود جمعرات 16 مئی 2024
پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ

آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل وجود جمعرات 16 مئی 2024
آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر